Jump to content

"سید روح اللہ موسوی خمینی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17: سطر 17:
| known for = {{hlist|مرجع تقلید |بانی انقلاب اسلامی}}
| known for = {{hlist|مرجع تقلید |بانی انقلاب اسلامی}}
}}
}}
'''سید روح اللہ موسوی خمینی''' (1281ء تا 1368ء) جو کہ امام خمینی کے نام سے جانے جاتے ہیں، [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]] کے بانی، فقیہ، اصولی اور عصر حاضر کے شیعہ مراجع میں سے ایک تھے،آپ 20 جمادی الآخرہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام]] کی پیاری بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کا یوم ولادت سنہ 1320 ہجری بمطابق یکم مہر 1281 ہجری اور 24 ستمبر 1902 ہجری کو پیدا ہوئے۔ آپ کے جد اعلی سید حیدر علی موسوی اردبیلی اپنے سسر میر سید علی ہمدانی کے ساتھ دین اسلام اور تشیع کی تبلیغ کے لیے آٹھویں ھجری کو ایران سے کشمیر ہجرت کی <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص78</ref>۔ ان کے دادا سید احمد دینی تعلیم حاصل کرنے نجف گئے تھے، اہل خمین کی دعوت پر ایران میں واپس آئے اور خمین میں سکونت اختیار کی <ref>ایضا، ص79</ref>۔ آیت اللہ سید روح اللہ مصطفوی موسوی خمینی معروف امام خمینی 1902 میں خمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید مصطفی، خمین کے ممتاز علماء میں سے تھے، جو قاجار دور کے آخری سالوں کے کشیدہ سیاسی حالات میں لوگوں کے لیے پناہ گاہ اور ان کے امان کی جگہ تھے۔
'''سید روح اللہ موسوی خمینی''' (1281ء تا 1368ء) جو کہ امام خمینی کے نام سے جانے جاتے ہیں، [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]] کے بانی، فقیہ، اصولی اور عصر حاضر کے شیعہ مراجع میں سے ایک تھے،آپ 20 جمادی الآخرہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام]] کی پیاری بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کا یوم ولادت سنہ 1320 ہجری بمطابق یکم مہر 1281 ہجری اور 24 ستمبر 1902 ہجری کو پیدا ہوئے۔ آپ کے جد اعلی سید حیدر علی موسوی اردبیلی اپنے سسر میر سید علی ہمدانی کے ساتھ دین اسلام اور تشیع کی تبلیغ کے لیے آٹھویں ھجری کو ایران سے کشمیر ہجرت کی <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص78</ref>۔ ان کے دادا سید احمد دینی تعلیم حاصل کرنے نجف گئے تھے، اہل خمین کی دعوت پر ایران میں واپس آئے اور خمین میں سکونت اختیار کی <ref>ایضا، ص79</ref>۔ آپ 1902 میں خمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید مصطفی، خمین کے ممتاز علماء میں سے تھے، جو قاجار دور کے آخری سالوں کے کشیدہ سیاسی حالات میں لوگوں کے لیے پناہ گاہ اور ان کے امان کی جگہ تھے۔
امام نے اپنے آبائی شہر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اپنے بھائی آیت اللہ پسندیدہ سے بنیادی علوم سیکھے۔ آیت اللہ عبد الکریم حائری یزدی کے ذریعہ اراک اور پھر قم میں مدرسہ کے قیام کے ساتھ ہی آپ ان شہروں میں گئے اورفقہ واصول کے درس خارج پڑھنے کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کی اور حوزہ قم میں مدرس  منتخب ہوئے۔
امام نے اپنے آبائی شہر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اپنے بھائی آیت اللہ پسندیدہ سے بنیادی علوم سیکھے۔ آیت اللہ عبد الکریم حائری یزدی کے ذریعہ اراک اور پھر قم میں مدرسہ کے قیام کے ساتھ ہی آپ ان شہروں میں گئے اورفقہ واصول کے درس خارج پڑھنے کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کی اور حوزہ قم میں مدرس  منتخب ہوئے۔
آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد رضا شاہ کے دور حکومت اورحجاب کے تحفظ کے دوران شروع کی۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کے دوران انہوں نے اس کی حمایت کی اوراس کے بعد حوزہ قم کے امور کی اصلاح کی تھی۔
آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد رضا شاہ کے دور حکومت اورحجاب کے تحفظ کے دوران شروع کی۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کے دوران انہوں نے اس کی حمایت کی اوراس کے بعد حوزہ قم کے امور کی اصلاح کی تھی۔
1341 میں شاہ کے سفید انقلاب پر ریفرنڈم کرانے کے سنجیدہ فیصلے کا امام نے بائیکاٹ کیا۔ 1342 کے شروع میں [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق]] کی شہادت کی مناسبت سے قم میں مجالس منعقد ہوئیں۔ 2اپریل کو، حکومت نے اسی موقع پرمدرسہ فیضیہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کیا اور علماء کو زدوکوب کیا۔ واقعہ فیضیہ کے چالیس دن بعد، امام خمینی نے محمد رضا شاہ کے خلاف سخت تقریر کی، جس کی وجہ سے جون 1963 میں گرفتار ہوئے۔ نومبر 1964 میں کیپٹلیشن ایکٹ کے نفاذ کے دوران، انہوں نے شاہ کے خلاف ایک اور سخت تنقیدی تقریر کی، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے ترکی اور پھر نجف اشرف بھیج دیا گیا۔
1341 میں شاہ کے سفید انقلاب پر ریفرنڈم کرانے کے سنجیدہ فیصلے کا امام نے بائیکاٹ کیا۔ 1342 کے شروع میں [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق]] کی شہادت کی مناسبت سے قم میں مجالس منعقد ہوئیں۔ 2اپریل کو، حکومت نے اسی موقع پرمدرسہ فیضیہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کیا اور علماء کو زدوکوب کیا۔ واقعہ فیضیہ کے چالیس دن بعد، انہوں نے محمد رضا شاہ کے خلاف سخت تقریر کی، جس کی وجہ سے جون 1963 میں گرفتار ہوئے۔ نومبر 1964 میں کیپٹلیشن ایکٹ کے نفاذ کے دوران، انہوں نے شاہ کے خلاف ایک اور سخت تنقیدی تقریر کی، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے ترکی اور پھر نجف اشرف بھیج دیا گیا۔
1977 میں ان کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ کو شہید کردیا گیا اورملک بھرمیں لوگوں نے پہلوی حکومت پرحملہ کرنے کے بہانے سوگ کی تقریبات منعقد کیں۔ ان مظاہروں کے پھیلاؤ نے پہلوی حکومت کو امام کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے عراق کی بعثی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کرنے پرمجبورکیا۔ چنانچہ امام نے کویت جانے کا فیصلہ کیا جسے حکومت نے روک دیا تھا۔ اس کے بعد وہ فرانس چلا گیا اورنوول لوساتو میں سکونت اختیار کی۔ ایران میں عوام کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے اور شاہ کے 17 دسمبر 1978 کو ملک چھوڑنے کے بعد امام 3 فروری 1979 کو شاندار استقبال اور لاکھوں لوگوں کے درمیان وطن واپس تشریف لائے۔
1977 میں ان کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ کو شہید کردیا گیا اورملک بھرمیں لوگوں نے پہلوی حکومت پرحملہ کرنے کے بہانے سوگ کی تقریبات منعقد کیں۔ ان مظاہروں کے پھیلاؤ نے پہلوی حکومت کو امام کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے عراق کی بعثی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کرنے پرمجبورکیا۔ چنانچہ آپ نے کویت جانے کا فیصلہ کیا جسے حکومت نے روک دیا تھا۔ اس کے بعد وہ فرانس چلا گیا اورنوول لوساتو میں سکونت اختیار کی۔ ایران میں عوام کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے اور شاہ کے 17 دسمبر 1978 کو ملک چھوڑنے کے بعد آپ  3 فروری 1979 کو شاندار استقبال اور لاکھوں لوگوں کے درمیان وطن واپس تشریف لائے۔
امام کا انتقال 3 جون 1989 کو ہوا۔ ان کے جسد خاکی کو تہران میں بہشت زہرا میں پورے ملک کے لوگوں کے شاندار جنازے کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
امام کا انتقال 3 جون 1989 کو ہوا۔ ان کے جسد خاکی کو تہران میں بہشت زہرا میں پورے ملک کے لوگوں کے شاندار جنازے کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
<ref>امام خمینی، [https://ur.icro.ir/%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C icro.ir]</ref>۔
<ref>امام خمینی، [https://ur.icro.ir/%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C icro.ir]</ref>۔
== پہلا دور (1281 سے 1300 تک) ==
== پہلا دور (1281 سے 1300 تک) ==
=== خاندان ===
=== خاندان ===
امام کے والد آغا مصطفٰی کا شمار علاقہ خمین کی علمی اور ممتاژ شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے نجف اور سامرہ میں دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور خمینی واپس آنے کے بعد [[اسلام]] کے احکام کی اشاعت کی، لوگوں کے مطالبات پر توجہ دی اور بعض ظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کی۔ آخر کار آپ 1281 ہجری بمطابق 12 ذوالقعدہ 1320 ہجری کے موسم سرما میں خمین اراک کی سڑک پر مقامی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوئے <ref>ایضا، ص88، 90 و 122</ref>۔ ان کے پاکیزہ جسم کو نجف اشرف لے جایا گیا اور [[علی ابن ابی طالب|حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام]] کے مزار پاک کے قریب دفنایا گیا۔ سید روح اللہ، جو اس وقت صرف پانچ ماہ کے تھے، بعد میں اپنے والد کی کہانی سن کر ان سے محبت کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر کرتے تھے۔ بالغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنا تخلص مصطفوی رکھا <ref>ایضا، ص105</ref>۔ اور جوانی میں وہ اپنی بعض تحریروں کا اختتام ابن الشہید سے کرتے تھے <ref>خاطرات آیت‌اللّه پسندیده (گفته‌ها و نوشته‌ها) - یادها، 9</ref>۔
آپ کے والد آغا مصطفٰی کا شمار علاقہ خمین کی علمی اور ممتاژ شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے نجف اور سامرہ میں دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور خمینی واپس آنے کے بعد [[اسلام]] کے احکام کی اشاعت کی، لوگوں کے مطالبات پر توجہ دی اور بعض ظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کی۔ آخر کار آپ 1281 ہجری بمطابق 12 ذوالقعدہ 1320 ہجری کے موسم سرما میں خمین اراک کی سڑک پر مقامی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوئے <ref>ایضا، ص88، 90 و 122</ref>۔ ان کے پاکیزہ جسم کو نجف اشرف لے جایا گیا اور [[علی ابن ابی طالب|حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام]] کے مزار پاک کے قریب دفنایا گیا۔ سید روح اللہ، جو اس وقت صرف پانچ ماہ کے تھے، بعد میں اپنے والد کی کہانی سن کر ان سے محبت کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر کرتے تھے۔ بالغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنا تخلص مصطفوی رکھا <ref>ایضا، ص105</ref>۔ اور جوانی میں وہ اپنی بعض تحریروں کا اختتام ابن الشہید سے کرتے تھے <ref>خاطرات آیت‌اللّه پسندیده (گفته‌ها و نوشته‌ها) - یادها، 9</ref>۔


