Jump to content

"سید حسن نصر اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 220: سطر 220:
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے مزاحمت کی سطح پر خطے میں موجود فوجی مشیروں کے کردار کو سمجھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ دشمن نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد ایرانی مشیروں کو شام سے نکال باہر کرنا ہے لیکن اس مقصد کے لیے جو خون بہایا گیا اس کے باوجود وہ اسے حاصل نہ کرسکا اور وہ [[فلسطین]] اور لبنان میں مزاحمت اور شام کی حمایت میں مزید ڈٹے رہے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923192/ ایران کا ردعمل یقینی ہے، سید حسن نصراللہ] mehrnews.com-شائع شدہ:8اپریل 2024ء-اخذ شدہ:9اپریل 2024ء۔</ref>۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے مزاحمت کی سطح پر خطے میں موجود فوجی مشیروں کے کردار کو سمجھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ دشمن نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد ایرانی مشیروں کو شام سے نکال باہر کرنا ہے لیکن اس مقصد کے لیے جو خون بہایا گیا اس کے باوجود وہ اسے حاصل نہ کرسکا اور وہ [[فلسطین]] اور لبنان میں مزاحمت اور شام کی حمایت میں مزید ڈٹے رہے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923192/ ایران کا ردعمل یقینی ہے، سید حسن نصراللہ] mehrnews.com-شائع شدہ:8اپریل 2024ء-اخذ شدہ:9اپریل 2024ء۔</ref>۔


== اسرائیلی ریاست خوف کے مارے غزہ سے انخلاء سے گریز کر رہی ہے ==
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق  [[حزب اللہ لبنان]] کے سیکریٹری جنرل اور سید المقاومہ سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے کمانڈر سید مصطفیٰ بدرالدین کی شہادت کی برسی کے موقع پر خطاب کیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
* محاذ جنگ میں صابر اور بہادر مجاہدوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو بہادری، شجاعت، قوت، عزم، حوصلے، جذبے اور یقین کے حیرت انگیز مناظر کی تخلیق میں مصروف ہیں۔
* اگر صہیونی ریاست رفح میں داخل ہو بھی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مقاومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ملت فلسطین غاصبوں کے خلاف مزاحمت سے دستبردار ہو چکی ہے۔
* کسی  کو بھی ان دنوں کی صہیونی ـ امریکی نمائشوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے، امریکہ بدستور "اسرائیل" کے ساتھ ہے۔
* [[طوفان الاقصیٰ]] نے مغرب کے جھوٹ اور فریب کو عیاں اور مغربی تہذیب کا کریہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔
* جو کچھ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنے اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں صہیونیوں کے خلاف عدالتی اقدامات کے خلاف امریکی اقدامات اور دھونس دھمکیوں کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کی حمایت امریکہ کی اٹل پالیسی ہے۔
* صرف دو راستے دشمن کے سامنے ہیں: یا تو [[حماس]] کی تسلیم کردہ تجاویز پر عمل کرے یا پھر جنگ جاری رکھنے کی صورت میں، طویل اور فرسودہ کر دینے والی جنگ کا سامنا کرے، جو کہ جعلی ریاست کو نگل لے گی۔
* [[قاسم سلیمانی|شہید الحاج قاسم سلیمانی]]، [[شہید محمد رضا زاہدی]]، شہید سید حجازی، [[سید رضا موسوی|شہید سید رضی موسوی]] اور سپاہ پاسداران کے دوسرے شہید کمانڈر، "اسرائیل" کے خلاف اقدامات میں ہمیشہ ہمارے ساتھ تھے اور ہماری مدد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگیاں اسی راستے میں بسر کی ہیں۔
* جو مقاومت و مزاحمت آج دشمن کے خلاف بر سر پیکار ہے، سابقہ، موجودہ اور مستقبل کے کمانڈروں اور مجاہدوں کی جانفشانیوں کا ثمرہ ہے۔
* طوفان الاقصیٰ کا اصل مقصد مسئلۂ فلسطین کو زندہ کرنا اور زندہ رکھنا تھا۔
