3,871
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 109: | سطر 109: | ||
آیت اللہ سید دلدار علی نے زیارات سے واپسی پر تبلیغ دین کا کام درس و تدریس اور مؤمنین کو درس تبلیغ کی صورت میں شروع کیا ۔مؤمنین کی تبلیغ کا کام ابتدا میں ہر ہفتہ ایام کی مانسبت سے تبلیغ دین کے فرائض انجام دیتے اور پھر نماز جمعہ کے شروع ہونے کے بعد یہ تبلیغ دین مستقل طور پر شروع ہوئی۔آپ ہر نماز جمعہ کے بعد تبلیغ دین کرتے جس میں مذہب صوفیت کی بدعات کی قباحتیں اور دوسرے مسائل بیان کئے جاتے ۔ اس تبلیغ کی برکات سے صوفیت کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ۔یہ تبلیغی تقاریر اکثر اپنی کتاب مواعظہ حسنیہ سے مزین ہوتیں ۔اس دور کے علما کہ جن میں آپ بھی شامل ہیں، کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو <ref>مولانا خلیل الرحمان نعمانی،تحفۂ اثنا عشریہ(اردو) ص23۔</ref>۔ | آیت اللہ سید دلدار علی نے زیارات سے واپسی پر تبلیغ دین کا کام درس و تدریس اور مؤمنین کو درس تبلیغ کی صورت میں شروع کیا ۔مؤمنین کی تبلیغ کا کام ابتدا میں ہر ہفتہ ایام کی مانسبت سے تبلیغ دین کے فرائض انجام دیتے اور پھر نماز جمعہ کے شروع ہونے کے بعد یہ تبلیغ دین مستقل طور پر شروع ہوئی۔آپ ہر نماز جمعہ کے بعد تبلیغ دین کرتے جس میں مذہب صوفیت کی بدعات کی قباحتیں اور دوسرے مسائل بیان کئے جاتے ۔ اس تبلیغ کی برکات سے صوفیت کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ۔یہ تبلیغی تقاریر اکثر اپنی کتاب مواعظہ حسنیہ سے مزین ہوتیں ۔اس دور کے علما کہ جن میں آپ بھی شامل ہیں، کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو <ref>مولانا خلیل الرحمان نعمانی،تحفۂ اثنا عشریہ(اردو) ص23۔</ref>۔ | ||
== نماز جمعہ کا قیام == | == نماز جمعہ کا قیام == | ||
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔ | عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی۔ | ||
== علمی آثار == | |||
یوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریری کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں : | |||
{{کالم کی فہرست|3}} | |||
* مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔ | |||
* شہاب ثاقب: یہ کتاب مذہب صوفیت کے باطل نظریات خاص طور پر نظریۂ وحدت الوجود کے رد میں دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے مرتب ہے ۔ | |||
* منتہی الافکار (علم اصول فقہ) | |||
* حاشیہ ملا حمد اللہ شرح سلم العلوم۔ | |||
* اجازۂ مبسوطہ بہ حق سلطان العلماء۔ | |||
* حاشیہ شرح ہدایۃ الحکمہ ملا صدر الدین شیرازی۔ | |||
* اساس الاصول: یہ کتاب زیارات سے واپسی کے بعد جب اصولی مکتب اختیار کیا تو اسے تحریر کیا جس میں شرعی ادلہ اربعہ پر عقلی اور شرعی دلائل کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے نیز اس کتاب میں محمد امین استر آبادی کے بہت سے نظریات کا رد مذکور ہے ۔ یہ کتاب بہت سے نئے مطالب پر مشتمل ہے ۔ | |||
* الوصیحۃ و النصیحۃ (وصیت نامۂ غفران ماب):آیت اللہ سید دلدار علی نقوی نے اپنے بیٹے آیت اللہ سید محمد معروف رضوان مآب کو وصیتنامہ لکھا جو حقیقت میں ایک اخلاقی موعظہ حسنہ ہے۔ | |||
* شرح حدیقۃ المتقین (شرح باب الصوم اور باب الزکات)۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں مذکورہ ابواب کے علاوہ کچھ حصہ کتاب الطہارہ کا بھی شامل ہے۔ | |||
* مرآۃ العقول معروف بنام عماد الاسلام: یہ کتاب فخر الدین رازی کی کتاب نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول کا جواب ہے جسے رازی نے اشاعرہ عقیدے کے دفاع میں تصنیف کیا۔آیت اللہ سید دلدار علی نے اس کتاب کو 5 جلدوں:توحید ،عدل، نبوت، امامت، قیامت، میں مرتب کیا ۔ اسکے تمام باطلہ نظریات کو عقلی اور [[قرآن]] و سنت کی ادلہ کے ساتھ رد کیا ہے ۔اس کتاب کے متعلق خود لکھتے ہیں یہ کتاب علوم کثیرہ،تحقیقات انیقہ،مباحث دقیقہ پر مشتمل ہے۔اس کتاب کو بعض سادات کے ہاتھوں مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا اگرچہ وہ ایک مدت تک زندہ رہا لیکن اس نے اپنے مذہب کے دفاع میں کچھ نہیں لکھا ۔ | |||
* صوارم الالہیات فی قطع شبہات عابدی العزی و اللات معروف صوارم الٰہیات: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے باب توحید کے جواب میں میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب کو لکھنے کے بعد آیت اللہ دلدار علی نے بعض معظم سادات کے توسط سے عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا لیکن کتابیں حاصل کرنے کے بعد زندہ رہنے کے باوجود اپنے مذہب کے دفاع میں لکھنے سے عاجز رہا۔ | |||
* حسام الاسلام: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی تحفۂ اثنا عشریہ کے باب نبوت کا جواب ہے ۔صوارم اور حسام الاسلام 1218 ھ میں یہ 500 کی تعداد میں لکھنؤ سے چھپی۔یہ کتاب بھی اسے پہنچائی گئی لیکن اس نے جواب نہیں دیا ۔ | |||
* خاتمۂ صوارم: یہ کتاب مولوی عبد العزیز کی کتاب کی بحث امامت کا جواب ہے لیکن یہ صوارم کے ساتھ چاپ نہیں ہوا ۔ | |||
* کتاب احیاء السنۃ: یہ کتاب بھی مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ کے باب معاد اور اس کے متعلقات کا جواب ہے ۔ | |||
* ذوالفقار: یہ کتاب تولا اور تبرا کے موضوع کے متعلق لکھی گئی جو تحفۂ اثنا عشریہ کے بارھویں باب کا جواب ہے ۔1218 ھ سے 5یا 6 سال پہلے لکھی اور اسے عماد الاسلام کے ہمراہ مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا۔ | |||
* رسالۂ غیبت: مولوی بعد العزیز دہلوی کے امام زمانہ کی نسبت اعتراضات کا جواب ہے ۔ | |||
* رسالۂ جمعہ: اس رسالے کو نماز جمعہ کے اقامے سے پہلے تحریر کیا اور اس میں غیبت امام زمانہ میں نماز جمعہ کی جماعت کے قیام کو ادلہ واضحہ کے ساتھ بیان کیا ۔ | |||
* مولوی صوفی محمد سمیع کے جواب میں صوفیت کے رد میں رسالہ تحریر کیا۔ | |||
* مسکن القلوب: انبیائے کرام ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور بعض علمائے حقہ کی مشکلات کے متعلق 1231 ھ کے ماہ ذی الحجہ کے آخر میں اپنے فرزند سید مہدی کی وفات کے بعد میں لکھا ۔ | |||
* رسالۂ ارضین: اس نام سے معروف ہندوستان میں ہندؤں اور دیگران کے ساتھ املاک و دیگر معاملات کے مسائل کے متعلق رسالہ لکھا ۔ یہ رسالہ رسائل ارضیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا سن تحریر 1264 ھ ہے۔ | |||
* رسالۂ ذہبیہ: اس میں سونے اور چاندی کے برتنوں سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔ | |||
* اثارۃ الاحزان در احوال شہادت امام حسین علیہ السلام:اس احوال شہادت امام حسین علیہ السلام مذکور ہیں <ref>سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)، [https://www.maablib.org/scholar/allama-alsyed-dildar-ali-naqvi-guffran_maab/ maablib.org]</ref>۔ | |||
{{اختتام}} |