مندرجات کا رخ کریں

مسعود علی محمدی

ویکی‌وحدت سے
مسعود علی محمدی
پورا ناممسعود علی محمد ی
ذاتی معلومات
پیدائش1960 ء، 1338 ش، 1379 ق
یوم پیدائش26 اگست
پیدائش کی جگہکن ، تهران
یوم وفات12 جنوری
وفات کی جگہتهران ایران
مذہباسلام، شیعہ
اثراتفزکس کے شعبے میں تربیت معلم (اساتذہ کی تربیت کے ادارے) میں استادِ رہنما اور فیزیکل سائنسز سے متعلق تھیسز پروجیکٹس کے مشیر
مناصبماہر طبیعیات، فیکلٹی ممبر تہران یونیورسٹی

مسعود علی محمدی، فزکس دان، تہران یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر تھے۔ وہ ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کرنے کے لیے موساد کی ایجنسی اور عملداری کے تحت صیہونی حکومت کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے ضد میں آنے والے شهدا کے سلسلے کی پہلی کڑی تھے۔ ڈاکٹر علی محمدی ایران کے فزکس شعبے سے متعلق محققین کے سرفهرست میں شامل تھے۔ وہ 12 جنوری سنه 2010ء کی صبح جب گھر سے نکلنے کا ارادہ کر رہے تھے، ریموٹ کنٹرول بم کے دھماکے سے شہید ہو گئے۔

زندگی نامه

مسعود علی محمدی 26 اگست سنه 1959ء کو ایک مذہبی خاندان میں تہران کے کن نامی محلے میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنے آبائی شہر ایذہ میں مکمل کی، اس کے بعد سنه 1985ء میں شیراز یونیورسٹی سے بیچلرز (کارشناسی)، سنه 1986ء میں ماسٹرز (کارشناسی ارشد)، اور سنه 1992ء میں شریف انڈسٹریل یونیورسٹی سے فزکس (بنیادی ذرات کے شعبے) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

انقلابی سرگرمیاں

مسعود کی جوانی کا دور ایرانی قوم کی تحریک اور احتجاجات کے عروج کے ساتھ تھا۔ انہوں نے تقریریں کرنے اور ہائی اسکول میں نماز جماعت قائم کرنے کے ذریعے سیاسی گروہوں میں سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ ہائی اسکول کی اسلامی انجمن کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ جامع مسجد کے فعال کارکن بھی تھے اور نظریاتی و سیاسی کلاسیں منعقد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہائی اسکول کے محاذ پر، وہ سرگرمی سے مخلص افراد کو جذب کرنے اور اس وقت کی منحرف سوچوں کے خلاف جدوجہد میں مشغول رہے۔ ثانوی تعلیم مکمل کرنے اور ۱۳۵۸ ہجری شمسی میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد وہ جهادگران (انقلابی رضاکاروں) کے گروپ میں شامل ہو گئے اور اپنی پوری توانائی محروم طبقے کی خدمت میں وقف کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایذه شہر کی جهاد سازندگی (تعمیر نو) کمیٹی کی ثقافتی شاخ قائم کی اور شہر میں ایک بڑی لائبریری بنائی اور موجودہ لائبریریوں کو فروغ دیا۔ اس دوران وہ رسالے، فلمیں، سلائیڈز تیار اور تقسیم کرتے، قرآن کی گرمیوں کی کلاسیں منعقد کرتے تھے اور ثقافتی سرگرمیوں کو اہم ترین کا موں میں شمار کرتے تھے۔

محاذ پر حاضری

جب مسلط کردہ جنگ (ایران-عراق جنگ) کا آغاز ہوا تو انہوں نے تعمیر نو کمیٹی سے استعفیٰ دیا اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (سپاہ) میں شامل ہوگئے۔ شروع ہی میں انہیں بیس کے پرسنل افیئرز کے ذمہ دار کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔ وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ براہ راست محاذ پر جائیں، اس لیے پہلی فرصت میں بیس کے کمانڈر کو قائل کیا اور محاذ پر روانہ ہو گئے۔ شہید علی محمدی نے ابتدا میں ایک بٹالین میں انفرادی سپاہی کی حیثیت سے خدمت شروع کی اور آپریشن خیبر میں حصہ لیا۔ اس کے بعد لشکر کے حکام کی ہدایت پر انہیں لشکر ۷ ولی عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) کے انصار بٹالین کے ڈائریکٹر آف سپورٹ (مسئول تعاون) اور کمانڈر کے طور پر خدمت کا شرف حاصل ہوا۔