* [[شہید سید مصطفیٰ بدرالدین]] نے اعزاز و افتخار کے کئی عظیم تمغے جیتے ہیں:  وہ مجاہد تھے، اسیری کاٹ چکے تھے، کمانڈر تھے اور آخرکار سب سے عظیم تمغہ بھی اپنے سینے پر سجایا جو تمغۂ شہادت ہے، شہید سلیمانی، شہید زاہدی، شہید حجازی اور سید بدرالدین جیسے شہداء نے اپنے فرائض کو بطور احسن نبھایا ہے۔
* سید بدرالدین [[شام]] میں شہید ہوئے، امریکہ شام پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور اسے خانہ جنگی کے ذریعے اپنے قابو میں لانا چاہتا تھا لیکن شام نے اپنے اوپر مسلط کردہ عالمی جنگ کو ناکام بنا دیا، اور آج شام ایک مستقل، خودمختار ملک کے طور پر اپنی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
* شام اپنے لئے درپیش مسائل کے باوجود فلسطین کی حمایت کے حوالے سے اپنے تزویراتی موقف پر قائم ہے۔ شام غاصب ریاست کے خلاف مزاحمت اور محور مقاومت کے مختلف محاذوں کی حمایت کے اصلی مراکز میں سے ایک ہے۔ شام، [[لبنان]]، ایران، لبنان، [[عراق]] اور [[یمن]] کے حامی محآذ غزہ میں جاری مقاومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ چنانچہ سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کرکے فلسطینی مقاومت نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر زندہ اور فعال کر دیا۔
* فلسطین اور فلسطینیوں کا نام اور [[غزہ]] کا نام آج پوری دنیا کے باسیوں کی زبان پر ہے اور پوری دنیا والے فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے بارے میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔
* آج فلسطین دنیا کا پہلا مسئلہ ہے اور یہ ایک حقیقی فتح ہے۔ فلسطین نے سیاسی میدان میں ناقابل انکار فتح حاصل کی ہے، اور اگر مقاومت، استقامت اور جانفشانی نہ ہوتی تو یہ سیاسی فتح حال نہ ہو پاتی۔
* فلسطین اور غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے بارے میں "اسرائیلیوں" اور امریکیوں کی جھوٹی تشہیری مہم کے باوجود، 140 سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ میں جنگ کے خاتمے اور اس عالمی ادارے میں فلسطین کی مکمل رکنیت کا مطالبہ کیا۔ صہیونیوں کے مستقل مندوب کے لئے یہ واقعہ اعصاب شکن تھا۔
* جعلی ریاست کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی مستقل رکنیت کے 140 سے زائد ممالک کے مطالبے کے بعد، اپنی ریاست کی انتہائی بے بسی اور کمزوری اور شکست کا عینی ترین اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے منشور کو پھاڑ دیا، اور ابو ابراہیم "یحیی السنوار" کی تصویر اٹھا کر کہا کہ یہ فلسطین کے اگلے سربراہ ہونگے!! اس کا یہ اقدام اخلاقی طور پر تباہ شدہ ریاست کے سیاسی زوال کا اعلان تھا۔
* شرم کی بات ہے کہ اسی وقت، جبکہ غزہ پر صہیونی جارحیت جاری ہے، غزہ کا 70 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے، 35000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور صہیونیوں نے رفح پر جارحیت کا آغاز کیا ہے، بعض عرب ممالک کے سیٹلائٹ چینل صہیونی دشمن کو ہمارے علاقے کی جمہوری ترین ریاست قرار دے رہے ہیں اور صہیونیوں کی چاپلوسی میں مصروف ہیں۔
* عرب حکمران صہیونی دشمن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے عمل کے دوران مسئلۂ فلسطین کی دستاویزات پر دستخط کرنا چاہتے تھے۔
* فلسطینی مقاومت نے دنیا کو فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں بات کرنے پر مجبور کیا جیسا منافق امریکہ کو بھی فلسطینی ریاست کے بارے میں بولنے پر مجبور کیا۔
* مقاومت کے مجاہدین کے کارناموں کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں "اسرائیل" کا چہرہ ایک ایسی ریاست کا چہرہ بنا ہؤا ہے جو بچوں اور خواتین کو قتل کرتی ہے، بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتی ہے اور اخلاقی اور انسانی اقدار کو پاؤں تلے روند رہی ہے۔