== بچپن اور جوانی ==
== بچپن اور جوانی ==
اپنے والد کے وفات کے بعد، روح اللہ کی پرورش ایک مہربان ماں (بانو ھاجر) کی گود میں ہوئی اور ایک دلسوز خالہ (صاحب خانم) اور ایک نیک دایہ کی دیکھ بھال میں ہوئی۔ روح اللہ کا بچپن اور جوانی ایک ساتھ ایران کے سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گزری۔ آپ اپنی زندگی کے آغاز سے ہی لوگوں کے دکھ درد اور معاشرے کے مسائل سے واقف تھے اور پینٹنگز کی شکل میں لکیریں کھینچ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ دفاعی مورچہ میں اپنے خاندان اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اس کی کردار سازی اور آبیاری کی گئی، اور آپ نے گھوڑا سواری، گولہ باری اور شوٹنگ کی بنیادی تربیت حاصل کی، اور آپ واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ایک مکمل مجاہد بن گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)،، ص131</ref>۔ اس دور کے کچھ متاثر کن واقعات، جیسے مجلس پر بم دھماکے، ان کی پینٹنگز  اور خطاطی کی مشقیں ان کے بچپن اور نوجوانی میں جھلکتی ہیں۔ جس کی ایک مثال نوعمری (9-10 سال کی عمر) میں شاعر کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ایرانی قوم کو مخاطب ہو کر کہا تھا "دینی غیرت اور قومی تحریک کہاں ہے" کے عنوان سے ہے <ref>کوثر(مجموعه سخنرانی‌های حضرت امام...)، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام... ، چاپ اول: 1371، جلد اول، ص615</ref>۔
اپنے والد کے وفات کے بعد، روح اللہ کی پرورش ایک مہربان ماں (بانو ھاجر) کی گود میں ہوئی اور ایک دلسوز خالہ (صاحب خانم) اور ایک نیک دایہ کی دیکھ بھال میں ہوئی۔ آپ کا بچپن اور جوانی ایک ساتھ ایران کے سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گزری۔ آپ اپنی زندگی کے آغاز سے ہی لوگوں کے دکھ درد اور معاشرے کے مسائل سے واقف تھے اور پینٹنگز کی شکل میں لکیریں کھینچ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ دفاعی مورچہ میں اپنے خاندان اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اس کی کردار سازی اور آبیاری کی گئی، اور آپ نے گھوڑا سواری، گولہ باری اور شوٹنگ کی بنیادی تربیت حاصل کی، اور آپ واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ایک مکمل مجاہد بن گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)،، ص131</ref>۔ اس دور کے کچھ متاثر کن واقعات، جیسے مجلس پر بم دھماکے، ان کی پینٹنگز  اور خطاطی کی مشقیں ان کے بچپن اور نوجوانی میں جھلکتی ہیں۔ جس کی ایک مثال نوعمری (9-10 سال کی عمر) میں شاعر کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ایرانی قوم کو مخاطب ہو کر کہا تھا "دینی غیرت اور قومی تحریک کہاں ہے" کے عنوان سے ہے <ref>کوثر(مجموعه سخنرانی‌های حضرت امام...)، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام... ، چاپ اول: 1371، جلد اول، ص615</ref>۔
اہل ایران سے خطاب، اس تحریر کو روح اللہ کے نوعمری کے پہلے سیاسی بیان کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے اور ملکی مسائل کے بارے میں ان کی فکری اور نظریاتی سوچ کا مطالعہ کیا سکتا ہے۔ روح اللہ کا جھکاؤ ہیروز اور جنگجوؤں کی طرف اس حد تک تھا کہ وہ جنگل کی تحریک میں مرزا کے بیان میں شاعری کے اظہار اور لکھنے کی حد سے آگے نکل گیا، اس نے جنگل کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنا چاہی اور جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو آپ کے پاس اس کی درخواست پر کچھ کھانے کی چیزوں کا انتظام کیا خود اور اپنے بھائی کے نام پر جنگل کو بھیجا گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص232.</ref>۔ ایک دفعہ انہیں مشہد سے واپسی پر جنگل کا سفر کرنے کا موقع ملا اور مرزا کے اڈے کو قریب سے دیکھا۔
اہل ایران سے خطاب، اس تحریر کو آپ کے نوعمری کے پہلے سیاسی بیان کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے اور ملکی مسائل کے بارے میں ان کی فکری اور نظریاتی سوچ کا مطالعہ کیا سکتا ہے۔ان کا جھکاؤ ہیروز اور جنگجوؤں کی طرف اس حد تک تھا کہ وہ جنگل کی تحریک میں مرزا کے بیان میں شاعری کے اظہار اور لکھنے کی حد سے آگے نکل گیا، اس نے جنگل کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنا چاہی اور جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو آپ کے پاس اس کی درخواست پر کچھ کھانے کی چیزوں کا انتظام کیا خود اور اپنے بھائی کے نام پر جنگل کو بھیجا گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص232.</ref>۔ ایک دفعہ انہیں مشہد سے واپسی پر جنگل کا سفر کرنے کا موقع ملا اور مرزا کے اڈے کو قریب سے دیکھا۔
=== تعلیم ===
=== تعلیم ===
سید روح اللہ نے بچپن ہی سے تعلیم کا آغاز کیا۔ میرزا محمود اور میرزا محمد مہدی نام کے اساتذہ ان کے گھر آئے اور انہیں پڑھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ملا ابوالقاسم نامی ایک اور استاد سے گلستان اور بوستان سعدی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر نئے علوم سے مستفید ہونے کے لیے اسکول گئے۔ کچھ عرصے تک آپ نے اپنے بڑے بھائی (آقا مرتضی) کے ساتھ خطاطی اور ابتدائی علوم (سیوطی، منطق اور مطول) کا درس پڑھا <ref>ایضا،ص192 و 193</ref>۔
آپ نے بچپن ہی سے تعلیم کا آغاز کیا۔ میرزا محمود اور میرزا محمد مہدی نام کے اساتذہ ان کے گھر آئے اور انہیں پڑھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ملا ابوالقاسم نامی ایک اور استاد سے گلستان اور بوستان سعدی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر نئے علوم سے مستفید ہونے کے لیے اسکول گئے۔ کچھ عرصے تک آپ نے اپنے بڑے بھائی (آقا مرتضی) کے ساتھ خطاطی اور ابتدائی علوم (سیوطی، منطق اور مطول) کا درس پڑھا <ref>ایضا،ص192 و 193</ref>۔
=== نوجوانی اور ہجرت ===
=== نوجوانی اور ہجرت ===
سنہ 1300 ہجری بمطابق 1339 ہجری میں 19 سال کی عمر میں آپ نے آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی کی نگرانی میں چلنے والے مدرسہ سپھدار  سے استفادہ کے لیے اراک چلے گئے۔ وہاں انہوں نے آغا شیخ محمد گلپایگانی کے پاس منطق، آغا مرزا محمد علی بروجردی سے مطول اور آغا عباس اراکی سے شرح لمعہ جیسے علوم کی تعلیم حاصل کی۔
سنہ 1300 ہجری بمطابق 1339 ہجری میں 19 سال کی عمر میں آپ نے آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی کی نگرانی میں چلنے والے مدرسہ سپھدار  سے استفادہ کے لیے اراک چلے گئے۔ وہاں انہوں نے آغا شیخ محمد گلپایگانی کے پاس منطق، آغا مرزا محمد علی بروجردی سے مطول اور آغا عباس اراکی سے شرح لمعہ جیسے علوم کی تعلیم حاصل کی۔
سطر 39: سطر 39:


== زندگی کا دوسرا دور (1300 سے 1320 تک) ==
== زندگی کا دوسرا دور (1300 سے 1320 تک) ==
روح اللہ کی زندگی کا یہ دور ان کی قم کی طرف ہجرت کے ساتھ شروع ہوا اور رضا خانی دور (1320-1304) کی سیکولرائزیشن پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوا۔ اس وقت روح اللہ مطالعہ، تدریس، کتابیں لکھنے، اور ممتاز اور مبارز علماء، جیسے: حاج آغا نور اللہ اصفہانی <ref>آیت‌الله پسندیده و آیت‌الله مظاهری، خبرنامه نخستین همایش حاج آقا نورالله اصفهانی، شماره اول، ص16-17 و شماره دوم، ص13-12</ref>۔ ، سید حسن مدرس <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص376 و صحیفه نور، جلد 1، ص255 تا 266</ref>۔ اور کچھ دوسرے علماء کو جاننے میں مصروف تھے۔ رضا خان کی گھٹن دور میں علماء کا ہدف قم کے علمی میدان کو بچانا تھا جس کا ثمر عوام کی قیادت اور 1957 میں اسلامی حکومت کے قیام میں نظر آیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود سیاسی شخصیت کی نشوونما اور جوانوں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا کرنے میں آیت اللہ سید حسن مدرس کا ناقابل تلافی کردار قابل توجہ ہے۔ 1301ھ (1340ھ) میں 20 سال کی عمر میں آغا سید روح اللہ اپنے استاد حضرت آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی، حوزہ قم کے بانی کے ساتھ اس شہر میں ہجرت کر گئے۔ آپ نے آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی کے ساتھ سطحی دروس مکمل کیا اور اس کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کرنے تک آیت اللہ حائری کے درس خارج میں شرکت کی۔
آپ کی زندگی کا یہ دور ان کی قم کی طرف ہجرت کے ساتھ شروع ہوا اور رضا خانی دور (1320-1304) کی سیکولرائزیشن پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوا۔ اس وقت آپ مطالعہ، تدریس، کتابیں لکھنے، اور ممتاز اور مبارز علماء، جیسے: حاج آغا نور اللہ اصفہانی <ref>آیت‌الله پسندیده و آیت‌الله مظاهری، خبرنامه نخستین همایش حاج آقا نورالله اصفهانی، شماره اول، ص16-17 و شماره دوم، ص13-12</ref>۔ ، سید حسن مدرس <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص376 و صحیفه نور، جلد 1، ص255 تا 266</ref>۔ اور کچھ دوسرے علماء کو پہچاننے  میں مصروف تھے۔ رضا خان کی گھٹن دور میں علماء کا ہدف قم کے علمی میدان کو بچانا تھا جس کا ثمر عوام کی قیادت اور 1957 میں اسلامی حکومت کے قیام میں نظر آیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود سیاسی شخصیت کی نشوونما اور جوانوں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا کرنے میں آیت اللہ سید حسن مدرس کا ناقابل تلافی کردار قابل توجہ ہے۔ 1301ھ (1340ھ) میں 20 سال کی عمر میں آغا سید روح اللہ اپنے استاد حضرت آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی، حوزہ قم کے بانی کے ساتھ اس شہر میں ہجرت کر گئے۔ آپ نے آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی کے ساتھ سطحی دروس مکمل کیا اور اس کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کرنے تک آیت اللہ حائری کے درس خارج میں شرکت کی۔


== شادی ==
== شادی ==
1308 میں، 27 سال کی عمر میں آغا روح اللہ نے مرزا محمد ثقفی تہرانی کی بیٹی خدیجہ ثقفی سے شادی کی۔ اس شادی کے ثمرات میں سید مصطفیٰ خمینی (1309ھ)، سید احمد خمینی (1324ھ)، سید فریدہ، سید زہرا اور سیدہ صدیقہ نامی بچے تھے۔
