Jump to content

"اخوان المسلمین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 8: سطر 8:
| مقاصد = {{افقی باکس کی فہرست |اسلامی حکومت کی تشکیرل}}
| مقاصد = {{افقی باکس کی فہرست |اسلامی حکومت کی تشکیرل}}
}}
}}
'''اخوان المسلمین''' جدید دور کی سب سے اہم اسلامی تحریک، عرب دنیا، اسلامی دنیا کے ممالک اور مغرب میں اسلامی برادریوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی یہ تحریک مصر میں سیاسی حکومتوں کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد 1928 میں اسماعیلیہ شہر میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی، خلافت عثمانیہ کے زوال کے چار سال بعد یہ تیزی سے قاہرہ اور پھر بقیہ مصر میں منتقل ہو گئی، جس میں عرب کے بڑے حصے بھی شامل ہیں۔
'''اخوان المسلمین''' جدید دور کی سب سے اہم اسلامی تحریک، عرب دنیا، اسلامی دنیا کے ممالک اور مغرب میں اسلامی برادریوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی یہ تحریک مصر میں سیاسی حکومتوں کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد 1928 میں اسماعیلیہ شہر میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی، خلافت عثمانیہ کے زوال کے چار سال بعد یہ تیزی سے قاہرہ اور پھر بقیہ مصر میں منتقل ہو گئی، جس میں عرب کے بڑے حصے بھی شامل ہیں۔
== تاسیس ==
== تاسیس ==
سطر 28: سطر 27:


امت مسلمہ عموماً اور دنیاء عرب کو خصوصاً اس وقت مایوسی کے عالم میں، یہ تنظیم آخری سہارا محسوس ہوئی تھی، لہذا مختصر وقت میں یہ تنظیم  مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ عالم عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے، 1948ء میں [[اسرائیل]] کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا تو اس وقت حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اخوان المسلمین نے تحریک جہاد کا اعلان کر دیا۔  قبلہ اول [[فلسطین]] کے تحفظ کے لئے اس تنظیم کے نوجوانوں نے تحریک جہاد میں بھرپور حصہ لیا۔ استعماری طاقتوں کے ایماء پر اس وقت کے مصری حکمران شاہ فاروق نے اخوان المسلمون کے نوجوانوں کو جہاد میں حصے لینے کے جرم کی پاداش میں جھوٹے مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا۔ اخوان المسلمین کے محبوب لیڈر حسن البناءکو 1949ءمیں اسی جرم کی وجہ سے شہید کروادیا گیا۔
امت مسلمہ عموماً اور دنیاء عرب کو خصوصاً اس وقت مایوسی کے عالم میں، یہ تنظیم آخری سہارا محسوس ہوئی تھی، لہذا مختصر وقت میں یہ تنظیم  مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ عالم عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے، 1948ء میں [[اسرائیل]] کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا تو اس وقت حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اخوان المسلمین نے تحریک جہاد کا اعلان کر دیا۔  قبلہ اول [[فلسطین]] کے تحفظ کے لئے اس تنظیم کے نوجوانوں نے تحریک جہاد میں بھرپور حصہ لیا۔ استعماری طاقتوں کے ایماء پر اس وقت کے مصری حکمران شاہ فاروق نے اخوان المسلمون کے نوجوانوں کو جہاد میں حصے لینے کے جرم کی پاداش میں جھوٹے مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا۔ اخوان المسلمین کے محبوب لیڈر حسن البناءکو 1949ءمیں اسی جرم کی وجہ سے شہید کروادیا گیا۔
== مارشل لاء کے نافذ کے بعد اس تنظیم کی صورتحال ==
== مارشل لاء کے نافذ کے بعد اس تنظیم کی صورتحال ==
1951ء میں جنرل نجیب نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا اور مارشل لاءنافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت جنرل نجیب اخوان المسلمین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس نے گرفتار اور قید میں ڈالے گئے اخوان نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ جنرل نجیب کا اقتدار صرف تین سال قائم رہ سکا۔ 1954ءمیں جمال عبدالناصر نے انقلاب برپا کر کے اقتدار سنبھال لیا۔
1951ء میں جنرل نجیب نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا اور مارشل لاءنافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت جنرل نجیب اخوان المسلمین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس نے گرفتار اور قید میں ڈالے گئے اخوان نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ جنرل نجیب کا اقتدار صرف تین سال قائم رہ سکا۔ 1954ءمیں جمال عبدالناصر نے انقلاب برپا کر کے اقتدار سنبھال لیا۔
سطر 36: سطر 34:
== انور سادات کے دور میں ==
== انور سادات کے دور میں ==
جمال عبدالناصر کے بعد 1974ء میں انور سادات نے اقتدار سنبھالا، مگر اس تنظیم  پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم میں کوئی کمی نہ آئی۔ 1979ء میں انور سادات کو قتل کر دیا گیا اور حسنی مبارک نے زمام اقتدار سنبھال کی۔ حسنی مبارک کے دور میں بھی اخوان المسلمین اسی طرح زیر عتاب رہی، حتیٰ کہ نو منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی بھی حسنی مبارک کے دور میں سات ماہ تک قید بھگت چکے ہیں۔ گویا 1949ء سے لے کر 2010ء تک نصف صدی سے زائد عرصے تک اخوان المسلمین  ڈکٹیٹروں کے ظلم وستم کی چکی میں پستے رہے۔ آنے والے ہر حکمران نے اپنا پورا زور لگادیا کہ اسلام کے ان نام لیواﺅں کو نابود کر دیا جائے۔  مگر ان کی مکاریوں  اور چالیں اللہ تعالیٰ کی تدبیروں کے سامنے دم توڑ گئیں۔ انقلاب کا لاوا آہستہ پکتے پکتے مصر کے التحریر چوک میں ابل پڑا، جس کے نتیجے میں 30 سال تک اقتدار کے سیاہ و سفید پر قابض رہنے والے حسنی مبارک کے اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی۔
جمال عبدالناصر کے بعد 1974ء میں انور سادات نے اقتدار سنبھالا، مگر اس تنظیم  پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم میں کوئی کمی نہ آئی۔ 1979ء میں انور سادات کو قتل کر دیا گیا اور حسنی مبارک نے زمام اقتدار سنبھال کی۔ حسنی مبارک کے دور میں بھی اخوان المسلمین اسی طرح زیر عتاب رہی، حتیٰ کہ نو منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی بھی حسنی مبارک کے دور میں سات ماہ تک قید بھگت چکے ہیں۔ گویا 1949ء سے لے کر 2010ء تک نصف صدی سے زائد عرصے تک اخوان المسلمین  ڈکٹیٹروں کے ظلم وستم کی چکی میں پستے رہے۔ آنے والے ہر حکمران نے اپنا پورا زور لگادیا کہ اسلام کے ان نام لیواﺅں کو نابود کر دیا جائے۔  مگر ان کی مکاریوں  اور چالیں اللہ تعالیٰ کی تدبیروں کے سامنے دم توڑ گئیں۔ انقلاب کا لاوا آہستہ پکتے پکتے مصر کے التحریر چوک میں ابل پڑا، جس کے نتیجے میں 30 سال تک اقتدار کے سیاہ و سفید پر قابض رہنے والے حسنی مبارک کے اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی۔
== انقلاب کا پس منظر حقائق اور سچائی ==
== انقلاب کا پس منظر حقائق اور سچائی ==
سچائی اور حقائق کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اخوان المسلمین کے شہیدوں کے لہو میں حق اور سچائی تھی، جس کی خوشبو دور دور تک محسوس کی جا رہی تھی۔ اخوان المسلمین کے قیدیوں نے مسلسل جیلوں میں رب سے جو مسلسل دعائیں مانگی تھیں آخر کار وہ ثمر آور ہوئیں، تو دوسری طرف کچھ زمینی  حقائق ایسے  بھی تھے جو انقلاب کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے رشتے داروں اور تعلق داروں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور ذاتی خزانوں کے پیٹ بھرتے رہے۔ صرف ایک حسنی مبارک کے سات سو ارب ڈالر سے زیادہ مغربی بنکوں میں جمع تھے۔ ٹنوں کے حساب سے سونا ان کی تجوریوں میں بھرا ہوا تھا۔
سچائی اور حقائق کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اخوان المسلمین کے شہیدوں کے لہو میں حق اور سچائی تھی، جس کی خوشبو دور دور تک محسوس کی جا رہی تھی۔ اخوان المسلمین کے قیدیوں نے مسلسل جیلوں میں رب سے جو مسلسل دعائیں مانگی تھیں آخر کار وہ ثمر آور ہوئیں، تو دوسری طرف کچھ زمینی  حقائق ایسے  بھی تھے جو انقلاب کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے رشتے داروں اور تعلق داروں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور ذاتی خزانوں کے پیٹ بھرتے رہے۔ صرف ایک حسنی مبارک کے سات سو ارب ڈالر سے زیادہ مغربی بنکوں میں جمع تھے۔ ٹنوں کے حساب سے سونا ان کی تجوریوں میں بھرا ہوا تھا۔


مصر زمیںیں،  دریائے نیل اور نہر سویز کے باعث سونا اگلتی ہیں دیگر مصری تفریحی گاہیں، عجائبات، بطور خاص اہرام مصر کے باعث سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ مصر کو حاصل ہوتا ہے، مگر افسوس کہ یہ ساری دولت ڈکٹیٹروں اور ان کے اپنوں کی تجوریوں کی زینت ہی بنتی رہی ہے۔ اس ملک کے بیچارے عوام دو وقت کی روٹی اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئے، بے روز گاری اپنی انتہاﺅں کو پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی فصل پروان چڑھتی رہی۔ حکمرانوں کے ستائے ہوئے عوام کو اس تحریک کی حمایت میں ہی روشنی کی کرن نظر آرہی تھی، لہذا جب انتخابات کا وقت آیا تو ڈاکٹر محمد مرسی سوا کروڑ سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
مصر زمیںیں،  دریائے نیل اور نہر سویز کے باعث سونا اگلتی ہیں دیگر مصری تفریحی گاہیں، عجائبات، بطور خاص اہرام مصر کے باعث سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ مصر کو حاصل ہوتا ہے، مگر افسوس کہ یہ ساری دولت ڈکٹیٹروں اور ان کے اپنوں کی تجوریوں کی زینت ہی بنتی رہی ہے۔ اس ملک کے بیچارے عوام دو وقت کی روٹی اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئے، بے روز گاری اپنی انتہاﺅں کو پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی فصل پروان چڑھتی رہی۔ حکمرانوں کے ستائے ہوئے عوام کو اس تحریک کی حمایت میں ہی روشنی کی کرن نظر آرہی تھی، لہذا جب انتخابات کا وقت آیا تو ڈاکٹر محمد مرسی سوا کروڑ سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
== مصر کے حالیہ انتخابات اور الاخوان المسلمون کی مشکلات ==
== مصر کے حالیہ انتخابات اور الاخوان المسلمون کی مشکلات ==
اس ملک کے آزادی چوک میں لاکھوں انسانوں کے اجتماع کے تسلسل نے جب حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو فوج اور عدالتوں نے بھرپور کوشش کی کہ اسلام پسند قوتیں کہیں آگے نہ آجائیں۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا۔ استعماری طاقتوں نے بھی بھرپور کوشش کی، کیونکہ حسنی مبارک اور اس کے پیش رو حکمران اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، لہذا مغربی قوتوں، خصوصاً اسرائیل کو کبھی بھی یہ گوارا نہ تھا کہ حسنی مبارک کے ہم نواﺅں کے علاوہ کوئی برسر اقتدار آئے۔ حکومتی مشینری کی بھرپور کوشش تھی کہ انتخابات کا مرحلہ ہی نہ آئے اور فوج دوبارہ زمام حکومت سنبھال لے، مگر عوامی جوش و جذبے کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے آخری لمحات تک بھی اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کی کہ انتخابات سے صرف ڈیڑھ دن پہلے 14 جون کی سہ پہر کو منتخب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دےا گےا تاکہ بچھڑے ہوئے عوام کا رخ انتخابات سے اس طرف ہو جائے۔ پھر انتخابات کے لئے جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، انہیں مختلف قسم کے اعتراضات لگا کر مسترد کیا جاتا رہا۔ آخر کار ڈاکٹر محمد مرسی، جنہوں نے متبادل امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کروائے، کے کاغذات قبول کئے گئے، جس کے نتیجے میں الاخوان المسلمون کے اس رہنما کو صدارتی امیدوار تسلیم کر لیا گیا۔
اس ملک کے آزادی چوک میں لاکھوں انسانوں کے اجتماع کے تسلسل نے جب حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو فوج اور عدالتوں نے بھرپور کوشش کی کہ اسلام پسند قوتیں کہیں آگے نہ آجائیں۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا۔ استعماری طاقتوں نے بھی بھرپور کوشش کی، کیونکہ حسنی مبارک اور اس کے پیش رو حکمران اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، لہذا مغربی قوتوں، خصوصاً اسرائیل کو کبھی بھی یہ گوارا نہ تھا کہ حسنی مبارک کے ہم نواﺅں کے علاوہ کوئی برسر اقتدار آئے۔ حکومتی مشینری کی بھرپور کوشش تھی کہ انتخابات کا مرحلہ ہی نہ آئے اور فوج دوبارہ زمام حکومت سنبھال لے، مگر عوامی جوش و جذبے کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے آخری لمحات تک بھی اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کی کہ انتخابات سے صرف ڈیڑھ دن پہلے 14 جون کی سہ پہر کو منتخب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دےا گےا تاکہ بچھڑے ہوئے عوام کا رخ انتخابات سے اس طرف ہو جائے۔ پھر انتخابات کے لئے جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، انہیں مختلف قسم کے اعتراضات لگا کر مسترد کیا جاتا رہا۔ آخر کار ڈاکٹر محمد مرسی، جنہوں نے متبادل امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کروائے، کے کاغذات قبول کئے گئے، جس کے نتیجے میں الاخوان المسلمون کے اس رہنما کو صدارتی امیدوار تسلیم کر لیا گیا۔