3,719
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←تعارف) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 16: | سطر 16: | ||
بیت لحم کی مساحت 10611ایکڑ یا 4.097مربع میل ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں 30سے زیادہ ہوٹل 300سے زیادہ گھریلو صنعتیں، 70بستیاں، تین مہاجر کیمپ ایک کا نام ’’مخیم عایدہ‘‘ دوسرا ’’مخیم بیت جبرین‘‘ اور تیسرے کا نام ’’مخیم الدھیشہ‘‘ ہے جو 1949اور 1950میں قائم ہوئے تھے۔ یہاں31تعلیمی مدارس کام کر رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم کیلئے’’بیت اللحم یونیورسٹی‘‘ بھی ہے جہاں کئی قسم کے علوم و فنون پڑھانے کیلئے مخصوص کالجز ہیں۔ | بیت لحم کی مساحت 10611ایکڑ یا 4.097مربع میل ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں 30سے زیادہ ہوٹل 300سے زیادہ گھریلو صنعتیں، 70بستیاں، تین مہاجر کیمپ ایک کا نام ’’مخیم عایدہ‘‘ دوسرا ’’مخیم بیت جبرین‘‘ اور تیسرے کا نام ’’مخیم الدھیشہ‘‘ ہے جو 1949اور 1950میں قائم ہوئے تھے۔ یہاں31تعلیمی مدارس کام کر رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم کیلئے’’بیت اللحم یونیورسٹی‘‘ بھی ہے جہاں کئی قسم کے علوم و فنون پڑھانے کیلئے مخصوص کالجز ہیں۔ | ||
بیت لحم کی غاریں بھی بڑی مشہور ہیں۔ جنوب مشرق میں ایک ’’مغارات الحلیب، ہے۔ مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ کو ان کی والدہ اس غار میں دودھ پلایا کرتی تھیں۔ اسی طرح کئی خانقاہیں مختلف ادوار میں بنائی گئی تھیں۔ ایک خانقاہ عبید وادی قدرون کے سامنے ہے۔ یہ خانقاہ عبید نامی گاؤں کی مناسبت سے عبید کہلاتی ہے جبکہ خانقاہ جنت مکمل طور پر بند ہے اور ’’خانقاہ مارسابا‘‘جو 482 عیسوی میں یونانی دور میں تعمیر کی گئی تھی (خاتم النبین ﷺ کی ولادت شریفہ سے تقریباً کوئی ایک صدی پہلے) اس خانقاہ کی خاص بات یہ ہے کہ شروع دن ہی سے اس خانقاہ میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے، روایت کے مطابق یہ خانقاہ ابھی تک انہی پرانے اصولوں پر قائم ہے۔ یوں بھی مذہبی طور پر عیسائیت میں عورتوں کو سوائے نن بننے کے کبھی کوئی اختیار نہیں دیا گیا اور مظلوم ننوں کے ساتھ جبر وظلم کی بڑی المناک داستانیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ [[اسلام]] میں عورت کو مسجد جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شہر بیت اللحم میں کئی گرجا گھر واقع ہیں جن میں سب سے بڑا کنیسۃ القدیس ہے۔ یہ اس جگہ بنا ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ اہل اسلام کی دریا دلی اور دیگر مذاہب کے احترام کی دلیل یہ چرچ بھی ہے کہ اب بھی اس چرچ کی نگرانی مسلمان کر رہے ہیں اور عیسائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق رسومات ادا کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ یہودیوں نے اپنے دور میں ان پر پابندیاں لگا رکھی تھیں جنہیں مسلمان حکمرانوں نے ختم کر دیا اب یہودی اور عیسائی تو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کیلئے بالکل آزاد ہیں جبکہ یروشلم کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں آزادانہ آنے جانے کے روادار نہیں ہیں پھربھی کہتے ہیں اسلام جبر کا دین ہے اور مسلمان جابر لوگ !!!<ref>[https://jang.com.pk/news/475432سفر زیارت بیت المقدس، عبدالاعلیٰ درانی]jang.com.pk،-شائع شدہ از:8 اپریل 2018ء-اخذ شده به تاریخ:23مارچ 2024ء</ref>۔ | بیت لحم کی غاریں بھی بڑی مشہور ہیں۔ جنوب مشرق میں ایک ’’مغارات الحلیب، ہے۔ مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ کو ان کی والدہ اس غار میں دودھ پلایا کرتی تھیں۔ اسی طرح کئی خانقاہیں مختلف ادوار میں بنائی گئی تھیں۔ ایک خانقاہ عبید وادی قدرون کے سامنے ہے۔ یہ خانقاہ عبید نامی گاؤں کی مناسبت سے عبید کہلاتی ہے جبکہ خانقاہ جنت مکمل طور پر بند ہے اور ’’خانقاہ مارسابا‘‘جو 482 عیسوی میں یونانی دور میں تعمیر کی گئی تھی (خاتم النبین ﷺ کی ولادت شریفہ سے تقریباً کوئی ایک صدی پہلے) اس خانقاہ کی خاص بات یہ ہے کہ شروع دن ہی سے اس خانقاہ میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے، روایت کے مطابق یہ خانقاہ ابھی تک انہی پرانے اصولوں پر قائم ہے۔ یوں بھی مذہبی طور پر عیسائیت میں عورتوں کو سوائے نن بننے کے کبھی کوئی اختیار نہیں دیا گیا اور مظلوم ننوں کے ساتھ جبر وظلم کی بڑی المناک داستانیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ [[اسلام]] میں عورت کو مسجد جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شہر بیت اللحم میں کئی گرجا گھر واقع ہیں جن میں سب سے بڑا کنیسۃ القدیس ہے۔ یہ اس جگہ بنا ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ اہل اسلام کی دریا دلی اور دیگر مذاہب کے احترام کی دلیل یہ چرچ بھی ہے کہ اب بھی اس چرچ کی نگرانی مسلمان کر رہے ہیں اور عیسائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق رسومات ادا کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ یہودیوں نے اپنے دور میں ان پر پابندیاں لگا رکھی تھیں جنہیں مسلمان حکمرانوں نے ختم کر دیا اب یہودی اور عیسائی تو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کیلئے بالکل آزاد ہیں جبکہ یروشلم کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں آزادانہ آنے جانے کے روادار نہیں ہیں پھربھی کہتے ہیں اسلام جبر کا دین ہے اور مسلمان جابر لوگ !!!<ref>[https://jang.com.pk/news/475432سفر زیارت بیت المقدس، عبدالاعلیٰ درانی]jang.com.pk،-شائع شدہ از:8 اپریل 2018ء-اخذ شده به تاریخ:23مارچ 2024ء</ref>۔ | ||
== ہاؤسنگ اور تعمیراتی پیشرفت == | |||
قدیم زمانے میں بیت المقدس ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو تین طرف سے گہری وادیوں میں گھرا ہوا تھا۔ رومی دور حکومت میں یہ شہر تجارتی مرکز کے طور پر مشہور ہوا کیونکہ یہ بحیرہ احمر اور بلاد شام کے درمیان تجارتی سڑک کے کنارے واقع تھا اور وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے نتیجے میں اس کی شہرت اور اہمیت بڑھ گئی۔ | |||
15 ویں صدی میں، بیت اللحم میناروں اور دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ 19ویں صدی میں، اس میں اسکول، گرجا گھر، خانقاہیں، مساجد اور صنعتی مقامات تھے۔ اس کے باشندوں کی تعداد کا تخمینہ اس صدی کے آخر میں 10 پہلی جنگ عظیم کے دوران جنگ، بیماریوں، بھوک اور ہجرت کی وجہ سے بیت المقدس کے مکینوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی اور 1922 میں اس کی تعداد کم ہو کر 6658 رہ گئی، لیکن یہ بتدریج اور آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور 1931 میں یہ تعداد 6814 تک پہنچ گئی۔ اضلاع کے باشندے، جن کی تعداد اس وقت 506 بتائی گئی تھی۔ 1945 میں بیت المقدس کے رہائشیوں کی تعداد 8820 کے لگ بھگ بتائی گئی۔ | |||
برطانوی قیمومیت کے دور میں آبادی کی سست ترقی کے باوجود، اس شہر نے بیرون ملک مقیم [[بیت المقدس]] کے شہریوں کی طرف سے فنڈز کی آمد کی وجہ سے شہر کی ترقی اور ترقی کا مشاہدہ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے جدید رہائشی یونٹس، مختلف فیکٹریوں اور کمرشل یونٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔ اس کے نتیجے میں شہر میں مکانات کی تعداد 1931 میں 1506 سے بڑھ کر 1945 میں 2000 ہو گئی۔ اس کے علاوہ شہری ترقیات کے نتیجے میں شہر کا رقبہ بھی ترقی پذیر ہوا اور 1945 میں یہ 1964 ایکڑ تک پہنچ گیا۔ | |||
1948 کے بعد کے سالوں میں بیت المقدس کے حالات میں تبدیلی آئی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی اس شہر کی طرف ہجرت کے نتیجے میں اس کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ یہ شہر میں مکانات کی تعداد بڑھانے میں شامل تھا۔ 1961 میں اس کے مکینوں کی تعداد 22 یہ شہر آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا اور اس کی آبادی 1966 میں 3500 گھروں میں رہنے والے تقریباً 24 1967 میں اسرائیل کی طرف سے شہر پر قبضے نے سال کے آخر میں اس کے رہائشیوں کی تعداد کم کر کے 16 یہ شہر خاص طور پر اس کا وہ حصہ جو بیت المقدس کی سڑک کے متوازی تھا حبرون تعمیر کے لحاظ سے بتدریج ترقی کرتا گیا <ref>حنا عبدالله جقمان، جولة في تاریخ بیت لحم من أقدم الأزمنة حتی الیوم، مطبعة بطریرکیة الووم الأرثوذکس - قدس - فلسطین، 1983ء،ص56۔</ref>۔ | |||
== بیت لحم جو کرسمس کی آمد پر ویران نظر آ رہا ہے == | == بیت لحم جو کرسمس کی آمد پر ویران نظر آ رہا ہے == |