پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی 2025ء

ویکی‌وحدت سے
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی 2025ء
تنش هند و پاکستان 2025.jpg
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا نامعرب اسرائیل جنگ
واقعہ کی تاریخ2025ء
واقعہ کا دن22 اپریل 2025ء
واقعہ کا مقام
  • بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے قریب بیسارن گھاس کے میدان میں
عواملسیاحوں پر حملہ
نتائج
  • سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنے کی دھمکی
  • اٹاری چیک پوسٹ کی بندش
  • پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا چھوٹ ختم کرنا

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی 2025ء 22 اپریل 2025ء کو، بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے قریب بیسارن گھاس کا میدان میں ایک دہشت گرد حملے میں کم از کم 28 سیاح ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ حملہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد خطے میں سب سے مہلک حملوں میں سے ایک ہے، اس حملے میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملہ کے بعد فریقین کے فیصلوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان صورت حال لمحہ بہ لمحہ مزید خطرناک ہوتی جارہی ہے اور یہ فیصلے دونوں ممالک کو ایک مکمل تصادم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ میڈیا ذرائع نے پاکستان کے بارے دہلی کے نئے فیصلے کی اطلاع دی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ملک کے تمام گورنروں کو پاکستانی شہریوں کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا۔

حملہ

22 اپریل 2025 کو 14:50 پر، کم از کم چار عسکریت پسند بیسارن وادی کے گھاس کے میدان میں داخل ہوئے، یہ میدان پہلگام شہر سے تقریبا 7 کلومیٹر دور ہے۔ یہ علاقہ چاروں طرف سے گھنے چیڑ کے جنگلات سے گھرا ہوا ہے، اس جگہ کو "منی سوئٹزرلینڈ" کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ مقام عوام کے لیے ایک مقبول جگہ ہے۔ عسکریت پسندوں نے ایم ایم4 کاربائنز اور اے کے 47 استعمال کی اور انھوں نے فوجی طرز کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔

مقبوضہ کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے 24 سیاح ہلاک ہوگئے۔ غیر ملکی خبررساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں ہوا جو مسلمان اکثریتی علاقے میں واقع ہے جب کہ یہ گزشتہ ایک سال کے دوران مقبوضہ وادی میں پیش آنے والا بدترین واقعہ ہے۔

یاد رہے کہ پہلگام میں موسم گرما کے دوران ہزاروں سیاح وادی کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں جب کہ حالیہ برسوں میں یہاں پر پرتشدد واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق زخمیوں کو فوری طور پر مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

ایک سیکیورٹی ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 20، دوسرے نے 24 اور تیسرے ذرائع نے 26 رپورٹ کی، تینوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ ان کے مطابق وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ قبل ازیں، بھارتی ٹی وی چینلز نے ابتدائی طور پر اطلاع دی تھی کہ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور 7 زخمی ہوئے ہیں۔

ایک عینی شاہد نے اپنا نام بتائے بغیر انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ فائرنگ ہمارے سامنے ہوئی، ہم نے سوچا کہ کوئی پٹاخے چلا رہا ہے، لیکن جب ہم نے دوسرے لوگوں کی (چیخنے) کی آواز سنی تو ہم جلدی سے وہاں سے نکلے، اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے۔ ایک اور عینی شاہد نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ ہم 4 کلو میٹر تک نہیں رکے اور اس وقت میں خوف سے کانپ رہا ہوں۔

ایک ٹور گائیڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ گولی چلنے کی آواز سن کر جائے وقوعہ پر پہنچے اور کچھ زخمیوں کو گھوڑے پر بیٹھا کر لے گئے جب کہ میں نے کچھ آدمیوں کو زمین پر پڑے ہوئے دیکھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مر چکے ہیں۔ انڈین ایکسپریس اخبار نے ایک سینئر پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ یہ حملہ سڑک سے دور گھاس کے میدان میں ہوا اور اس میں دو یا تین مشتبہ افراد ملوث تھے۔

