9,666
ترامیم
سطر 56: | سطر 56: | ||
ندوؤں میں ایک گروہ حسینی براہمن بھی کہلاتا ہے جن کے مطابق ان کے آباؤ اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ یہ گروہ باقاعدگی سے کربلا کی یاد مناتا ہے۔ ہندوستان کے سابق رجواڑوں میں بھی ہندو حضرات کے یہاں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش، اندھرا پردیش قابل ذکر ہیں | ندوؤں میں ایک گروہ حسینی براہمن بھی کہلاتا ہے جن کے مطابق ان کے آباؤ اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ یہ گروہ باقاعدگی سے کربلا کی یاد مناتا ہے۔ ہندوستان کے سابق رجواڑوں میں بھی ہندو حضرات کے یہاں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش، اندھرا پردیش قابل ذکر ہیں | ||
=== سلطنت اودھ میں عزاداری === | === سلطنت اودھ میں عزاداری === | ||
برصغیر میں مسلم تہذیب نوابان اودھ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ لکھنؤ کی عزاداری کے بارے میں عبد الحلیم شرر اپنی کتاب "گزشتہ لکھنؤ" میں یوں منظر کشی کرتے ہیں:۔ | |||
"محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پر سوز و گداز تانوں اور دلکش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی تھیں اور کوئی مقام نہیں ہوتا تھا جہاں یہ سماں نہ بندھاہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگئے، ایسی دلکش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ہندوؤں اور بعض خاص خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی تھی، باقی جدھر کان لگائیے نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی تھیں۔تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اس لیے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزار ہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے <ref>عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 215،نسیم بک ڈپو، 1974</ref>. | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == |