Jump to content

"سید روح اللہ موسوی خمینی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 243: سطر 243:
انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا <ref>امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4</ref>۔
انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا <ref>امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4</ref>۔


=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد ===
=== مکتب قرآن کے شاگرد ===
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوسری اہم بات جسے میں آج آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں اورمختصرا عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ اس طرح کی عظيم تحریک عام طورپر رجعت پسندی یا پسپائی جیسے مسائل سے دوچارہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے عظيم کارناموں کے سامنے رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئي شخص اسلام کےاصولوں اورفقہ اسلامی کے تناظر میں معاشرے کی تشکیل کرے لیکن وہ ظواہر پر ہی اکتفا کرلے اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی چاشنی اور معنوی کشش سے نا بلد رہے اور اس کا تشکیل کردہ نظام کسی قوم کسی ملک کے مسائل کے حل پر قادر نہ ہو۔ دیکھئے اسلامی تعلیمات کی ہر انسان کو ہر آن ضرورت رہتی ہے اب اگر اسلامی نظام کو تشکیل دینے والا شخص ان اصولوں، احکام اور تعلیمات سے بے خبر ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اگرایک ایسے سیاسی نظام کے سربراہوں کی حالت جواپنے نظام کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے دعوے کرتے ہیں ایسی ہوگي تویقینی طور پر اسلام بدنام ہوجائے گا اور اسلامی احکام و معارف کا لازوال سرچشمہ معاشرے کو سیراب نہیں کر سکے گا ۔ امام نےخود کواس آفت سے مبراکرلیاتھا ۔دوسری آفت وبلا جواس طرح کے مواقع پر حکام اورعہدیداروں کو خطرات سے دوچارکرتی ہے وہ موقف سے پسپائی ہے یہ ایک خطرہ ہے یہ ایک بڑاخطرہ ہے جو صاحبان فکر و نظر کو لاحق رہتا ہے۔ امام خمینی(رہ) اس آفت کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند ڈٹے رہے اورکوہسارکی مانند ثابت قدم رہے
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوسری اہم بات جسے میں آج آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں اورمختصرا عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ اس طرح کی عظيم تحریک عام طورپر رجعت پسندی یا پسپائی جیسے مسائل سے دوچارہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے عظيم کارناموں کے سامنے رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئي شخص اسلام کےاصولوں اورفقہ اسلامی کے تناظر میں معاشرے کی تشکیل کرے لیکن وہ ظواہر پر ہی اکتفا کرلے اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی چاشنی اور معنوی کشش سے نا بلد رہے اور اس کا تشکیل کردہ نظام کسی قوم کسی ملک کے مسائل کے حل پر قادر نہ ہو۔ دیکھئے اسلامی تعلیمات کی ہر انسان کو ہر آن ضرورت رہتی ہے اب اگر اسلامی نظام کو تشکیل دینے والا شخص ان اصولوں، احکام اور تعلیمات سے بے خبر ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اگرایک ایسے سیاسی نظام کے سربراہوں کی حالت جواپنے نظام کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے دعوے کرتے ہیں ایسی ہوگي تویقینی طور پر اسلام بدنام ہوجائے گا اور اسلامی احکام و معارف کا لازوال سرچشمہ معاشرے کو سیراب نہیں کر سکے گا ۔ امام نےخود کواس آفت سے مبراکرلیاتھا ۔دوسری آفت وبلا جواس طرح کے مواقع پر حکام اورعہدیداروں کو خطرات سے دوچارکرتی ہے وہ موقف سے پسپائی ہے یہ ایک خطرہ ہے یہ ایک بڑاخطرہ ہے جو صاحبان فکر و نظر کو لاحق رہتا ہے۔ امام خمینی(رہ) اس آفت کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند ڈٹے رہے اورکوہسارکی مانند ثابت قدم رہے
(کالجبل لاتحرکہ العواصف ) امام اس نظام کی تشکیل اور چھوٹے بڑے تمام امور میں ہمیشہ ثابت قدم رہے <ref>امام خمینی کی برسی میں شریک زائرین سے رہبرانقلاب اسلامی خطاب 1997-6-4</ref>۔
(کالجبل لاتحرکہ العواصف ) امام اس نظام کی تشکیل اور چھوٹے بڑے تمام امور میں ہمیشہ ثابت قدم رہے <ref>امام خمینی کی برسی میں شریک زائرین سے رہبرانقلاب اسلامی خطاب 1997-6-4</ref>۔
=== محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کے سپاہی ===
=== محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کے سپاہی ===
محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کا لشکر ہیں اور یہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا شاخصانہ تھا۔ دو چیزیں اس انقلاب کا گرانقدر سرمایہ تھیں اورہيں۔ ایک یہ ہے کہ انقلاب کا نصب العین اسلام اور دوسرے انقلاب کے سپاہی اوراس انقلاب کا لشکرمستضعف، ومحروم طبقہ اورجوان نسل ہے ۔ انقلاب کو مستضعف اورغریب طبقے نے کامیابی سے ہمکنارکیاہے اور آٹھ سالہ طویل جنگ کو اس مملکت کے جوانوں نے فتح مبیں میں تبدیل کر دیا اورآج بھی ہمارے جوان اللہ اوراس کے دین کی راہ میں قدم بڑھارہے ۔آج بھی اگر انقلاب کوکوئی خطرہ لاحق ہوگا توسب سے پہلے میدان میں جولوگ اتریں گے وہ ہمارے نوجوان ہوں گے ۔دینی تعلیمی مراکز کے نوجوان یونیورسٹیوں کے نوجوان پورے ملک کے نوجوان اورمختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے نوجوان اورافراد ہوں گے جواس انقلاب کی حفاظت کے لئے میدان میں قدم رکھیں گے ۔امام خمینی اپنے پورے وجود کےساتھ اسلام کے شیدائی تھے اور آج سب لوگ پورے وجود کےساتھ امام کوچاہتے ہيں۔ امام کی باتیں بہت ہی صاف وشفاف ہیں ان کے کلمات واضح کلمات ہيں ان کے کلمات قرآنی جھلک ہے ۔ امام کے خطابات اوران کی باتیں آج بھی فضا میں گونج رہی ہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ اپنے امام کے ساتھ امت کا دائمی میثاق ہے۔ سب کوچاہئے کہ ان کی ان باتوں کوصحیح طریقے سے درک کریں اوران میں غور و فکر کریں تاکہ امام کی راہ کو صحیح طور پر پہچان سکیں اوراس میں کوئي غلطی نہ کریں ۔جولوگ امام سے محبت کادم بھرتے ہيں لیکن امام کے افکار ان کی راہ و تعلیمات سے دور ہیں ہو امام خمینی(رہ) کے شیدائي نہیں کہے جا سکتے <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نويں برسی میں شریک سوگواروں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کےخطاب سے اقتباس 1998-6-4</ref>۔
محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کا لشکر ہیں اور یہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا شاخصانہ تھا۔ دو چیزیں اس انقلاب کا گرانقدر سرمایہ تھیں اورہيں۔ ایک یہ ہے کہ انقلاب کا نصب العین اسلام اور دوسرے انقلاب کے سپاہی اوراس انقلاب کا لشکرمستضعف، ومحروم طبقہ اورجوان نسل ہے ۔ انقلاب کو مستضعف اورغریب طبقے نے کامیابی سے ہمکنارکیاہے اور آٹھ سالہ طویل جنگ کو اس مملکت کے جوانوں نے فتح مبیں میں تبدیل کر دیا اورآج بھی ہمارے جوان اللہ اوراس کے دین کی راہ میں قدم بڑھارہے ۔آج بھی اگر انقلاب کوکوئی خطرہ لاحق ہوگا توسب سے پہلے میدان میں جولوگ اتریں گے وہ ہمارے نوجوان ہوں گے ۔دینی تعلیمی مراکز کے نوجوان یونیورسٹیوں کے نوجوان پورے ملک کے نوجوان اورمختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے نوجوان اورافراد ہوں گے جواس انقلاب کی حفاظت کے لئے میدان میں قدم رکھیں گے ۔امام خمینی اپنے پورے وجود کےساتھ اسلام کے شیدائی تھے اور آج سب لوگ پورے وجود کےساتھ امام کوچاہتے ہيں۔ امام کی باتیں بہت ہی صاف وشفاف ہیں ان کے کلمات واضح کلمات ہيں ان کے کلمات قرآنی جھلک ہے ۔ امام کے خطابات اوران کی باتیں آج بھی فضا میں گونج رہی ہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ اپنے امام کے ساتھ امت کا دائمی میثاق ہے۔ سب کوچاہئے کہ ان کی ان باتوں کوصحیح طریقے سے درک کریں اوران میں غور و فکر کریں تاکہ امام کی راہ کو صحیح طور پر پہچان سکیں اوراس میں کوئي غلطی نہ کریں ۔جولوگ امام سے محبت کادم بھرتے ہيں لیکن امام کے افکار ان کی راہ و تعلیمات سے دور ہیں ہو امام خمینی(رہ) کے شیدائي نہیں کہے جا سکتے <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نويں برسی میں شریک سوگواروں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کےخطاب سے اقتباس 1998-6-4</ref>۔