1308 میں، 27 سال کی عمر میں آپ نے مرزا محمد ثقفی تہرانی کی بیٹی خدیجہ ثقفی سے شادی کی۔ اس شادی کے ثمرات میں سید مصطفیٰ خمینی (1309ھ)، سید احمد خمینی (1324ھ)، سید فریدہ، سید زہرا اور سیدہ صدیقہ نامی بچے تھے۔


== علمی شخصیت ==
== علمی شخصیت ==
سید روح اللہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے علوم کے مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کی، اور فقہ اور اصول کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور عرفان کی اعلیٰ ترین سطح پر اس زمانے کے ممتاز اساتذہ جیسے (آیت اللہ حاج سید ابوالحسن رفیع قزوینی اور آیت اللہ مرزا محمد علی شاہ آبادی) سے قم میں تعلیم حاصل کی اور 6 سال کے عرصے میں آپ نے علم و عرفان کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1315ھ (1355ھ) میں جب حضرت آیت اللہ حائری کی وفات ہوئی تو حاج آغا روح اللہ حوزہ علمیہ قم کی مشہور علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔
آپ  اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے علوم کے مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کی، اور فقہ اور اصول کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور عرفان کی اعلیٰ ترین سطح پر اس زمانے کے ممتاز اساتذہ جیسے (آیت اللہ حاج سید ابوالحسن رفیع قزوینی اور آیت اللہ مرزا محمد علی شاہ آبادی) سے قم میں تعلیم حاصل کی اور 6 سال کے عرصے میں آپ نے علم و عرفان کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1315ھ (1355ھ) میں جب حضرت آیت اللہ حائری کی وفات ہوئی تو حاج آغا روح اللہ حوزہ علمیہ قم کی مشہور علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔
=== فلسفہ کی تدریس ===
=== فلسفہ کی تدریس ===
آپ کے فلسفے کے درس 28 سال کی عمر سے پہلے 1308 (1348ھ) میں شروع ہو چکے تھے۔ اس وقت آپ مدرسہ دارالشفاء میں رہتے تھے اور ان کا شمار فلسفہ اور حکمت الہی کے عظیم استادوں میں ہوتا تھا۔ ان کے شاگردوں کا شمار حوزہ علمیہ قم کی دانشمند اور فکر انگیز شخصیات میں ہوتا تھا۔ حاج آغا روح اللہ نے خود ان کا انتخاب کیا اور باقاعدہ تحریری اور زبانی طور پر ان سے امتحان لیا۔
آپ کے فلسفے کے درس 28 سال کی عمر سے پہلے 1308 (1348ھ) میں شروع ہو چکے تھے۔ اس وقت آپ مدرسہ دارالشفاء میں رہتے تھے اور ان کا شمار فلسفہ اور حکمت الہی کے عظیم استادوں میں ہوتا تھا۔ ان کے شاگردوں کا شمار حوزہ علمیہ قم کی دانشمند اور فکر انگیز شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے خود ان کا انتخاب کیا اور باقاعدہ تحریری اور زبانی طور پر ان سے امتحان لیا۔
=== عرفان کی تعلیم ===
=== عرفان کی تعلیم ===
امام کے دروس میں سے ایک اور درس عرفان کا درس تھا۔ یہ درس خاص اور قابل اعتماد طلباء کے لیے تھا۔ عرفان ان کی اہم دلچسپیوں میں سے ایک تھا۔ اس طرح کہ 1307 میں انہوں نے '''شرح دعائے سحر''' نامی کتاب لکھی جو [[رمضان|ماہ رمضان]] میں [[محمدبن علی|امام محمد باقر]] کی پڑھی جانے والی دعا کی جامع تفسیر تھی۔ دو سال بعد انہوں  نے '''مصباح الہدایہ الی خلافت و الولایہ''' لکھی۔ ان سالوں میں ان کی ایک اور تصنیف '''تفسیر فصوص قیصری'''کا مجموعہ تھا۔ عرفان کا ان کی فکری اور روحانی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی بڑا اثر تھا۔
آپ  کے دروس میں سے ایک اور درس عرفان کا درس تھا۔ یہ درس خاص اور قابل اعتماد طلباء کے لیے تھا۔ عرفان ان کی اہم دلچسپیوں میں سے ایک تھا۔ اس طرح کہ 1307 میں انہوں نے '''شرح دعائے سحر''' نامی کتاب لکھی جو [[رمضان|ماہ رمضان]] میں [[محمدبن علی|امام محمد باقر]] کی پڑھی جانے والی دعا کی جامع تفسیر تھی۔ دو سال بعد انہوں  نے '''مصباح الہدایہ الی خلافت و الولایہ''' لکھی۔ ان سالوں میں ان کی ایک اور تصنیف '''تفسیر فصوص قیصری'''کا مجموعہ تھا۔ عرفان کا ان کی فکری اور روحانی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی بڑا اثر تھا۔
=== درس اخلاق ===
=== درس اخلاق ===
آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد پہلا درس جو آغا روح اللہ نے شروع کیا اور طلباء اور عام لوگوں نے اس کا استقبال کیا وہ اخلاق کا درس تھا۔ اس درس میں، مختلف مواقع پر، آپ نے پہلوی اول کی حکومت اور ڈی اسلامائزیشن کی ریاست کے بارے میں بیان کیا اور کبھی طنزیہ انداز میں پہلوی حکومت پر تنقید کی، جس کے نتیجے میں رضا خان کی حکومت نے آپ کو وارننگ دی۔ قم میں نئی قائم ہونے والی پہلوی حکومت کے پولیس افسران نے فیضیہ میں اس درس کو جاری رکھنے سے روک دیا۔ آغا روح اللہ نے بھی اپنے دروس کو مدرسہ حاج ملا صادق میں منتقل کیا۔ '''اربعین حدیث''' کی کتاب اس اخلاقی -عرفانی دروس کے نتائج میں سے ایک ہے۔
آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد پہلا درس جو آپ  نے شروع کیا اور طلباء اور عام لوگوں نے اس کا استقبال کیا وہ اخلاق کا درس تھا۔ اس درس میں، مختلف مواقع پر، آپ نے پہلوی اول کی حکومت اور ڈی اسلامائزیشن کی ریاست کے بارے میں بیان کیا اور کبھی طنزیہ انداز میں پہلوی حکومت پر تنقید کی، جس کے نتیجے میں رضا خان کی حکومت نے آپ کو وارننگ دی۔ قم میں نئی قائم ہونے والی پہلوی حکومت کے پولیس افسران نے فیضیہ میں اس درس کو جاری رکھنے سے روک دیا۔ آغا روح اللہ نے بھی اپنے دروس کو مدرسہ حاج ملا صادق میں منتقل کیا۔ '''اربعین حدیث''' کی کتاب اس اخلاقی -عرفانی دروس کے نتائج میں سے ایک ہے۔


== زندگی کا تیسرا دور (1320 سے 1340 تک) ==
== زندگی کا تیسرا دور (1320 سے 1340 تک) ==
آیت اللہ حاج آغا روح اللہ کی زندگی کا یہ دور چالیس سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ ان کے عقلی اور فلسفیانہ علوم و تحقیق کے وسیع علم نے انہیں حوزہ علمیہ قم کے فلسفہ کے پہلے اساتذہ میں سے ایک بنا دیا۔ آپ مکتب [[اسلام]] پر فکری شکوک و شبہات اور اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ جیسا کہ آپ نے کتاب '''کشف الاسرار''' کی کتاب '''اسرار ہزار سالہ''' کے جواب میں تصنیف کی۔
آپ کی زندگی کا یہ دور چالیس سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ ان کے عقلی اور فلسفیانہ علوم و تحقیق کے وسیع علم نے انہیں حوزہ علمیہ قم کے فلسفہ کے پہلے اساتذہ میں سے ایک بنا دیا۔ آپ مکتب [[اسلام]] پر فکری شکوک و شبہات اور اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ جیسا کہ آپ نے کتاب '''کشف الاسرار''' کی کتاب '''اسرار ہزار سالہ''' کے جواب میں تصنیف کی۔
حوزہ علمیہ قم آیت اللہ حائری کی وفات (1315ھ) اور پہلوی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ 20 کی دہائی کے آغاز اور رضا خان کے زوال کے ساتھ ہی مرجع عظمی کےحصول کا راہ ہموار ہو گیا۔ آیت اللہ بروجردی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے جو مرحوم حائری اور حوزہ کی حفاظت کے مناسب جانشین ہوسکتے تھے۔ اس تجویز پر جلد ہی آیت اللہ حائری کے طلباء بشمول حاج آغا روح اللہ نے عمل کیا۔ حاج آغا روح اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو قم کی طرف ہجرت کی دعوت دینے اور حوزہ کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرنے میں بھرپور کوشش کی۔ اپنے گرانقدر اہداف کے حصول کے لیے 1328ھ میں آیت اللہ مرتضی حائری کے تعاون سے مدرسہ علمیہ کے ڈھانچے پر نظر ثانی کا منصوبہ تیار کیا۔ تاہم اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
حوزہ علمیہ قم آیت اللہ حائری کی وفات (1315ھ) اور پہلوی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ 20 کی دہائی کے آغاز اور رضا خان کے زوال کے ساتھ ہی مرجع عظمی کےحصول کا راہ ہموار ہو گیا۔ آیت اللہ بروجردی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے جو مرحوم حائری اور حوزہ کی حفاظت کے مناسب جانشین ہوسکتے تھے۔ اس تجویز پر جلد ہی آیت اللہ حائری کے طلباء بشمول امام خمینی نے عمل کیا۔ آپ نے آیت اللہ بروجردی کو قم کی طرف ہجرت کی دعوت دینے اور حوزہ کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرنے میں بھرپور کوشش کی۔ اپنے گرانقدر اہداف کے حصول کے لیے 1328ھ میں آیت اللہ مرتضی حائری کے تعاون سے مدرسہ علمیہ کے ڈھانچے پر نظر ثانی کا منصوبہ تیار کیا۔ تاہم اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔


== فقہ اور اصول کا درس خارج ==
== فقہ اور اصول کا درس خارج ==
آیت اللہ حاج آغا سید روح اللہ نے 44 سال کی عمر میں (1364 ہجری) میں فقہ و اصول کا تدریس شروع کیا، جو آیت اللہ بروجردی کی قم میں آمد کے موقع پر ہوا۔ ان کے درس خارج کی کچھ خصوصیات اور فوائد یہ تھے کہ ہر مسئلے کا حل اور اس کے موضوعات کی مکمل وضاحت اور نشوونما، بنیادی موضوعات کو فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ نہ ملانا، نئے اور اختراعی نظریات پیش کرنا اور سابقہ علماء کی تقلید نہ کرنا۔ یہاں پر ان کے اساتذہ ، روایی مشایخ  کے بزرگوں اور ان کے کاموں (کورس کے شیڈول) کی فہرست دینا مناسب ہے۔
آپ نے 44 سال کی عمر میں (1364 ہجری) میں فقہ و اصول کا تدریس شروع کیا، جو آیت اللہ بروجردی کی قم میں آمد کے موقع پر ہوا۔ ان کے درس خارج کی کچھ خصوصیات اور فوائد یہ تھے کہ ہر مسئلے کا حل اور اس کے موضوعات کی مکمل وضاحت اور نشوونما، بنیادی موضوعات کو فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ نہ ملانا، نئے اور اختراعی نظریات پیش کرنا اور سابقہ علماء کی تقلید نہ کرنا۔ یہاں پر ان کے اساتذہ ، روایی مشایخ  کے بزرگوں اور ان کے کاموں (کورس کے شیڈول) کی فہرست دینا مناسب ہے۔
=== اساتذہ ===
=== اساتذہ ===
حضرت امام نے علوم کے مختلف شعبوں جیسے فارسی اور عربی ادب، [[فقہ]] و اصول، منطق، مغربی اور مشرقی فلسفہ، عرفان، کلام وغیرہ میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص143، 180، 190، 192، 246، 259، 384، 385، 388 و 393؛ زمزم نور: زندگی‌نامه، آثار و... امام خمینی، مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، تهران، چاپ نهم، ص9 و 10؛ رضا بابایی، کارنامه نور (زندگی‌نامه امام خمینی)</ref>۔، ان کے بعض اساتذہ کی تفصیل اس طرح ہے:
امام خمینی نے علوم کے مختلف شعبوں جیسے فارسی اور عربی ادب، [[فقہ]] و اصول، منطق، مغربی اور مشرقی فلسفہ، عرفان، کلام وغیرہ میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص143، 180، 190، 192، 246، 259، 384، 385، 388 و 393؛ زمزم نور: زندگی‌نامه، آثار و... امام خمینی، مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، تهران، چاپ نهم، ص9 و 10؛ رضا بابایی، کارنامه نور (زندگی‌نامه امام خمینی)</ref>۔، ان کے بعض اساتذہ کی تفصیل اس طرح ہے:
# آقا میرزا محمود افتخار العلماء؛
# آقا میرزا محمود افتخار العلماء؛
# میرزا رضا نجفی خمینی؛
# میرزا رضا نجفی خمینی؛
سطر 137: سطر 137:
== زندگی کا چوتھا دور (1340 تا 1368) ==
== زندگی کا چوتھا دور (1340 تا 1368) ==
=== مرجعیت ===
=== مرجعیت ===
یہ دور آیت اللہ بروجردی کی وفات (10 اپریل 1340) کے ساتھ مربوط ہے۔ اس وقت علمائے کرام اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے حاج آغا روح اللہ سے اصرار کیا کہ ان کا رسالہ عملیہ( توضیح المسائل) شائع کیا جائے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کا فتویٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب '''وسیلۂ النجاۂ''' اور '''عروۃ الوثقی''' پر حاشیہ سے حاصل کیا گیا۔  آیت اللہ حکیم کی وفات (134ھ) تک لوگوں کا ایک حصہ آیت اللہ حاج آغا روح اللہ موسوی خمینی کی تقلید کرنے والا بن گیا۔
یہ دور آیت اللہ بروجردی کی وفات (10 اپریل 1340) کے ساتھ مربوط ہے۔ اس وقت علمائے کرام اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے اصرار کیا کہ ان کا رسالہ عملیہ( توضیح المسائل) شائع کیا جائے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کا فتویٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب '''وسیلۂ النجاۂ''' اور '''عروۃ الوثقی''' پر حاشیہ سے حاصل کیا گیا۔  آیت اللہ حکیم کی وفات (134ھ) تک لوگوں کا ایک حصہ آیت اللہ حاج آغا روح اللہ موسوی خمینی کی تقلید کرنے والا بن گیا۔
=== 15 خرداد کا قیام ===
=== 15 خرداد کا قیام ===
یہ دور ایران اور اسلام کے دشمنوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز تھا۔ اسی وقت جب ملک کے معاملات پر امریکہ کا غلبہ تھا، حکومت پر امریکی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور یہ زمینی اصلاحات اور ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی صورت میں سامنے آیا جس میں بظاہر فریب نظر آیا۔ لیکن اندر سے یہ ایک منحوس اتحاد کا اعلان کر رہا تھا اور ملک کے تمام معاملات پر امریکہ، [[اسرائیل]] اور ان کے ایجنٹوں کو تسلط فراہم کر رہا تھا۔ اس وقت حضرت آیت اللہ حاج آغا روح اللہ خمینی امریکی اصلاحات کے خلاف سختی سے کھڑے ہوئے اور شاہ کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 2 اپریل 1342 کو [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد حاج آغا روح اللہ نے نجف اور قم کے عوام اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج خاموشی ظالم نظام کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کے مترادف ہے اور شاہ دوستی کے عنوان سے اپنے مشہور اعلامیہ میں کہا: یعنی لوٹ مار اور اپنی جدوجہد کی سمت کا تعین کیا۔ آپ کے پیغام اور کلام کے لوگوں کے ذہنوں پر جو حیرت انگیز اثر ہوا، اس کا راز شہادت کی حد تک جا پہنچا، اس کا راز ان کی فکر کی اصلیت، قول کی پختگی اور ان کے ساتھ بے مثال دیانت میں تلاش کرنا چاہیے۔
یہ دور ایران اور اسلام کے دشمنوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز تھا۔ اسی وقت جب ملک کے معاملات پر امریکہ کا غلبہ تھا، حکومت پر امریکی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور یہ زمینی اصلاحات اور ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی صورت میں سامنے آیا جس میں بظاہر فریب نظر آیا۔ لیکن اندر سے یہ ایک منحوس اتحاد کا اعلان کر رہا تھا اور ملک کے تمام معاملات پر امریکہ، [[اسرائیل]] اور ان کے ایجنٹوں کو تسلط فراہم کر رہا تھا۔ اس وقت آپ امریکی اصلاحات کے خلاف سختی سے کھڑے ہوئے اور شاہ کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 2 اپریل 1342 کو [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد حاج آغا روح اللہ نے نجف اور قم کے عوام اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج خاموشی ظالم نظام کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کے مترادف ہے اور شاہ دوستی کے عنوان سے اپنے مشہور اعلامیہ میں کہا: یعنی لوٹ مار اور اپنی جدوجہد کی سمت کا تعین کیا۔ آپ کے پیغام اور کلام کے لوگوں کے ذہنوں پر جو حیرت انگیز اثر ہوا، اس کا راز شہادت کی حد تک جا پہنچا، اس کا راز ان کی فکر کی اصلیت، قول کی پختگی اور ان کے ساتھ بے مثال دیانت میں تلاش کرنا چاہیے۔
آیت اللہ خمینی نے سانحہ فیضیہ کی 40ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں انکشاف کیا: انہوں نے 13 جون 1342 کو مدرسہ فیضیہ  میں اپنی تاریخی تقریر کی، بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا،  اے شاہ صاحب! اے بادشاہ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں؛ یہ باتیں چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خواب غقلت میں ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اگر ہر کوئی ایک دن آپ چلے جائیں تو سب شکر ادا کریں۔ بادشاہ نے اس کی پکار کو خاموش کرنے کا حکم دیا۔ 14 جون کی شام کو آیت اللہ خمینی کو گرفتار کر کے قصر جیل لے جایا گیا۔
آپ نے سانحہ فیضیہ کی 40ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں انکشاف کیا: انہوں نے 13 جون 1342 کو مدرسہ فیضیہ  میں اپنی تاریخی تقریر کی، بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا،  اے شاہ صاحب! اے بادشاہ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں؛ یہ باتیں چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خواب غقلت میں ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اگر ہر کوئی ایک دن آپ چلے جائیں تو سب شکر ادا کریں۔ بادشاہ نے اس کی پکار کو خاموش کرنے کا حکم دیا۔ 14 جون کی شام کو آیت اللہ خمینی کو گرفتار کر کے قصر جیل لے جایا گیا۔
15تاریخ کی صبح ان کی گرفتاری کی خبر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور موت یا خمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہ کے محل کی طرف مارچ کیا۔ بغاوت کو سختی سے دبا دیا گیا اور خون خرابہ ہوا۔ حکومت نے مقدمے کے بعد اسے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک اعلامیہ شائع ہوا جس پر علماء اور حکام نے دستخط کیے، جس میں انہوں نے واضح طور پر ان کی مرجعیت کی تصدیق کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آخر کار بہت سے احتجاج کے بعد دس ماہ کی قید و نگہداشت کے بعد 19 اپریل 1343 کی صبح حاج آغا روح اللہ کو واپس قم پہنچایا گیا۔ 15 خرداد 1342 علی الظاہر قیام جوش و خروش سے گری۔ لیکن کیپٹلیشن بل (امریکی ملازمین کو عدالتی استثنیٰ) کی منظوری کے خلاف اس کے انکشاف نے نومبر 2014 میں ایران کو ایک اور بغاوت کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ حاج آغا روح اللہ نے 4 نومبر 1343 کو ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دنیا جان لے کہ ہر وہ مسئلہ جس کا ایران اور مسلمان اقوام کو سامنا ہے اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔اسلام کی قومیں بالعموم اغیار سے نفرت کرتی ہیں اور امریکہ سے بالخصوص نفرت کرتی ہیں... امریکہ ہی وہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے... حکومت ان کو 13 نومبر 1343 کو فجر کے وقت گرفتار کر کے ایک فوجی طیارے میں ترکی منتقل کیا اور پھر اس کے بعد۔ ایک سال عراق (نجف) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی نجف منتقلی اس مقصد کے لیے تھی کہ ان کے کردار کو نجف کے عظیم علاقے کے دیگر علمائے کرام کی طرف سے زیر کیا جائے۔ لیکن وہ اس ہزار سال کے فقہی آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گیا اور اس شہر کے علماء میں ان کا احترام کیا گیا۔
15تاریخ کی صبح ان کی گرفتاری کی خبر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور موت یا خمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہ کے محل کی طرف مارچ کیا۔ بغاوت کو سختی سے دبا دیا گیا اور خون خرابہ ہوا۔ حکومت نے مقدمے کے بعد اسے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک اعلامیہ شائع ہوا جس پر علماء اور حکام نے دستخط کیے، جس میں انہوں نے واضح طور پر ان کی مرجعیت کی تصدیق کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آخر کار بہت سے احتجاج کے بعد دس ماہ کی قید و نگہداشت کے بعد 19 اپریل 1343 کی صبح حاج آغا روح اللہ کو واپس قم پہنچایا گیا۔ 15 خرداد 1342 علی الظاہر قیام جوش و خروش سے گری۔ لیکن کیپٹلیشن بل (امریکی ملازمین کو عدالتی استثنیٰ) کی منظوری کے خلاف اس کے انکشاف نے نومبر 2014 میں ایران کو ایک اور بغاوت کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ حاج آغا روح اللہ نے 4 نومبر 1343 کو ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دنیا جان لے کہ ہر وہ مسئلہ جس کا ایران اور مسلمان اقوام کو سامنا ہے اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔اسلام کی قومیں بالعموم اغیار سے نفرت کرتی ہیں اور امریکہ سے بالخصوص نفرت کرتی ہیں... امریکہ ہی وہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے... حکومت ان کو 13 نومبر 1343 کو فجر کے وقت گرفتار کر کے ایک فوجی طیارے میں ترکی منتقل کیا اور پھر اس کے بعد۔ ایک سال عراق (نجف) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی نجف منتقلی اس مقصد کے لیے تھی کہ ان کے کردار کو نجف کے عظیم علاقے کے دیگر علمائے کرام کی طرف سے زیر کیا جائے۔ لیکن وہ اس ہزار سال کے فقہی آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گیا اور اس شہر کے علماء میں ان کا احترام کیا گیا۔
=== نجف میں قیام ===  
=== نجف میں قیام ===  
سطر 146: سطر 146:


=== 1356 میں اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی بغاوت ===
=== 1356 میں اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی بغاوت ===
اگرچہ شاہ کی حکومت 1355 میں اپنے اقتدار کے عروج پر تھی، لیکن اسے قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کے سرکوبی نے اس حقیقت کو جنم دیا کہ حکومت پر سرحدوں کے باہر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ اس الزام اور سوچ کو دور کرنے کے لیے کہ ان کی حکومت کے تسلسل اور استحکام کو کوئی خطرہ نہیں، شاہ نے سیاسی آزادی پالیسی شروع کی۔ حضرت آیت اللہ خمینی نے ایران کے واقعات اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے اگست 1356 میں اپنے ایک پیغام میں اعلان کیا تھا کہ داخلی اور خارجی حالات اور بیرونی اسمبلیوں اور پریس میں حکومت کے جرائم کی عکاسی کے باعث یہ ایک موقع ہے کہ علمی اور ثقافتی اسمبلیاں، محب وطن افراد، ملکی اور غیر ملکی طلباء، اور  اسلامی انجمنیں جہاں کہیں بھی اس کا استعمال کریں اور کسی خوف کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں۔ عسکریت پسند گروہوں اور لوگوں نے جو شاہ کو ظلم اور انحصار کا سبب سمجھتے تھے، ان کے پیغام کا خیرمقدم کیا اور سماجی احتجاج کے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ یکم نومبر 1356 کو آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی مشتبہ موت اور ایران میں منعقد ہونے والی عظیم الشان تقریب پادریوں کی بحالی اور ایرانی مذہبی برادری کی بغاوت کا نقطہ آغاز تھی۔ اس واقعہ کو انہوں نے الطاف خفیہ الہی کہا۔ شاہ کی حکومت نے اخبار اطلاعات میں ان کے خلاف توہین آمیز مضمون شائع کرکے بدلہ لیا۔ اس آرٹیکل کے خلاف لوگوں کا احتجاج 19 جنوری 1356 کو قم کے قیام پر منتج ہوا اور 1957 میں احتجاج جاری رہا۔ حکومت نے لوگوں کو دھوکہ دینا شروع کر دیا، جیسے کہ بدعنوانی کے مراکز کو بند کرنا اور پریس کی آزادی؛ لیکن امام کے مزاحمت کے حکم سے لوگوں کی مرضی نہیں بدلی۔ 17 ویں شہریور مارچ کو دبانا جدوجہد کے اختتام میں ایک اہم موڑ تھا۔ امام نے اعتدال پسند مبارزین کو آئینی بادشاہت کو برقرار رکھتے ہوئے شاہ سے آئین کی تعمیل کرنے کے نعرے کے خلاف متنبہ کیا، جس کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے امام پر دباؤ ڈالنے اور انہیں عراق سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ امام کی کویت روانگی اور انہیں قبول کرنے سے انکار قائد انقلاب کی فرانس کی پرواز اور نوفل لوشاتو  قیام کا باعث بنا۔ آپ انقلاب کی آواز کو ایران اور دنیا کے عوام تک براہ راست پہنچانے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ شاہ کی حکومت 1355 میں اپنے اقتدار کے عروج پر تھی، لیکن اسے قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کے سرکوبی نے اس حقیقت کو جنم دیا کہ حکومت پر سرحدوں کے باہر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ اس الزام اور سوچ کو دور کرنے کے لیے کہ ان کی حکومت کے تسلسل اور استحکام کو کوئی خطرہ نہیں، شاہ نے سیاسی آزادی پالیسی شروع کی۔ حضرت آیت اللہ خمینی نے ایران کے واقعات اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے اگست 1356 میں اپنے ایک پیغام میں اعلان کیا تھا کہ داخلی اور خارجی حالات اور بیرونی اسمبلیوں اور پریس میں حکومت کے جرائم کی عکاسی کے باعث یہ ایک موقع ہے کہ علمی اور ثقافتی اسمبلیاں، محب وطن افراد، ملکی اور غیر ملکی طلباء، اور  اسلامی انجمنیں جہاں کہیں بھی اس کا استعمال کریں اور کسی خوف کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں۔ عسکریت پسند گروہوں اور لوگوں نے جو شاہ کو ظلم اور انحصار کا سبب سمجھتے تھے، ان کے پیغام کا خیرمقدم کیا اور سماجی احتجاج کے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ یکم نومبر 1356 کو آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی مشتبہ موت اور ایران میں منعقد ہونے والی عظیم الشان تقریب کی بحالی اور ایرانی مذہبی برادری کی بغاوت کا نقطہ آغاز تھی۔ اس واقعہ کو انہوں نے الطاف خفیہ الہی کہا۔ شاہ کی حکومت نے اخبار اطلاعات میں ان کے خلاف توہین آمیز مضمون شائع کرکے بدلہ لیا۔ اس آرٹیکل کے خلاف لوگوں کا احتجاج 19 جنوری 1356 کو قم کے قیام پر منتج ہوا اور 1957 میں احتجاج جاری رہا۔ حکومت نے لوگوں کو دھوکہ دینا شروع کر دیا، جیسے کہ بدعنوانی کے مراکز کو بند کرنا اور پریس کی آزادی؛ لیکن امام کے مزاحمت کے حکم سے لوگوں کی مرضی نہیں بدلی۔ 17 ویں شہریور مارچ کو دبانا جدوجہد کے اختتام میں ایک اہم موڑ تھا۔ امام نے اعتدال پسند مبارزین کو آئینی بادشاہت کو برقرار رکھتے ہوئے شاہ سے آئین کی تعمیل کرنے کے نعرے کے خلاف متنبہ کیا، جس کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے امام پر دباؤ ڈالنے اور انہیں عراق سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ امام کی کویت روانگی اور انہیں قبول کرنے سے انکار قائد انقلاب کی فرانس کی پرواز اور نوفل لوشاتو  قیام کا باعث بنا۔ آپ انقلاب کی آواز کو ایران اور دنیا کے عوام تک براہ راست پہنچانے میں کامیاب رہے۔
13 نومبر کو طلباء اور عوام کے دیگر طبقات پر تشدد کی خبروں  اور 20 دسمبر کو عاشورہ مارچ نے شاہ اور اس کے مغربی حامیوں کے لیے مشکل بنا دیا۔ کابینہ کے یکے بعد دیگرے تبدیلیوں اور فوجی حکمرانی کا امام اور عوام کی مرضی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ چار مغربی ممالک (امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ) کے سربراہان گواڈیلوپ اجلاس میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران میں بادشاہت کی بقا کی کوئی امید نہیں ہے اور یہ کہ شاہ کی رخصتی اور سویلین حکومت کا قیام، بحران کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔ شاہ کے جانے کے بعد امام نے انقلابی کونسل کی تشکیل کا حکم دیا اور '''12 بہمن''' کو لوگوں کی طرف سے شاندار استقبال کے ساتھ وطن واپس آئے۔ بہشت زہرا، تہران میں ایک تاریخی تقریر اور پھر ان کی طرف سے حکومت کی تقرری کے ساتھ عوامی انقلاب کامیاب اختتام کے قریب پہنچا۔ یوم الٰہی، 22 بہمن 1357، نے قوم کی زندگی میں ایک نئی صبح پھونک دی، انقلاب کی فتح کا دن اور سرزمین ایران، شیعہ مذہب اور عالم اسلام کے لیے عظیم تاریخی پیش رفت کا نقطہ آغاز ہے۔
13 نومبر کو طلباء اور عوام کے دیگر طبقات پر تشدد کی خبروں  اور 20 دسمبر کو عاشورہ مارچ نے شاہ اور اس کے مغربی حامیوں کے لیے مشکل بنا دیا۔ کابینہ کے یکے بعد دیگرے تبدیلیوں اور فوجی حکمرانی کا امام اور عوام کی مرضی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ چار مغربی ممالک (امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ) کے سربراہان گواڈیلوپ اجلاس میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران میں بادشاہت کی بقا کی کوئی امید نہیں ہے اور یہ کہ شاہ کی رخصتی اور سویلین حکومت کا قیام، بحران کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔ شاہ کے جانے کے بعد امام نے انقلابی کونسل کی تشکیل کا حکم دیا اور '''12 بہمن''' کو لوگوں کی طرف سے شاندار استقبال کے ساتھ وطن واپس آئے۔ بہشت زہرا، تہران میں ایک تاریخی تقریر اور پھر ان کی طرف سے حکومت کی تقرری کے ساتھ عوامی انقلاب کامیاب اختتام کے قریب پہنچا۔ یوم الٰہی، 22 بہمن 1357، نے قوم کی زندگی میں ایک نئی صبح پھونک دی، انقلاب کی فتح کا دن اور سرزمین ایران، شیعہ مذہب اور عالم اسلام کے لیے عظیم تاریخی پیش رفت کا نقطہ آغاز ہے۔
امام خمینی کی قیادت کی تدبیر، ذہانت اور اختیار بالخصوص فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں میں بہت شاندار اور ممتاز ہیں۔
آپ کی قیادت کی تدبیر، ذہانت اور اختیار بالخصوص فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں میں بہت شاندار اور ممتاز ہیں۔


=== اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اور بانی ===
=== اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اور بانی ===
ان کی قیادت کا دورانیہ دس سال اور چار ماہ سرکاری طور پر 22 فروری 1357 سے 14 جون 1368 تک رہا۔ امام خمینی نے سب سے پہلے نیا سیاسی نظام قائم کیا اور اسلامی جمہوریہ کو [[شیعہ]] سیاسی اسلام کے اصولوں اور نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈیزائن کیا۔ فتح کے فوراً بعد انہوں نے سیاسی نظام کے تعین کے لیے عوام کو ریفرنڈم میں بلا کر اور ماہرین کی ایک کونسل بنا کر اور آئین پر ریفرنڈم کر کے دنیا کو اسلامی حکومت کا ایک نیا ماڈل دکھایا۔ پہلوی آمریت کے خاتمے اور سماجی آزادیوں کے وسیع پھیلاؤ کے ساتھ، مختلف گروہوں نے اجلاس منعقد کرکے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے ذریعے مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ لیکن کھلے سیاسی خلا میں زندگی کے تجربے کی کمی اور تمام سماجی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے یہ خلا جلد ہی ایک کشمکش میں بدل گیا۔ سماجی قوتوں کا انتظام، خاص طور پر بعض گروہوں اور سیاسی جماعتوں کا جو مغرب اور مشرق کے سیاسی مکاتب فکر (لبرل ازم اور کمیونزم) سے متاثر تھے اور ان کا مکتب انقلاب اسلامی کے خلاف صف بندی، جو امام کی سیاسی فکر سے ماخوذ تھی اور ولایت مدار کے لوگوں کی خواہشات نے تاریخ میں ان گنت تلخ واقعات کو انقلاب کا نشان بنایا۔ یہ واقعات، امریکہ کی قیادت کے لیے عالمی استکبار کے مخالفانہ انداز اور مغرب اور مشرق کی اندرونی مخالف جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ عراق میں بعثی حکومت پر رجعتی حکمرانوں کی جانب سے فوجی حملے کے ساتھ۔ عرب دنیا نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک انقلاب کا رخ بدل سکتا ہے۔
ان کی قیادت کا دورانیہ دس سال اور چار ماہ سرکاری طور پر 22 فروری 1357 سے 14 جون 1368 تک رہا۔ آپ نے سب سے پہلے نیا سیاسی نظام قائم کیا اور اسلامی جمہوریہ کو [[شیعہ]] سیاسی اسلام کے اصولوں اور نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈیزائن کیا۔ فتح کے فوراً بعد انہوں نے سیاسی نظام کے تعین کے لیے عوام کو ریفرنڈم میں بلا کر اور ماہرین کی ایک کونسل بنا کر اور آئین پر ریفرنڈم کر کے دنیا کو اسلامی حکومت کا ایک نیا ماڈل دکھایا۔ پہلوی آمریت کے خاتمے اور سماجی آزادیوں کے وسیع پھیلاؤ کے ساتھ، مختلف گروہوں نے اجلاس منعقد کرکے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے ذریعے مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ لیکن کھلے سیاسی خلا میں زندگی کے تجربے کی کمی اور تمام سماجی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے یہ خلا جلد ہی ایک کشمکش میں بدل گیا۔ سماجی قوتوں کا انتظام، خاص طور پر بعض گروہوں اور سیاسی جماعتوں کا جو مغرب اور مشرق کے سیاسی مکاتب فکر (لبرل ازم اور کمیونزم) سے متاثر تھے اور ان کا مکتب انقلاب اسلامی کے خلاف صف بندی، جو آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ تھی اور ولایت مدار کے لوگوں کی خواہشات نے تاریخ میں ان گنت تلخ واقعات کو انقلاب کا نشان بنایا۔ یہ واقعات، امریکہ کی قیادت کے لیے عالمی استکبار کے مخالفانہ انداز اور مغرب اور مشرق کی اندرونی مخالف جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ عراق میں بعثی حکومت پر رجعتی حکمرانوں کی جانب سے فوجی حملے کے ساتھ۔ عرب دنیا نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک انقلاب کا رخ بدل سکتا ہے۔
