3,963
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←تدریس) |
||
سطر 22: | سطر 22: | ||
== تدریس == | == تدریس == | ||
تیرہ سو ایک ہجری میں جب تھانوی علوم درسیہ سے فارغ ہوئے تھے اُسی زمانہ میں کانپور کے مدرسہ '''فیض عام''' میں ایک مدرس کی ضرورت تھی۔ آپ کو وہاں پر تدریس کے لئے بلایا گیا ۔ آپ کئی سال تک اس مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد مدرسہ کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہو کر تعلق منقطع کردیا ۔ پھر کچھ ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ کانپور کی جامع مسجد میں درس دینے لگے اور وہاں پر ایک مدرسہ قائم ہوگیا ۔ اس مدرسہ کا نام حضرت نے مسجد کی مناسبت سے مدرسہ جامع العلوم موسوم فرمایا یہ مدرسہ یوماً فیوماً ترقی کرتا رہا اور کچھ مدت بعد مشہور و معروف ہوگیا(اور اب تک بفضلہ تعالیٰ قائم ہے) <ref>محمد رحمۂ اللہ الندوی، اشرف علی التھانوی حکیم الامۂ و شیخ مشایخ العصر فی الہند، ص93</ref>۔ | تیرہ سو ایک ہجری میں جب تھانوی علوم درسیہ سے فارغ ہوئے تھے اُسی زمانہ میں کانپور کے مدرسہ '''فیض عام''' میں ایک مدرس کی ضرورت تھی۔ آپ کو وہاں پر تدریس کے لئے بلایا گیا ۔ آپ کئی سال تک اس مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد مدرسہ کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہو کر تعلق منقطع کردیا ۔ پھر کچھ ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ کانپور کی جامع مسجد میں درس دینے لگے اور وہاں پر ایک مدرسہ قائم ہوگیا ۔ اس مدرسہ کا نام حضرت نے مسجد کی مناسبت سے مدرسہ جامع العلوم موسوم فرمایا یہ مدرسہ یوماً فیوماً ترقی کرتا رہا اور کچھ مدت بعد مشہور و معروف ہوگیا(اور اب تک بفضلہ تعالیٰ قائم ہے) <ref>محمد رحمۂ اللہ الندوی، اشرف علی التھانوی حکیم الامۂ و شیخ مشایخ العصر فی الہند، ص93</ref>۔ | ||
== خلافت و اجازت == | |||
شوال 1301ہجری کو آپ نے پہلا حج انجام دیا۔ آپ 1310 ہجری میں دوسری مرتبہ حج کے لئے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کے منشاء اور اُنکی خواہش کے مطابق وہاں پر چھ ماہ تک قیام کا ارادہ کرلیا۔ حاجی صاحب اِسی موقع کے منتظر تھے چنانچہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ اور اپنے نوخیز طالب و سالک طریق کی فطری صلاحیت و استعداد اور جوہرِ قابل کا اندازہ کرتے رہے اور تمام علوم باطنی اور اسرار و رموزِ روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب مبارک پر وارد اور القاء فرمائے تھے آپ کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے۔ | |||
نتیجہ یہ ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہ خاص سے پ کا سینہ مبارک دولت معارف وحقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ کا اور محبت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم]] کا سوز و گداز رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔ | |||
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہوکر اور اپنے ذوق و مسلک سے تمام تر ہم آہنگی کے آثار نمایاں دیکھ کر اپنا جانشین بنا لیا۔ اور باذن اللہ تعالیٰ خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لئے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جب حضرت کا وہاں سے واپسی کا وقت آیا تو بکمال محبت و شفقت گلے لگا کر فرمایا: میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ذالک فضل اللہ ۔ | |||
پھر ان دو وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا:دیکھو! وطن پہنچ کر تم کو باطنی کیفیات میں ایک حالت پیش آئے گی ۔ گھبرانا نہیں ۔ مجھ کو مطلع کرتے رہنا ۔ دوسرا یہ کہ جب مدرسہ کی ملازمت سے دلبرداشتہ ہو تو پھر وطن پہنچ کر ہماری خانقاہ اور مدرسہ میں توکلاً علی اللہ مقیم ہوجانا، تم سے ان شاء اللہ تعالیٰ خلق کثیر کو نفع پہنچے گا <ref>غلام محمد، سوانح عمری، حیات اشرف، ص51</ref>۔ | |||
== حوالہ جات== | == حوالہ جات== |