تعلیمی سرگرمیاں

وہ ایران میں فزکس کے پہلے ڈاکٹریٹ پروگرام کے طلبہ میں شامل تھے اور ایران میں فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے پہلے فرد ہیں۔ اسی طرح، وہ “بنیادی علوم کے تحقیقاتی مرکز ” کے پہلے پوسٹ ڈاکٹورل (پسادکترا) اسٹوڈنٹ بھی تھے۔ ان کی بنیادی تخصص بنیادی ذرات، اعلیٰ توانائیوں اور کاسمولوجی (کائناتیات) تھا۔ انہوں نے 1997ء سے 2001ءتک “بنیادی علوم تحقیقاتی مرکز” یا “ نظری فزکس اور ریاضیات مرکز ” کے ساتھ بھی علمی تعاون کیا۔ انہوں نے اپنے تدریسی دور میں درج ذیل اہم کورسز پڑھائے:

  • کوانٹم میکینکس اور الیکٹرو میگنیٹزم
  • اسٹیٹسٹیکل میکینکس
  • بنیادی ذرات
  • نظریۂ کوانٹم فیلڈز

علی‌محمدی سن 2007ءمیں بین الاقوامی خوارزمی فیسٹول کے منتخبین میں سے ایک تھے اور بنیادی تحقیقات کے شعبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ وہ سن 1995ءسے تہران یونیورسٹی کے “دانشکدہ فزکس” میں تدریس کر رہے تھے اور اسی یونیورسٹی کی فیکلٹی کا بھی حصہ تھے۔

تحقیقی سرگرمیاں

وہ مختلف تعلیمی مراحل میں فزکس کے شعبے میں تربیت معلم (اساتذہ کی تربیت کے ادارے) میں استادِ رہنما اور فیزیکل سائنسز سے متعلق تھیسز پروجیکٹس میں مشیر بھی رہے۔ ان کے ڈاکٹریٹ کا تحقیقی کام سٹرنگ تھیوری (Theory of Strings) کے میدان میں انجام پایا۔

ڈاکٹریٹ کے دوران انہوں نے WZW ماڈل میں SU(3) گروپ اور k=3 لیول کے حوالے سے ایک اہم مقالہ لکھا، جسے وہ اپنی اہم تحقیقی کامیابیوں میں شمار کرتے تھے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایران میں "کاربردی فزکس" تحقیقاتی تنظیم کی بنیاد رکھنے کی خاطر بہت کوشش کی، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ کوششیں مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچ سکیں۔ ان کی ایک اہم فکری ترجیح ہمیشہ علمی شعبے کے منتظمین کے انتخاب کے لیے واضح اصولوں اور سائنسی معیاروں کی تعریف کرنا رہی ہے۔ ان کے علمی انتظامی عہدوںمیں فزکس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی، "پردیس علوم" (سائنس کیمپس) میں ریسرچ کے نائب اور تہران یونیورسٹی کی ممیزی کمیٹی کی رکنیت شامل ہیں۔ علی محمدی اپنی تمام سرگرمیوں کے ساتھ ایران کے سرکردہ فزکس محققین میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے تحقیقاتی میدان میں یہ شعبے شامل تھے:

  • ہائی انرجی فزکس (Physics of High Energies)
  • قابل حل ماڈلز (Solvable/Integrable Models)
  • جزئی طور پر (نرم کثیف مادہ (Soft Condensed Matter)
  • آخری دور میں: گریویٹیشن (ثقل) اورکاسمولوجی (کائناتیات)

