Jump to content

"عراق" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 265: سطر 265:
عراق کی سیاسی انتظامیہ وفاقی ہے۔ عراقی آئین کے تحت، عراقی وفاقی حکومت ایک اسلامی پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ وفاقی حکومت میں انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور متعدد آزاد کمیشن شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے علاوہ، علاقے (صوبوں پر مشتمل)، صوبے اور اضلاع ہیں جن کے پاس قانون کے تحت مخصوص اختیارات ہیں۔
عراق کی سیاسی انتظامیہ وفاقی ہے۔ عراقی آئین کے تحت، عراقی وفاقی حکومت ایک اسلامی پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ وفاقی حکومت میں انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور متعدد آزاد کمیشن شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے علاوہ، علاقے (صوبوں پر مشتمل)، صوبے اور اضلاع ہیں جن کے پاس قانون کے تحت مخصوص اختیارات ہیں۔


== عراقی اسلامی تحریک ==
== تحریک اسلامی عراق ==
پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی انگریزوں نے جرمن اثر و رسوخ کو روکنے کے بہانے عراق پر حملہ کر دیا۔ نومبر 1914 میں انگریز فوجیں گردونواح پر قبضہ کر کے بصرہ کے دروازے تک پہنچ گئیں۔ عراق میں تاریخی اور اسلامی مقامات اور یادگاروں کی موجودگی کی وجہ سے اس ملک کے خلاف برطانوی جارحیت کو اسلام اور اس کی اقدار کے خلاف سنگین خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے عراقی عوام اور علماء کو مجبور کیا کہ وہ عراق کی سرزمین میں انگریزوں کے داخلے کی مزاحمت کریں۔ علماءکی ترغیب  سے عراقی عوام نے بغداد، نجف، کاظمین اور بصرہ کے شہروں سے اپنی بغاوت اور تحریک کا آغاز کیا۔ یہ عوامی مزاحمت جس کی قیادت علماء کر رہے تھے اٹھارہ ماہ تک جاری رہی۔ قابض افواج کے ہاتھوں بصرہ پر قبضے کے بعد جنگ نے نئی جہتیں حاصل کیں اور عراق کے مزید علاقوں پر حملہ کر دیا گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی انگریزوں نے جرمن اثر و رسوخ کو روکنے کے بہانے عراق پر حملہ کر دیا۔ نومبر 1914 میں انگریز فوجیں گردونواح پر قبضہ کر کے بصرہ کے دروازے تک پہنچ گئیں۔ عراق میں تاریخی اور اسلامی مقامات اور یادگاروں کی موجودگی کی وجہ سے اس ملک کے خلاف برطانوی جارحیت کو اسلام اور اس کی اقدار کے خلاف سنگین خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے عراقی عوام اور علماء کو مجبور کیا کہ وہ عراق کی سرزمین میں انگریزوں کے داخلے کی مزاحمت کریں۔ علماءکی ترغیب  سے عراقی عوام نے بغداد، نجف، کاظمین اور بصرہ کے شہروں سے اپنی بغاوت اور تحریک کا آغاز کیا۔ یہ عوامی مزاحمت جس کی قیادت علماء کر رہے تھے اٹھارہ ماہ تک جاری رہی۔ قابض افواج کے ہاتھوں بصرہ پر قبضے کے بعد جنگ نے نئی جہتیں حاصل کیں اور عراق کے مزید علاقوں پر حملہ کر دیا گیا۔


سطر 284: سطر 284:
داعش کے عراق میں کیے گئے مظالم کی بین الاقوامی تنظیموں اور بہت سی حکومتوں، جن میں ایران کی اسلامی جمہوریہ بھی شامل ہے، نے مذمت کی ہے۔
داعش کے عراق میں کیے گئے مظالم کی بین الاقوامی تنظیموں اور بہت سی حکومتوں، جن میں ایران کی اسلامی جمہوریہ بھی شامل ہے، نے مذمت کی ہے۔


== شیعہ مذہب کا پس منظر ==
== عراق میں شیعہ مذہب کی تاریخ ==
عراق میں شیعیت کی تاریخ [[علی ابن ابی طالب|امام علی علیہ السلام]] کے زمانے سے ملتی ہے۔ اس وقت کوفہ میں شیعہ مذہب کا ظہور ہوا۔ کوفی علماء کی ایک بڑی تعداد شیعہ تھی اور انہوں نے دوسری صدی کے وسط میں شیعہ میراث کو بغداد منتقل کیا <ref>رسول جعفریان، اطلس شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۵۹</ref>۔ اگرچہ شیعیت کی جائے پیدائش مدینہ ہے، لیکن کوفہ کو شیعیت کا بنیادی مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کی تاریخ شیعیت کے ساتھ اس مقام تک گھل مل جاتی ہے جہاں ابوبکر خوارزمی (383ء) نے شیعوں کے نام ایک خط میں شیعہ مذہب کو عراقی رجحان کے طور پر متعارف کرایا تھا <ref>خوارزمی، رسائل، ص۱۶۴-۱۶۵؛ اطلس شیعه، ص۳۵۹؛ جعفریان، تشیع در عراق، ۱۳۸۶ش، ص۲۷</ref>۔ نیشابور اموی دور میں، کوفہ شہر کا کم از کم ایک تہائی حصہ شیعہ تھا <ref>جعفریان، اطلس شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۶۱</ref>۔
شیعیت کی تاریخ عراق میں امام علی علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ اس زمانہ میں  کوفہ میں شیعیت کا ظہور ہوا۔ کوفہ کے بہت سے محدثین شیعہ تھے اور انہوں نے دوسری صدی ہجری کے وسط میں شیعیت کی میراث کو بغداد منتقل کیا۔
عراق میں شیعہ سب سے پہلے دوسری اور تیسری صدی ہجری میں کوفہ سے بغداد منتقل ہوا، تاکہ بغداد میں کرخ کا محلہ جو آج سنی ہے، اس دور میں شیعہ تھا۔ چوتھی صدی میں، کربلا، نجف اور کاظمین کے شہر شیعہ آل بویہ حکومت کی حمایت سے اہم بن گئے <ref>افق، حسین، تشیع عراق، مجله زمانه، شماره ۹۵، ۱۳۸۹ش، ص۵۰</ref>۔
جب عراق پر صفویوں نے قبضہ کیاغش ا تو بہت سے ایرانی اور ہندوستانی شیعہ تاجر عراق آئے۔ عرب سے عراق کی طرف قبائل
کی ہجرت کے بعد شیعوں نے ان پر اثر انداز کیا اور انہیں شیعیت کی طرف راغب کیا۔
== اہل سنت اور عراق میں سیاسی  ارتقاء ==
عراق میں جمہوری ڈھانچے کے قیام کے بعد، سنیوں کی ایک حد نے اپنی سیاسی طاقت کے عناصر کو کھو دیا، لیکن اس کے بعد کے ادوار میں بہت سے سنیوں کا رجحان بتدریج تبدیل ہوا اور انتخابات اور حکومتی عہدوں میں ان کی شرکت نے زیادہ سنگین شکل اختیار کر لی، اور وہ پارلیمنٹ میں کچھ سیٹیں جیتنے اور وزارتوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
عراق میں نئے جمہوری وفاقی ڈھانچے کی تشکیل کے ساتھ ہی سنی اپنی اعلیٰ پوزیشن کھو بیٹھے اور ایک قسم کی الجھن اور سیاسی انتشار کا شکار ہو گئے۔ بعث حکومت کے خاتمے کے بعد عراقی سنی اپنی طاقت کھو بیٹھے۔ مزید برآں، سنیوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ شیعوں اور کردوں کے برعکس جن کی اپنی پارٹیاں، تنظیمیں اور قائدین ہیں، ان کے پاس اپنے مفادات کے تحفظ اور کوششوں کو منظم کرنے اور اپنی تحریک کی قیادت کرنے کے لیے کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زوال کے بعد کے ابتدائی سالوں میں بعض سنی عربوں نے مخالفت کا راستہ اختیار کیا اور انتخابات کے انعقاد کی بھی مخالفت کی اور ان میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن دوسرے اور تیسرے دور میں، انہوں نے سیاسی موجودگی اور شرکت کی پیروی کی، اور اتحاد حکومت یا قومی شراکت کے نام سے مالکی کی دوسری حکومت میں سنی گروہوں کی مضبوط موجودگی تھی۔


سنیوں نے، جنہوں نے عراقی حکومت اور داعش کے درمیان جنگ کے دوران اور بعد میں اپنی سابقہ طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی، جو سنی علاقوں میں ہوئی، نے اپنے بنیادی ڈھانچے اور مکانات سمیت اپنے سامان کو تباہ ہوتے دیکھا، اور سیاسی طور پر ان کے قریبی حریف، کرد ، پیچھے پڑ گیا۔ ان مسائل کی وجہ سے ان کے سیاسی رہنماؤں نے پارلیمانی انتخابات کی چوتھی مدت میں سنی علاقوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے کم از کم 6 ماہ سے ایک سال کے لیے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی، اس لیے سنیوں کی انتخابات کے انعقاد کے لیے تیاری نہ ہونے کا حوالہ دیا۔
اگرچہ شیعیت کا مدینہ میں آغاز ہوا تھا، لیکن کوفہ اس کا بنیادی مرکز بن گیا۔ کوفہ کی تاریخ شیعیت سے اس قدر گہرائی سے جڑی ہوئی ہے کہ ابو بکر خوارزمی (متوفی 383 ہجری) نے نیشابور کے شیعوں کو لکھے گئے ایک خط میں شیعیت کو ایک عراقی رجحان قرار دیا۔ اموی دور میں کوفہ کی آبادی کا کم از کم ایک تہائی حصہ شیعہ تھا۔
2018ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے چوتھے دور میں، وہ مختلف جماعتوں اور فہرستوں کی شکل میں ہیں، جن میں عیاد علاوی کی قیادت والی نیشنلسٹ پارٹی اور اسامہ النجیفی کی قیادت میں فهرست الجماهیر الوطنیه، فهرست التغییر، فهرست الانبار هویتنا   شامل ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی نشستوں میں حصہ لیا۔ اب پارلیمنٹ کے سربراہ محمد الحلبوسی ہیں، جنہیں سنی اتحاد نے عراقی پارلیمنٹ میں اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔
 
شیعیت عراق میں پہلی بار دوسری اور تیسری صدی ہجری میں کوفہ سے بغداد منتقل ہوئی۔ اس وقت بغداد کا کرخ محلہ، جو آج سنی نشین ہے، شیعہ نشین تھا۔ چوتھی صدی ہجری میں شیعہ آل بویہ کی حکومت کی حمایت سے کربلا، نجف اور کاظمین کے شہروں کو اہمیت حاصل ہوئی۔
 
جب عراق صفویوں کے قبضے میں آ گیا تو ایران اور ہندوستان سے بہت سے شیعہ تاجر عراق آ گئے۔ عربستان سے عراق ہجرت کرنے والی قبائل پر شیعوں کا اثر پڑا اور وہ شیعیت میں داخل ہو گئے۔<ref>افق، حسین، تشیع عراق، مجله زمانه، شماره ۹۵، ۱۳۸۹ش، ص۵۰</ref>۔
 
== اہل سنت اور عراق میں سیاسی  رویے میں بدلاؤ ==
عراق میں جمہوریت کے قیام کے بعد، کچھ اہل سنت نے محسوس کیا کہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ، بہت سے اہل سنت نے انتخابات اور حکومتی عہدوں میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، انہوں نے پارلیمنٹ اور وزارت خانوں میں نمایاں نمائندگی حاصل کی۔
 
نئے وفاقی جمہوری نظام کے قیام کے ساتھ، اہل سنت نے اپنی سابقہ ​​برتری کھو دی اور سیاسی بے یقینی کا شکار ہو گئے۔ صدام حسین کے خاتمے کے بعد، انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس شیعوں اور کردوں کے برعکس، اپنے مفادات کی نمائندگی کرنے کے لیے کوئی مضبوط سیاسی جماعت یا رہنما نہیں ہے۔ نتیجے کے طور پر، کچھ عرب سنیوں نے ابتدائی برسوں میں احتجاجی رویہ اختیار کیا اور انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ 2005 کے پارلیمانی انتخابات اور آئینی ریفرنڈم میں اہل سنت کی شرکت بہت کم تھی، خاص طور پر انبار صوبے میں جہاں صرف 2% رائے دہندگان نے حصہ لیا۔
 
تاہم، دوسرے اور تیسرے پارلیمانی ادوار میں، اہل سنت نے سیاسی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ نوری المالکی کی پہلی حکومت میں، انہوں نے پارلیمنٹ کے اسپیکر، نائب صدر اور وزیر اعظم کے عہدے سنبھالے، اور دفاع جیسی اہم وزارتوں پر بھی کنٹرول حاصل کیا۔ المالکی کی دوسری حکومت میں، جسے "قومی اتحاد یا شراکت داری" حکومت کہا جاتا ہے، اہل سنت کی نمائندگی اور بھی زیادہ نمایاں تھی۔
 
گزشتہ دہائی میں، اہل سنت اپنی سابقہ ​​طاقت کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، داعش کے خلاف جنگ نے، جو بنیادی طور پر سنی علاقوں میں لڑی گئی،  ان کے بنیادی ڈھانچے اور گھروں کو تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ، وہ سیاسی لحاظ سے اپنے کرد حریفوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے، ان کے سیاسی رہنماؤں نے چوتھے پارلیمانی انتخابات میں تاخیر کی درخواست کی یہ دلیل دیتے ہوئے کہ  کہ اہل سنت ابھی تک انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں۔
 
2018 کے چوتھے پارلیمانی انتخابات میں، اہل سنت نے مختلف جماعتوں اور اتحادوں کے تحت حصہ لیا جن میں ایاد علاوی کی الوطنیہ جماعت، اسامہ النجیفی کی المتحدون اتحاد، الجماهیر الوطنیہ، التغییر، الانبار هویتنا، اور نینوا هویتنا شامل ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں نمایاں تعداد میں سیٹیں جیتی۔ اس وقت، محمد الحلبوسی، جنہیں سنی اتحاد نے نام زد کیا تھا ، پارلیمنٹ کے اسپیکر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
 
عراق میں اہل سنت نے سیاسی عمل میں اپنے کردار کو بتدریج تبدیل کیا ہے۔ ابتدائی بے یقینی اور احتجاج کے بعد، انہوں نے انتخابات اور حکومتی عہدوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ داعش کے بعد کے چیلنجز کے باوجود، وہ سیاسی طور پر ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے ہیں۔


== جدید سیاسی صورتحال ==
== جدید سیاسی صورتحال ==
سطر 571: سطر 581:


== ایران اور عراق کے درمیان موجودہ تعلقات ==
== ایران اور عراق کے درمیان موجودہ تعلقات ==
سابقہ تاریخی واقعات اور ایران عراق جنگ کے علاوہ اب ایران کا ملک عراق میں کافی اثر و رسوخ ہے اور اس ملک کے عوام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر سال ہزاروں ایرانی زائرین عراق کے مذہبی شہروں کی طرف جاتے ہیں اور عراقی لوگ بھی زیارت کے لیے اور بعض اوقات علاج و تفریح کے لیے ایران جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔ عراقی شیعوں کے رہنما آیت اللہ سیستانی بھی ایرانی ہیں۔ عراقی کردستان کے متعدد عہدیدار اور عراقی شیعہ مذہبی عہدیدار بھی فارسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ عراقی کردستان خصوصاً سوران شہر کے بہت سے لوگ فارسی جانتے ہیں اور طویل عرصے سے ایران میں پناہ گزین ہیں۔
سابقہ تاریخی واقعات اور ایران عراق جنگ کے باوجود  اب ایران کا عراق میں کافی اثر و رسوخ ہے اور ایران  اس ملک کے عوام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر سال ہزاروں ایرانی زائرین عراق کے مذہبی شہروں کی طرف جاتے ہیں اور عراقی لوگ بھی زیارت کے لیے اور بعض اوقات علاج و تفریح کے لیے ایران جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔ عراقی شیعوں کے رہنما آیت اللہ سیستانی بھی ایرانی ہیں۔ عراقی کردستان کے متعدد عہدیدار اور عراقی شیعہ مذہبی عہدیدار بھی فارسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ عراقی کردستان خصوصاً سوران شہر کے بہت سے لوگ فارسی جانتے ہیں اور طویل عرصے سے ایران میں پناہ گزیں ہیں۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed
821

ترامیم