عبد القادر جیلانی
عبد القادر جیلانی | |
---|---|
![]() | |
دوسرے نام | شیخ عبد القادر جیلانی یا گیلانی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | گیلان ایران |
وفات کی جگہ | بغداد عراق |
اساتذہ |
|
شاگرد |
|
مذہب | اسلام، سنی |
اثرات |
|
عبد القادر جیلانی شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے کون واقف نہیں۔علمی مرتبہ ،تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے شیخ کی بے مثال خدمات چہار دانگ عالم میں عقیدت واحترام کے ساتھ تسلیم کی جاتی ہیں۔مگر شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے فرطِ عقیدت میں شیخ کی خدمات وتعلیمات کوپس پشت ڈال کر ایک ایسا متوازی دین وضع کر رکھا ہے جو نہ صرف قرآن وسنت کے صریح منافی ہے بلکہ خود شیخ کی مبنی بر حق تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس پرطرہ یہ کہ اگر ان عقیدت مندوں کو ان کی غلو کاریاں سے آگاہ کیاجائے تو یہ نہ صرف یہ کہ اصلاح کرنے والوں پر برہم ہوتے ہیں بلکہ انہیں اولیاء ومشائخ کا گستاخ قرار دے کر مطعون کرنے لگتے ہیں۔
سوانح حیات
ابتدائی حالاتِ زندگی
شیخ عبدالقادر جیلانی کا پورا نام عبدالقادر بن ابی صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی) ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے [1]۔ علاوہ ازیں امام سمعانی نے آپ کا لقب 'امامِ حنابلہ' ذکر کیا ہے[2]۔
صاحب ِشذرات نے آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ بن علیؓ تک پہنچایا ہے۔ آپ ۴۷۱ھ (اور بقولِ بعض ۴۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔ جیلان یا گیلان(کیلان) کو ویلم بھی کہا جاتا ہے، یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین 'تالیس' واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ [3]۔ علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔
تعلیم و تربیت
شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مؤرخین نے بیان کی ہے کہ آپ اٹھارہ برس کی عمر میں تحصیل علم کے لئے بغداد روانہ ہوئے۔ [4]۔ امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔ علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خود شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔
والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں: تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔[5]۔
شیوخ و تلامذہ
حافظ ذہبی نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے: قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن) باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش، ابوطالب یوسفی وغیرہ [6]۔ جبکہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے [7]
علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے : ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ
شیخ کی اولاد
امام ذہبی شیخ عبدالقادر جیلانی کے بیٹے عبدالرزاق کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: «ولد لأبي تسعة وأربعون ولدا سبعة وعشرون ذکرا والباقي أناث» [8]۔ میرے والد کی کل اولاد ۴۹ تھی جن میں ۲۷ بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔
شیخ کا حلقہ درس
شیخ نے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب ُالعین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امراء و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ ٔ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔
حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی ؒ سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔ [9]۔
