Jump to content

"فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 27: سطر 27:
== یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت ==
== یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت ==
پہلی عالمی جنگ (1914-19ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ (اتحادیوں) کے خلاف جرمنی (محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کا اعلان کا وعدۂ کیا جا‎ئے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔  
پہلی عالمی جنگ (1914-19ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ (اتحادیوں) کے خلاف جرمنی (محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کا اعلان کا وعدۂ کیا جا‎ئے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔  
عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا  
عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
دوسرا خفیہ معاہدہ 1917ء بالفور (Balfour Declaration) تھا۔ بالفور اس خط کا متن ہے جو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم یہودیوں کی فاؤنڈیشن کے چیئرمین لارڈراتھس چائلد کو لکھا تھا۔ اس خط میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی کے لیے ایک قومی وطن (National Home) قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ اعلان یہودی مملکت کے مطالبے کو بین الاقوامی پیمانے پر تسلیم کئے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اتحادی طاقتوں نے اعلان بالفور کی تائید کی <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء،ص617-618</ref>۔
 
== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی ==
== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی ==
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی  پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کو استعمال کیا۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1% یہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8% یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2% ان کے اختیار میں تھا۔
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی  پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کو استعمال کیا۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1% یہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8% یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2% ان کے اختیار میں تھا۔