سورۂ التوبہ، غزہ اور ہم(نوٹس اور تجزیے)

    ویکی‌وحدت سے
    دکتر مشتاق.jpg

    سورۃ التوبہ، غزہ اور ہم اس تحریر کو ڈاکٹر مشتاق احمد خان نے غزہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور بعض مسلم حکمرانوں اور عوام کی خاموشی پر لکھا گیا ہے۔ ایک صاحبِ علم کی تحریر نظر سے گزری جس میں سورۃ التوبہ کی روشنی میں آج کے مسلمانوں کی قسمیں متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں خود اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا تھا، لیکن انھوں نے سبقت اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزاے خیر دے۔ کچھ باتیں ان کی تحریر میں آگئیں، لیکن کچھ رہتی ہیں جنھیں یہاں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

    اس سورت کا بیشتر حصہ غزوۂ تبوک کے سیاق میں نازل ہوا؛ غزوہ تبوک کےلیے نکلنے سے قبل، غزوہ کےلیے نفیرِ عام کے بعد، دورانِ سفر، واپسی کے سفر میں اور واپسی کے بعد۔ ان آیات نے مومنوں اور منافقوں کو ایک دوسرے سے بالکل ممیز کرکے رکھ دیا۔ پہلی تقسیم تو اس سورت نے یہ کی کہ جو لوگ اس موقع پر جہاد و نصرت کےلیے نکلے، وہ مومن ہیں اور جو پیچھے رہ گئے، وہ منافق ہیں۔

    لیکن جب سورت آگے بڑھتی ہے، تو یہ بھی بتاتی ہے کہ جہاد کےلیے جانے والے سبھی لوگ مومن نہیں تھے، بلکہ ان میں کچھ دشمنوں کے ایجنٹ بھی تھے جو ان کےلیے جاسوسی کرتے تھے اور مومنوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اللہ ان سے بخوبی واقف ہے

    ﴿وفیکم سمّٰعون لھم، واللہ علیم بالظٰلمین﴾ پیچھے رہ جانے والوں میں جو یہ کہتے تھے کہ ہم تو جہاد کےلیے جانا چاہتے تھے لیکن فلاں فلاں عذر کی وجہ سے جا نہیں سکتے، تو ان سے پوچھا گیا کہ اگر تم واقعی جانا چاہتے تھے، تو کیا تم نے کچھ تیاری کی تھی جانے کےلیے؟

    ﴿وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً﴾ [1]

    ان میں کچھ وہ بھی تھے، جو اس موقع پر جہاد کےلیے نہ جانے کو ہی تقویٰ کا تقاضا قرار دیتے تھے اور جن کا کہنا یہ تھا کہ ہم وہاں جائیں گے تو فتنے میں پڑ جائیں گے

    ﴿وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي﴾ [2]

    منافقین کے کئی دیگر گروہوں کا بھی تذکرہ اس سورت میں ہے۔ خصوصاً ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو اس موقع پر خود تو ویسے بھی مالی قربانی کےلیے تیار نہیں تھے، لیکن جو مسلمان آگے بڑھ کر اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ کررہے تھے، یہ ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ ایسے بھی تھے جو خود تو پیچھے رہ گئے تھے لیکن ساتھ ہی دوسروں کو بھی موسم کی شدت سے ڈراوا دے کر سفر سے روک رہے تھے اور ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے تھے کہ جہنم کی آگ کی تپش صحراے عرب میں چلچلاتی دھوپ کی تپش سے کہیں زیادہ ہے۔

    ﴿وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا﴾ [3]

    ایسے لوگوں کے متعلق استغفار سے خصوصاً رسول اللہ کو روکا گیا اور یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ان کی اولاد اور ان کے اموال ان کےلیے عذاب کا باعث بنیں گے۔ ان بدبختوں میں وہ بھی تھے جو مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوششیں کرتے کرتے رسول اللہ کی شان میں گستاخی تک پہنچ گئے۔ان کےلیے بھی بدترین عذاب کا وعدہ کیا گیا۔

    تاہم جو پیچھے رہ گئے، اور جنھوں نے عذر پیش کیا، ان میں سبھی جھوٹے نہیں تھے، بلکہ کچھ سچے لوگ بھی تھے، جو واقعی جانا چاہتے تھے لیکن انھیں حقیقی عذر درپیش تھا کیونکہ یا تو وہ بیمار تھے، یا بہت ضعیف تھے یا ان کے پاس جانے کا خرچہ بھی نہیں تھا۔ نہ ہی ان کےلیے سواری کا بندوبست کیا جاسکا؛ ایسے مخلصین کےلیے اللہ غفور اور رحیم ہے اور اللہ ان سے بھی بخوبی واقف ہے:

    ﴿لا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِاللهِ ‌ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يُجاهِدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ وَ اللهُ‌ عَليمٌ بِالْمُتَّقينَ﴾[4] یہ لوگ جو واقعی معذور تھے اور اس وجہ سے پیچھے رہ گئے، ان کےلیے بھی یہ شرط تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ مخلص ہوں (إذا نصحوا للہ ورسولہ)۔ ان میں ایسے مخلصین تھے جن کے پاس زادِ راہ نہیں تھا اور وہ اس پر رو رہے تھے کہ وہ جہاد میں جانے سے محروم رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے آنسوؤں کو قرآن میں ہمیشہ کےلیے محفوظ کردیا

    ﴿وَلَا عَلَى ٱلَّذِينَ إِذَا مَآ أَتَوۡكَ لِتَحۡمِلَهُمۡ قُلۡتَ لَآ أَجِدُ مَآ أَحۡمِلُكُمۡ عَلَيۡهِ تَوَلَّواْ وَّأَعۡيُنُهُمۡ تَفِيضُ مِنَ ٱلدَّمۡعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُواْ مَا يُنفِقُونَ﴾[5]

    عذر پیش کرنے والے سارے لوگ مخلصین نہیں تھے، کچھ جھوٹے بہانے گھڑنے والے بھی تھے، ان کا عذر قبول نہیں کیا گیا:

    ﴿يَعۡتَذِرُونَ إِلَيۡكُمۡ إِذَا رَجَعۡتُمۡ إِلَيۡهِمۡۚ قُل لَّا تَعۡتَذِرُواْ لَن نُّؤۡمِنَ لَكُمۡ﴾ [6] کچھ جہاد کے خرچے کو بڑا بوجھ سمجھتے تھے اور مسلمانوں پر برے وقت کا انتظار بھی کررہے تھے کہ کب اس خرچے سے جان چھوٹے۔ ﴿وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ﴾[7]

    یہی لوگ تھے جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زکوٰۃ کے بھی منکر ہوگئے اور مرتد بھی ہوگئے اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ان سے جنگ لڑنی پڑی۔ صحابۂ کرام کے مراتب کا بھی خصوصی ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا: مہاجرین، انصار اور ان کی اتباع کرنے والے! ان تینوں گروہوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کا اعلان بھی کیا

    ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ﴾ [8] البتہ اہلِ مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والوں میں کچھ ایسے تھے جنھوں نے نفاق میں کچھ ایسی مہارت پیدا کی تھی کہ ان چھپے دشمنوں کو مسلمان جان نہیں سکے تھے، لیکن اللہ سے کون چھپ سکتا ہے: مردوا علی النفاق، لا تعلمھم، نحن نعلمھم۔

    کچھ ایسے بھی تھے جو اللہ کی خوشنودی کےلیے مالی قربانی میں سرگرم تھے اور رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کے حصول کے خواہاں تھے: من یؤمن باللہ والیوم الآخر ویتخذ ما ینفق قربٰت عند اللہ وصلوٰت الرسول۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اچھے کام بھی کیے اور ان سے گناہ بھی سرزد ہوئے، لیکن وہ اللہ سے بخشش کے طلبگار تھے اور اپنے کیے پر پشیماں؛ انھیں بھی بشارت دی گئی اور آئندہ کےلیے صحیح روش پر گامزن رہنے کی ہدایت دی گئی ﴿وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ﴾ [9]

    لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کے متعلق یہ فیصلہ مؤخر کیا گیا کہ انھیں معاف کیا جائے گا یا نہیں! (وآخرون مرجون لأمر اللہ، إما یعذبھم وإما یتوب علیھم) اس سخت آزمائش میں پڑنے والے تین جلیل القدر صحابہ کا ذکر آگے الگ سے کیا گیا جب ان کی توبہ قبول کی گئی۔ کچھ ایسے بھی تھے جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر اور بظاہر مسجد بنا کر وہاں سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے؛ ان لوگوں کا کڑا احتساب کیا گیا اور اس نام نہاد مسجد کو ڈھا دینے کا حکم دیا گیا ﴿وَ الَّذينَ اتَّخَذُوا مَسْجِداً ضِراراً وَ كُفْراً وَ تَفْريقاً بَيْنَ الْمُؤْمِنينَ وَ إِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللهَ‌ وَ رَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ﴾ [10]

    پیچھے رہ جانے والوں میں ان تین مخلصین کا فیصلہ بھی بالآخر سنا دیا گیا جن کے پاس عذر بھی نہیں تھا، لیکن جو اس کے باوجود آج جائیں گے، کل جائیں گے کے چکر میں پیچھے رہ گئے اور پھر جب مسلمان واپس لوٹے، تو انھوں نے جھوٹے بہانے بنانے کے بجاے تقصیر کا اعتراف کیا۔ پچاس دنوں تک ان کا سوشل بائیکاٹ چلتا رہایہاں تک کہ ان کے رشتہ داروں اور بیویوں تک نے انھیں چھوڑ دیا؛ پھر بالآخر ان کی توبہ قبول ہوئی، تو سارا مدینہ ان کے گھروں کی طرف لپک پڑا! وعلی الثلٰثۃ الذین خلّفوا۔

    سورت کی ابتدا میں مشرکین کے بھی کئی گروہ ذکر کیے گئے اور ہر ایک کے متعلق فیصلہ سنادیا گیا۔ اسی طرح اہلِ کتاب کے متعلق بھی حتمی فیصلہ اس سورت میں سنا دیا گیا۔ سورت کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے الوداعی پیغام بھی دے دیا گیا کہ جس نے رسول کی اتباع کی، اس نے فلاح پالی اور جس نے منہ موڑا تو وہ نامراد ہوا (فإن تولّوا فقل حسبی اللہ)۔

    یوں یہ سورت واقعی فیصلے کی سورت ہے اور جیسا کہ سلف سے منقول ہے اس کے آئینے میں ہر شخص اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہے۔ قیامت کے دن ہمارے متعلق کیا فیصلہ ہوگا، ہم یہ سورت پڑھ کر معلوم کرسکتے ہیں[11]۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔

    حوالہ جات

    1. سورۀ توبه، آیہ 46
    2. سورۀ توبه، آیہ 49
    3. سورۀ توبه، آیہ 81
    4. سورۀ توبه، آیہ 44
    5. سورۀ توبه، آیہ 91
    6. سورۀ توبه، آیہ 94
    7. سورۀ توبه، آیہ 98
    8. سورۀ توبه، آیہ 100
    9. سورۀ توبه، آیہ 102
    10. سورۀ توبه، آیہ 102
    11. سورۃ التوبہ، غزہ اور ہم - ڈاکٹرمحمد مشتاق احمد- شائع شدہ از: 9 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اپریل 2025ء۔

    زمره:نوٹس اور تجزیے