وفات
شیخ کی وفات:امام ذہبی فرماتے ہیں کہشیخ عبدالقادر ۹۰ سال زندہ رہے اور ۱۰؍ ربیع الآخر ۵۶۱ھ کو آپ فوت ہوئے۔ [10]۔
تالیفات و تصنیفات
شیخ جیلانی بنیادی طور پر ایک مؤثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مؤرّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہئے کہ مؤرخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں جبکہ باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔ اب ہم ان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیتے ہیں :
غنیۃ الطالبین
اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے: الغنیۃ لطالبي طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب 'کشف الظّنون' میں رقم طراز ہیں کہالغنیة لطالبي طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلاني الحسني المتوفی سنۃ۵۶۱ ھ إحدی وستین وخمس مائة
فتوح الغیب
یہ کتاب شیخ کے ۷۸ مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ شیخ عبدالقادرؒ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں، تاہم شیخ نے ان کتابوں میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات بھی درج کردی ہیں۔ (البدایہ ایضاً اور دیکھئے کشف الظنون
الفتح الربانی والفیض الرحماني
یہ کتاب شیخ کے ۶۲ مختلف مواعظ پر مشتمل ہے، یہ بھی شیخ کی مستقل تصنیف ہے۔ (دیکھئے: الأعلام از زرکلی:۴؍ ۴۷) الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والأوراد القادریۃ:اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کئے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مؤرخین نے اسے شیخ کی طرف منسوب کیا ہے مثلاً دیکھئے الاعلام(ایضاً) مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ویسے بھی اس میں ایسے شرکیہ وظائف واَرواد اور بدعات وخرافات پر مبنی اذکارہیں کہ جن کا صدور شیخ سے ممکن ہی نہیں۔ واللہ أعلم
الأوراد القادریۃ
یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ اس میں موجود شرکیہ قصائد ہی اسے شیخ کی تصنیف قراردینے سے مانع ہیں۔
اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :
- بشائر الخیرات (۷) تحفۃ المتقین وسبیل العارفین
- الرسالۃ القادریۃ (۹) حزب الرجا والا نتہاء
- الرسالۃ الغوثیۃ (۱۱) الکبریت الأحمرفی الصلاۃ علی النبیؐ
- مراتب الوجود (۱۳) یواقیت الحکم
- معراج لطیف المعاني
- سرالأسرار ومظھر الأنوارفیما یحتاج إلیه الأبرار
- جلاء الخاطر في الباطن والظاهر
- آداب السلوك والتوصل إلی منازل الملوك
عقائد و نظریات اور تعلیمات
شیخ کی ذاتی تصنیفات کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کا عقیدہ وہی تھا جو اہل السنۃ کا متفقہ عقیدہ ہے بلکہ آپ خود اپنے عقیدہ کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہاعتقادنا اعتقاد السلف الصالح والصحابة [11]۔ ہمارا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا ہے۔بلکہ شیخ دوسروں کو بھی سلف صالحین کا عقیدہ ومذہب اختیارکرنے کی اس طرح تلقین کرتے ہیں کہ
علیکم بالاتباع من غیر ابتداع، علیکم بمذھب السلف الصالح امشوا في الجادة المستقیمة تمہیں چاہیے کہ (کتاب وسنت کی) اتباع اختیار کرو اور بدعات کا ارتکاب نہ کرو اور تمہیں چاہیے کہ سلف صالحین کے مذہب کو اختیار کرو اور یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر تمہیں گامزن رہنا چاہیے۔ [12]۔