* امریکی اور زیادہ تر یورپی ممالک میں طلبہ کے مظاہروں اور احتجاجی اقدامات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہ فلسطین کا پرچم لہراتے ہیں اور فلسطین کی مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور یہ در حقیقت طوفان الاقصیٰ کے نتائج اور اثرات میں سے ایک ہے، اسی وجہ سے طلبہ کے احتجاج نے نیتن یاہو اور امریکی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔
* اگر ہم جاری جنگ کے نتائج کا جائزہ لینا چاہیں تو دشمن کے ذرائع ابلاغ پر ایک نظر ڈالنا چاہئے جو نیتن یاہو اور صہیونی فوج کی بدترین شکست کے بارے میں لکھ رہے ہیں، اور بول رہے ہیں۔
* غزہ کی جنگ آٹھ مہینوں سے جاری ہے، اور اس جنگ نے صہیونی ریاست کو عظیم تزویراتی نقصانات اور ناکامیوں سے دوچار کیا ہے۔
* دشمن آٹھ مہینے گذرنے کے باوجود اپنے اعلان کردہ مقاصد میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں کر سکا ہے۔
* اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ غاصب ریاست اعتراف کر رہی ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور 70 فیصد "اسرائیلی" صہیونی فوج کے سربراہوں کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
* صہیونی ریاست نے ثابت کرکے دکھایا ہے کہ یہ ریاست ایک بے بس، شکست خوردہ اور ناقابل اعتماد ریاست ہے اور سروے رپورٹوں کے مطابق، جنگ کا کوئی پیش منظر نہ ہونے کی وجہ سے، نوآبادکار یہودی نیتن یاہو اور اس کے رفقائے کار کی برطرفی پر اصرار کر رہے ہیں۔
* اسرائیل رقح میں داخل ہونے سے پہلی ہی بھاگنے کا منصوبہ بنا رہا ہے!
* -اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے سفارت خانے پر "اسرائیلی" حملے کے بعد دنیا کو للکار کر آپریشن "وعدہ صادق" سر انجام دیا، اور صہیونیوں کی تسدیدی صلاحیت (Deterrence capability) ہمیشہ کے لئے ختم ہوئی۔ اور اب صہیونی فوج کے جرنیل کہتے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ پر اصرار کرکے اسرائیل کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ "اسرائیلیوں" کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ وہ غزہ سے نکلنے سے بھی عاجز ہیں، اور یہ بجائے خود ایک بڑی شکست ہے جبکہ غزہ سے انخلاء اس ریاست کے وجود کے لئے المیہ ہے۔
* دشمن نے غزہ کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد، چارہ کار کے طور پر رفح کی طرف یلغار کی ہے، وہ رفح پر حملے جاری رکھ کر نوآبادکار یہودیوں اور اپنے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کو جتانا چاہتا ہے کہ گویا وہ اس جنگ میں کامیابی کی طرف گامزن ہے! لیکن ان کے اقدامات سیاسی اور فوجی ناکامی کی نشاندہی کر رہے ہیںاور اب وہ اس شکست سے بھاگنے کی سعی کر رہے ہیں۔
* امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی ترسیل پر قدغن، ایک بڑا جھوٹ اور فریب ہے۔
* [[مصر]] اور قطر نے ایک ورق حماس کے سپرد کیا جس پر لکھے ہوئے مسودے سے امریکہ اور اسرائیل نے پہلے ہی اتفاق کر دیا تھا، وہ سمجھ رہے تھے کہ حماس سمجھوتے کے اس مسودے کو مسترد کرے گی لیکن حماس کے راہنماؤں نے اسی مسودے سے اتفاق کرکے دشمن کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، نیتن یاہو کو دھچکا لگا کیونکہ یہی مسودے کے ساتھ حماس کا اتفاق "اسرائیل" کے لئے عظیم ناکامی کا ثبوت تھا؛ چنانچہ "اسرائیل" نے عہد شکنی کی اور امریکہ بھی "اسرائیلیوں" کی عہدشکنی پر اظہار خیال کرنے سے پرہیز کر رہا ہے!
* مسئلہ  یہ ہے کہ "اسرائیل" کو یا تو یہ مسودہ قبول کرنا پڑے گا یا پھر وہ ایک نہ ختم ہونے والی اور فرسودہ کر دینے والی جنگ کو جاری رکھے کا؛ "اسرائیل" کے ساتھ جنگ محور مقاومت کی آرزو ہے اور مقاومت کے لئے یہ جنگ تقدیر سازہے۔
* لبنان کا حامی محاذ غزہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اسی بنا پر امریکیوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ جب تک کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوگی شمالی محاذ بھی اسی طرح گرم رہے گا۔
== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==  
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:لبنان]]
[[زمرہ:لبنان]]