جون 2008ء (خرداد ۱۳۸۷ ہجری شمسی) میں انہیں سزامی پروجیکٹ (مشرق وسطیٰ کے لیے سنکروٹرون لائٹ ریسرچ سینٹر) میں ایران کی طرف سے دو نمائندوں میں سے ایک کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ان کا سب سے زیادہ حوالہ دیا جانے والا (Most Cited) مقالہ غیر توازن اتفاقی عمل Random (Stochastic) Processes کے بارے میں تھا۔

شهادت

مسعود علی محمدی کو 12 جنوری 2010ء کی صبح، جب وہ گھر سے نکلنے کا ارادہ کر رہے تھے، ریموٹ کنٹرول سے چلائے جانے والے بم کے دھماکے میں شہید کر دیا گیا۔ 11 دسمبر 2010ء کو وزارت اطلاعات نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ وہ اس واقعے کے مرتکب شخص کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اسی سلسلے میں “مجید جمالی فشی” نامی ایک شخص کے ٹیلی ویژن اعترافات نشر کیے گئے، جس میں مذکورہ شخص نے شہید علی محمدی کے قتل میں اپنے کردار کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس نے اس قتل کے لیے درکار تربیت مقبوضہ علاقوں کے سفر کے دوران حاصل کی تھی اور “موساد” جاسوسی تنظیم کے افسران کی نگرانی میں کورسز کیے تھے۔ شہید علی محمدی کا قتل ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کرنے کے لیے غاصب اور مجرم صیہونی حکومت کی جانب سے موساد کے ذریعے کیے گئے دہشت گردانہ اقدامات کا پہلا سلسلہ تھا۔[1]

ان کی شهادت کے موقع پر ردعمل اور تعزیتی پیغامات

رهبر معظم امام خامنه ای کا پیغام

حضرت آیت اللہ خامنہ‌ای، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں دانشمند پروفیسر ڈاکٹر مسعود علی محمدی کی شہادت پر تعزیت پیش کی اور کها: استاد دانشمند مرحوم ڈاکٹر مسعود علی محمدی (رضوان اللہ علیہ) کی شہادت پر میں ان کی والدہ، اہلیہ، محترم خاندان اور تمام دوستوں، شاگردوں اور ساتھیوں کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اس سانحہ کو جنم دینے والا مجرم ہاتھ، درحقیقت اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی اُس سازش کو بے نقاب کرتا ہے جس کا مقصد ملک کی علمی جدوجہد اور ترقی کو روکنا ہے۔ یقیناً ملک کے دانشور، اساتذہ اور محققین اپنی کوششوں سے دشمن کی اس ناپاک سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ میں خداوند متعال سے اس سعید شہید کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کے لیے صبر و اجر کی دعا کرتا ہوں۔[2]

وزارت خارجه کا بیان

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان، رامین مہمان‌پرست نے دعویٰ کیا کہ اس قتل میں امریکہ، اسرائیل اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفین کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔

تعلقات عامہ، تہران یونیورسٹی کا بیان

تہران یونیورسٹی کے تعلقات عامہ کے دفتر نے ڈاکٹر مسعود علی محمدی کے جاں بحق ہونے والے دھماکے کے بعد تعزیتی پیغام جاری کرتے ہوئے ایک بیان میں مزید کہا: "اسلام اور انقلاب کے دشمن جان لیں کہ ان خونوں سے انقلاب اسلامی ایران کا درخت دن بدن مضبوط اور ثمر آور ہوتا جا رہا ہے۔"

تنظیم بسیج مستضعفین کا بیان

تنظیم بسیج مستضعفین نے ایک اعلامیے میں مسعود علی محمدی کو امام حسین، مالک اشتر اور تہران یونیورسٹیوں کے ایک کامیاب بسیجی استاد کے طور پر یاد کیا اور حکومت مخالف عناصر کے ہاتھوں ان کی شہادت کی مذمت کی۔ تنظیم بسیج مستضعفین نے اپنے اعلامیے میں عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ اس قتل میں ملوث افراد کے ساتھ جلد از جلد قانونی کارروائی کی جائے۔

وزارتِ سائنس، تحقیق و ٹیکنالوجی کا بیان

وزارت سائنس، تحقیقات اور ٹیکنالوجی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس مشکوک بم دھماکے پر افسوس کا اظہار کیا اور ڈاکٹر مسعود علی محمدی کے انتقال پر ان کے خاندان اور علمی و جامعاتی حلقے سے تعزیت کا اظہار کیا۔

