مندرجات کا رخ کریں

قطر پر اسرائیلی حملہ اور اسلامی بلاک کا ردِعمل(نوٹس اور تجزیے)

ویکی‌وحدت سے

قطر پر اسرائیلی حملہ اور اسلامی بلاک کا ردِعمل او آئی سی کے دوحہ میں منعقد ہونیوالے اجلاس میں کم و بیش وہی اعلامیہ جاری ہوا ہے، جس کی اس غیر موثر تنظیم سے توقع تھی۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ شاید اسرائیل کو عرب ایران کی طرح کا جواب تو دینے کی پوزیشن میں تو نہیں ہوں گے، مگر عالم اسلام کے ممالک کم از کم اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے کا اعلان تو کرسکتے تھے، ایسا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ امت مسلمہ غیرت کا مظاہرہ کر رہی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا [1]۔

پس منظر

9 ستمبر کو اسرائیلی طیاروں نے قطر کے دارالخلافہ دوحہ پر فضائی حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔ ہدف حماس کی قیادت تھی، جو غزہ میں جنگ بندی کیلئے مذاکرات کر رہی تھی، اس عالمی دہشت گردی کے پیچھے اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منافقت اور آشیرباد بھی شامل تھی، جس نے اسی سال عرب ممالک کا دورہ کیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے شہنشاہوں نے امریکی صدر کی خوشامد میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی تھی، بلکہ اخلاقی طور پر اور مسلمان ہونے کے ناطے بھی اپنے ماتھے پر شرمندگی کا دھبہ لگا لیا تھا۔

سعودی حکومت نے دل کھول کر ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے جس طرح اسے ویلکم کیا، غور طلب ہے۔ اس کے بعد امریکی صدر متحدہ عرب امارات کے مہمان بنے تو حکمرانوں نے دوشیزاؤں کو کھلے بالوں کیساتھ ٹرمپ کے سامنے رقص کرنے اور زلفیں لہرانے کا مظاہرہ کیا، یہ بھی اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے کا شرمناک اقدام تھا۔ قطر کے امیر نے ٹرمپ کو قیمتی طیارہ تحفے میں دیا اور اربوں ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔

گویا عرب بادشاہتیں امریکہ کے قدموں میں اتنی گریں کہ خود کو محفوظ کرلیں گی کہ دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک امریکہ ان کا اتحاد ی ہے۔ ایئر بیس کیلئے جگہ فراہم کرنے کے باوجود امریکہ نے قطر کو اسرائیلی حملے سے نہیں بچایا۔ حالانکہ امریکہ کا جدید دفاعی نظام، سینٹ کام کا ریجنل ہیڈ کوارٹر، 10 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں، جبکہ قطر کی اپنی فوج 22 ہزار بھی ہے، مگر اسرائیلی بمبار طیاروں کی طرف کسی نے پتھر بھی نہیں پھینکا۔

امریکی منافقت اور شیطانیت

امریکی منافقت اور شیطانیت دیکھیں کہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اپنے مشیر کو قطری حکمرانوں کو اطلاع کرنے کا اس وقت کہتا ہے، جب اسرائیلی طیارے میزائل برسا رہے تھے۔ اس لیے ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے سے بھی بہت پہلے ولی امر مسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ مسلمانوں متحد ہو جاؤ، ایک دوسرے کی قوت بنو، امریکی حکومت پر اعتبار مت کرو۔

بعد ازاں پھر ایک موقع پر یاد دہانی کروائی کہ امریکہ ایران کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا تھا، چند راؤنڈز بھی ہوچکے تھے، لیکن اسرائیل نے امریکی ایماء پر اہم ایرانی شخصیات کو نشانہ بنایا، جن میں آرمی چیف، پاسداران انقلاب کے سربراہ، متعدد ایٹمی سائنسدان اور قومی سلامتی کے مشیر شہید ہوئے، اتنے بڑے نقصانات کے باوجود ایران نے صرف ایک دن کا وقفہ دیا اور اسرائیل پر شدید حملہ کرکے ایسی درگت بنائی کہ حملے روکنے کی اپیلیں کرنے لگا۔ امریکی حملوں کے ردعمل میں بھی قطر میں امریکی ائربیس پر حملہ کیا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جرات مند قیادت ہی اپنے دفاع کا حق استعمال کرتی ہے۔

ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں تباہی مچائی تو ٹرمپ نے قطری بادشاہ کے ذریعے جنگ رکوانے کی درخواست کی۔ قطر پر حملے کے بعد عرب ممالک اور غیر جانبدار قوتوں نے بھی اسرئیلی دہشتگردی کی مذمت کی ہے، جبکہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک نے بھی قطر کیساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ دہشتگرد ناجائز صیہونی ریاست کیخلاف اگر قطری حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ ان کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور اپنی دفاعی قوت بھی استعمال کریں گے۔

آج کئی دن گزر چکے ہیں، لیکن قطر کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی او آئی سی کی کانفرنس میں مذمت اور دھمکی سے زیادہ کچھ ہونے کی توقع ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ مسلم ممالک میں سے عملی اقدام اٹھانے کی اگر کوئی رمق نظر آتی ہے تو وہ پاکستان اور ایران سے ممکن ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ امریکہ کا فوجی اڈا قطر میں ہو، جہاں ہر قسمی اسلحہ موجود ہے اور قطر اپنی مختصر سی حکومت اور مختصر سی فوج کیساتھ امریکی پالتو اسرائیل کو نقصان پہنچا سکے۔

یہ بات صرف قطر ہی نہیں کسی بھی عرب ملک بشمول سعودی عرب، اردن، شام، بحرین، عراق، مصر، لیبیا، متحدہ عرب امارات جہاں کوئی بھی امریکی اڈا موجود ہے، وہ کسی صورت بھی اسرائیل کیخلاف کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ البتہ مستقبل میں کوئی معجزہ عرب ممالک میں ہو جائے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کا سخت موقف

اس میں شک نہیں کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کہتا ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام کی نمائندگی کرنیوالی مزاحمتی تحریک حماس کی قیادت کہیں بھی جائے گی، وہ ان کا پیچھا کریں گے اور اس نے 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کا حوالہ دیا۔ جس پر پاکستان نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں سخت موقف اختیار کیا اور قطری وزارت خارجہ نے بھی اسے آئینہ دکھایا ہے کہ حماس کی قیادت کو ثالثی کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی درخواست پر ہی پناہ دے رکھی تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل یہ بھول رہا ہے کہ افواج پاکستان اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتی ہیں، اپنے اتحادی بھارت سے پوچھ لیں۔ نہیں تو اپنے سرپرست ٹرمپ کے بیانات ہی پڑھ لیں۔ میں تمام اسلامی ممالک، تنظیموں، مذہبی رہنماوں اور تھنک ٹینکس کی توجہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خیالات کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ وہ لگاتار دنیا کی مسلم اقوام کو امریکی تسلط سے جان چھڑانے کیلئے اپنی دفاعی اور اقتصادی قوت کو بہتربنانے کیساتھ مجتمع کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔

امریکہ کا منافقانہ ردعمل

قطر، یمن، شام، ایران، فلسطین پر اسرائیلی حملوں اور امریکہ کے منافقانہ ردعمل کے بعد عرب ممالک کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ ان کے بادشاہوں کا جتنا سرمایہ ڈالرز کی شکل میں امریکی بینکوں میں پڑا ہوا ہے، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حکم نامے پر ضبط ہوسکتا ہے اور اگلے ہی مرحلے میں عرب عوام کی یہ رقوم امریکی حکومت کے تصرف میں ہوں گی اور پھر عرب شیوخ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ او آئی سی کے دوحہ میں منعقد ہونیوالے اجلاس میں کم و بیش وہی اعلامیہ جاری ہوا ہے، جس کی اس غیر موثر تنظیم سے توقع تھی۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ شاید اسرائیل کو عرب ایران کی طرح کا جواب تو دینے کی پوزیشن میں تو نہیں ہوں گے مگر عالم اسلام کے ممالک کم از کم اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے کا اعلان تو کر سکتے تھے،ایسا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ امت مسلمہ غیرت کا مظاہرہ کر رہی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی ممالک کی افواج اسرائیل کو تباہ کر دیں، لیکن اسرائیل کو تجارتی اور سفارتی سطح پر تو کوئی جواب دیا جا سکتا تھا۔ اب بھی غالب مسلم عوام کا خیال اور خواہش ہے کہ گریٹر اسرائیل کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان اور ایران کی قیادت میں فلسطینی عوام کی دفاعی انداز میں مدد کی جائے، جیسے بھارت اور اسرائیل کے خلاف یہ دونوں ممالک غیرت و حمیت کا اظہار کرچکے ہیں اور اس صورتحال میں عرب ممالک کی دولت اور سفارتکاری ان کے پیچھے ہو تو یہ ممکن ہے، ورنہ اصولوں کی بنیاد پر ہم اسرائیل کی مخالفت کرتے رہیں گے اور وہ فلسطین کی سرزمین پر یکے بعد دیگرے قبضہ کرتا رہے گا اور ہم اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں جا سکیں گے[2]۔

حوالہ جات

  1. تحریر: سید منیر حسین گیلانی
  2. قطر پر اسرائیلی حملہ اور اسلامی بلاک کا ردِعمل- شائع شدہ از: 16 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 ستمبر 2025ء