نیز فرماتے ہیں کہ فعلی المؤمن اتباع السنة والجماعة فالسنة ما سنه رسول اﷲﷺ والجماعة ما اتفق علیه أصحاب رسول اﷲ مومن کوچاہیے کہ سنت اور سنت پر چلنے والی جماعت کی پیروی کرے۔ سنت وہ ہے جسے رسول اللہؐ نے سنت قرار دیا اور جماعت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول کے صحابہ کا اتفاق رہا۔ شیخ جیلانی کے عقائد و نظریات کی مزید معرفت کے لئے ہم ان کی مختلف کتابوں سے ان کے عقائد و نظریات کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں :
ایمان کے بارے میں
ایمان کی تعریف میں اہل السنۃ اور فرقِ ضالہ میں نمایاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ جیلانی ؒ کے ہاں ایمان کی وہی تعریف ملتی ہے جو اہل السنۃ کے ہاں معروف ہے جیسا کہ شیخ فرماتے ہیں: ونعتقد أن الإیمان قول باللسان ومعرفة بالجنان وعمل بالأرکان یزید بالطاعة وینقص بالعصیان ویقوي بالعلم ویضعف بالجھل وبالتوفیق یقع[13]۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان، زبانی اقرار، قلبی تصدیق اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہونے کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا، نافرمانی سے کم ہوتا، علم سے مضبوط اور جہالت سے کمزور ہوتا رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے یہ حاصل ہوتا ہے۔
غنیۃکے پہلے باب میں بھی شیخ اسی سے ملتی جلتی تعریف بیان کرتے ہیں کہ الإیمان قول وعمل لأن القول دعوی والعمل ھو البینة والقول صورة والعمل روحھا ایمان قول و عمل کا نام ہے کیونکہ قول (زبانی) دعویٰ ہے اور عمل اس دعویٰ کی دلیل ہے۔ قول صورت ہے اور عمل اس کی روح ہے۔
توحید کے بارے میں
توحید ِربوبیت واُلوہیت کے بارے میں شیخ رقم طراز ہیں کہ النفس بأجمعھا تابعة لربھا موافقة له إذ ھو خالقھا ومنشؤھا وھي مفتقرة له بالعبودیة [14]۔ انسانی نفس (فطرت) مکمل طور پر اپنے ربّ کا مطیع ہے کیونکہ ربّ تعالیٰ ہی اس کے خالق و مالک ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی بندگی کرنے پر محتاج ہے۔
نیز فرماتے ہیں کہ الذي یجب علی من یرید الدخول في دیننا أو لا أن یتلفظ بالشهادتین لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ ویتبرأ من کل دین غیر دین الإسلام ویعتقد بقلبه وحدانیة اﷲ تعالیٰ جو شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے، اس پر واجب ہے کہ سب سے پہلے کلمہ شہادت کا اپنی زبان سے اقرار کرے اور دین اسلام کے علاوہ دیگر تمام ادیان سے اعلانِ برأت کرے اور اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت تسلیم کرے۔
اسماء و صفات کے بارے میں
اسماء و صفات کے بارے میں شیخ اپنا موقف اس طرح بیان کرتے ہیں:
ولا نخرج عن الکتاب والسنة نقرأ الآیة والخبر ونؤمن بما فیھما ونکل الکیفیة إلی علم اﷲ عزوجل (اسماء وصفات کے سلسلہ میں) ہم کتاب و سنت سے باہر نہیں جاتے۔ ہم آیت پڑھتے ہیں یا حدیث اور ان دونوں پر ایمان لاتے ہیں جبکہ ان کی کنہ و حقیقت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ اسماء و صفات کے حوالہ سے اہل السنۃ کا یہی موقف ہے جسے شیخ نے اپنی تصنیفات میں جابجا اختیار کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فرقِ ضالہ کے نظریات کی تردید بھی کی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے:
آخرت کے بارے میں
شیخ آخرت کے بارے میں لکھتے ہیں ثم إن الإیمان بالبعث من القبور والنشر عنھا واجب کما قال اﷲ... روزِ آخرت قبروں سے جی اُٹھنے اور حشرونشر پر ایمان لانا بھی واجب ہے۔ علاوہ ازیں عذابِ قبر، پل صراط، حوضِ کوثر، جنت و جہنم، میزان و شفاعت ِکبریٰ وغیرہ کے حوالہ سے بھی شیخ نے غنیۃ میں وہی عقائد رقم کئے ہیں جو اہل السنۃ کے ہاںمعروف ہیں۔
ردّ ِشرک و بدعت کے حوالہ سے شیخ کی تعلیمات
شیخ جیلانی ؒ توحید کے زبردست حامی اور شرک و بدعت کے قاطع تھے جیسا کہ ان کے مندرجہ اقتباسات سے واضح ہے : 1. أن یمد یدیه ویحمد اﷲ ویصلي علی النبي ﷺ ثم یسأل اﷲ حاجته
انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کے حضور دست ِسوال دراز کرے، اللہ کی حمد و ثنا کرے، محمدؐ پر درود و سلام بھیجے پھر اللہ سے اپنی حاجت کا سوال کرے۔
2.ویکرہ أن یقسم بأبیه أو بغیر اﷲ في الجملة فإن حلف حلف باﷲ وإلا لیصمت (الغنیۃ: ایضاً) آباء و اجداد یا غیر اللہ کی قسم کھانا مکروہ (بمعنی حرام) ہے لہٰذا قسم کھانی ہو تو صرف اللہ کی قسم کھائی جائے ورنہ خاموشی اختیار کی جائے۔
3. وإذا زار قبرا لا یضع یدًا علیه ولایُقَبِّله فإنه عادة الیھود ولا یقعد علیه ولا یتکأ إلیه ... ثم یسأل اللہ حاجته
شیخ آدابِ قبور کی مسنون دعا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ جب قبر کی زیارت کرنے جاؤ تو قبر پر ہاتھ نہ رکھو اور نہ ہی قبر کو چومو۔ کیونکہ یہ یہودکی علامت ہے اور نہ ہی قبر پر بیٹھو اور نہ اس کے ساتھ ٹیک لگاؤ۔پھر اللہ سے اپنی حاجت طلب کرو
4. وتکرہ الطِّیَرَة ولا بأس بالتفاؤل (ایضاً) بدشگونی حرام ہے البتہ فال (نیک اور اچھی بات) میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ بدشگونی کے حوالہ سے شیخ حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
جس شخص کو بدشگونی نے اس کے کام سے روک دیا، اس نے شرک کیا۔
° اتبعوا ولا تبتدعوا، وافقوا ولا تخالفوا، أطیعوا ولا تعصوا، اخلصوا ولا تشرکوا وحدوا الحق وعن بابه لا تبرحوا، سلوہ ولا تسئلوا غیرہ استعینوا به ولا تستعینوا بغیرہ توکلوا علیه ولا تتوکلوا علی غیرہ(الفتح الربانی:ص۱۵۱) سنت کی پیروی کرو اور بدعات جاری نہ کرو۔ (دین کی) موافقت کرو اور خلاف ورزی نہ کرو۔ فرمانبرداری کرو اور نافرمانی نہ کرو۔ اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو۔حق تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے دروازے سے منہ نہ موڑو، اسی خدا سے سوال کرو ، کسی اور سے سوال نہ کرو۔ اسی سے مدد مانگو،کسی اور سے مدد نہ مانگو۔ اسی پر توکل واعتماد کرو اس کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ کرو۔
6. شیخ رقمطراز ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شخص خود یا اس کا بھائی (عزیز) بیمار ہو تو وہ اس طرح دعا کرے: اے ہمارے ربّ! جو آسمان میں ہے، تیرا نام مقدس ہے، ارض وسما پرتیرا ہی حکم ہے۔ جس طرح ارض و سما میںتیری ہی رحمت کے دریا بہتے ہیں، اے پاکیزہ لوگوں کے ربّ! ہمارے گناہ معاف فرما دے، اپنی رحمت سے ہم پر مہربانی فرما، اس مصیبت و بیماری میں اپنی طرف سے شفا عطا فرما۔ (الغنیۃ :۱؍۹۶)
7. ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی تجھ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، جو کچھ تیرے لئے مفید ہے یا مضر، اس کے متعلق اللہ کے علم میں (تقدیر کا) قلم چل چکا ہے، اس کے خلاف نہیںہوسکتا... (فیوضِ یزدانی ترجمہ الفتح الربانی: مجلس ۱۳، ص۸۹)
قبولیت ِعبادات کے بارے میں شیخ کا موقف
شیخ فرماتے ہیں :إذا عملت ھذہ الأعمالَ...وإصابة السنة(الفتح الربانی: ص۱۰) تم سے تمہارے اعمال اس وقت تک قبول نہیں کئے جاسکتے ہیں جب تک کہ تم اِخلاص پیدا نہ کرلو۔ کوئی قول، عمل کے بغیر مقبول نہیں اور کوئی عمل اخلاص اور سنت کی مطابقت کے بغیر مقبول نہیں۔
ایصالِ ثواب کے لئے گیارہویں شریف
مُردوں کے لئے ایصالِ ثواب کی بعض صورتیں اگرچہ قرآن و سنت کی رو سے جائز ہیں مگر ان میں گیارہویں کسی طرح بھی داخل نہیں ہوتی۔ مزید تفصیل کے لئے ہم غیر جانبدارانہ طور پر ایصالِ ثواب کی ان تمام صورتوں کی نشاندہی کردیتے ہیں جن کا جواز قرآن و حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے البتہ بغرضِ اختصار ہم عبارتوں کی بجائے محض حوالہ جات پر اکتفا کریں گے۔
دعا
کوئی بھی مسلمان جو توحید و ایمان کی حالت میںفوت ہوا ہو اس کے لئے مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے۔
صدقہ جاریہ
صدقہ جاریہ سے مراد وہ نیک کام ہیں جن کا ثواب آدمی کووفات کے بعد بھی ملتا رہتا ہے اور حدیث ِنبوی کے مطابق اس کی تین صورتیں ہیں:
- محض صدقہ جاریہ یعنی اللہ کی راہ میں کسی چیز (گھر، ہسپتال، سبیل وغیرہ) کو وقف کردینا
- نیک اولاد (اولاد کے نیک عمل کا ثواب قدرتی طور پر موحد والدین کو بھی پہنچتا رہے گا)
- نفع بخش علم (خواہ شاگردوں کی صورت میں ہو یاکتابوں اور مدرسہ وغیرہ کی شکل میں)
میت کی طرف سے صدقہ
اگر میت کی اولاد انکی وفات کے بعد ان کی طرف سے صدقہ کرے تو فوت شدہ والدین کو اسکا ثواب پہنچتا ہے۔ میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے حوالہ سے یہ واضح رہے کہ صرف اولاد ہی اپنے والدین کی طرف سے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرسکتی ہے۔ البتہ دیگر افراد کے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
میت کی طرف سے حج کرنا
میت کی طرف سے اگر حج کیا جائے تو میت کا یہ فرض ادا ہوجاتا ہے [15]۔
میت کی طرف سے روزوں کی ادائیگی
اگر میت کے ذمہ نذر کے روزے رہ جائیں تو اس کے اولیا اس کی طرف سے یہ روزے رکھ سکتے ہیں۔ البتہ اولیا کے علاوہ دیگر افراد کے لئے ایسا کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ واضح رہے کہ میت کے متروکہ فرضی (یعنی رمضان کے) روزے رکھنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض تونذر کی طرح اس کے بھی جواز کے قائل ہیں جبکہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ صرف نذر کے روزے جائز ہیں تاہم میت کے متروکہ رمضان کے روزوں کی جگہ فدیہ ادا کیا جائے مگر یہ روزے نہ رکھے جائیں۔
میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی
میت کے ذمہ اگر قرض ہو تو اس کی طرف سے کوئی بھی دوسرا شخص میت کا یہ قرض ادا کرسکتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: مسند احمد:۳؍۳۳۰، حاکم:۲؍۵۸، بیہقی:۶؍۷۴ مندرجہ بالا سطور میںقرآن و حدیث کی روشنی میں وہ تمام صورتیں ذکر کردی گئی ہیں جن کا فائدہ کسی نہ کسی طرح میت کو پہنچتا ہے، البتہ اس کے علاوہ ایصالِ ثواب کے دیگر طریقے مثلاً قل، تیجہ، ساتواں، چالیسواں، قرآن خوانی اور گیارہویں وغیرہ سب بدعتی اُمور ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا گیارہویں سمیت ان تمام امور سے از بس اجتناب ضروری ہے[16]۔
حوالہ جات
- ↑ سیر اعلام النبلاء:۲۰؍۴۳۹، البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲، فوات الوفیات:۲؍۳۷۳،شذرات الذہب:۴؍۱۹۸
- ↑ الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:۱؍۲۹۱
- ↑ دائرۃ المعارف:۱۱؍۶۲۱بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت:۱؍۱۹۷
- ↑ اردو دائرۃ المعارف، ج12، ص 229
- ↑ نفحات الانس ص:۵۸۷،
- ↑ سِیَر اعلام البلاء ج20،ص ۰ ۴۴
- ↑ دائرۃ المعارف، اُردو، ج11، ص 610
- ↑ فوات الوفیات:۲؍۳۷۴
- ↑ البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲
- ↑ سیر اعلام النبلا، ج20، ص 350
- ↑ سیراعلام النبلائ، ج 20؍ص222
- ↑ الفتح الربانی،المجلس العاشر ص۳۵
- ↑ الغنیۃج۱،ص ۱۳۵
- ↑ فتح الغیب،ص۲۱
- ↑ بخاری :۱۸۵۲، نسائی:۲۶۳۱، احمد:۱؍۲۳۹، ۲۷۹
- ↑ مبشر حسین، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا عقیدہ و مسلک اور ان کے عقید- 1 اگست 2003ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 جون 2025ء