طبی عملہ ایک زخمی سیاح کو اننت ناگ کے ایک ہسپتال میں منتقل کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایکس پر کی گئی پوسٹ میں کہا ’ہلاکتوں کی تعداد معلوم کی جارہی ہے لہذا میں ابھی اس تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ مزید کہا تاہم، یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ حملہ حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر کیے جانے والے حملوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے۔

جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں پہلگام میں سیاحوں پر بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہوں، جس میں 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب، ’کشمیر ریزسٹنس‘ نامی ایک غیر معروف گروپ نے سوشل میڈیا پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

گروپ کی جانب سے جاری پیغام میں اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد ’آؤٹ سائیڈر‘ (باہر کے لوگوں) کو آباد کیا گیا ہے، جس سے ’ڈیموگرافک تبدیلی‘ رونما ہو رہی ہے۔ گروپ کی جانب سے کہا گیا کہ اسی وجہ سے غیر قانونی طور پر آباد ہونے کی کوشش کرنے والوں پر تشدد ہوگا۔

تاہم غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ آزادانہ طور پر اس پیغام کے ذرائع کی تصدیق نہیں کر سکا۔ مقبوضہ کشمیر کی علاقائی حکومت نے رواں ماہ اپنی قانون ساز اسمبلی کو بتایا کہ گزشتہ 2 برسوں میں بھارت کے دیگر حصوں سے تقریباً 84 ہزار غیر مقامی افراد کو اس علاقے (پہلگام) میں ڈومیسائل (رہائشی حقوق) دیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ مسلم اکثریتی علاقے میں 1989 سے مسلح بغاوت جاری ہے، جس میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔ حالانکہ حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے جب کہ سیاحوں کو نشانہ بنانے والے حملے حالیہ برسوں میں کم ضرور ہوئے ہیں، لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ سیاحوں پر آخری بڑا حملہ جون 2023 میں ہوا تھا جب ایک بس پر حملے کے بعد وہ گہری کھائی میں جا گری تھی، جس میں کم از کم 9 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں تقریباً 5 لاکھ فوجی مستقل طور پر تعینات کر رکھے ہیں۔

نریندر مودی نے دورہ سعودی عرب مختصر کر دیا

ادھر، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے واقعے کے بعد اپنا دو روزہ دورہ سعودی عرب مختصر کر دیا، حکومتی ذرائع کے مطابق وہ رات کو بھارت کے لیے روانہ ہوں گے۔ بھارتی ادارے انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جدہ میں سعودی عرب کی طرف سے دیے گئے سرکاری عشائیے میں شرکت نہیں کی، جہاں انہوں نے اپنے دورے میں سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان سے ملاقات کی، نئی دہلی کی وزارت خارجہ کے مطابق نریندر مودی اور سعودی ولی عہد نے پہلگام حملے پر تبادلہ خیال کیا۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد بدھ کی صبح کابینہ کمیٹی برائے سلامتی کا اجلاس ہونے کا امکان ہے۔ اس سے قبل نریندر مودی کو وزیر داخلہ امت شاہ نے پہلگام میں حملے کے بارے میں بریفنگ دی تھی، جبکہ انہوں نے امیت شاہ سے کہا تھا کہ وہ تمام مناسب اقدامات کریں اور جائے وقوعہ کا دورہ کریں۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں نریندر مودی نے کہا کہ حملہ آوروں کو نہیں چھوڑیں گے

انہوں نے کہا کہ میں پہلگام میں حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اور ان لوگوں کے لیے تعزیت کرتا ہوں، جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔

بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس گھناؤنے فعل کے پیچھے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، انہیں بخشا نہیں جائے گا! ان کا ایجنڈا کبھی کامیاب نہیں ہوگا، دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا ہمارا عزم غیر متزلزل ہے اور یہ مزید مضبوط ہوگا۔

بھارتی میڈیا کا من گھڑت اور جھوٹا پروپیگنڈا

دوسری جانب، مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملے سے متعلق بھارتی میڈیا کی جانب سے من گھڑت اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا جس کا مقصد فالس فلیگ ڈرامہ رچا کر مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانا ہے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ بدترین واقعہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب نائب امریکی صدر ہندوستان کا دورہ کر رہے ہیں[1]۔

