علی ابن ابی طالب
علی ابن ابی طالب | |
---|---|
تصویر کی وضاحت | روضہ امام علی علیہ السلام |
نام | علی ابن ابی طالب |
تاریخ ولادت | ۱۳ رجب، سال ۳۰ عام الفیل |
جائے ولادت | مکه (کعبه) |
شهادت | ۲۱ رمضان، ۴۰ق |
القاب |
|
کنیت |
|
والد ماجد | ابوطالب |
والدہ ماجدہ | فاطمه بنت اسد |
ہمسر |
|
اولاد | |
امامت کی مدت | 29 سال |
عمر | 63 سال |
مدفن | عراق (نجف اشرف) |
علی بن ابی طالب علیہ السلام امام علی اور امیر المومنین کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ تمام شیعہ مکاتب کے پہلے امام، ایک صحابی، راوی،کاتب وحی اور اہل سنت کے چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپ پیغمبر اکرم (ص) کے چچازاد بھائی اور داماد، حضرت فاطمہ (س) کے شوہر ، گیارہ شیعہ اماموں کے والد اور دادا بھی ہیں۔ آپ کے والد ابو طالب اور والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ تمام شیعہ علماء اور بہت سے سنی علماء کے مطابق، آپ کعبہ میں پیدا ہوئے اور پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے پہلے شخص تھے۔ شیعوں کے نظر میں علی علیہ السلام خدا اور پیغمبر(ص) کے حکم سے رسول خدا(ص) کے بلافصل جانشین ہیں۔ [1]
پیدائش
علی بن ابی طالب کی پیدائش 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل (ہجرت سے 23 سال قبل) مکہ اور خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔ شیعہ علماء من جملہ شیخ صدوق، سید رضی، شیخ مفید، قطب راوندی، ابن شہراشوب اور بہت سے سنی علماء جیسے حکیم نیشاابوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن سباغ مالکی، حلبی اور مسعودی کی نظر میں خانہ کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت متواتر ہے۔
نام اور نسب
آپ کے والد ابو طالب تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، اور آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔
علی بن ابی طالب کی پیدائش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال قبل 13 رجب المرجب جمعہ کو خانہ کعبہ میں ہوئی۔ [2]
جب امام علی (ع) کی ولادت ہوئی تو آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے ان کا نام حیدر (یعنی شیر) رکھا۔ اس کے بعد فاطمہ بنت اسد اور ابو طالب نے الہام الٰہی سے آپ کو علی کہنے پر اتفاق کیا۔
فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں: میں خانہ کعبہ کے اندر گئی اور جنت کے پھل اور رزق کھایا۔ چنانچہ جب میں باہر نکلنا چاہا تو کسی نے آواز دی: اے فاطمہ!اس کا نام علی رکھو کیونکہ وہ علی (اعلیٰ مرتبے والے) ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اس کا نام اپنے نام سے لیا ہے اور میں نے اسے اپنے ادب سے تربیت دی ہے اور اسے اپنے علم سے آگاہ کیا ہے۔ وہی ہے جو میرے گھر کے اندر سے بتوں کو توڑے گا اور وہی ہے جو میرے گھر کی چھت پر اذان دے گا اور میری تقدیس اور حمد کرے گا ۔ پس خوش نصیب ہے وہ جو اس سے محبت کرے اور اس کی اطاعت کرے اور اس کے لئے ہلاکت ہے جو اس کی نافرمانی کرے اور اس سے نفرت کرے[3]۔
علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب، ہاشمی اور قریشی کے نام سے جانے جاتے تھے، اور ان کے والد، ابو طالب، ایک سخی، انصاف پسند آدمی تھے، جن کی عرب قبائل عزت کرتے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور حامی تھے روایت ہے کہ آپ قریش کی عظیم شخصیات میں سے تھے۔ علی کی والدہ، فاطمہ بنت اسد، اور ان کے بھائی طالب، عقیل، جعفر، اور ان کی بہنیں ہند یا ام ہانی، جمانہ، ریتا یا ام طالب اور اسما تھیں۔ [4]
مؤرخین نے ابو طالب اور فاطمہ بنت اسد کی شادی کو ہاشمی مرد اور عورت کے درمیان پہلی شادی قرار دیا ہے اور اس لیے حضرت علی وہ پہلے شخص ہیں جو اپنے والد اور والدہ دونوں کی طرف سے ہاشمی تھے۔
القاب اور کنیتیں
امام علی علیہ السلام کے بہت سے القاب اور صفات ہیں جن میں سے ہر ایک ان کی شخصیت کی ایک جہت کو بیان کرتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر القاب آپ کو خدا کے رسول اکرم (ص)نے عطا کیے تھے۔
علی بن ابی طالب کے کنیتوں میں: ابو الحسن، ابو الحسین، ابو السبطین، ابو الریحانتین، ابو تراب، نیز مآخذ میں ان کے لیے بہت سے القاب اور صفات درج کیے گئے ہیں، جیسے: امیر المومنین، یعسوب الدین المسلمین، حیدر، مرتضیٰ، قاسم الانار والجنۃ، صاحب اللواء۔ ، صادق اکبر، فاروق، مبیر الشرق المشرکین، قتیل النقطین القاسطین المرقین، مولی المومنین، مشابہ ہارون، نفس الرسول، اخوۃ الرسول، زوج الباطل۔ , سیف اللہ المصلول، امیر البراء، قاتل الفجرہ، ذوالقرنین، ہادی، سید العرب، کاشف الکرب، داعی، شاہد، باب المدینہ، عملدار، حجۃ اللہ ، وعدہ پورا کرنے والا، النباء العظیم، الصراط المستقیم وغیرہ۔
امیر المومنین
بعض روایات کے مطابق امیر المومنین کا لقب حضرت علی کے لیے مخصوص ہے اور دوسرے معصوم اماموں کو بھی اس لقب سے نہیں پکارتے۔ مثال کے طور پر رسول خدا(ص) نے فرمایا:
جب مجھے معراج کی رات آسمان پر لے جایا گیا اور میرے اور میرے رب کے درمیان دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم فاصلہ تھا تو میرے رب نے مجھ پر جو کچھ ظاہر کرنا تھا وہ ظاہر کیا اور پھر فرمایا: اے محمد! امیر المومنین علی بن ابی طالب پر سلام بھیجو کہ میں نے ان سے پہلے کسی کو اس نام سے نہیں پکارا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکاروں گا۔ سنی منابع میں بھی ایسی روایات موجود ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر المومنین قرار دیا ہے۔[5]
شیعوں کے نزدیک امیر المومنین کا لقب، جس کے معنی امیر، کمانڈر اور مسلمانوں کے رہنما ہیں، حضرت علی (ع) کے لیے مخصوص ہیں۔ روایات کے مطابق شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ لقب پیغمبر اسلام کے زمانے میں علی بن ابی طالب کے لیے استعمال ہوا تھا اور یہ صرف انہی کے لیے ہے ۔ اور ان کی نظر میں خلفائے راشدین اور غیر راشدین کسی کے لیے بھی اس لقب کے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔بلکہ وہ اپنے دوسرے ائمہ کے لیے بھی اس لقب کو استعمال کرنے سے منع کرتے ہیں۔. [6]
وصی
یہ لقب پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں علی (ع) کے لئے مشہور تھا کیونکہ رسول خدا (ص) اور اہلبیتؑ نے اپنی زندگی میں کئی بار اس لقب سے ان کا ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر دعوت ذوالعشیرہ کے دن، جسے یوم الدار یا یوم تنبیہ بھی کہا جاتا ہے، پیغمبر نے کہا: یہ میرا بھائی، ولی اور خلیفہ ہے، لہٰذا اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ یہ میرے بعد میرا وصی اور جانشین ہے۔ اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو [7].
جسمانی خصوصیات
مختلف مآخذ میں امام علی کو درمیانے قد کا آدمی بتایا گیا ہے۔ آپ کی آنکھیں سیاہ اور چوڑی، ناک لمبی اور بھنویں ملی ہوئی اور رنگت خوبصورت تھی۔ ان کا ایک لقب "بطین" تھا اور اسی بنا پر بعض لوگ انہیں موٹا سمجھتے تھے۔ تاہم، بعض محققین کا خیال ہے کہ "بطین" سے پیغمبر کی مراد"الباطن من العلم" (علم سے بھرا ہوا) تھی۔ آپ بن گئے اور آپ علم سے معمور ہیں) امام علی کی تعریف "باطن" کی صفت کے ساتھ۔ بعض حجاج کی کتابوں میں اس بات کا ثبوت بھی سمجھا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد چربی نہیں تھی۔
علی ابن ابی طالب کی جسمانی طاقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی سے اس وقت تک نہیں لڑتے تھے جب تک کہ انہیں گرا نہ دیں [8]۔
ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی تفصیل میں کہا ہے کہ علی ابن ابی طالب کی جسمانی قابلیت ایک ضرب المثل تھی۔ اسی نے خیبر کے قلعے کا دروازہ توڑا، کچھ لوگوں نے اسے واپس کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ کر سکے، اسی نے ہیبل کے بت کو توڑا جو ایک بڑا بت تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کعبہ کی چوٹی سے زمین پر پھینک دیا اور آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے دنوں میں اپنے ہاتھوں سے ایک بڑا پتھر ہٹایا اور اس کے نیچے سے پانی ابلنے لگا، جب کہ سپاہی ایسا کرنے سے عاجز تھے۔
بیویاں اور بچے
امام علی (ع) کی پہلی زوجہ فاطمہ زہرا (س) تھیں جو کہ پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی تھیں۔ علی (ع) سے پہلے، ابوبکر، عمر بن خطاب اور عبدالرحمٰن بن عوف جیسے لوگوں نے پیغمبر سے فاطمہ کا رشتہ مانگا تھا، لیکن پیغمبر (ص) نے اپنے آپ کو خدا کے حکم کے تابع قرار دیا اور انہیں منفی جواب دیا۔ بعض منابع کے مطابق علی (ع) اور فاطمہ (س) کی شادی دوسرے ہجری سال ، ذوالحجہ کی پہلی تاریک کو، بعض کے مطابق شوال کے مہینے میں اور بعض کے مطابق 21 محرم کو ہوئی ہے۔ امام علی اور فاطمہ کے پانچ بچے تھے۔ حسن، حسین، زینب، ام کلثوم اور محسن جن کا پیدائش سے پہلے اسقاط حمل کر دیا گیا تھا۔ [9]
دوسری بیویاں
امام علی (ع) نے فاطمہ (س) کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی، لیکن فاطمہ (س) کی شہادت کے بعد، آپ نے کئی شادیاں کیں۔ ان میں ابوالعاص بن ربیع کی بیٹی امامہ بھی ہیں جن کی والدہ زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں۔ ام البنین، حزام بن داریم کلابیہ کی بیٹی، امام علی علیہ السلام کی دوسری بیوی تھیں، جن کی اولاد میں حضرت عباس، عثمان، جعفر اور عبداللہ شامل ہیں۔
ام البنین کے تمام بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ لیلی، مسعود بن خالد کی بیٹی، اسماء بنت عمیس خاتمی، یحییٰ اور عون کی والدہ، ربیعہ تغلبیہ کی بیٹی ام حبیب،، جعفر بن قیس حنفیہ کی بیٹی خولہ ، محمد بن حنفیہ کی والدہ، نیز عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی ام سعیداور امرء القیس ابن عدی کلبی کی بیٹی محیاۃ امام علی علیہ السلام کی دوسری بیویاں تھیں۔ [10]
امام کی اولاد
شیخ مفید نے کلی طور پر الارشاد میں امام علی کے27 بچوں کے نام ذکر کئے ہیں۔ ان کے مطابق بعض شیعوں نے ایک اور شخص کا نام بھی ذکرہے جو حضرت زہرا کے بیٹے تھے اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان کا نام محسن رکھاتھا۔ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کی وفات کے بعدانہیں سقط کر دیا گیا ۔ یعقوبی اپنی تاریخ کے مطابق حضرت فاطمہ (س) اورامام علی (ع) کے تین بیٹوں میں سے ایک یعنی محسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال بچپن میں ہوا تھا۔ اس حساب سے امام علی علیہ السلام کی 28 اولادیں تھیں [11]۔
نبی کے دور میں
پہلا شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور آپ کی بعثت کے فوراً بعد آپ کے پیغام کو قبول کر لیا وہ امام علی علیہ السلام تھے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ (ص) نے اپنے صحابہ سے فرمایا: قیامت کے دن حوض (کوثر) پرسب سے پہلا شخص جو مجھ سے ملے گا وہ تم میں سے پہلے اسلام لانے والا علی بن ابی طالب ہے[12]۔
شعب ابی طالب میں پیغمبر کی جان بچانا
تین سال تک جب مکہ کے مسلمان قریش کے معاشی محاصرے میں تھے اور وہ شعب ابی طالب میں مقیم تھے، علی (ع) جو نوعمر تھے، اپنے والد کے حکم سے رسول اللہ کے بستر پر سوتے تھے تاکہ قریش کی طرف سے رات کے حملے کی صورت میں انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے [13].
لیلۃ المبیت
نبوت کے 13ویں سال مسلمانوں پر مشرکین مکہ کے شدید دباؤ کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یثرب (مدینہ) کے لوگوں کو دعوت دینے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی ہجرت کاراستہ ہموار ہو گیا۔ اس صورت حال میں مشرکین قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مختلف قبیلوں سے 40 لوگوں کا انتخاب کیا کہ وہ رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر حملہ کریں اور آپ کو بستر پر مار دیں۔
خدا کے رسول کو وحی الٰہی کے ذریعہ اس منصوبہ کا پتہ چلا اور علی (ع) سے کہا کہ وہ قاتلوں کو چکمہ دینے کے لئے ان کے بستر پر سو جائیں تاکہ وہ رات کو یثرب کی طرف نکل جائیں ۔ اس طرح وہ رات جو لیلۃ المبیت کے نام سے مشہور ہوئی، علی (ع) ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیغمبر کے بستر پر سوئے اور پیغمبر نے مشرکین سے بچتے ہوئے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ سورہ بقرہ کی آیت 207 اس موقع پر علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی: "وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے"
عید غدیر کے موقع پر 12 یورپی ممالک میں پرچم علوی لہرایا جائے گا
عید غدیر کے موقع پر 12 یورپی ممالک میں پرچم علوی لہرایا جائے گا۔ آستان مقدس علوی کے مطابق عید غدیر کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے حرم کا پرچم 12 یورپی ممالک میں لہرایا جائے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، نجف اشرف سے آستان مقدس علوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عید غدیر کے پرمسرت موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے حرم کے گنبد پر نصب علم کو عراق کے 15 صوبوں اور 12 یورپی ممالک میں لہرایا جائے گا۔
حرم مقدس کے مسئول احمد القرشی نے کہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غدیر دین مکمل ہونے اور نعمتیں پوری ہونے کا دن ہے۔ خوشی کے اس موقع پر ایک بے نظیر جشن منعقد کیا جائے گا جس میں عراق کے اندر اور باہر خصوصی تقریبات ہوں گی۔ القرشی نے مزید کہا کہ اس سال غدیر کے موقع پر 12 ممالک میں تقریبات منعقد ہوں گی۔ اس موقع پر 40 مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کے حرم کا پرچم لہرایا جائے گا جس میں عراق کے 20 مقامات کے علاوہ 12 یورپی ممالک شامل ہیں [14]۔
خلافت مولا علی (ع) کا قرآن و حدیث سے تحقیقی جائزہ
مفتی سید ابرار حسین بخاری نے "خلافت مولاعلی کا قرآن و حدیث سے تحقیقی جائزہ" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ خلافت ایک ذریعہ ہے نظامِ الٰہی کے نفوذ کا جس کے تحت شریعتِ الٰہی کی رو سے ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے نیز ایک خلیفہ کو خلافتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اسی لئے منصبِ خلافت اور یہ حاکمیت ایک معین نظام ہے پروردگارِ عالم کی طرف سے نہ کہ یہ اتھارٹی عام الناس کو سونپی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں خلیفہ نامزد کر دیں۔
کیونکہ اگر یہ اتھارٹی سب کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو پھر خلافت وہ منصبِ الٰہی نہیں رہتا جس کے تحت خداوند قدوس نے اپنی حجتوں کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا نیز انبیاء کرام علیہم السلام کا کام بھی ادھورا رہتا ہے کہ اگر وہ امت کو لاوارث چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ اور کسی کو اپنا وصی و وارث و جانشین مقرر نہ کریں ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ ہر نبی اپنے بعد ایک خلیفہ نامزد کر کے جاتا ہے اور امت اس خلیفہ کے حوالے کر جاتا ہے۔ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں خلیفہ بنانا پروردگارِ عالم کا کام ہے یا پھر خداوند کے حکم سے نبی یہ کام سر انجام دیتا ہے۔ نہ کہ عوام الناس کو ہی یہ اختیار دیا گیا ہے کیونکہ پروردگارِ عالم خود اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً۔ [15]۔ "اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں" اب اس آیت سے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خلیفہ بنانا خداوند متعال ہی کا کام ہے اگر اس آیت سے کسی کو تسلی نہیں ہوتی تو مندرجہ ذیل ایک اور آیت میں ارشادِ خداوندی ہوتا ہے:
"وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰکُمۡ"[16]۔ اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کئے تاکہ جو کچھ الله نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے۔ اسی لئے ہم بار بار یہ تکرار کرتے ہیں کہ قارئین محترم یہ منصبِ خلافت کوئی عام سا منصب نہیں ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں الیکشن کمپین چلا کر اس کو اس کرسی پہ بٹھا دیں اسی روش نے ہی اس امت کو پستی اور فرقہ واریت کی طرف دھکیلا ہے نیز کوئی ایک صدی حکومت کر رہے ہیں۔
کوئی 5 صدیاں آگے چل گئے یعنی یہ سب مسلمانوں کا اپنی پسندیدہ شخصیات کو اپنی ہی مرضی سے منتخب کرنے کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے خلافتِ الٰہیہ کو ملوکیت بنا لیا *اب اس کا زمہ دار کون ہے کیا وہ شیعہ ہیں جنہوں نے کہا کہ خلیفہ نامزد کرنا خداوند متعال یا اس کی طرف سے نبی کا کام ہے یا وہ جنہوں نے کہا کہ خلیفہ وہی نامزد کریں جس کے ووٹ زیادہ ہوں؟؟* کیا یہ منصبِ خلافت ہم سب کی پسند یا ناپسند پر منحصر ہے؟؟
کیا الله تبارک و تعالیٰ نے عام الناس کو یہ اتھارٹی دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے خلیفہ نامزد کریں جبکہ الله تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ہی خلیفہ بنانے والے ہیں یعنی یہ اختیار عام الناس کو حاصل نہیں ہے ، اب ملاحظہ فرمائیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ"[17]۔
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا۔ اصل مسئلہ یہ ہے ہم نے منصبِ الٰہی کو اپنی پسند یا نہ پسند کے میزان میں رکھ دیا ہے جبکہ یہ خلافت ایک نظام ہے نمائندگان پروردگار کا نہ کہ شوریٰ پر منحصر ہے اسی لئے ہمارے نزدیک خلافت کے متعلق چند نکات کو جاننا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔
خلافت کے متعلق چند اہم نکات
خلافت کے متعلق چند انتہائی اہم و ضروری نکات ملاحظہ فرمائیں:
پہلا نکتہ
خلیفہ الله تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اسی لئے اسے منتخب کرنا بھی الله تعالیٰ کا کام ہے یا اس کے حکم سے نبی یہ کام سرانجام دیتا ہے۔
دوسرا نکتہ
خلیفہ نمائندہ خدا ہے اسی لئے الیکشن کمپین یا شوریٰ سے منتخب نہیں ہوتا کہ ووٹ کرائیں جس کے ووٹ زیادہ ہوں اس کو خلیفہ یعنی حجت خدا نامزد کیا جائے اگر یہ بات ہو تو پھر معاذ الله نبوت و رسالت کے متعلق بھی یہی اعتقاد رکھنا پڑے گا کیونکہ یہ بھی خلافت و امامت کی طرح الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منصب ہیں نہ کہ بندوں کی طرف سے۔
تیسرا نکتہ
ہر نبی کا ایک وصی و جانشین ہوتا ہے اور جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو امت اس وصی کے حوالے کر کے جاتا ہے نہ کہ لاوارث چھوڑ کر جاتا ہے وہی امت پر نمائندہ خدا ہوتا ہے اب عجیب منطق ہے اس امت محمدی ص کے مسلمانوں کی جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذ الله جنابِ رسول خدا ص اپنا جانشین و خلیفہ کسی کو بنا کر نہیں گئے یعنی معاذ الله نبی کریم ص کی 63 سالہ محنت و مشقت پر بھی پانی پھیر دیا اس اعتقاد نے کہ نبی ص امت کو لاوارث چھوڑ کر گئے اسی لئے اختلافات رونما ہوئے؟ تعجب سے کم نہیں یہ خلافتِ الٰہیہ نہیں ہے بلکہ خلافتِ پسندیدہ ہے۔