شاگردوں کا تعزیتی پیغام

شہید ڈاکٹر علی محمدی کے شاگردوں (تہران یونیورسٹی کے فزکس فیکلٹی کے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ، جو امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور مشرق بعید کی مختلف یونیورسٹیوں میں فزکس میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں) نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اس قتل کی مذمت کی اور کہا: “یہ انتہائی افسوس اور حسرت کی بات ہے کہ عمر بھر کی تحقیق اور تدریس کا انجام، وہ بھی سائنس کی اس شاخ میں جیسے نظریاتی فزکس (Theoretical Physics) جو انسانی علم کی سرحدوں پر ہے اور جس کے لیے سالہا سال کی محنت، کوشش اور یقیناً فطری صلاحیت درکار ہوتی ہے، ہمارے ملک میں اتنا دردناک ہے۔ یقیناً اس سانحے کی گہرائی کو سمجھنا تنگ نظر، متعصب اور لالچی لوگوں کے لیے بہت مشکل اور ناممکن ہے۔” اس بیان میں مزید کہا گیا ہے: “اس گھناؤنی اور غیر انسانی حرکت کے مرتکب افراد کی خباثت، کمینگی اور جہالت کے علاوہ جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے موجودہ کشیدہ حالات، جو ملک کی علمی برادری کے لیے اس قدر بڑے نقصان کا باعث بنے ہیں، اس مذموم منصوبے کے عملی جامہ پہنانے میں بے اثر نہیں تھے۔”

مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سیکرٹری جنرل کا بیان

محسن رضائی، سیکرٹری جنرل مجمع تشخیص مصلحت نظام، نے ایک بیان میں ڈاکٹر علی محمدی سے اپنی بیس سالہ آشنائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: “علم و عہد و وفا کا آسمان اُس چمکتے ہوئے آفتاب کے غم میں سوگوار ہے جو علمی جدوجہد کے میدان میں درخشاں تھا۔ اس کی تابناک روشنی میں بے شمار علم کے طلبہ نے فیض پایا اور کمال و سعادت کی راہ پائی۔” انہوں نے مزید کہا: “شہید والامقام استاد ڈاکٹر مسعود علی محمدی ایک نمایاں، باایمان، مخلص اور محنتی سائنسدان کی بہترین مثال تھے۔ میں ذاتی طور پر بیس سال سے زیادہ عرصے سے اُن سے واقف تھا اور ان کی بنیادی خدمات کا گواہ تھا۔ وہ با تقویٰ مجاہد، آزاد اور خودمختار انسان تھے جو ملک کی خدمت کے راستے میں کبھی تھکنا نہ جانتے تھے۔”

صدر مملکت

صدر مملکت محمود احمدی‌نژاد نے، قومی نوآوری و شفافیت کے دوسرے فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے دوران، شہید علی محمدی کی اہلیہ اور بچوں سے ملاقات کی اور مسعود علی محمدی کی خدمات کے اعتراف میں شکریے اور قدر دانی کے لئے ایک یادگاری لوح انہیں پیش کیا۔[3]

حوالہ جات

  1. شهید «مسعود علی‌محمدی»؛ اولین خونین جامه‌ی «دانش بومی» و «فن‌آوری هسته‌ای» کشور(شہید "مسعود علی محمدی"؛ ملک کے "قومی علم" اور "ایٹمی ٹیکنالوجی" کا پہلا خونی لباس)(زبان فارسی)- شائع شدہ تاریخ: 13/جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اپریل 2025ء
  2. پیام تسلیت در پی شهادت دانشمند شهید دکتر علیمحمدی(سائنسدان ڈاکٹر علی محمدی کی شہادت پر تعزیت)(زبان فارسی)- شائع شدہ تاریخ: 15/جنوری 2010ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اپریل 2025ء
  3. زندگی نامه شهید مسعود علیمحمدی( شہید مسعود علی محمدی کی سوانح عمری)(زبان فارسی)- شائع شدہ تاریخ: 12/جنوری 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اپریل 2025ء