جانی نقصانات

اس حملے میں کم از کم 28 شہری /غیر ملکی ہلاک ہوئے، جن میں بھارت کے مختلف حصوں سے 25 بھارتی ، جموں و کشمیر کے دو مقامی اور نیپال اور متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے دو غیر ملکی سیاح شامل ہیں۔

بھارت نے 14 ناموں پر مشتمل ’ہِٹ لسٹ‘ جاری کردی

اس بار بھی بھارت کی آزادی پسند گروہوں کے ناموں کا بے بنیاد حوالہ دے کر اپنی ریاستی دہشتگردی کو جواز دینے کی کوشش۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی روایتی چالاکیوں کے تحت ایک بار پھر مقامی کشمیری نوجوانوں کو نشانہ بنانے کی مہم تیز کر دی ہے۔ 26 افراد کی ہلاکت کے بعد، بھارت نے اپنی بدترین ناکامیوں کا ملبہ کشمیر کی حریت پسند تحریک پر ڈالنے کی مذموم کوشش شروع کر دی ہے۔

ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے اننت ناگ، شوپیاں اور پلوامہ اضلاع میں سرگرم 14 کشمیری نوجوانوں کی ایک فہرست جاری کی ہے، جنہیں بغیر کسی ثبوت کے دہشتگرد قرار دے کر نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ وہی پرانا بھارتی ہتھکنڈہ ہے جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو چھپایا جاتا ہے۔

پہلگام پروپیگنڈے کی ناقص بین الاقوامی کوریج پر بھارتی میڈیا صدمے سے دوچار

بھارتی میڈیا کے مطابق ہندوستانی خفیہ ایجنسی نے ایک فہرست جاری کی ہے، جن نوجوانوں کو نشانہ بنایا جائے گا ان میں احسان الحق، عادل رحمان ڈیٹو، حارث نذیر، ناصر احمد وانی اور شاہد احمد کٹے شامل ہیں۔ اسی طرح احمد شیخ، عامر نذیر وانی، یاور احمد بھٹ اور آصف احمد کانڈے، زبیر احمد وانی، ہارون رشید غنی اور زبیر احمد غنی کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں۔

ان مجاہدین پر بھارت نے بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ وادی میں حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ بھارت نے اپنی روایتی سازشی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مجاہدین کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کی ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنی ناکامیوں کو چھپایا جا سکے۔

ماضی کی طرح اس بار بھی بھارت نے آزادی پسند گروہوں کے ناموں کا بے بنیاد حوالہ دے کر اپنی ریاستی دہشتگردی کو جواز دینے کی کوشش کی ہے۔ اس فہرست میں شامل افراد کو محض ان کی جدوجہد آزادی اور بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی جا رہی ہے۔

پہلگام حملے کے بعد، بھارت نے اپنی روایتی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی بے بنیاد اقدامات کا اعلان کیا۔ سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنے کی دھمکی، اٹاری چیک پوسٹ کی بندش اور پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا چھوٹ ختم کرنے جیسے اقدامات دراصل بھارت کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ پالیسیاں اس حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش ہیں کہ بھارت اپنی داخلی سلامتی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔

بین الاقوامی مبصرین پہلے ہی بھارتی حکومت کی ان اوچھے ہتھکنڈوں پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ اپنی عوام اور دنیا کو یہ تاثر دے کہ تمام مسائل کی جڑ پاکستان اور کشمیری مجاہدین ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں اور ریاستی جبر نے مقبوضہ کشمیر میں بغاوت کو جنم دیا ہے۔

خطے کے امن کو داؤ پر لگانے کی کوشش: بھارت کے جنگی بحری جہازوں نے میزائل چلا دئے مقبوضہ کشمیر کے بہادر نوجوان اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کی ہر سازش اور پروپیگنڈے کے باوجود عالمی برادری میں کشمیر کی مظلومیت اجاگر ہو رہی ہے۔ پہلگام کا واقعہ بھی بھارتی ریاستی دہشتگردی کی ایک اور کڑی کے طور پر تاریخ میں رقم ہو گیا ہے[2]۔

