Jump to content

"یوسف القرضاوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 21: سطر 21:
ان کی پیدائش 9 ستمبر 1926 کو [[مصر]] کے محافظہ غربیہ کے مرکز المحلہ الکبری کے ایک گاؤں صفط تراب میں ہوئی۔
ان کی پیدائش 9 ستمبر 1926 کو [[مصر]] کے محافظہ غربیہ کے مرکز المحلہ الکبری کے ایک گاؤں صفط تراب میں ہوئی۔
== تعلیم ==
== تعلیم ==
یوسف قرضاوی نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی قرآن مکمل حفظ کر لیا تھا، بعد ازاں جامعہ ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ کی سند حاصل کرنے پر مصری سلطنت میں دوسرا مقام حاصل کیا۔ پھر جامعہ ازہر کے اصول الدین کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے عالمیت کی سند 1953 میں حاصل کی، جس میں وہ ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔
یوسف قرضاوی نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی [[قرآن]] مکمل حفظ کر لیا تھا، بعد ازاں [[جامعہ ازہر]] میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ کی سند حاصل کرنے پر مصری سلطنت میں دوسرا مقام حاصل کیا۔ پھر جامعہ ازہر کے اصول الدین کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے عالمیت کی سند 1953 میں حاصل کی، جس میں وہ ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔


1954 میں کلیہ اللغہ سے اجازہ  تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد 1958 میں انھوں نے عرب لیگ کے ذیلی ادارہ '''معہد دراسات الاسلامیہ''' سے "زبان و ادب میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر کے اصول الدین  کالج سے ماسٹر ز کی ڈگری حاصل کی، 1973 میں وہیں سے اول مقام و درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے مقالہ کا موضوع زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر تھا <ref>المدخل إلى فقہ الأقليات (موسوعة فقہ الأقليات المسلمة في العالم -1-)، د۔محمد عبد الغني علوان النهاري۔ آرکائیو شدہ 2019-12-17 بذریعہ وے بیک مشین</ref>.
1954 میں کلیہ اللغہ سے اجازہ  تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد 1958 میں انھوں نے عرب لیگ کے ذیلی ادارہ '''معہد دراسات الاسلامیہ''' سے "زبان و ادب میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر کے اصول الدین  کالج سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، 1973 میں وہیں سے اول مقام و درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے مقالہ کا موضوع زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر تھا <ref>المدخل إلى فقہ الأقليات (موسوعة فقہ الأقليات المسلمة في العالم -1-)، د۔محمد عبد الغني علوان النهاري۔ آرکائیو شدہ 2019-12-17 بذریعہ وے بیک مشین</ref>.


== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
سطر 32: سطر 32:
یوسف القرضاوی کا تحریکی تعلق اخوان المسلمین تھا اور وہ اس کی سرگرمیوں سے اول روز سے وابستہ تھے، یہاں تک کہ اس کے مشہور نمائندوں اور قائدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور اس کے صف اول کے نظریہ ساز سمجھے جاتے تھے۔ بارہا انھیں اخوان کے مرشد عام کے منصب کی پیشکش ہوئی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔
یوسف القرضاوی کا تحریکی تعلق اخوان المسلمین تھا اور وہ اس کی سرگرمیوں سے اول روز سے وابستہ تھے، یہاں تک کہ اس کے مشہور نمائندوں اور قائدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور اس کے صف اول کے نظریہ ساز سمجھے جاتے تھے۔ بارہا انھیں اخوان کے مرشد عام کے منصب کی پیشکش ہوئی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔


اخوان المسلمین کی عالمی تنظیموں کے اجلاس میں برابر شرکت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اخوان کے تنظیمی کاموں سے مستعفی ہو گئے.انہوں نے "الاخوان المسلمون سبعون عاما فی الدعوۃ و التربیۃ و الجھاد " نامی کتاب لکھی ہے، جس میں انھوں نے اس تحریک کے آغاز سے لیکر بیسوی صدی تک کی تاریخ کو جمع کیا ہے اور اس میں مصر، دیگر عرب ممالک اور پوری دنیا میں اس کی دعوتی، ثقافتی، معاشرتی اور جہادی خدمات اور کارناموں کو بیان کیا ہ۔ انہوں نے بہار عرب کے موقع پر جمہوری انتخاب کے ذریعہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت منتخب ہونے کا استقبال کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "مطلوبہ اعتدال پسند اور اسلام پسند جماعت ہے۔ امام حسن البنا کے منصوبے کے متعلق ان کا نظریہ تھا کہ وہ "مضبوط منصوبہ ہے جس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اخوان المسلمین کے متعلق ان کا بیان ہے کہ وہ اپنے طرز عمل، اخلاق اور فکر کے اعتبار سے مصر کی سب سے بہترین جماعت اور سب سے زیادہ استقامت پسند اور پاکباز گروہ ہے۔
اخوان المسلمین کی عالمی تنظیموں کے اجلاس میں برابر شرکت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اخوان کے تنظیمی کاموں سے مستعفی ہو گئے.انہوں نے "الاخوان المسلمون سبعون عاما فی الدعوۃ و التربیۃ و الجھاد " نامی کتاب لکھی ہے، جس میں انھوں نے اس تحریک کے آغاز سے لیکر بیسوی صدی تک کی تاریخ کو جمع کیا ہے اور اس میں مصر، دیگر عرب ممالک اور پوری دنیا میں اس کی دعوتی، ثقافتی، معاشرتی اور جہادی خدمات اور کارناموں کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے بہار عرب کے موقع پر جمہوری انتخاب کے ذریعہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت منتخب ہونے کا استقبال کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "مطلوبہ اعتدال پسند اور [[اسلام]] پسند جماعت ہے۔ حسن البنا کے منصوبے کے متعلق ان کا نظریہ تھا کہ وہ "مضبوط منصوبہ ہے جس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اخوان المسلمین کے متعلق ان کا بیان ہے کہ وہ اپنے طرز عمل، اخلاق اور فکر کے اعتبار سے مصر کی سب سے بہترین جماعت اور سب سے زیادہ استقامت پسند اور پاکباز گروہ ہے۔
== سرگرمیاں ==
== سرگرمیاں ==
* سابق تاسیسی رکن رابطہ عالم اسلامی
* سابق تاسیسی رکن رابطہ عالم اسلامی
سطر 107: سطر 107:
بنیادی طور پر اسلامی علوم سے واقفیت رکھنے والے علما اور حکومت کے درمیان رابطہ ایسا ہونا چاہیے وہ  حکومت کو نصیحت اور ہدایت کرنے سے دریغ نہ کریں جسے اسلام نے دینی پیشواؤں اور عوام الناس پر واجب کیا ہے۔ اور دوسری طرف حکمرانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ دعوت و نصیحت کی اہم ذمہ داری کو انجام دینے میں ،ان کی مدد کریں۔
بنیادی طور پر اسلامی علوم سے واقفیت رکھنے والے علما اور حکومت کے درمیان رابطہ ایسا ہونا چاہیے وہ  حکومت کو نصیحت اور ہدایت کرنے سے دریغ نہ کریں جسے اسلام نے دینی پیشواؤں اور عوام الناس پر واجب کیا ہے۔ اور دوسری طرف حکمرانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ دعوت و نصیحت کی اہم ذمہ داری کو انجام دینے میں ،ان کی مدد کریں۔


بنیادی طور پر اسلامی سماج کے حکمران اور رہنما کو شرعی قانون سے واقف ہونا چاہیے اور اس کے احکام کو سمجھنے کے لیے اجتہاد کا حامل ہونا چاہیے۔  خلفائے راشدین  اور ان کے پیروکار بھی  فقہ و اجتہاد میں امام و پیشوا  تھے اور یہی وجہ ہے کہعلمائے فقہ  مجتہدین، رہبروں اور قاضیوں  کے لئے  مجتہد ہونے کی شرط پر متفق ہیں۔ اور انتہائی غیر معمولی اور ضروری حالات میں ہی یہ شرط ساقط ہو تی ہے۔
بنیادی طور پر اسلامی سماج کے حکمران اور رہنما کو شرعی قانون سے واقف ہونا چاہیے اور اس کے احکام کو سمجھنے کے لیے اجتہاد کا حامل ہونا چاہیے۔  خلفائے راشدین  اور ان کے پیروکار بھی  فقہ و اجتہاد میں امام و پیشوا  تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے فقہ  مجتہدین، رہبروں اور قاضیوں  کے لئے  مجتہد ہونے کی شرط پر متفق ہیں۔ اور انتہائی غیر معمولی اور ضروری حالات میں ہی یہ شرط ساقط ہوتی ہے۔


اسلامی حکومت کوئی نسلی یا علاقائی حکومت نہیں ہے اور اپنے آپ کو جغرافیائی سرحدوں کے دائرے میں محدودنہیں رکھتی اور اپنے دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے رکھتی ہے جو آزادی پر مبنی اس کے اصولوں اور بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اسلام کا مشن چونکہ عمومی اور آفاقی ہے اس لیے اس کی حکمرانی جامع اور ہمہ گیر ہوگی۔ اسلامی حکومت قانون کی حکمرانی ہے یا شریعت کی حکمرانی اس کا آئین شریعت کے ان اصولوں اور بنیادوں سے ماخوذ ہے جو قرآن اور سنت رسول اللہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اور اس میں عقیدہ، عبادات، اخلاقیات،معاملات اور خاندانی اور سماجی تعلقات، عدالتی اور انتظامی امور اور بین الاقوامی ضوابط کے تمام شعبے شامل ہیں۔
اسلامی حکومت کوئی نسلی یا علاقائی حکومت نہیں ہے اور اپنے آپ کو جغرافیائی سرحدوں کے دائرے میں محدودنہیں رکھتی اور اپنے دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے رکھتی ہے جو آزادی پر مبنی اس کے اصولوں اور بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اسلام کا مشن چونکہ عمومی اور آفاقی ہے اس لیے اس کی حکمرانی جامع اور ہمہ گیر ہوگی۔ اسلامی حکومت قانون کی حکمرانی ہے یا شریعت کی حکمرانی اس کا آئین شریعت کے ان اصولوں اور بنیادوں سے ماخوذ ہے جو قرآن اور سنت رسول اللہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اور اس میں عقیدہ، عبادات، اخلاقیات،معاملات اور خاندانی اور سماجی تعلقات، عدالتی اور انتظامی امور اور بین الاقوامی ضوابط کے تمام شعبے شامل ہیں۔


اسلامی حکومت کو اس بات میان کوئی اھرج نہیں کہ وہ اپنے معاملات کے انتظام کے لیے کس شکل اور طریقہ کا انتخاب کرتی ہے، اور اس کا نام اور عنوان بہت اہم نہیں ہے۔ البتہ امامت اور خلافت دو  تاریخی عنوانات ہیں اور اہم تصورات پر مشتمل ہیں۔
اسلامی حکومت کو اس بات میان کوئی ھرج نہیں کہ وہ اپنے معاملات کے انتظام کے لیے کس شکل اور طریقہ کا انتخاب کرتی ہے، اور اس کا نام اور عنوان بہت اہم نہیں ہے۔ البتہ امامت اور خلافت دو  تاریخی عنوانات ہیں اور اہم تصورات پر مشتمل ہیں۔


امام یا خلیفہ معصوم نہیں ہوتا اور اس میں کوئی خاص اور مقدس خصوصیت نہیں ہوتی جو اسے احتساب اور آزمائش سے بالاتر بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] سے سوائے ان صورتوں کے جہاں وحی نازل ہوتی تھی، سوال کیا جاتا تھا اور آپ سے بحث کی جاتی تھی، اور دوسرے آپ کو مشورے دیا کرتے تھے، اور کئی بار آپ نے اپنی رائے ترک کر دی تھی اور صحابہ کی رائے کو تسلیم کیا تھا۔
امام یا خلیفہ معصوم نہیں ہوتا اور اس میں کوئی خاص اور مقدس خصوصیت نہیں ہوتی جو اسے احتساب اور آزمائش سے بالاتر بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] سے سوائے ان صورتوں کے جہاں وحی نازل ہوتی تھی، سوال کیا جاتا تھا اور آپ سے بحث کی جاتی تھی، اور دوسرے آپ کو مشورے دیا کرتے تھے، اور کئی بار آپ نے اپنی رائے ترک کر دی تھی اور صحابہ کی رائے کو تسلیم کیا تھا۔