سولہویں کانفرنس روس اور عالم اسلام
سولہویں کانفرنس روس اور عالم اسلام شہر کازان میں جو کہ تاتارستان کا مرکز ہے اور جسے روس کے شمالی علاقوں میں اسلام کے دخول کا مرکزی نقطہ قرار دیا گیا ہے، 3 دن تک جاری رہی۔ کازان فورم، اقتصادی میدان کے ساتھ ساتھ، خاص طور پر حلال صنعت میں، دوسرے شعبوں جیسے ثقافتی میدان میں بھی فعال ہے۔ عالمی برکز برای تقریب مذاهب اسلامی کے جنرل سکریٹری حجتالاسلام والمسلمین ڈاکٹر حمید شهریاری نے اس نشست میں بیان دیا کہ چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے پانچ مشترکہ حکمت عملیوں اور تجاویز موجود ہیں۔
عالمی مرکز برای تقریب مذاهب اسلامی جنرل سکریٹری کا خطاب
کازان فورم 2025 ء تخصصی نشست میں ، جو مختلف ممالک کے نمائندوں، بشمول روس، ایران اور عالم اسلام کی موجودگی میں منعقد ہوئی، عالمی مرکز برای تقریب مذاهب اسلامی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر حمید شهریاری نے اس بین الاقوامی ہمایش کے میزبانوں کی قدر دانی کرتے ہوئے نوجوان نسل کے سامنے موجود چیلنجز کا تجزیہ کیا۔
عالمگیری کے دوران عدم تشخص کا مسئله
انہوں نے عالمگیری کے دور میں تشخص کے فقدان کی چیلنجز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: آج کے دور میں، جب عالمی رابطے تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور نوجوان مسلسل بین الاقوامی میڈیا اور ثقافتی روایات کے سامنے آ رہے ہیں، وہ آسانی سے عالمی کامیاب نمونوں اور سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے مثالی طرزِ زندگی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ مثالی نمونے مستقل طور پر موجود رہتے ہیں، جس کی وجہ سے غیرمعمولی کامیابیوں کی کوشش عام اور روزمرہ سی چیز بن جاتی ہے۔
تاہم، کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے لیے ایسے مثالی مقاصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں، بہت سے نوجوان ناکامی، مایوسی اور آخرکار عدم تشخص کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جب مشہور شخصیات نوجوانوں کے لیے بنیادی حوالہ بن جاتی ہیں، انسانی قدریں جیسے اعتدال، سادگی، قناعت، مشکلات کے مقابلے میں پائیداری، اور روحانی انضباط بتدریج حاشیہ نشینی کا شکار ہو رہی ہیں۔
جوان اور نوجوانوں کو مشهور شخصیات سے موازنہ ہکرنا
ڈاکٹر شیریاری نے مزید کہا کہ نوجوانوں کا مسلسل مشہور شخصیات کی “فلٹر شدہ زندگیوں” سے موازنہ کرنا بتدریج ان کے لیے کامیابی اور خوبصورتی کے غیر حقیقی معیارات کو معمول کے طور پر قبول کرنا ممکن بنا دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ڈپریشن، اضطراب اور خود اعتمادی میں کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی انسانی تعلقات تجارتی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور روایتی نمونوں، علماء، اساتذہ، والدین اور ثقافتی شخصیات کے ختم ہونے سے ان کی اپنی جگہ ختم ہو جاتی ہے۔ مجمع کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ قناعت، سادہ زندگی، مسلسل محنت، روحانی نظم و ضبط اور اعتدال جیسی قدریں بتدریج اپنی جگہ استعمال پسندی، خود نمائی اور خود تشہیر کو دے رہی ہیں اور نتیجتاً اہم انسانی اور اخلاقی قدریں کمزور اور فراموش ہو رہی ہیں۔
لبرل فردیت
انہوں نے لبرل فردیت اور نسلی درز کو دوسری چیلنج قرار دیا اور واضح کیا: لبرل فردیت کا مسئلہ کچھ نوجوانوں کو معاشرتی روایات سے آزادی اور نجات حاصل کرنے کی کوشش میں، روایات کے لیے ایک لبرل نقطہ نظر اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی دوران، بہت سے دیگر نوجوان ابھی بھی اپنی مذہبی اور قومی روایات کے وفادار ہیں، اور یہ دوگانہ پن نسلی شکاف کو بڑھا دیتا ہے اور نسلِ جوان میں دو طرفہ شناخت پیدا کرتا ہے۔
ہمیں کثیر الثقافتیت کے لیے احترام کرنا چاہیے اور روایتی قدروں کو نئے ابھرتی ہوئی قدروں کے ساتھ ساتھ ترقی کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ روس، ایران، ترکی، مصر اور دیگر اقوام کے پاس ادب، رواج اور مذہبی روایات میں غنی اور قیمتی تاریخی ورثہ ہے۔ اس ثقافتی ورثے کو محفوظ اور برقرار رکھنا ضروری ہے۔ مغربی لبرل فردیت کو شاید مختصر فرصت مل سکے، لیکن طویل مدتی میں ان تاریخی اقدار کی جگه نهیں لے سکتی ۔
پانچ اهم تجاویز اور حکمت عملی
عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے مزید کہا: چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے پانچ مشترکہ طریقے اور تجویز کردہ حکمت عملی موجود ہیں۔ اسلامی تعلیم و تربیت کے معیارات کے مطابق، مدارس اور یونیورسٹیز میں میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا ضروری ہے۔
مختلف ثقافتی، علمی، مذہبی یا فنّی پس منظر والے مثالی کرداروں کو آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے متعارف کروانا، تاکہ صحت مند اور تعمیری نمونے پیش کیے جا سکیں۔ سطحی مواد کو فروغ دینے والے الگورتھم کو محدود کرنا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ان الگورتھموں میں تبدیلیاں لانے کی درخواست کرنا، جو نقصان دہ مواد کو ترجیح دیتے ہیں اور اہمیت والے مواد کو فروغ نہیں دیتے۔
نوجوانوں کی اندرونی شناخت کو مضبوط بنانا؛ اندرونی قدر پر مبنی عزت نفس کو فروغ دینے کے لیے، اور ایسے سیریز اور فلمیں تیار کرنے پر زور دینا جو ذمہ داری اور محنت کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ والدین کی نگرانی اور تعلیمی اشتراکیت؛ بچوں کی تربیت میں والدین کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، انہیں ضروری رہنمائی اور نگرانی فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ عالمی مرکز برای تقریب مذاهب اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے کے نوجوان شہداء نے زندگی، جوانی اور مستقبل کی تعمیر کا موقع نہیں پایا۔ وہ بھوکے، پیاسے اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے، انہوں نے اپنے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو روٹی اور پانی فراہم کرنے اور اپنی وطنِ عزیز کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی جان قربان کردی۔
ڈاکٹر حمید شهریاری نے غزہ میں حالیہ غیرمعمولی قتل عام اور جبالیا میں 80 فلسطینیوں کی، جن میں سے 22 بچے شامل ہیں، حالیہ شہادت کی شدید مذمت کی اور یہ کہا کہ اسرائیلی حکومت کے اقدامات جنگ کے جرائم ہیں۔ انہوں نے اس حکومت کے حامیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ امریکہ پر بھی شرمندگی ہوگی، جس نے ایک ٹن بم فراہم کیے اور مالی اور فوجی مدد کے ذریعے اس بڑے پیمانے پر قتل عام کی بنیاد رکھی۔[1]
تصویری جہلکیاں
-
کانفرنس کی تصویر (1)
-
کانفرنس کی تصویر (2)
-
کانفرنس کی تصویر (3)
-
کانفرنس کی تصویر (4)
-
کانفرنس کی تصویر (5)
-
کانفرنس کی تصویر (6)
-
کانفرنس کی تصویر (7)
-
کانفرنس کی تصویر(8)
-
کانفرنس کی تصویر (9)
-
کانفرنس کی تصویر (10)
حوالہ جات
- ↑ شبکه های اجتماعی بحران هویت جوانان را تشدید کرده است-شائع شدہ از: 17 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 مئی 2025ء