اسلام آباد کا نئی دہلی کو الٹی میٹم

پاکستان کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ ہم اپنی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے اور تمام ہندوستانی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں زور دیا گیا کہ ہم امن کے لیے پرعزم ہیں، لیکن کسی کو اپنی خودمختاری اور حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے مزید واضح کیا کہ "بھارتی دفاعی مشیر ناپسندیدہ عناصر ہیں اور انہیں 48 گھنٹوں کے اندر اپنا ملک چھوڑ دینا چاہیے۔

ہندوستانیوں کے تمام ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور انہیں 48 گھنٹوں کے اندر ہماری سرزمین سے نکل جانا چاہیے۔ اسلام آباد میں بھارتی مشن کے عملے کی تعداد بھی کم کر کے 30 کر دی جائے گی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہماری مسلح افواج کسی بھی مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

سرحدی تنازعہ

آج صبح ہندوستان اور پاکستان کے میڈیا ذرائع نے سرحدی جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے کی اطلاع دی۔ اسی دوران، بعض ذرائع نے آگاہ کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد، ہندوستانی حکومت نے دریائے سندھ کے پانی کے چاروں دروازے بند کردیئے، جو چار ڈیموں اور متعلقہ نہروں کے ذریعے پاکستان کو پانی منتقل کرتے تھے۔

اس بھارتی اقدام کے پاکستانی زراعت پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ جیسے دو اہم زرعی مراکز میں دریائے سندھ کا بہاؤ بند ہونے سے زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں زراعت کا ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً 21 فیصد حصہ ہے اور پاکستان کی 45 فیصد افرادی قوت اس شعبے میں کام کرتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بہت سے پاکستانی کسان اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے دریا کے پانی پر انحصار کرتے ہیں، اس اقدام سے خوراک کے بحران اور مقامی منڈیوں میں قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ نیز، یہ صورتحال زرعی شعبے میں بے روزگاری اور کاشتکار خاندانوں پر معاشی دباؤ میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔

بجلی کی بندش اور توانائی کے بحران کا امکان

زرعی اثرات کے علاوہ بجلی کی بندش کا بھی امکان ہے۔ پاکستان ہائیڈرو الیکٹرک پاور کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اور دریا کے بہاؤ میں کمی سے بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں توانائی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ اس سے صنعتوں کو بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روزمرہ زندگی میں بھی سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

تاریخی اور سیاسی تناظر

دریائے سندھ خطے کے سب سے اہم آبی وسائل میں سے ایک ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ نقشوں کے مطابق پاکستان میں بہنے والے تقریباً تمام دریا ہندوستانی علاقوں بشمول ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر سے نکلتے ہیں، یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور سیاسی کشیدگی کو ہوا دیتا ہے، اور پانی کا بحران اس تصادم میں ایک نئے عنصر کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

ممکنہ خطرات اور بین الاقوامی مضمرات

بھارت کی طرف سے یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان بحران میں اضافے اور سنگین تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اور اب پانی کا بحران دونوں ایک بڑے تصادم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دونوں ممالک کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔ یہ صورت حال دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ممکنہ تصادم میں بدل کر قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

اسلام آباد میں بھارت مخالف مظاہرے

دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ دہشت گردانہ حملے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد گزشتہ روز اسلام آباد کے ریڈ زون میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں حامیوں نے بھارتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ تاہم پاکستانی سکیورٹی فورسز نے جائے وقوعہ پر بڑی موجودگی کے ساتھ مظاہرین کو غیر ملکی سفارت خانوں بالخصوص ہندوستانی سفارت خانے کی طرف بڑھنے سے روک دیا[3]۔

رد عمل

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ، سخت بیانات کا تبادلہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے ساتھ اعلی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بیازی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقے کشمیر میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ منگل کو پہلگام کے علاقے میں پیش آنے واقعے میں 34 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، جس کے بعد دونوں دیرینہ حریف ہمسایہ ممالک کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ واقعے کے بعد بھارت نے 65 سالہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا اور پاکستانی فوجی مشیروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا؛ دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کی تعداد کم کردی؛ اپنے شہریوں کو فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی اور پاکستان کے ساتھ اپنی سرحدی راہداری بند کردی۔

