Jump to content

"سید علی سیستانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 56: سطر 56:
* فلاحی اسپتال حضرت امام صادق (ع).
* فلاحی اسپتال حضرت امام صادق (ع).
== سیاسی و سماجی ==
== سیاسی و سماجی ==
*'''آیت اللہ خویی کی نماز جنازہ کی امامت''': آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد، سید علی سیستانی نے جو ان کے مہم ترین شاگردوں میں سے تھے، ان کی نماز جنارہ پڑھائی۔ حوزہ کی سنت کے مطابق، جو بھی گزشتہ مرجع تقلید کے جنازہ پر نماز پڑھاتا ہے وہی اس کا جانشین بنتا ہے۔ اگر چہ صدام حسین کی حکومت کے زمانہ میں شیعوں اور حوزہ علمیہ نجف کے حالات سخت اور پیچیدہ ہونے اور آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری کے ۲۵ مرداد ۱۳۷۲ ش تک ہونے کے سبب خاموشی کے ساتھ آیت اللہ سیستانی کی مرجعیت کا آغاز ہوا۔
*'''آیت اللہ خویی کی نماز جنازہ کی امامت''': آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد، سید علی سیستانی نے جو ان کے مہم ترین شاگردوں میں سے تھے، ان کی نماز جنارہ پڑھائی۔ حوزہ کی سنت کے مطابق، جو بھی گزشتہ مرجع تقلید کے جنازہ پر نماز پڑھاتا ہے وہی اس کا جانشین بنتا ہے۔ اگر چہ صدام حسین کی حکومت کے زمانہ میں شیعوں اور حوزہ علمیہ نجف کے حالات سخت اور پیچیدہ ہونے اور آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری کے ۲۵ مرداد ۱۳۷۲ ش تک حیات ہونے کے سبب خاموشی کے ساتھ آیت اللہ سیستانی کی مرجعیت کا آغاز ہوا۔


البتہ آیت اللہ خوئی کے ایک شاگرد جعفر نطنزی کا ماننا ہے کہ آیت اللہ خوئی کے جنازہ پر آیت اللہ سیستانی کا نماز پڑھانا ان کے جانشین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت نجف اشرف میں کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ نطنزی اسی طرح سے آیت خوئی کی تشییع جنازہ اور آیت اللہ سیستانی کے نماز پڑھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ کوئی تشییع کا ماحول یا ہلچل نہیں تھی، جنازہ کو لایا گیا انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ بعد میں بھی کوئی ایسی علامت دیکھنے میں نہیں آئی جو ان کی مرجعیت کی دلیل بن سکتی ہو۔ وہ ایک فہیم اور با فراست انسان ہیں۔ ان کے بعد آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری مرجع تقلید تھے۔
البتہ آیت اللہ خوئی کے ایک شاگرد جعفر نطنزی کا ماننا ہے کہ آیت اللہ خوئی کے جنازہ پر آیت اللہ سیستانی کا نماز پڑھانا ان کے جانشین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت نجف اشرف میں کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ نطنزی اسی طرح سے آیت اللہ خوئی کی تشییع جنازہ اور آیت اللہ سیستانی کے نماز پڑھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ کوئی تشییع کا ماحول یا ہلچل نہیں تھی، جنازہ کو لایا گیا انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ بعد میں بھی کوئی ایسی علامت دیکھنے میں نہیں آئی جو ان کی مرجعیت کی دلیل بن سکتی ہو۔ وہ ایک فہیم اور با فراست انسان ہیں۔ ان کے بعد آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری مرجع تقلید تھے۔
*'''عراقی حکومت اور قانون''' وه عراق پر امریکی فوجیوں کے حملہ اور [[صدام حسین]] کی حکومت کے سقوط کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی مقاومت میں دلچسبی نہیں دکھائی۔ اور انہوں نے ہمیشہ جی گارنر اور پال بارمر جیسی امریکی شخصیات سے ملاقات سے پرہیز کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے عراق میں جدید حکومت کے قیام اور جدید ملی قوانین کی تدوین کے سلسلہ میں ہونے والے مختلف انتخابات میں عوام کو اس میں شرکت کرنے کی طرف تشویق کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کرداد ادا کیا
*'''عراقی حکومت اور قانون''' انہوں عراق پر امریکی فوج کے حملہ اور [[صدام حسین]] کی حکومت کے سقوط کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی مزاحمت میں دلچسبی نہیں دکھائی۔ اور انہوں نے ہمیشہ جی گارنر اور پال بارمر جیسی امریکی شخصیات سے ملاقات سے پرہیز کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے عراق میں جدید حکومت کے قیام اور جدید ملی قوانین کی تدوین کے سلسلہ میں ہونے والے مختلف انتخابات میں عوام کو اس میں شرکت کرنے کی طرف تشویق کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کرداد ادا کیا۔
* '''امریکی و عراقی افواج و مقتدی صدر کے تنازع کا حل''': ش میں روزنامہ الحوزہ پر پابندی کے ساتھ ہی جس میں [[مقتدی صدر]] کے اسلامی اور امریکہ مخالف نظریات نشر ہوتے تھے، جیش المہدی کے نیم فوجی دستوں اور عراق میں موجود امریکی افواج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ یہ بحران امریکی فوج کے ٹینکوں کے کربلا، نجف اور کوفہ جیسے شہروں میں داخل ہونے اور وہاں لڑائی اور جھڑپوں کا سبب بنا۔
* '''امریکی و عراقی افواج اور مقتدی صدر کے تنازع کا حل''': ش میں روزنامہ الحوزہ پر پابندی کے ساتھ ہی جس میں [[مقتدی صدر]] کے اسلامی اور امریکہ مخالف نظریات نشر ہوتے تھے، جیش المہدی کے نیم فوجی دستوں اور عراق میں موجود امریکی افواج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ یہ بحران امریکی فوج کے ٹینکوں کے کربلا، نجف اور کوفہ جیسے شہروں میں داخل ہونے اور وہاں لڑائی اور جھڑپوں کا سبب بنا۔جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ۱۳۸۳ ش میں اردیبہشت سے لیکر مرداد کے مہینے تک سپاہ مہدی اور امریکی و عراقی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ جس کے نتیجہ میں شہر نجف کا محاصرہ کر لیا گیا اور امیر المومنین (ع) کے حرم کو نقصان پہچا اور عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں بسنے والے دسیوں افراد جاں بحق ہوئےور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں سپاہ مہدی نے اپنے سنگر بنا لئے۔ آخر کار اس بحران کا حل آیت اللہ سیستانی کے اس میں وارد ہونے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف پیش کی گئیں امن پسند تجاویز سے نکالا گیا اور ۶ شہریور ۱۳۸۳ ش کو اس کا سد باب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کے حرم اور مسجد کوفہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو مرجعیت کے سپرد کر دیا گیا  <ref>سفر درمانی حضرت آیت الله سیستانی؛ بازگشت به عراق و حل بحران نجف - بخش پایانی</ref> ۔


جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ۱۳۸۳ ش میں اردیبہشت سے لیکر مرداد کے مہینے تک سپاہ مہدی اور امریکی و عراقی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ جس کے نتیجہ میں شہر نجف کا محاصرہ کر لیا گیا اور امیر المومنین (ع) کے حرم کو نقصان پہچا اور عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں بسنے والے دسیوں افراد جاں بحق ہوئےور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں سپاہ مہدی نے اپنے سنگر بنا لئے۔ آخر کار اس بحران کا حل آیت اللہ سیستانی کے اس میں وارد ہونے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف پیش کی گئیں امن پسند تجاویز سے نکالا گیا اور ۶ شہریور ۱۳۸۳ ش کو اس کا سد باب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کے حرم اور مسجد کوفہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو مرجعیت کے سپرد کر دیا گیا  <ref>سفر درمانی حضرت آیت الله سیستانی؛ بازگشت به عراق و حل بحران نجف - بخش پایانی</ref> ۔
* '''داعش سے جہاد کا فتوا''':  آیت اللہ سیستانی نے عراقی شہر موصل کے سقوط اور [[داعش]] کے عراق کے مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف رخ کرنے کے بعد ملک و ملت اور مقدسات دینی کے دفاع کے سلسلہ میں واجب کفائی کا حکم دیا۔ اور جنگ کرنے کی توانائی رکھنے والے شہریوں کو دفاع اور مقابلہ کے لئے اسلحہ اٹھانے اور فوج کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے طلب کیا۔ وه کی اس خواہش کا شہر کربلا کے امام جمعہ اور آیت اللہ سیستانی کے نمایندہ عبد المہدی کربلائی نے اعلان کیا اگر چہ یہ حکم فتوی کی شکل میں نہیں تھا۔ لیکن بعض تحلیل کے مطابق فتوی کے حکم میں تھی اور یہ حکم سبب بنا کہ لاکھوں افراد داعش کے ساتھ مقابلہ کے لئے عراقی افواج کے ساتھ ملحق ہو گئے  <ref>آیت الله سیستانی فتوای جهاد صادر کرد</ref>
* '''داعش سے جہاد کا فتوا''':  آیت اللہ سیستانی نے عراقی شہر موصل کے سقوط اور [[داعش]] کے عراق کے مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف رخ کرنے کے بعد ملک و ملت اور مقدسات دینی کے دفاع کے سلسلہ میں واجب کفائی کا حکم دیا۔ اور جنگ کرنے کی توانائی رکھنے والے شہریوں کو دفاع اور مقابلہ کے لئے اسلحہ اٹھانے اور فوج کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے طلب کیا۔ وه کی اس خواہش کا شہر کربلا کے امام جمعہ اور آیت اللہ سیستانی کے نمایندہ عبد المہدی کربلائی نے اعلان کیا اگر چہ یہ حکم فتوی کی شکل میں نہیں تھا۔ لیکن بعض تحلیل کے مطابق فتوی کے حکم میں تھی اور یہ حکم سبب بنا کہ لاکھوں افراد داعش کے ساتھ مقابلہ کے لئے عراقی افواج کے ساتھ ملحق ہو گئے  <ref>آیت الله سیستانی فتوای جهاد صادر کرد</ref>


confirmed
821

ترامیم