Jump to content

"یوسف القرضاوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
سطر 106: سطر 106:


== سیاسی نظریہ ==
== سیاسی نظریہ ==
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک سول حکومت ہے جو اسلامی نظام کو اپنی حکمرانی کی بنیاد بناتی ہے، اس کی بنیاد بیعت اور انتخاب اور شوریٰ پر ہوتی ہے اور ان دو  خصوصیات "طاقت اور امانت "  "قابلیت اور امانتداری" یا بالفاظ دیگر   ماہر اور متقی افراد میں سے عہدیداروں کو مقرر کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک سول حکومت ہے جو اسلامی نظام کو اپنی حکمرانی کی بنیاد بناتی ہے، اس کی بنیاد بیعت اور انتخاب اور شوریٰ پر ہوتی ہے اور ان دو  خصوصیات "طاقت اور امانت "  "قابلیت اور امانتداری" یا بالفاظ دیگر ماہر اور متقی افراد میں سے عہدیداروں کو مقرر کرتی ہے۔


اس کے علاوہ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام "رجال دین" کی اصطلاح سے واقف نہیں ہے۔ کیونکہ ہر مسلمان اپنےلئے دیندار ہے، اور  جو چیز حقیقت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں  فزکس، فلسفہ، قانون وغیرہ کے اسکالرز کی طرح  اسلامی علوم میں مہارت رکھنے والے علما پائے جاتےہیں۔
اس کے علاوہ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام "رجال دین" کی اصطلاح سے واقف نہیں ہے۔ کیونکہ ہر مسلمان اپنےلئے دیندار ہے، اور  جو چیز حقیقت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں  فزکس، فلسفہ، قانون وغیرہ کے اسکالرز کی طرح  اسلامی علوم میں مہارت رکھنے والے علما پائے جاتےہیں۔


بنیادی طور پر اسلامی علوم سے واقفیت رکھنے والے علما اور حکومت کے درمیان رابطہ ایسا ہونا چاہیے وہ حکومت کو نصیحت اور ہدایت کرنے سے دریغ نہ کریں جسے اسلام نے دینی پیشواؤں اور عوام الناس پر واجب کیا ہے۔ اور دوسری طرف حکمرانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ دعوت و نصیحت کی اہم ذمہ داری کو انجام دینے میں ،ان کی مدد کریں۔
بنیادی طور پر اسلامی علوم سے واقفیت رکھنے والے علما اور حکومت کے درمیان رابطہ ایسا ہونا چاہیے وہ حکومت کو نصیحت اور ہدایت کرنے سے دریغ نہ کریں جسے اسلام نے دینی پیشواؤں اور عوام الناس پر واجب کیا ہے۔ اور دوسری طرف حکمرانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ دعوت و نصیحت کی اہم ذمہ داری کو انجام دینے میں ،ان کی مدد کریں۔


بنیادی طور پر اسلامی سماج کے حکمران اور رہنما کو شرعی قانون سے واقف ہونا چاہیے اور اس کے احکام کو سمجھنے کے لیے اجتہاد کا حامل ہونا چاہیے۔  خلفائے راشدین  اور ان کے پیروکار بھی  فقہ و اجتہاد میں امام و پیشوا  تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے فقہ  مجتہدین، رہبروں اور قاضیوں  کے لئے  مجتہد ہونے کی شرط پر متفق ہیں۔ اور انتہائی غیر معمولی اور ضروری حالات میں ہی یہ شرط ساقط ہوتی ہے۔
بنیادی طور پر اسلامی سماج کے حکمران اور رہنما کو شرعی قانون سے واقف ہونا چاہیے اور اس کے احکام کو سمجھنے کے لیے اجتہاد کا حامل ہونا چاہیے۔  خلفائے راشدین  اور ان کے پیروکار بھی  [[فقہ]] و اجتہاد میں [[امام]] و پیشوا  تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے فقہ  مجتہدین، رہبروں اور قاضیوں  کے لئے  مجتہد ہونے کی شرط پر متفق ہیں۔ اور انتہائی غیر معمولی اور ضروری حالات میں ہی یہ شرط ساقط ہوتی ہے۔


اسلامی حکومت کوئی نسلی یا علاقائی حکومت نہیں ہے اور اپنے آپ کو جغرافیائی سرحدوں کے دائرے میں محدودنہیں رکھتی اور اپنے دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے رکھتی ہے جو آزادی پر مبنی اس کے اصولوں اور بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اسلام کا مشن چونکہ عمومی اور آفاقی ہے اس لیے اس کی حکمرانی جامع اور ہمہ گیر ہوگی۔ اسلامی حکومت قانون کی حکمرانی ہے یا شریعت کی حکمرانی اس کا آئین شریعت کے ان اصولوں اور بنیادوں سے ماخوذ ہے جو قرآن اور سنت رسول اللہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اور اس میں عقیدہ، عبادات، اخلاقیات،معاملات اور خاندانی اور سماجی تعلقات، عدالتی اور انتظامی امور اور بین الاقوامی ضوابط کے تمام شعبے شامل ہیں۔
اسلامی حکومت کوئی نسلی یا علاقائی حکومت نہیں ہے اور اپنے آپ کو جغرافیائی سرحدوں کے دائرے میں محدودنہیں رکھتی اور اپنے دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے رکھتی ہے جو آزادی پر مبنی اس کے اصولوں اور بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اسلام کا مشن چونکہ عمومی اور آفاقی ہے اس لیے اس کی حکمرانی جامع اور ہمہ گیر ہوگی۔ اسلامی حکومت قانون کی حکمرانی ہے یا شریعت کی حکمرانی اس کا آئین شریعت کے ان اصولوں اور بنیادوں سے ماخوذ ہے جو قرآن اور سنت رسول اللہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اور اس میں عقیدہ، عبادات، اخلاقیات،معاملات اور خاندانی اور سماجی تعلقات، عدالتی اور انتظامی امور اور بین الاقوامی ضوابط کے تمام شعبے شامل ہیں۔


اسلامی حکومت کو اس بات میان کوئی ھرج نہیں کہ وہ اپنے معاملات کے انتظام کے لیے کس شکل اور طریقہ کا انتخاب کرتی ہے، اور اس کا نام اور عنوان بہت اہم نہیں ہے۔ البتہ امامت اور خلافت دو  تاریخی عنوانات ہیں اور اہم تصورات پر مشتمل ہیں۔
اسلامی حکومت کو اس بات میان کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے معاملات کے انتظام کے لیے کس شکل اور طریقہ کا انتخاب کرتی ہے، اور اس کا نام اور عنوان بہت اہم نہیں ہے۔ البتہ امامت اور خلافت دو  تاریخی عنوانات ہیں اور اہم تصورات پر مشتمل ہیں۔


امام یا خلیفہ معصوم نہیں ہوتا اور اس میں کوئی خاص اور مقدس خصوصیت نہیں ہوتی جو اسے احتساب اور آزمائش سے بالاتر بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] سے سوائے ان صورتوں کے جہاں وحی نازل ہوتی تھی، سوال کیا جاتا تھا اور آپ سے بحث کی جاتی تھی، اور دوسرے آپ کو مشورے دیا کرتے تھے، اور کئی بار آپ نے اپنی رائے ترک کر دی تھی اور صحابہ کی رائے کو تسلیم کیا تھا۔
امام یا خلیفہ معصوم نہیں ہوتا اور اس میں کوئی خاص اور مقدس خصوصیت نہیں ہوتی جو اسے احتساب اور آزمائش سے بالاتر بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] سے سوائے ان صورتوں کے جہاں وحی نازل ہوتی تھی، سوال کیا جاتا تھا اور آپ سے بحث کی جاتی تھی، اور دوسرے آپ کو مشورے دیا کرتے تھے، اور کئی بار آپ نے اپنی رائے ترک کر دی تھی اور صحابہ کی رائے کو تسلیم کیا تھا۔


اسلامی حکومت کسی مملکت یا سلطنت کی حکومت نہیں ہے جو وراثت کے طریقہ کار کی بنیاد پر ایک خاندان کے حوالے کر دی جائے۔ یہ حکومت ، ذمہ داری اور  صاحبان حل و عقد کی شورا کے سامنے جوابدہی کے معاملے میں جمہوریت کے مترادف ہے۔ شورائے حل  و عقد  حکومت کو برطرف کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام معاشرے کے ہر فرد کو، مرد اور عورت دونوں کو اہل ایمان کی باہمی سرپرستی اور سماجی ذمہ داری کے احساس کی بنیاد پر حکمرانوں اور رہنماؤں پر تنقید کا حق دیتا ہے۔
اسلامی حکومت کسی مملکت یا سلطنت کی حکومت نہیں ہے جو وراثت کے طریقہ کار کی بنیاد پر ایک خاندان کے حوالے کر دی جائے۔ یہ حکومت ، ذمہ داری اور  صاحبان حل و عقد کی شورا کے سامنے جوابدہی کے معاملے میں جمہوریت کے مترادف ہے۔ شورائے حل  و عقد  حکومت کو برطرف کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام معاشرے کے ہر فرد کو، مرد اور عورت دونوں کو اہل ایمان کی باہمی سرپرستی اور سماجی ذمہ داری کے احساس کی بنیاد پر حکمرانوں اور رہنماؤں پر تنقید کا حق دیتا ہے۔
 
== وفات ==
== وفات ==
30 صفر 1444 کو وفات پا گئے۔
30 صفر 1444 کو وفات پا گئے۔