لیکن خدا کا ہاتھ، امام کی ذہانت اور مستند قیادت، ایرانی عوام کی لگن، وفاداری اور بیداری نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فروری 1358 میں دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد تہران تشریف لائے اور وہیں قیام کے بعد انقلاب کے جہاز کی قیادت سنبھالی۔ حکومتوں کی تبدیلی، تینوں قوتوں کے درمیان اختلافات، نظام کے بہت سے اہلکاروں کی شہادت، مسلط کردہ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ جیسے بحرانوں کو حل کیا گیا۔ فقیہ کی مطلق حاکمیت کے نظریہ کو پیش کرنے اور نظام کی اصلاح کی کونسل جیسے اداروں کی تشکیل میں ان کی تدبیر نے انقلاب سے پہلے بحرانوں سے نکلنے کی راہ ہموار کی۔ ملت ایران بھی اپنے امام کے عظیم ورثے کی نگہبان تھی۔ ولایت مدار لوگوں کی امام کی طرف دلچسپی ایسی تھی کہ 1368 میں برسوں کی سختیوں اور تکالیف کے بعد اپنے پاکیزہ جسم کو الوداع کرتے ہوئے وطن میں داخل ہونے کے لمحے سے کئی گنا زیادہ ہجوم کی موجودگی اور ان کی محبتیں اور استقامت زیادہ گہرا ہو گئی اور امام اور انقلاب کے راستے کو جاری رکھنے کا ان کا ارادہ زیادہ سنجیدہ ہو گیا اور ان کا نظام تمام سازشوں اور واقعات کے باوجود پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گیا۔ اسلامی جمہوریہ امام کی زندگی کا سب سے واضح ثمر ہے۔ انہوں نے اس سیاسی نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ یہ کسی فرد پر بھروسہ نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے قوم کو قوت اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی بندے کے جانے سے اس میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ قوم کی آہنی رکاوٹ کہ اعلیٰ اور اعلیٰ بندے خدمت میں ہیں اور اللہ اس قوم اور دنیا کے مظلوموں کا محافظ ہے۔
لیکن خدا کا ہاتھ، امام کی ذہانت اور مستند قیادت، ایرانی عوام کی لگن، وفاداری اور بیداری نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فروری 1358 میں دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد تہران تشریف لائے اور وہیں قیام کے بعد انقلاب کے جہاز کی قیادت سنبھالی۔ حکومتوں کی تبدیلی، تینوں قوتوں کے درمیان اختلافات، نظام کے بہت سے اہلکاروں کی شہادت، مسلط کردہ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ جیسے بحرانوں کو حل کیا گیا۔ فقیہ کی مطلق حاکمیت کے نظریہ کو پیش کرنے اور نظام کی اصلاح کی کونسل جیسے اداروں کی تشکیل میں ان کی تدبیر نے انقلاب سے پہلے بحرانوں سے نکلنے کی راہ ہموار کی۔ ملت ایران بھی اپنے امام کے عظیم ورثے کی نگہبان تھی۔ ولایت مدار لوگوں کی امام کی طرف دلچسپی ایسی تھی کہ 1368 میں برسوں کی سختیوں اور تکالیف کے بعد اپنے پاکیزہ جسم کو الوداع کرتے ہوئے وطن میں داخل ہونے کے لمحے سے کئی گنا زیادہ ہجوم کی موجودگی اور ان کی محبتیں اور استقامت زیادہ گہرا ہو گئی اور امام اور انقلاب کے راستے کو جاری رکھنے کا ان کا ارادہ زیادہ سنجیدہ ہو گیا اور ان کا نظام تمام سازشوں اور واقعات کے باوجود پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گیا۔ اسلامی جمہوریہ امام کی زندگی کا سب سے واضح ثمر ہے۔ انہوں نے اس سیاسی نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ یہ کسی فرد پر بھروسہ نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے قوم کو قوت اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی بندے کے جانے سے اس میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ قوم کی آہنی رکاوٹ کہ اعلیٰ اور اعلیٰ بندے خدمت میں ہیں اور اللہ اس قوم اور دنیا کے مظلوموں کا محافظ ہے۔


سطر 164: سطر 164:


=== رحلت ===
=== رحلت ===
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا 28 مئی 1368 کو نظام انہضام میں خرابی کی وجہ سے طبی آپریشن ہوا۔ 13 جون 1368 (3 جون 1989 عیسوی) بروز ہفتہ 13 جون 1368 (3 جون 1989ء) کی رات 10 بج کر 20 منٹ پر 13 جون کی سہ پہر تین بجے آپ کی بیماری کے دوران جو بنیادی مسئلہ پیدا ہوا تھا 1409 ہجری کو 87 کی عمر میں ان کی روحیں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
آپ کا 28 مئی 1368 کو نظام انہضام میں خرابی کی وجہ سے طبی آپریشن ہوا۔ 13 جون 1368 (3 جون 1989 عیسوی) بروز ہفتہ 13 جون 1368 (3 جون 1989ء) کی رات 10 بج کر 20 منٹ پر 13 جون کی سہ پہر تین بجے آپ کی بیماری کے دوران جو بنیادی مسئلہ پیدا ہوا تھا 1409 ہجری کو 87 کی عمر میں ان کی روحیں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان کے بعد مادی اثاثوں میں سے کیا بچا تھا؟آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق وہ قائد اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جائیداد کی جانچ پڑتال اور جانچ پڑتال کے پابند تھے۔ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں نظام، اور امام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جائیداد کی گوشوارہ 24 جنوری 1359 کو سپریم کورٹ کو بھیجی - جو اس طرح ہے: امام کی واحد غیر منقولہ جائیداد قم میں ان کا پرانا گھر تھا، جو 1343 میں ان کی جلاوطنی کے بعد سے تحریک کے مقاصد اور لوگوں کے اجتماع کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ گھر کی بنیادی چیزیں تھیں اور استعمال شدہ قالین کے دو ٹکڑے کسی کے نہیں ہیں اور ضرورت مند سادات کو دیے جائیں۔ اس کے پاس سے کوئی نقد رقم باقی نہیں رہی اور جو کچھ بچا ہے وہ رقم ہے جس پر ورثاء کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح تقریباً نوے سال زندہ رہنے والے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے آدمی کے باقی ماندہ اثاثے شیشے، ناخن تراشے، کنگھی، مالا، قرآن، نمازی قالین، پگڑی، اس کے روحانی لباس اور مذہبی کتابیں تھے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان کے بعد مادی اثاثوں میں سے کیا بچا تھا؟آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق وہ قائد اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جائیداد کی جانچ پڑتال اور جانچ پڑتال کے پابند تھے۔ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں نظام، اور امام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جائیداد کی گوشوارہ 24 جنوری 1359 کو سپریم کورٹ کو بھیجی - جو اس طرح ہے: امام کی واحد غیر منقولہ جائیداد قم میں ان کا پرانا گھر تھا، جو 1343 میں ان کی جلاوطنی کے بعد سے تحریک کے مقاصد اور لوگوں کے اجتماع کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ گھر کی بنیادی چیزیں تھیں اور استعمال شدہ قالین کے دو ٹکڑے کسی کے نہیں ہیں اور ضرورت مند سادات کو دیے جائیں۔ اس کے پاس سے کوئی نقد رقم باقی نہیں رہی اور جو کچھ بچا ہے وہ رقم ہے جس پر ورثاء کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح تقریباً نوے سال زندہ رہنے والے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے آدمی کے باقی ماندہ اثاثے شیشے، ناخن تراشے، کنگھی، مالا، قرآن، نمازی قالین، پگڑی، اس کے روحانی لباس اور مذہبی کتابیں تھے۔
جنازے کی تقریب 16 جون کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور اسی دن ان کی تدفین تہران کے بہشت زہرا میں کی گئی جہاں اب امام خمینی کا مزار ہے۔ وہ ایک پرسکون دل، ایک پراعتماد دل، ایک خوش روح، اور خُدا کے فضل کی امید رکھنے والے ضمیر کے ساتھ خُدا سے ملنے کے لیے دوڑا۔
جنازے کی تقریب 16 جون کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور اسی دن ان کی تدفین تہران کے بہشت زہرا میں کی گئی جہاں اب امام خمینی کا مزار ہے۔ وہ ایک پرسکون دل، ایک پراعتماد دل، ایک خوش روح، اور خُدا کے فضل کی امید رکھنے والے ضمیر کے ساتھ خُدا سے ملنے کے لیے دوڑا۔
سطر 200: سطر 200:
آپ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ, قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں، [https://urdu.khamenei.ir/news/4260 khamenei.ir]</ref>۔
آپ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ, قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں، [https://urdu.khamenei.ir/news/4260 khamenei.ir]</ref>۔
=== نماز شب کا گریہ ===
=== نماز شب کا گریہ ===
امام خمینی (رہ) ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیا اور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔
آپ ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیا اور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔
وہ ملت ایران کے لئے رہبر، باپ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے، نیمہ شب میں پیش پروردگار گریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور [[قرآن]] کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے<ref>ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
وہ ملت ایران کے لئے رہبر، باپ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے، نیمہ شب میں پیش پروردگار گریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور [[قرآن]] کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے<ref>ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
=== بے مثال شخصیت ===
=== بے مثال شخصیت ===
امام( رح) کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ( امام خمینی کا) دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
آپ کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
=== حکیم و دانا اور دور اندیش انسان ===
=== حکیم و دانا اور دور اندیش انسان ===
امام (رح) انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ امام (خمینی رح ) ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
آپ انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ آپ ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
=== نفس اور خواہشات پر مسلط انسان ===
=== نفس اور خواہشات پر مسلط انسان ===
حقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔
حقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔
امام ( رہ) مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔
آپ مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔
=== افق انسانی کا سورج ===
=== افق انسانی کا سورج ===
میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا <ref>فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا <ref>فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
=== مخلص اور عبادت گزار ===
=== مخلص اور عبادت گزار ===
اصل بات یہ ہے کہ اگر امام خمینی (رہ) کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا
اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا
امام(رہ) دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔
آپ دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔
یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے<ref>تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10</ref>۔
یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے<ref>تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10</ref>۔
=== خلوص کا پیکر ===
=== خلوص کا پیکر ===
ہمارے عظیم رہبرو رہنما اور امام (رہ) خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں <ref>نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11</ref>۔
ہمارے عظیم رہبرو رہنما اور آپ خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں <ref>نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11</ref>۔
=== خلوص اور خدا سے رابطہ کامیابی کا راز ===
=== خلوص اور خدا سے رابطہ کامیابی کا راز ===
میرے خیال میں انکی ( امام خمینی رہ) کی کامیابی کا سب سے بڑا راز خلوص اور خدا سے رابطہ تھا ۔ آپ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے معنی پر عمل کرنےاور خدا کی لازوال طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہونے میں کامیاب رہے۔ جب کوئی ناچیز، کمزور اور محدود ظرفیت رکھنے والا انسان کسی بحر بے کراں سے متصل ہوجائے تو پھر کوئی مشکل اسکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی ۔ کوئی بھی انسان یہ کام کرےگا تو ایسا ہی ہوگا، البتہ ہر انسان کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہی ہے لیکن آپ( امام خمینی رہ) نے ایسا کر دکھایا۔ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرنا چاہیے ۔ بزرگ ہستیاں چوٹیوں پر کھڑی ہیں ، ہمیں بھی پہاڑیوں کے دامن سے اوپر چڑھنا چاہیے اور ان کی طرف جانا چاہیے ، اگر ہم چوٹیوں تک نہ بھی پہنچ پائیں تب بھی عمل کرنا ہم سب کا فریضہ اور ذمہ داری ہے <ref>نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-11</ref>۔
میرے خیال میں انکی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز خلوص اور خدا سے رابطہ تھا ۔ آپ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے معنی پر عمل کرنےاور خدا کی لازوال طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہونے میں کامیاب رہے۔ جب کوئی ناچیز، کمزور اور محدود ظرفیت رکھنے والا انسان کسی بحر بے کراں سے متصل ہوجائے تو پھر کوئی مشکل اسکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی ۔ کوئی بھی انسان یہ کام کرےگا تو ایسا ہی ہوگا، البتہ ہر انسان کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہی ہے لیکن آپ( امام خمینی رہ) نے ایسا کر دکھایا۔ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرنا چاہیے ۔ بزرگ ہستیاں چوٹیوں پر کھڑی ہیں ، ہمیں بھی پہاڑیوں کے دامن سے اوپر چڑھنا چاہیے اور ان کی طرف جانا چاہیے ، اگر ہم چوٹیوں تک نہ بھی پہنچ پائیں تب بھی عمل کرنا ہم سب کا فریضہ اور ذمہ داری ہے <ref>نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-11</ref>۔
===  مشن کی خصوصیات ===
===  مشن کی خصوصیات ===
امام خمینی اپنے مشن کے اہداف گنواتے ہوئے فرماتے تھے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد ، نہ مشرق نہ مغرب کے نعرے کے ضمن میں پوری قوت کے ساتھ اعتدال کو برقرار رکھنا ، قوموں کی ہمہ گیر اورحقیقی خودمختاری، حقیقی معنوں میں خود کفالت، دینی اصول و شریعت وفقہ اسلامی کے تحفظ پر مسلسل اصرار اور عزم راسخ، اتحاد ویکجہتی کی برقراری، دنیا کی مسلمان اور مظلوم قوموں پر توجہ، اسلام اور مسلمان اقوام کے وقار کی بحالی، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مرعوب نہ ہونا ، اسلامی معاشروں میں عدل وانصاف کا قیام ، معاشرے کے مستضعف و پسماندہ اورمحروم لوگوں کی بے دریغ حمایت اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، ہم سب اس بات کے شاہد رہے ہيں کہ امام نے ہمیشہ ان خطوط پر بھرپورطریقے سے عمل کیا ہے اورکسی بھی طرح کے پس وپیش کے بغیر ان خطوط اور مشن کو آگے بڑھایاہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے راستے، اعمال صالح اوران کے کردار و رفتار کی پیروی کریں <ref>وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت یاتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیان سے اقتباس 1989-6-7</ref>۔
امام خمینی اپنے مشن کے اہداف گنواتے ہوئے فرماتے تھے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد ، نہ مشرق نہ مغرب کے نعرے کے ضمن میں پوری قوت کے ساتھ اعتدال کو برقرار رکھنا ، قوموں کی ہمہ گیر اورحقیقی خودمختاری، حقیقی معنوں میں خود کفالت، دینی اصول و شریعت وفقہ اسلامی کے تحفظ پر مسلسل اصرار اور عزم راسخ، اتحاد ویکجہتی کی برقراری، دنیا کی مسلمان اور مظلوم قوموں پر توجہ، اسلام اور مسلمان اقوام کے وقار کی بحالی، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مرعوب نہ ہونا ، اسلامی معاشروں میں عدل وانصاف کا قیام ، معاشرے کے مستضعف و پسماندہ اورمحروم لوگوں کی بے دریغ حمایت اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، ہم سب اس بات کے شاہد رہے ہيں کہ امام نے ہمیشہ ان خطوط پر بھرپورطریقے سے عمل کیا ہے اورکسی بھی طرح کے پس وپیش کے بغیر ان خطوط اور مشن کو آگے بڑھایاہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے راستے، اعمال صالح اوران کے کردار و رفتار کی پیروی کریں <ref>وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت یاتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیان سے اقتباس 1989-6-7</ref>۔


=== عہد نو کی خصوصیتیں ===
=== عہد نو کی خصوصیتیں ===
وه علیہ ہمارے عظیم امام کی خصوصیات نے نئے دورکا آغازکردیاہے اورآج جب ہمارے دل اورہماری جانیں امت اسلامیہ کی اس بے مثال ہستی کے فراق میں غمزدہ ہیں تو ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ان عصری خصوصیات کوکہ جن کا آغازامام خمینی نے کیاتھا اورپوری قوم اور دنیا کو جن سے متعارف کرایا پہچانیں اوران کو برقرار رکھیں ۔حقیقی سوگواری یہ ہے کہ ہم فریضوں پرعمل کریں وہ عصر وہ دورجس کاآغازامام خمینی نے کیا اسے جاری رکھیں اس نئے دور کی اپنی خصوصیات اورپہچان ہے ان خصوصیات میں قوم کے اندر خود مختاری و آزادی کے جذبے کی بیداری اور خود اعتمادی و خود کفالت ہیں وہ خصوصیات جنہیں قوموں سے چھین لینے کی منظم سازش کی گئي۔ اس دورکی ایک اورپہچان وخصوصیت امام خمینی جس کے موجد وبانی تھے انسانی اقدارکااحترام اوراس کی جانب رجحان ، عدل وانصاف اورانسانوں کے لئے حریت وآزادی اورلوگوں کےنظریات اوران کی رای کا احترام ہے ۔ یہی عظیم شخصیت جسے پوری دنیاکے لوگ آج احترام سے یاد کرتے ہيں اورجس کی عظمت وبزرگي کے صدق دل سے معترف ہيں کہتی تھی کہ مجھے رہبر کےبجائے خادم کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ یہ بات بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے اوراس میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے تھے وہ اس قدر عوام کااحترام کرتے تھے کہ خود کو ان کا خدمت گزارکہتے تھے ہم اس طرح کی پوری دنیامیں کوئی نظیرومثال نہیں رکھتے اورتاريخ میں اس جیسی شخصیت کی مثال نہيں ملتی <ref>فوجی کمانڈروں اورولی فقیہ کے نمائندوں کی طرف سے بیعت وتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1989-6-11</ref>۔
وه علیہ ہمارے عظیم امام کی خصوصیات نے نئے دورکا آغازکردیاہے اورآج جب ہمارے دل اورہماری جانیں امت اسلامیہ کی اس بے مثال ہستی کے فراق میں غمزدہ ہیں تو ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ان عصری خصوصیات کوکہ جن کا آغازآپ نے کیاتھا اورپوری قوم اور دنیا کو جن سے متعارف کرایا پہچانیں اوران کو برقرار رکھیں ۔حقیقی سوگواری یہ ہے کہ ہم فریضوں پرعمل کریں وہ عصر وہ دورجس کاآغازامام خمینی نے کیا اسے جاری رکھیں اس نئے دور کی اپنی خصوصیات اورپہچان ہے ان خصوصیات میں قوم کے اندر خود مختاری و آزادی کے جذبے کی بیداری اور خود اعتمادی و خود کفالت ہیں وہ خصوصیات جنہیں قوموں سے چھین لینے کی منظم سازش کی گئي۔ اس دورکی ایک اورپہچان وخصوصیت امام خمینی جس کے موجد وبانی تھے انسانی اقدارکااحترام اوراس کی جانب رجحان ، عدل وانصاف اورانسانوں کے لئے حریت وآزادی اورلوگوں کےنظریات اوران کی رای کا احترام ہے ۔ یہی عظیم شخصیت جسے پوری دنیاکے لوگ آج احترام سے یاد کرتے ہيں اورجس کی عظمت وبزرگي کے صدق دل سے معترف ہيں کہتی تھی کہ مجھے رہبر کےبجائے خادم کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ یہ بات بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے اوراس میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے تھے وہ اس قدر عوام کااحترام کرتے تھے کہ خود کو ان کا خدمت گزارکہتے تھے ہم اس طرح کی پوری دنیامیں کوئی نظیرومثال نہیں رکھتے اورتاريخ میں اس جیسی شخصیت کی مثال نہيں ملتی <ref>فوجی کمانڈروں اورولی فقیہ کے نمائندوں کی طرف سے بیعت وتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1989-6-11</ref>۔


