4,464
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 72: | سطر 72: | ||
حضرت ابو الفضل العباس (ع) کی والدہ گرامی، ام البنین کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاظ سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔ | حضرت ابو الفضل العباس (ع) کی والدہ گرامی، ام البنین کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاظ سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔ | ||
== حضرت ام البنین (س) امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی باوفا زوجہ == | |||
فاطمہ زہراء (س) کی شہادت کے بعد، آپ کی شادی حضرت علی (ع) سے ہوئی۔ فاطمہ کلابیہ (س)، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا:" جب تک فاطمہ زہراء (س) کی بڑی بیٹی مجھے اس مقدس گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں تو میں اس وقت تک اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی"۔ | |||
حضرت ام البنین (س) امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی باوفا زوجہ | |||
یہ خاندان رسالت کےلئے ان کا انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہ تھا۔ جس دن حضرت ام البنین (س) نے مولا علی (ع) کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، [[حسن بن علی|امام حسن (ع)]] اور [[حسین بن علی |امام حسین (ع)]] بیمار تھے تو ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اور اہل بہشت کے جوانوں کے سرداروں کے پاس پہنچیں اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:" میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔" | |||
== حضرت زہراء (س) کی اولاد سے ام البنین (س) کی بے لوث محبت == | |||
ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء (س) کے بچوں کےلئے ان کی ماں کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ اپنی مہربان ماں کی بے لوث محبت سے محروم ہو چکے تھے۔ | ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء (س) کے بچوں کےلئے ان کی ماں کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ اپنی مہربان ماں کی بے لوث محبت سے محروم ہو چکے تھے۔ | ||
فاطمہ زہراء (س) کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پا رہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔ | فاطمہ زہراء (س) کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پا رہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔ | ||
حضرت ام البنین (س)، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کےلئے کیا کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔ | |||
فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی (ع) کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیر المؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں "فاطمہ" کے بجائے "ام البنین" خطاب کریں تا کہ" فاطمہ (س)" اور "کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔ | فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی (ع) کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیر المؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں "فاطمہ" کے بجائے "ام البنین" خطاب کریں تا کہ" فاطمہ (س)" اور "کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔ | ||
سطر 93: | سطر 87: | ||
آپ (س) نے اپنے تمام بچوں کو حضرت امام حسین (ع) کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ کیا تھا، اور روز عاشور، آپ (س) کے چاروں فرزند، اسلام کی راہ میں قربان ہوگئے۔ آپ کے داماد حضرت مسلم بن عقیل، حضرت امام حسین (ع) کے سفیر بن کر کوفہ آئے اور اپنے دونوں بچوں سمیت کوفہ میں شہید کر دئیے گئے۔ | آپ (س) نے اپنے تمام بچوں کو حضرت امام حسین (ع) کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ کیا تھا، اور روز عاشور، آپ (س) کے چاروں فرزند، اسلام کی راہ میں قربان ہوگئے۔ آپ کے داماد حضرت مسلم بن عقیل، حضرت امام حسین (ع) کے سفیر بن کر کوفہ آئے اور اپنے دونوں بچوں سمیت کوفہ میں شہید کر دئیے گئے۔ | ||
== حضرت ام البنین (س) اہل حرم کی نظر میں == | |||
حضرت ام البنین (س) اہل حرم کی نظر میں | |||
کربلا کے واقعے اور اہل حرم کی قید سے واپسی کے بعد، مدینہ میں جب پہلی عید آئی تو اہل حرم اپنے وارثوں کی یاد میں بے چین تھے اور تمام بیبیاں جناب زینب (س) کی قیادت میں اپنے خاندان کی بزرگ شخصیت جناب ام البنین (س) سے ملاقات کرنے گئیں اور آپ نے سب کو خصوصاً جناب زینب (س) کو گلے سے لگا کر تسلی دی۔ | کربلا کے واقعے اور اہل حرم کی قید سے واپسی کے بعد، مدینہ میں جب پہلی عید آئی تو اہل حرم اپنے وارثوں کی یاد میں بے چین تھے اور تمام بیبیاں جناب زینب (س) کی قیادت میں اپنے خاندان کی بزرگ شخصیت جناب ام البنین (س) سے ملاقات کرنے گئیں اور آپ نے سب کو خصوصاً جناب زینب (س) کو گلے سے لگا کر تسلی دی۔ | ||
حضرت ام البنین (س) عزیزوں کے سوگ میں | == حضرت ام البنین (س) عزیزوں کے سوگ میں == | ||
اپنے عزیزوں کی المناک شہادت کے بعد، آپ (س) جنت البقیع چلی جایا کرتی تھیں اور اس طرح گریہ کرتی تھیں کہ دوست و دشمن روتے تھے، چنانچہ مروان جو اہل بیت (ع) کا سخت ترین دشمن تھا، آپ (س) کا مرثیہ سن کر بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جایا کرتا تھا۔ اپنے عزیزوں کی عزا میں آپ (س) کا مرثیہ تاریخ میں محفوظ | اپنے عزیزوں کی المناک شہادت کے بعد، آپ (س) جنت البقیع چلی جایا کرتی تھیں اور اس طرح گریہ کرتی تھیں کہ دوست و دشمن روتے تھے، چنانچہ مروان جو اہل بیت (ع) کا سخت ترین دشمن تھا، آپ (س) کا مرثیہ سن کر بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جایا کرتا تھا۔ اپنے عزیزوں کی عزا میں آپ (س) کا مرثیہ تاریخ میں محفوظ ہے <ref>مقاتل الطالبين، ص56؛ بحارالانوار، ج45 ص40</ref>۔ | ||
آپ (س) کو "ام البنین" یعنی بیٹوں کی ماں، کہہ کر پکارا کرتے تھے لیکن کربلا کے بعد، آپ (س) نے فرمایا:"مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارا کرو کیونکہ اس طرح پکارنا مجھے میرے شیر جیسے بچوں کی یاد دلاتا ہے"۔ | آپ (س) کو "ام البنین" یعنی بیٹوں کی ماں، کہہ کر پکارا کرتے تھے لیکن کربلا کے بعد، آپ (س) نے فرمایا:"مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارا کرو کیونکہ اس طرح پکارنا مجھے میرے شیر جیسے بچوں کی یاد دلاتا ہے"۔ | ||
حضرت ام البنین عرب خواتین کی نظر میں | == حضرت ام البنین عرب خواتین کی نظر میں == | ||
آج بھی عرب خواتین، کربلا میں جب حضرت عباس علمدار (ع) کی زیارت کےلیے آپ کے حرم میں آتی ہیں تو اس طرح حضرت سے حاجت طلب کرتی ہیں: "بحقّ امّک یا اباالفضل یا باب الحوائج" | آج بھی عرب خواتین، کربلا میں جب حضرت عباس علمدار (ع) کی زیارت کےلیے آپ کے حرم میں آتی ہیں تو اس طرح حضرت سے حاجت طلب کرتی ہیں: "بحقّ امّک یا اباالفضل یا باب الحوائج" | ||
آپ (س) کی وفات 13 جمادی الثانیہ کو ہوئی اور آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ | آپ (س) کی وفات 13 جمادی الثانیہ کو ہوئی اور آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ | ||
جناب ام البنین (س) کا بڑا احسان | == جناب ام البنین (س) کا بڑا احسان == | ||
مروان بن حکم کہتا ہےکہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی؛ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا؛ دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہےکہ: | مروان بن حکم کہتا ہےکہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی؛ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا؛ دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہےکہ: | ||
عباس! اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین (ع) شہید نہ ہوتا ... | عباس! اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین (ع) شہید نہ ہوتا ... | ||
یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجا اور اپنے بوڑھے ہونے کے باوجود کسی ایک بیٹے کو بھی اپنے پاس مدینے میں نہیں رکھا۔ اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہراء (س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔ | یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجا اور اپنے بوڑھے ہونے کے باوجود کسی ایک بیٹے کو بھی اپنے پاس مدینے میں نہیں رکھا۔ اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہراء (س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔ | ||
سطر 126: | سطر 111: | ||
حضرت ام البنین (س) کے چاروں بیٹے کربلا کے خونین واقعہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ انھوں نے اس مصیبت پر صبر و شکیبائی سے کام لیا۔ حادثہ عاشورا سے آگاہ ہونے کے بعد وہ اپنے بیٹے عباس کے فرزند عبیداللہ کو اپنے ساتھ قبرستان بقیع میں لے جایا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کے غم میں دردناک اشعار پڑھا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ بھی اس عظیم خاتون کے درد بھرے بین سننے کےلئے وہاں اکٹھے ہوجایا کرتے تھے اور گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔ | حضرت ام البنین (س) کے چاروں بیٹے کربلا کے خونین واقعہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ انھوں نے اس مصیبت پر صبر و شکیبائی سے کام لیا۔ حادثہ عاشورا سے آگاہ ہونے کے بعد وہ اپنے بیٹے عباس کے فرزند عبیداللہ کو اپنے ساتھ قبرستان بقیع میں لے جایا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کے غم میں دردناک اشعار پڑھا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ بھی اس عظیم خاتون کے درد بھرے بین سننے کےلئے وہاں اکٹھے ہوجایا کرتے تھے اور گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔ | ||
امام حسین (ع) کے بارے میں حضرت عباس (ع) کو ام البنین (س) کی فرمائش | == امام حسین (ع) کے بارے میں حضرت عباس (ع) کو ام البنین (س) کی فرمائش == | ||
جب امام حسین (ع) نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور عراق، ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین (س) نے حضرت عباس (ع) کو سفارش کی کہ:" میرے نور چشم! امام حسین (ع) کی فرمابرداری کرنا"۔ | جب امام حسین (ع) نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور عراق، ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین (س) نے حضرت عباس (ع) کو سفارش کی کہ:" میرے نور چشم! امام حسین (ع) کی فرمابرداری کرنا"۔ | ||
سطر 155: | سطر 139: | ||
وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبیداللہ جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے کے ہمراہ، بقیع میں جا کر نوحہ خوانی کرتی تھیں اور شور و غوغا برپا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہ و زاری کرتے تھے۔ | وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبیداللہ جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے کے ہمراہ، بقیع میں جا کر نوحہ خوانی کرتی تھیں اور شور و غوغا برپا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہ و زاری کرتے تھے۔ | ||
امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ:" وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا۔ | امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ:" وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا۔ | ||
== حضرت ام البنین (ع) کی زیارت کا ایک حصہ == | |||
السلام علیک یا زوجة ولی اللہ، السلام علیک یا زوجة امیر المؤمنین، السلام علیک یا ام البنین، السلام علیک یا ام العباس ابن امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، رضی اللہ تعالی عنک و جعل منزلک و ماواکِ الجنۃ و رحمتہ اللہ و برکاتہ، لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظيم و صلی الله علی محمد و آله الطاهرين ... | |||
== آپ کی وفات == | |||
حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد، دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔ | حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد، دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔ | ||
تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے، اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سال 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سال 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔ | تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے، اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سال 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سال 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔ | ||
سطر 170: | سطر 153: | ||
مورخین لکھتے ہیں کہ جناب ام البنین (س) کی امام حسین (ع) سے بے پناہ عشق و محبت ان کے اعلی ایمان اور آپ کی امامت پر کامل اعتقاد کی مستحکم دلیل ہے یہ کہ آپ نے اپنے چار بیٹوں، عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کو اپنے پیشوا و امام نیز اسلام کے نام پر قربان کر دیا۔ | مورخین لکھتے ہیں کہ جناب ام البنین (س) کی امام حسین (ع) سے بے پناہ عشق و محبت ان کے اعلی ایمان اور آپ کی امامت پر کامل اعتقاد کی مستحکم دلیل ہے یہ کہ آپ نے اپنے چار بیٹوں، عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کو اپنے پیشوا و امام نیز اسلام کے نام پر قربان کر دیا۔ | ||
بعض محققین کے مطابق حضرت ام البنین علیہا السلام کی وفات 13 جمادی الثانی 64 ہجری قمری کو ہوئی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات طبیعی تھی اور کوئی خاص وجہ یا حادثہ اس کے پیچھے نہیں تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ام البنین علیہا السلام کی شہادت بنی امیہ کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ ان کے دلگداز مرثیے، جو کربلا کے مظالم کو آشکار کرتے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی موت کا سبب بنے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں زہر آلود شہد کے ذریعے شہید کیا گیا۔ | بعض محققین کے مطابق حضرت ام البنین علیہا السلام کی وفات 13 جمادی الثانی 64 ہجری قمری کو ہوئی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات طبیعی تھی اور کوئی خاص وجہ یا حادثہ اس کے پیچھے نہیں تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ام البنین علیہا السلام کی شہادت بنی امیہ کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ ان کے دلگداز مرثیے، جو کربلا کے مظالم کو آشکار کرتے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی موت کا سبب بنے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں زہر آلود شہد کے ذریعے شہید کیا گیا۔ | ||
حضرت ام البنین علیہا السلام کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ آرام فرما رہی ہیں<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1928828/%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%86%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D9%88%D9%81%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%DA%A9 حضرت ام البنین علیہا السلام، حضرت علی علیہ السلام کی باوفا شریک حیات]-شائع شدہ از: 15 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔</ref>۔ | حضرت ام البنین علیہا السلام کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ آرام فرما رہی ہیں<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1928828/%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%86%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D9%88%D9%81%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%DA%A9 حضرت ام البنین علیہا السلام، حضرت علی علیہ السلام کی باوفا شریک حیات]-شائع شدہ از: 15 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔</ref>۔ |