چوتھا نکتہ
خلیفہ چونکہ حجت خدا ہے اسی لئے وہ الله تعالیٰ کی طرف سے چرند پرند جن و انس سب کا خلیفہ ہوتا ہے مطلب کہ پوری کائنات میں وہ حق تصرف رکھتا ہے نہ کہ بس اپنی کرسی اور اپنی بستی تک محدود ہوتا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی طرف سے معین ہو اگر عام الناس کی طرف سے اس کا تعین ہو گا تو اس کی خلافت انہی تک محدود ہو گی اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس کی خلافت سب پر مقام رہبری ہے اور اس سے روگردانی کرنا بھی درحقیقت الله تعالیٰ اور رسول الله ص سے روگردانی کرنے کے مترادف ہے۔
پانچواں نکتہ
خلیفہ چونکہ حجت خدا ہے اسی لئے اس کا معصوم ہونا شرط لازم ہے کیونکہ اگر خلیفہ غیر معصوم ہو تو اس سے غلط اقدامات جو خلافِ شریعت ہوں سر زد ہو سکتے ہیں جبکہ حجت خدا سے غلط کام کا اندیشہ ہوتا ہی نہیں ہے نیز خلیفہ نبی کے علم کا وارث ہونا چاھئے یعنی سلونی سلونی کا دعویٰ کرنے والا ہو یعنی ہر مسئلے کا حل وہ خود ہی قرآن و حدیث سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اگر کوئی خلیفہ مسائل میں عام الناس سے رجوع کرتا ہو تو اس کا معیارِ خلافت خداوند کی طرف سے نہیں ہو گا کیونکہ معصوم کا مطلب تمام صفات کمالیہ کا حامل ہونا ہے۔
ان تمام نکات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کسی خلیفہ یعنی نمائندہ خدا کو عام الناس ووٹ اور شوریٰ کے تحت منتخب کرتے ہیں ، تو اس خلیفہ کی خلافت انہی لوگوں تک محدود ہو گی نہ کہ اس خلیفہ کا تعین خداوند کی طرف سے ہو گا کیونکہ اس کی یہ خلافت پوری مخلوقات کیلئے نہیں ہو گی جبکہ ایک خلیفہ جسے الله تعالیٰ یا اس کے حکم سے نبی مقرر کرتا ہے تو وہ پوری کائنات میں بحیثیت حجت خدا کا وجود رکھتا ہے یہی تو اصل فلسفہ خلافت ہے۔
امیر المومنین مولا علی ع خلیفہ بلا فصل کیوں؟
ہم نے اوپر بھی یہ نکتہ واضح کیا کہ ہر نبی کا ایک وصی و جانشین و وارث ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام چونکہ معصوم ع ہیں اسی لئے نبی کا خلیفہ بھی معصوم ہونا چاھئے لہذٰا قرآن مجید سے ہٹ کر مسلمانوں کے ہاں جتنے بھی منابع تفاسیر و احادیث ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا محمد مصطفیٰ ص نے کئی بار امیر المومنین مولا علی ع کو اپنا وصی اور وارث اور خلیفہ قرار دیا ہے۔
لہٰذا ہم یہاں قرآن و حدیث سے فقط چند نکات پیش کریں گے اور امیر المومنین مولا علی ع کی خلافتِ بلا فصل ثابت کریں گے سب سے پہلے ہم قرآن مجید و کلامِ الٰہی کی طرف آتے ہیں اور کچھ آیات پیش کریں گے اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند متعال سے یہ خواہش اور درخواست کی کہ پروردگار مجھے میرے بھائی ہارون ع کے زریعے مضبوط بنا اور اسی کے زریعے میری نصرت فرما تا کہ وہ وصی نبی کی تصدیق کرے اب امت کی طرف سے دی گئی اذیتیں اور سختیاں وہ وصی بھی برداشت کرے گا۔
نیز وہ اس نبی کے ساتھ اس کام یعنی پیغام حق لوگوں تک پہنچانے میں مدد فرمائے کہ جو نبی نے اپنے ذریعے دوسروں تک پہنچانا ہے اب قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے حضرت موسٰی علیہ السلام نے الله تعالیٰ سے درخواست کی: "وَ اَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ" [18]۔
اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہٰذا اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام الله تعالیٰ سے دعا کر رھے ہیں کہ اے پروردگار! ہارون علیہ السلام کے زریعے مجھے مضبوط بنا اور میری نصرت فرما ادھر ہمارے نبی جنابِ رسول خدا خاتم النبیین صلى الله عليه و اله وسلم حضرت امیر المومنین مولا علی ع کے متعلق الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہیں :
"اللّٰھم انی اقول کما قال اخی موسیٰ اللّٰھم اجعل لی وزیراً من اھلی علیا اخی اشددبہ ازری واشرکہ فی امری کی نسبحک کثیراً ونذکرک کثیراً انک کنت بنا بصیراً"۔ "اے الله! میں بھی وہی دعا کرتا ہوں جو میرے بھائی موسیٰ نے کی ہے اے الله میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے میرے بھائی علی کو اسے میرا پشت پناہ بنا دے اور اسے میرے امر میں شریک بنا دے کہ ہم تیری خوب تسبیح کریں اور تجھے کثرت سے یاد کریں یقیناً تو ہمارے حال پر نظر رکھتا ہے" [19]
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام الله تعالیٰ سے مزید التجاء کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہارون ع کو میرا جانشین و وزیر بنا دے اور کار رسالت میں میرا ساتھی قرار دے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: "وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ، ہٰرُوۡنَ اَخِی ، اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ ، وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ" [20]۔۔ اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے ، میرے بھائی ہارون کو ، اسے میرا پشت پناہ بنا دے ، اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے"
اسی طرح جنابِ رسول خدا ص نے امیر المومنین مولا علی ع کو اپنا وصی و جانشین مقرر کیا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی مثل کہا چونکہ اب نبوت کا دروازہ بند ہے کیونکہ جنابِ رسول خدا خاتم النبیین ہیں اسی لئے مولا علی ع سے فرمایا کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون ع کو موسی ع سے مگر بعد نبوت کا دروازہ بند ہے لیکن اگر نبی ہوتا تو یقیناً علی ابن ابی طالب ع ہی ہوتا اب آتے ہیں حدیث کی طرف:
"عَنْ اِبْنِ عباس، عَنِ النَّبِی قٰالَ لِاُمِّ سَلَمَة:یَااُمِّ سَلَمَةَ اِنَّ عَلِیًّا لَحْمُہُ مِنْ لَحْمِیْ وَدَمُہُ مِنْ دَمِیْ وَھُوَ بِمَنْزِلَةِ ہارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی" حضرت ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنابِ اُمِ سلمہ سے فرمایا: اے اُمِ سلمہ!بیشک علی کا گوشت میرا گوشت ہے ، علی کا خون میرا خون ہے اور اُس کی نسبت مجھ محمد ص سے ایسی ہے جیسی ہارون ع کی موسیٰ ع سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا"
چنانچہ جب الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کر لی تو فرماتے ہیں کہ اب ہم موسیٰ علیہ السلام کی مدد ان کے بھائی ہارون علیہ السلام سے کریں گے اور انہیں قوت دیں گے ملاحظہ فرمائیں: "قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیۡکَ وَ نَجۡعَلُ لَکُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا یَصِلُوۡنَ اِلَیۡکُمَا ۚۛ بِاٰیٰتِنَاۤ ۚۛ اَنۡتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ" [21]۔ فرمایا: ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے اور ہم آپ دونوں کو غلبہ دیں گے اور ہماری نشانیوں (معجزات) کی وجہ سے وہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے ، آپ دونوں اور آپ کے پیروکاروں کا ہی غلبہ ہو گا۔
اب یہاں الله تعالیٰ حضرت ہارون علیہ السلام کے زریعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نصرت کر رھے ہیں اور ان کا بازو مضبوط کر رھے ہیں اسی طرح جنابِ رسول خدا ص نے مولا علی علیہ السلام سے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے تمہارے ذریعے سے میرا بازو مضبوط کیا ہے اس پر متعدد روایات ہیں ہم ایک بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
"بابی انت و امی من شد اللہ عضدی بہ کما شد عضد موسیٰ بھارون" میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں اس پر جس سے الله نے میرا بازو مضبوط کیا ہے جس طرح موسیٰ کا بازو ہارون سے مضبوط کیا ہے [22]۔
اب یہاں تک تو بات واضح ہو ہی گئی کہ رسول الله ص کے بعد اس امت کا حاکم و خلیفہ و وارث مولا علی علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ مولا علی ع حضرت ہارون ع کی مثل ہی ہیں حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے لیکن یہاں نبوت کا دروازہ بند ہے اور خلافت و امامت و ولایت کا دروازہ کھلا ہے ، حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ وصی و جانشین تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی حضرت ہارون علیہ السلام کی وفات ہو گئی تھی لہٰذا اب جنابِ رسول خدا ص مولا علی علیہ السلام کے متعلق کہیں یہ فرماتے ہیں:
"أنتَ مِنِّي بمَنزِلَةِ ہارونَ مِن مُوسَي إلا أنَّہ لا نَبيَّ بعدي" تو کہیں فرماتے ہیں:
"أنتَ أخِي، وَ وَزِيري وَ وارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِن بَعدِي" تم میرے بھائی ، وزیر اور وارث اور میرے بعد میرے جانشین ہو [23]۔
نیز کبھی اپنا خون و گوشت قرار دیتے ہیں تو کہیں اپنا نفس و بھائی قرار دیتے ہیں :
"قال رسول اللہ (ص): یا علی انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ"
"اے علی ع تو دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے"
مختصر جنابِ رسول خدا ص نے واضح طور پر اپنی زندگی میں ہی شروع سے لے کر یعنی دعوت ذوالعشیرہ سے غدیر تک امیر المومنین مولا علی ع کی خلافت و امامت و ولایت کا اعلان کرتے رھے اسی لئے تو دعوت ذوالعشیرہ میں جب رسول الله ص نے ندائے حق بلند کی تو سوائے علی علیہ السلام کے ور کوئی آپ کی تصدیق و نصرت کیلئے تیار نہیں تھا اسی لئے آپ ص نے فرمایا:
"أنتَ أخِي، وَ وَزِيري وَ وارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِن بَعدِي"
اب یہاں تک تو بات کلئیر ہے لیکن اب ہم اس کو مزید واضح کرتے ہیں تا کہ شک و شبہ کی گنجائش باقی ہی نہ رھے جناب رسول خدا محمد مصطفیٰ ص نے باقاعدہ طور پر ہی کئی مقامات پر کئی مرتبہ امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی خلافت کی وصیت کی ، ہم فی الحال سقیفہ سے ہٹ کر حدیث کی طرف آتے ہیں ، ایک حدیث جو ہم اس ضمن میں پیش کر رھے ہیں حسن کا درجہ رکھتی ہے اور متواتر حدیث ہے نیز ہم راویوں کی وضاحت بھی کریں گے اور ایک اشکال کی وضاحت بھی کریں گے حدیث مندرجہ ذیل ہے جو متعدد کتب میں موجود ہے:
حدیثِ خلافتِ علی (ع)
"ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا یَحْیَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِی عَوَانَةَ، عَنْ یَحْیَى بْنِ سُلَیْمٍ أَبِی بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم لِعَلِیٍّ: أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلا أَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا، إِنَّهُ لا یَنْبَغِی أَنْ أَذْهَبَ إِلا وأَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی" [24]۔
ناصر الدین البانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ روایت کی سند پر مزید تحقیق: اس روایت کے تمام راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں سوائے ابوبلج کے لہٰذا ہم اس روایت کے راویوں کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں خصوصاً ابوبلج کی: محمد بن المثني:
"محمد بن المثني بن عبيد العنزي بفتح النون والزاي أبو موسي البصري المعروف بالزمن مشهور بكنيته وباسمه ثقة ثبت من العاشرة وكان هو وبندار فرسي رهان وماتا في سنة واحدة"۔
"اپنی کنیت اور اپنے نام سے مشہور ہے *دسویں طبقے کا ثقہ پختہ کار راوی ہے* یہ اور بندار باہم عروج پر پہنچے اور ایک ہی سال کو فوت ہوئے" [25]۔
يحيي بن حماد
"يحيي بن حماد بن أبي زياد الشيباني مولاهم البصري ختن أبي عوانة ثقة عابد من صغار التاسعة مات سنة خمس عشرة" نویں صدی کے صغار حضرات میں سے ثقہ عابد راوی ہے [26]۔
=
ضاح بن عبد الله الیشکری ===
"وضاح بتشديد المعجمة ثم مهملة اليشكري بالمعجمة الواسطي البزاز أبو عوانة مشهور بكنيته ثقة ثبت من السابعة مات سنة خمس أو ست وسبعين ع"۔ اپنی کنیت سے مشہور ہے ساتویں طبقہ کا ثقہ پختہ کار راوی ہے۔
عمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ
"عمرو بن ميمون الأودي أبو عبد الله ويقال أبو يحيي مخضرم مشهور ثقة عابد نزل الكوفة مات سنة أربع وسبعين وقيل بعدها ع"۔ مشہور مخضرمی ثقہ عابد* راوی ہے۔
أبو بلج الفزاري يحيي بن سليم
اب أبو بلج الفزاري يحيي بن سليم پر مختصر بحث کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ لوگ اس شخصیت کا سہارا لے کر روایت کو ضعیف قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کیونکہ فضائل امیر المومنین مولا علی ع ان لوگوں کو ہضم نہیں ہوتے حالانکہ فضائل میں روایت قبول کرنا بھی ان کے اصولوں میں شامل ہے خیر ہم اس روایت پہ آتے ہیں جس کو
البانی جیسے محققین نے حسن کہا ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی ابوبلج کے متعلق کہتے ہیں
أبو بلج بفتح أوله وسكون اللام بعدها جيم الفزاري الكوفي ثم الواسطي الكبير اسمه يحيي بن سليم أو بن أبي سليم أو بن أبي الأسود صدوق ربما أخطأ۔ اس کا نام یحییٰ بن سلیم یا ابن ابو سلیم یا ابن ابو الاسود ہے ، *پانچویں طبقہ کا صدوق راوی ہے* تا ہم بسا اوقات غلطی کر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ امام نسائی ، امام ابن معین ، امام دارقطنی وغیرہ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کہتے ہیں:
عسقلانی نے لسان المیزان میں بھی یہی کہا ہے
"يحيي بن سليم ان أبو بلج الفزاري عن عمرو بن ميمون وعنه شعبة وهشيم وثقه بن معين والنسائي والدارقطني" [27]۔ نیز اس کے علاوہ اس کی روایات صحاحِ ستہ میں بھی موجود ہیں اور صحیح کا درجہ رکھتی ہیں جیسا کہ ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ و ابوداؤد میں موجود ہیں بطور نمونہ : حدثنا عبد الله بن ابي زياد الكوفي، حدثنا عبد الله بن بكر السهمي، عن حاتم بن ابي صغيرة، عن ابي بلج، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما على الارض احد يقول لا إله إلا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله إلا كفرت عنه خطاياه ولو كانت مثل زبد البحر.....
اس کے علاوہ فضائل الصحابہ احمد بن حنبل میں بھی ابو بلج کی روایات کو صحیح کہا گیا ہے نیز علامہ احمد شاکر نے مسند احمد میں اس کی روایات کو صحیح کہا ہے اور کہتے ہیں کہ امام بخاری کی طرف سے تاریخ کبیر وغیرہ میں ابوبلج کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات نہیں ملی۔۔ نیز حافظ زبیر علی زئی نے امام بخاری کی کتاب الضعفاء کی تحقیق کی تو *تحفتہ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء* میں بھی کہیں پہ ابوبلج کے متعلق ایسا کچھ نہیں ملتا۔ آخر پہ ہم یہی کہتے ہیں ماضی قریب کے امام بخاری یعنی ناصر الدین البانی نے اس کی روایات کو قبول کیا ہے اور اس روایت کو بھی *حسن* کہا ہے تو مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
حواله جات
- ↑ مفید، الارشاد، 1:5
- ↑ بارہ امام، ابن طولون، ص 47
- ↑ الارشاد، المفید، حصہ 1، ص
- ↑ تذکرة الخواصّ ص 5
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ج۳۷، ص۳۳۴؛ حر عاملی، وسائلالشیعة، ج۱۴، ص۶۰۰
- ↑ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ بنت اسد کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کے گھر میں داخل ہوئی اور جنت کی تعداد اور اس کے رزق میں سے کھایا۔ سمیعہ عالیہ، فاؤ علی، اور اللہ العلی العلی یقول: محافل کی دعوت، و أدبته أدبي أدبی، وقَّفَّه علی غامض حمض اللمی، و الذی يكر الأسنام فی بیتتی، و الذی یؤذن فوق جر بتی، وِقَدَنَ وَقَدْنِ۔ وأبغضه (موسوعة الإمام علی بن أبیطالب "عالیهالسلام" فی الکتاب والسنة والتاریخ ج۱ ص۷۶ و ۷۷ وعلل الشرائع ج۱ ص۱۶۴ و (ط المطبعة الحیدریة) ج۱ ص۱۳۶ ومعانی الأخابی والأخبار ص۶۲ و ۶۳ وروضمالة لاعمال لاعمال الأخابی والأخابی والأخبار ص۱۳۶ حمزة الطوسی ص۱۹۷ و ۱۹۸ والمحتضر لحسن بن سلیمان الحلی ص۲۶۴ وکتاب الأربعین للشیرازی ص۶۱ والجواہر السنیة للحر العاملی ص۲۳۰ وحلیة الأبرار للسید ہاشم البحرانی ج۲ ص۲۲ والأنة المعاجز البحرانی ج۲ ص۲۲ والأنة علی
- ↑ بحار الانوار (اول - بیروت)، ج 38، ص 224
- ↑ امین، سیرۃ معصومین، جلد 2
- ↑ مسعودی، وصیت کا ثبوت، ص 153
- ↑ محمدی رائے شہری، ج1، ص108
- ↑ یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج2، ص213
- ↑ تاریخ مدینہ دمشق، جلد 42، صفحہ 41، 42، اور 43؛ میزان العتدل، ج2، ص3 اور 416؛ المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 6، ص
- ↑ تفسیر نمونہ، ج5، ص198
- ↑ عید غدیر کے موقع پر 12 یورپی ممالک میں پرچم علوی لہرایا جائے گا-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 21 جون -اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 جون 2024ء۔
- ↑ بقرہ آیت 30
- ↑ انعام/ 165
- ↑ نور/55
- ↑ قصص/34
- ↑ شواہد التنزیل / الحافظ الکبیر الجسکانی الحنفی المتوفی 460ھ،ج 1 ، ص479_478
- ↑ طہ/ 32-29
- ↑ قصص/35
- ↑ شواہد التنزیل الحافظ الکبیر الجسکانی الحنفی ، الصفحة 435 ، حدیث 598
- ↑ کفایۃ الطالب، گنجی شافعی، ص 205
- ↑ کتاب السنہ الحافظ ابی بکر احمد بن عمرو بن ابی عاصم ، حدیث 1222 / ناصر الدین البانی ، حدیث 1188
- ↑ تقریب التہذیب 6264
- ↑ تقریب التہذیب 7535
- ↑ لسان المیزان 5209