=== مشن اور راستے کا تعین ===
=== مشن اور راستے کا تعین ===
سطر 292: سطر 292:
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5</ref>۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار ===
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار ===
انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں <ref>وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3</ref>۔
انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ آپ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں <ref>وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3</ref>۔
=== امام خمینی حالات کے ماہر نباض ===
=== امام خمینی حالات کے ماہر نباض ===
تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ امام خمینی (رہ) کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں <ref>وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10</ref>۔
تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ آپ کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں <ref>وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10</ref>۔
=== نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام ===
=== نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام ===
آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے <ref>ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28</ref>۔
آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے <ref>ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28</ref>۔
سطر 321: سطر 321:
برادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے<ref>انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8</ref>۔
برادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے<ref>انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہد ===
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہد ===
ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے <ref>
ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم آپ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے <ref>
حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5</ref>۔
حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5</ref>۔


== ایرانی قوم کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت ==  
== ایرانی قوم کو آپ کی نصیحت ==  
خدا سے لولگائیں، اسلام کے پابند رہیں اور اپنی صفوں میں انتشار نہ پیدا ہونے دیں
خدا سے لولگائیں، اسلام کے پابند رہیں اور اپنی صفوں میں انتشار نہ پیدا ہونے دیں
ہمارے عزیز قائد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت میں ایک بات ایسی ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا : جس چیز نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا وہی اس کی بقا کی ضامن ہے۔ یعنی خدا پر توکل، اسلام پر ایمان، اسلامی احکام کی بجا آوری اور اتحاد، انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقا کی کنجی ہے۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک پر اتحاد اور خلوص کا سایہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پاکیزہ وجود کا ثمرہ ہے۔ اس عظیم مرد الہی کی رحلت کے بعد بھی آپ کا خلوص سرچشمہ برکات بنا ہوا ہے۔ اس خلوص نے دلوں کو باہمی محبت کے رشتہ سے جوڑ دیا اور رشتوں کو مستحکم بنایا ہے۔ آپ کا اتحاد و یکجہتی اور حکومت سے آپ کا تعاون اور گہرا رشتہ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگیا ہے، 1978 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے انقلابی تحریک میں نئي جان آگئی اور یہ تحریک آگے بڑھنے لگی۔ اس کے نتایج حاصل ہونے لگے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خدا کا یہ لطف تھا کہ ان کے وجود میں اس نے یہ ساری برکتیں ودیعت کی تھیں اور ان کی وفات اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کے وقت بھی خدا کی خاص نعمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال تھیں جو اس بات کا سبب بنیں کہ ان کی رحلت کے بعد بھی انقلاب اسلامی، کامیابی کے ابتدائی دنوں کی طرح ہی آگے بھی ترقی کرتا رہے اور دنیا میں اس کی عظمت قائم ہو جائے۔ اس انقلاب نے دشمن کو مایوس کردیا۔ آج ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کی برکت سے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ کوئی یہ خیال بھی نہ لائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اندر کسی طرح کسی کمزوری کا احساس کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے معاملوں کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپنے اصولوں، اپنے دین اور مسلمان بھائيوں کے مفادات کے مطابق دیگر ملکوں سے بھی اپنے تعلقات کومستحکم کریں گے۔ اس بات کو یاد رکھئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا تاکید کی ہے کہ اتحاد و بیداری سبھی کامیابیوں کا راز ہے۔ اگر لوگوں میں اتحاد و بیداری نہ ہو تو ایرانی قوم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا پائے گي لیکن اگر لوگوں نے اس راز کو سمجھ لیا اور اس کا خیال رکھا تو خدا بھی ان کی مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد رب العزت ہے: جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت کریں گے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خدا اس کے ساتھ ہے اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔ الحمدللہ خداایرانی قوم کے ساتھ ہے اور اس عظیم و بے نظیر مرد الہی کا وجود ہمارے لئے ایک حقیقی نعمت تھی۔ آج بھی آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے بہترین نعمت ہے کیوں کہ ان کے کلام کا سرچشمہ خدا و انبیاء کا کلام ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے<ref>خوزستان کے علماء ، حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-12</ref>۔
ہمارے عزیز قائد، آپ کی وصیت میں ایک بات ایسی ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا : جس چیز نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا وہی اس کی بقا کی ضامن ہے۔ یعنی خدا پر توکل، اسلام پر ایمان، اسلامی احکام کی بجا آوری اور اتحاد، انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقا کی کنجی ہے۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک پر اتحاد اور خلوص کا سایہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پاکیزہ وجود کا ثمرہ ہے۔ اس عظیم مرد الہی کی رحلت کے بعد بھی آپ کا خلوص سرچشمہ برکات بنا ہوا ہے۔ اس خلوص نے دلوں کو باہمی محبت کے رشتہ سے جوڑ دیا اور رشتوں کو مستحکم بنایا ہے۔ آپ کا اتحاد و یکجہتی اور حکومت سے آپ کا تعاون اور گہرا رشتہ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگیا ہے، 1978 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے انقلابی تحریک میں نئي جان آگئی اور یہ تحریک آگے بڑھنے لگی۔ اس کے نتایج حاصل ہونے لگے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خدا کا یہ لطف تھا کہ ان کے وجود میں اس نے یہ ساری برکتیں ودیعت کی تھیں اور ان کی وفات اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کے وقت بھی خدا کی خاص نعمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال تھیں جو اس بات کا سبب بنیں کہ ان کی رحلت کے بعد بھی انقلاب اسلامی، کامیابی کے ابتدائی دنوں کی طرح ہی آگے بھی ترقی کرتا رہے اور دنیا میں اس کی عظمت قائم ہو جائے۔ اس انقلاب نے دشمن کو مایوس کردیا۔ آج ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کی برکت سے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ کوئی یہ خیال بھی نہ لائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اندر کسی طرح کسی کمزوری کا احساس کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے معاملوں کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپنے اصولوں، اپنے دین اور مسلمان بھائيوں کے مفادات کے مطابق دیگر ملکوں سے بھی اپنے تعلقات کومستحکم کریں گے۔ اس بات کو یاد رکھئے کہ آپ نے بارہا تاکید کی ہے کہ اتحاد و بیداری سبھی کامیابیوں کا راز ہے۔ اگر لوگوں میں اتحاد و بیداری نہ ہو تو ایرانی قوم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا پائے گي لیکن اگر لوگوں نے اس راز کو سمجھ لیا اور اس کا خیال رکھا تو خدا بھی ان کی مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد رب العزت ہے: جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت کریں گے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خدا اس کے ساتھ ہے اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔ الحمدللہ خداایرانی قوم کے ساتھ ہے اور اس عظیم و بے نظیر مرد الہی کا وجود ہمارے لئے ایک حقیقی نعمت تھی۔ آج بھی آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے بہترین نعمت ہے کیوں کہ ان کے کلام کا سرچشمہ خدا و انبیاء کا کلام ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے<ref>خوزستان کے علماء ، حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-12</ref>۔
== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر اور انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ==
== آپ کی تعلیمات پر غور و فکر اور انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ==
آج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے <ref>زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6</ref>۔
آج ایرانی قوم کا کہ جو آپ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ آپ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے <ref>زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6</ref>۔
چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي۔
چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==