Jump to content

"علی بن محمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 38 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 2: سطر 2:
'''علی بن محمد'''  امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، [[شیعہ|شیعوں]] کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔
'''علی بن محمد'''  امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، [[شیعہ|شیعوں]] کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔


عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔
عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق [[شیعہ]] عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔


امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔
امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔
سطر 16: سطر 16:
کلینی اور شیخ طوسی کے مطابق امام ہادی کی ولادت 15 ذی الحجہ 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب سریہ نامی علاقے میں ہوئی، آپ کی ولادت بھی اسی سال رجب 214 ہجری اور جمادی الاول کی 2 یا 5 تاریخ کو درج ہے۔ الثانی 215ھ۔ <ref>کفامی، مصباح، ص512؛ محدث قمی، ج3، ص1835؛ مسعودی، تقیہ، 1426ق، ص228</ref>
کلینی اور شیخ طوسی کے مطابق امام ہادی کی ولادت 15 ذی الحجہ 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب سریہ نامی علاقے میں ہوئی، آپ کی ولادت بھی اسی سال رجب 214 ہجری اور جمادی الاول کی 2 یا 5 تاریخ کو درج ہے۔ الثانی 215ھ۔ <ref>کفامی، مصباح، ص512؛ محدث قمی، ج3، ص1835؛ مسعودی، تقیہ، 1426ق، ص228</ref>
== ولادت اور شہادت ==
== ولادت اور شہادت ==
کلینی، شیخ مفید، اور شیخ طوسی نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ شیخ مفید اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ بعض مآخذ میں آپؑ کی شہادت کی تاریخ 3 رجب نقل کی گئی ہے، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  جمادی الثانی بیان کی گئی ہے۔ اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ معتز برسر اقتدار تھا۔
کلینی، [[شیخ مفید]]، اور [[شیخ طوسی]] نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ شیخ مفید اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ بعض مآخذ میں آپؑ کی شہادت کی تاریخ 3 رجب نقل کی گئی ہے، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  جمادی الثانی بیان کی گئی ہے۔ اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ معتز برسر اقتدار تھا۔


وہ 233 ہجری یا 243 ہجری تک مدینہ میں رہے۔ اسی سال متوکل نے امام ہادی علیہ السلام کو سامرہ بلوایا اور ان کے زیر تسلط عسکر نامی علاقے میں سکونت اختیار کی اور آخری عمر تک عسکر میں رہے۔ امام ہادی، امام جواد اور امام عسکری کی زندگی کے بارے میں دیگر شیعہ ائمہ کے مقابلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
وہ 233 ہجری یا 243 ہجری تک مدینہ میں رہے۔ اسی سال متوکل نے امام ہادی علیہ السلام کو سامرہ بلوایا اور ان کے زیر تسلط عسکر نامی علاقے میں سکونت اختیار کی اور آخری عمر تک عسکر میں رہے۔ امام ہادی، امام جواد اور امام عسکری کی زندگی کے بارے میں دیگر شیعہ ائمہ کے مقابلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
سطر 67: سطر 67:
سامرہ میں قیام کے دوران عباسی حکمرانوں کی دھمکیاں اور سختی کا سلسلہ جاری رہا، بعض اوقات اس کمرے میں جہاں وہ رہتے تھے قبر کھود کر، یا بغیر اطلاع کے رات کو انہیں محل میں بلا کر، اور شیعوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے روکتے رہے۔ اسے
سامرہ میں قیام کے دوران عباسی حکمرانوں کی دھمکیاں اور سختی کا سلسلہ جاری رہا، بعض اوقات اس کمرے میں جہاں وہ رہتے تھے قبر کھود کر، یا بغیر اطلاع کے رات کو انہیں محل میں بلا کر، اور شیعوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے روکتے رہے۔ اسے
== شیعوں سے رابطہ ==
== شیعوں سے رابطہ ==
امام ہادی علیہ السلام ادارہ وکالت کے توسط سے اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ روش حقیقت میں ابتداء ہی سے آئمہؑ کی سیرت کا تسلسل تھی۔ اس دور میں پیروان اہل بیتؑ کی اکثریت کا مسکن ایران تھا اور امام ہادیؑ کا غالیوں سے بھی مقابلہ رہا۔  
امام ہادی علیہ السلام ادارہ وکالت کے توسط سے اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ روش حقیقت میں ابتداء ہی سے آئمہؑ کی سیرت کا تسلسل تھی۔ اس دور میں پیروان اہل بیتؑ کی اکثریت کا مسکن ایران تھا اور امام ہادیؑ کا غالیوں سے بھی مقابلہ رہا۔
=== نظام وکالت ===
اگرچہ ائمۂ شیعہ کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود اسی دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے۔ عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقی ؑکے درمیان رابطہ برقرار تھا۔ وکالت کا نظام اس رابطے کے قیام، دوام اور استحکام کی وجہ تھا۔
 
وکلا ایک طرف سے خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔
 
ڈاکٹر جاسم حسین کے بقول: تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وکلا کے تعین کے لئے مطلوبہ شہروں کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:
* بغداد، مدائن، سواد اور کوفہ؛
* بصرہ اور اہواز؛
* قم اور ہمدان؛
* حجاز، یمن اور مصر۔
آئمہ کے وکلا قابل اعتماد افراد کے توسط سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان بزرگواروں کے فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔
 
امام ہادی ؑ کے وکلا میں سے ایک علی بن جعفر تھے جن کا تعلق بغداد کے قریبی گاؤں ہمینیا سے تھا۔ ان کے بارے میں متوکل کو بعض خبریں ملیں جن کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے تک قید و بند میں رکھا گیا اور رہائی کے بعد امام ہادیؑ کی ہدایت پر وہ مکہ چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں سکونت پذیر رہے  <ref>رجال کشی، ص 608 - 607</ref>۔
 
حسن بن عبد ربہ یا بعض روایات کے مطابق ان کے فرزند علی بن حسن بن عبد ربہ بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے جن کے بعد امام ہادیؑ نے ان کا جانشین ابو علی بن راشد کو مقرر کیا۔ اسماعیل بن اسحق نیشاپوری کے بارے میں کشی کی منقولہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احتمال ہے کہ احمد بن اسحق رازی بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے۔
== شیعیان ایران ==
پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیتؑ کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھی۔ [[امام باقر علیہ السلام|امام باقر]] اور [[امام صادق علیہ السلام|امام صادق]] کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
 
امام ہادیؑ کے زمانے میں قم [[شیعہ|شیعیان]] ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہؑ کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی۔ ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے۔
 
قم کے ساتھ ساتھ شہر آبہ یا آوہ اور کاشان کے عوام بھی شیعہ معارف و تعلیمات کے زیر اثر اور قم کے شیعہ تفکرات کے تابع تھے۔ بعض روایات میں محمد بن علی کاشانی کا نام مذکور ہے جنہوں نے توحید کے باب میں امام ہادیؑ سے ایک سوال پوچھا تھا۔ قم کے عوام کا امام ہادیؑ سے مالی حوالے سے بھی رابطہ تھا۔ اس حوالے سے محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی کا نام لیا گیا ہے جو قم اور نواحی شہروں کے عوام کا خمس اور ان کے عطیات امامؑ تک پہنچا دیتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے  <ref>عطاردی، مسند الامام الہادی ص 45</ref>۔
 
قم اور آوہ کے عوام امام رضاؑ کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادیؑ نے انہیں اسی بنا پر "مغفور لہم" کی صفت سے نوازا ہے۔ ایران کے دوسرے شہروں کے عوام کا رابطہ بھی آئمہؑ کے ساتھ برقرار رہتا تھا؛ حالانکہ امویوں اور عباسیوں کے قہر آمیز غلبے کی وجہ سے ایرانیوں کی اکثریت کا رجحان سنی مسلک کی جانب تھا اور شیعہ اقلیت سمجھے جاتے تھے
امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ابو مقاتل دیلمی نے امامت کے موضوع پر حدیث اور کلام پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی۔ دیلم  دوسری صدی ہجری کے اواخر سے بہت سے شیعیان اہل بیتؑ کا مسکن و ماوٰی تھا؛ علاوہ ازیں عراق میں سکونت پذیر دیلمی بھی مذہب تشیع اختیار کر چکے تھے۔
 
امام ہادیؑ کے اصحاب کی مقامی نسبتوں کو واضح کرنے والے شہری القاب کسی حد تک شیعہ مراکز اور مساکن کی علامت بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں. مثال کے طور پر بشر بن بشار نیشاپوری، فتح بن یزید جرجانی، احمد بن اسحق رازی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحق خراسانی اور علی بن ابراہیم طالقانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جو ایران کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے. جرجان اور نیشاپور چوتھی صدی ہجری میں شیعہ فعالیتوں کی بنا پر شیعہ مراکز میں تبدیل ہوگئے <ref>مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 317</ref> ۔
== شاگرد اور اصحاب ==
امام ہادی(ع) کے اصحاب کی تعداد تقریبا 190 ہے، رجال الشیخ طوسی کے مطابق ان سے احادیث نقل کرنے والوں کی تعداد 185 ہے۔ عطاردی نے امام ہادی کو راوی کے طور پر ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں سے کمزور، کمزور، حسن، ویران اور نامعلوم پائے جاتے ہیں، مرکری کے مطابق، کچھ راوی جنہوں نے خود کا ذکر کیا ہے وہ الرجال الشیخ طوسی میں نہیں ہیں اور کچھ راوی جو شیخ طوسی نے رجال میں لائے ہیں ان کا ذکر مرکری بنچ میں نہیں ہے <ref>عطاردی، مسند الامام الهادی، ۳۰۷</ref>.
 
ابن اشوب نے احمد بن حمزہ بن یاسع، صالح بن محمد ہمدانی، محمد بن جزاک الجمال، یعقوب بن یزید کاتب، ابو حسین بن ہلال، ابراہیم بن اسحاق، خادم کے محسن اور نادر بن محمد ہمدانی جیسے لوگوں کو اپنے قابل اعتماد لوگوں کے طور پر ذکر کیا ہے۔
 
انہوں نے اپنے ساتھیوں داؤد بن زید، ابو سلیم زنکن، حسین بن محمد ہمدانی، احمد بن اسماعیل بن یقطین، اور بشار بن بشار نیشابوری، سلیمان بن جعفر المروزی، فتح بن یزید الجرجانی، اور محمد بن سعید الکثم، معاویہ بن حکیم الکوفی، ابو ہریرہ بن محمد البغدادی اور ابو سعید کوفی کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے محمد بن عثمان کا تعارف کرایا۔
=== عبدالعظیم حسنی ===
عبدالعظیم حسنی ـ جن کا سلسلۂ نسب امام حسنؑ تک پہنچتا ہے ـ شیخ طوسی کے مطابق امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں گوکہ بعض دیگر مآخذ میں ان کو امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے.
 
عبدالعظیم ایک زاہد و پارسا، صاحب حریت، عالم و فقیہ‌ اور امام دہمؑ کے نزدیک قابل اعتماد اور موثق شخصیات میں سے ہیں. ابو حماد رازی‌ کہتے ہیں: میں سامرا میں امام ہادیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؑ سے بعض مسائل اور حلال اور حرام کے بارے میں بعض سوالات پوچھے. وداع کا وقت آیا تو امامؑ نے فرمایا: ‌اے حماد! جب بھی تمہیں اپنے منطقۂ سکونت میں دین کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش آئے تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھو اور میرا سلام انہیں پہنچا دو  <ref>مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۳۲۱</ref>.
=== حسن بن علی ناصر ===
[[شیخ طوسی]] نے انہیں امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے. وہ سید مرتضی علم الہدی کے نانا ہیں. سید مرتضی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علم، فقہ اور زہد و پارسائی میں اس کی مرتبت اور برتری سورج سے زیادہ روشن ہے. وہی ہیں جنہوں نے "دیلم" میں اسلام کی ترویج کی. یہاں تک کہ اس علاقے کے لوگوں نے ان کی برکت سے گمراہی سے نجات پائی اور ان کی دعا سے حق کی طرف پلٹ آئے. ان کی پسندیدہ صفات اور نیک اخلاق حد و حساب سے باہر ہیں <ref>سید مرتضی، مسائل الناصریات، ص63</ref>.
== اہل سنت کے ساتھ امام(ع) کا مقام ==
اہل سنت کے علماء اور عمائدین نے امام ہادی(ع) کا خاص احترام کیا ہے۔ انہوں نے امام ہادی(ع) کے علم، سخاوت، تدبر اور عبادت کی تعریف کی ہے۔ ابن حجر الہیثمی نے ان کی سخاوت کے بارے میں بیان کیا ہے۔
== شہادت اور مقبرہ ==
دسویں امام کو معتز عباسی کے دور میں زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ [[ابن شہر آشوب]] کا خیال ہے کہ اسے موتام کی حکومت کے آخر میں زہر دے کر شہید کر دیا گیا تھا، اور [[ابن بابویہ]] سے [[روایت]] ہے کہ معتمد نے اسے زہر دیا تھا۔
 
شیخ مفید نے کہا کہ آپ نے 41 سال کی عمر میں سامرہ میں 20 سال 9 ماہ قیام کے بعد رجب 254 ہجری میں وفات پائی۔  بعض منابع میں 3 رجب اور بعض نے 25 یا 26 جمادی الثانی کو آپ کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔
 
[[امام حسن عسکری]] نے اپنے والد کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور میت کو موسیٰ بن بگہ کے گھر کے سامنے سڑک پر رکھ دیا گیا۔ عباسی خلیفہ کے جنازے میں شریک ہونے سے پہلے، امام عسکری نے اپنے والد کی میت پر نماز ادا کی۔ پھر انہوں نے اسے ان گھروں میں سے ایک میں دفن کیا جہاں حضرت قید تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہجوم اور ہوا کی گرمی اس قدر تھی کہ اس نے جنازہ کے بعد امام عسکری پر دباؤ ڈالا <ref>مسعودی، وصیت کا ثبوت، ص 243</ref>۔
== عسکرین مزار ==
امام ہادی علیہ السلام اسی گھر میں دفن ہوئے جہاں وہ سامرہ میں رہتے تھے۔ سامرہ میں امام ہادی علیہ السلام اور ان کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کی تدفین کی جگہ کو عسکریین مزار کہا جاتا ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کے گھر میں دفن ہونے کے بعد امام عسکری علیہ السلام نے اپنے والد کی قبر کے لیے ایک خادم مقرر کیا۔
 
333 ہجری میں ناصر الدولہ ہمدانی نے مزار کے لیے ایک گنبد تعمیر کیا اور اس کے زائرین کے لیے ایک مہمان خانہ بنایا۔ البویہ کے دور میں، موضل الدولہ اور آزاد الدولہ نے مزار کے لیے عمارتیں اور سہولیات تعمیر کیں اور گنبد اور مزار کو دوبارہ تعمیر کیا۔ 1335 میں اس پر سونے اور چاندی کا مزار نصب کیا گیا۔


== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:امام هادی]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ:اہل بیت ]]