دوسری جانب اسلام آباد نے ان اقدامات کو مخاصمت آمیز اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بھارتی مسافر طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردی اور قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ پہلگام حملہ من گھڑت تھا۔ اسلام آباد کا کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں سرگرم کسی بھی مسلح گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کے بھیانک نتائج ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کشمیر میں ہونے والے واقعات میں کسی بھی طور پر ملوث نہیں۔ دراین اثناء رائٹرز نے بتایا ہے کہ بھارتی فوج نے دعوی کیا ہے کہ پاکستانی افواج نے سرحدی علاقے میں بھارتی اہلکاروں پر فائرنگ کی ہے۔ بھارتی فوج کے مطابق اس تازہ فائرنگ کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعے پر ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ تہران، نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کم کرانے اور ثالثی کے لیے تیار ہے[4]۔

پاکستان

پہلگام واقعے پر غیرجانبدارانہ عالمی تحقیقات کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کیخلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے، بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد بے بنیاد اور بلا ثبوت الزامات لگائے، پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے غیر جانبدارانہ عالمی تحقیقات کے لیے تیار ہے، تاہم دھمکیاں ناقابل قبول ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ کی تقریب سے بطور مہمان خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روکا گیا تو پوری قوت سے جواب دیں گے، پانی ہماری لائف لائن ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کسی کو بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے، پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے دنیا بھر میں امن و سلامتی کا خواہاں ہے، اور اس کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے گا، اور یو این چارٹر پر عمل کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھاتا رہے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے، ہماری خواہش ہے کہ ان کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات ہوں، لیکن بدقسمتی سے افغانستان کی سر زمین سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے کابل کا دورہ کیا، اور باور کروایا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ اچھے اور پر امن تعلقات چاہتا ہے، تاہم افغان سرزمین سے پاکستان میں حملے برداشت نہیں کیے جاسکتے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان غزہ میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کرتا ہے، اور اقوام عالم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسرائیلی مظالم رکوائیں، ہم فلسطینی عوام کے آزاد وطن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، تاکہ وہ پر امن طور پر رہ سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد بے بنیاد اور بلا ثبوت الزامات لگائے، پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے غیر جانبدارانہ عالمی تحقیقات کے لیے تیار ہے، تاہم دھمکیاں ناقابل قبول ہیں[5]۔

اقوام متحدہ

کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہوئے حملے کی کڑی مذمت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش۔ UN Photo/Evan Schneider اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش۔

22 اپریل 2025 امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہونے والے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جس میں دو درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اب تک کی موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے منگل کو پہلگام سے پانچ کلومیٹر دور پہاڑی علاقے بیسرن وادی میں سیاحوں پر گولیاں چلائیں۔ حملے میں ہوئی ہلاکتوں کے علاوہ کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے اپنی روزانہ کی پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ یو این سربراہ نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ بنا کر کیے جانے والے حملے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ اس حملے کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر ہونے والے سب سے ہولناک حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب موسم گرما کے آغاز کی وجہ سے سیاح بڑی تعداد میں پہاڑی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں[6]۔

ایران

پاک بھارت کشیدگی، ایران کی ثالثی کی پیشکش ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور مفاہمت کے لیے ثالث بننے پر آمادہ ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر خطے کے ممالک کی سفارتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان ایران کے دو برادر اور ہمسایہ ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تاریخ صدیوں پر مشتمل ہے۔ ہم انہیں دیگر ہمسایوں کی طرح اپنی اولین ترجیحات میں شمار کرتے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے پیشکش کی کہ تہران اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی کے نازک موڑ پر نیک نیتی اور خیرسگالی کے تحت مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے پیغام کے آخر میں فارسی شاعر سعدی شیرازی کے مشہور اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:

بنی آدم اعضای یک پیکرند

که در آفرینش ز یک گوهرند

چو عضوی به درد آورد روزگار

دگر عضوها را نماند قرار

"بنی نوع انسان ایک جسم کے اعضا کی مانند ہیں جو خلقت میں ایک ہی گوہر سے بنے ہیں جب کسی بھی وقت ایک عضو کو درد ہوتا ہے تو دوسرے اعضا بھی بے قرار ہو جاتے ہیں"[7]۔ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی، امریکا کا ردعمل سامنے آگیا

امریکہ

واشنگٹن: امریکا نے مقبوضہ کشمیر میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے سوال پر کہا ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر کوئی پوزیشن نہیں رکھتے تاہم صورتحال کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے پریس کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا انسانی جانوں کے ضیاع پر ان اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں، امید کرتے ہیں اس معاملہ کی تحقیقات کرکے اس کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

دوران میڈیا بریفنگ ترجمان سے صحافی نے سوال کیا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی، کیا امریکا پاکستان بھارت کشیدگی ختم کرانےمیں کردار ادا کرے گا؟[8]۔

تہران میں تعینات پاکستانی سفیر کی پہلگام واقعے پر پریس کانفرنس

ایران میں پاکستان کے سفیر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے میڈیا کو پہلگام واقعے پر ملک کے موقف سے آگاہ کیا مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے پہلگام واقعے پر اسلام آباد کے موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی طرف سے سیاسی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے ہمارے خطے کے امن اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ ہمیں پہلگام حملے میں جانی نقصان پر تشویش ہے۔ ہم گہرے دکھ کا اظہار کر چکے ہیں، پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہونے کی وجہ سے متاثرین کے درد کو اچھی محسوس کر سکتا ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک رکن کے طور پر، پہلگام واقعے پر LINSC کی طرف سے جاری کردہ پریس بیان پر دیگر اراکین کے ساتھ تعمیری طور پر کام کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیان میں اس واقعے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ دوسری طرف، یہ بھارت ہے جو پاکستان میں اپنی قاتلانہ مہم اور دہشت گردی کی سرپرستی کی تعریف کرتا ہے اور اس پر جشن بھی مناتا ہے۔

پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس کی بھارت کی طرف سے منصوبہ بندی اور حمایت کی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں مذکورہ واقعے سے پاکستان کے کسی بھی قسم کے تعلق کو ظاہر کرنا نہایت ہی مضحکہ خیز ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت سیاسی مقاصد کے لیے اپنی ڈس انفارمیشن پالیسی کے ذریعے غیر مصدقہ الزامات کا سہارا لے رہا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت نے اس طرح کے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا ہو۔ درحقیقت، یہ اب ایک بہت ہی جانا پہچانا حربہ بن چکا ہے، جس کا مقصد کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کو دبانے میں بھارت کی ناکامی سے توجہ ہٹانا ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنی سیکورٹی کی ناکامیوں اور وادی پر دہائیوں سے جاری ریاستی دہشت گردی اور جبر کی ہولناکیوں سے بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیےجان بوجھ کر پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھا رہا ہے۔

ہندوستان کا پائیدار حل دوسرے ممالک پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے میں ہے۔ بھارت کی ایک تاریخ رہی ہے کہ وہ IIOJK میں معصوم کشمیریوں کو دبانے اور UNSC کی قراردادوں، دوطرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے لیے "دہشت گردی" کا بہانہ بنا رہا ہے۔

5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات جو کہ یو این ایس سی کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کے ساتھ ساتھ بھارت کے اپنے وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور تنازعات کی بنیادی وجہ جموں و کشمیر کا حل طلب تنازعہ ہے۔

ہمیں بھارت کی جانب سے کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف انتہائی وحشیانہ، اشتعال انگیز اور اسلامو فوبک بیانیے پر تشویش ہے۔ بھارتی میڈیا اور سیاسی رہنما پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز گفتگو کر رہے ہیں۔ سیاسی فائدے کے لیے اس طرح کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہے۔

بھارت نے پہلگام حملے کے بعد بغیر کسی ثبوت کے اور غیر معمولی تیزی سے پاکستان پر الزامات لگائے۔ ہندوستان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسے 'واقعات' عام طور پر ہائی پروفائل دوروں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں؟ ہم غیر جانبدار تفتیش کاروں سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کا نہ تو اس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ ممکنہ فائدہ اٹھانے والا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور ہم دہشت گردی کے خلاف نمایاں پیش رفت کر رہے ہیں، ہمیں یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ صورتحال بھارت کی طرف سے اچانک کیوں پیدا ہو رہی ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ بھارت نے اپنی کابینہ کمیٹی برائے سلامتی کے بعد جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ غیر قانونی اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔

سندھ طاس معاہدے کا التوا یکطرفہ اور غیر قانونی ہے۔ معاہدے میں ایسی کوئی شقیں نہیں ہیں۔ یہ کارروائی بین الاقوامی معاہدوں کے تقدس کے لیے بھارت کی صریح بے توقیری کو ظاہر کرتی ہے اور یہ علاقائی اور عالمی استحکام کے گہرے مضمرات کے ساتھ علاقائی تعاون کے ایک بنیادی ستون پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان ایک زرعی معیشت ہے، لاکھوں لوگ اس معاہدے کے ذریعے ریگولیٹ کیے جانے والے پانیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ 

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش اور زیریں دریا کے حقوق غصب کرنے کو ایکٹ آف وار تصور کیا جائے گا۔ یہ پاکستانی عوام اور اس کی معیشت پر حملے کے مترادف ہے۔ بھارت کے دیگر سفارتی اقدامات بلا امتیاز اور غیر ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ پابندیاں عام لوگوں پر سنگین انسانی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں بھارتی اقدامات اور بیان بازی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہونے کے ناطے تحمل پر یقین رکھتا ہے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پرعزم ہے۔ تاہم، کسی بھی جارحیت کی صورت میں، پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 میں درج قانونی حق کی بنیاد پر اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔ بین الاقوامی برادری کو درج ذیل سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے: عالمی برادری کو واقعے کے متاثرین کے ساتھ اپنی ہمدردی اور بھارتی جارحیت کی بلا سوچے سمجھے توثیق کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارتی پروپیگنڈے کے تناظر میں، بین الاقوامی برادری کو غیر ذمہ دارانہ فوجی مہم جوئی کے لیے نادانستہ طور پر نئی دہلی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کی بھارتی بے توقیری دیگر بین الاقوامی وعدوں اور ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی کا باعث بنے گی۔ ہندوستان کی انتہا پسندی پر مبنی علاقائی سوچ مستقل عدم استحکام اور غیر متوقع صورت حال کا باعث بنے گی۔ اسلامو فوبیا اور نفرت کا ماحول بنانے کی بھارتی کوشش کہ جہاں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان کی کشیدگی بڑھانے کی کوششیں خطے کے جوہری ماحول میں ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔ عالمی برادری کو بھارت کو امریکہ، کینیڈا اور پاکستان میں اس کی قاتلانہ مہم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان موجودہ صورت حال ہر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، ہم چوکس ہیں اور اپنی پسند کے وقت اور جگہ پر مناسب انداز میں جواب دیتے ہوئے کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنائیں گے۔"[9]۔

مآخذ

  1. مقبوضہ کشمیر: پہلگام میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 24 سیاح ہلاک- شائع شدہ از: 22 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  2. پہلگام حملہ: بھارت نے 14 ناموں پر مشتمل ’ہِٹ لسٹ‘ جاری کردی- شائع شدہ از: 27 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  3. بارود کے ڈھیر پر کھڑے بھارت اور پاکستان؛ امیت شاہ کے فیصلے سے لے کر سینیٹر کے الٹی میٹم تک!- شائع شدہ از: 25 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  4. پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ، سخت بیانات کا تبادلہ-شائع شدہ از: 26 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  5. پہلگام واقعے پر غیرجانبدارانہ عالمی تحقیقات کیلئے تیار ہے، پاکستان- شائع شدہ از؛ 26 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:27 اپریل 2025ء
  6. کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہوئے حملے کی کڑی مذمت- شائع شدہ از:22 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  7. پاک بھارت کشیدگی، ایران کی ثالثی کی پیشکش- شائع شدہ از: 25 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  8. پہلگام واقعہ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی، امریکا کا ردعمل سامنے آگیا- شائع شدہ از: 25 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اپریل 2025ء
  9. تہران میں تعینات پاکستانی سفیر کی پہلگام واقعے پر پریس کانفرنس، میڈیا کو ملک کے موقف سے آگاہ کیا- شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء