Jump to content

"8 شوال" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,554 بائٹ کا اضافہ ،  30 اپريل 2023ء
سطر 21: سطر 21:


تاریخی شواہد کی بنا پر ائمہ بقیع کے مزارات اور بیت‌ الاحزان سمیت کئی دوسرے قبور پر بنی ہوئی بارگاہیں سنہ 1297ھ تک موجود تھیں اور قبرستان بقیع کی پہلی تخریب اور مدینے میں وہابیوں کے فسادات کے بعد ان بارگاہوں کو سنہ 1234ھ میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ محمود دوم کے حکم سے دوبارہ تعمیر کیا گیا
تاریخی شواہد کی بنا پر ائمہ بقیع کے مزارات اور بیت‌ الاحزان سمیت کئی دوسرے قبور پر بنی ہوئی بارگاہیں سنہ 1297ھ تک موجود تھیں اور قبرستان بقیع کی پہلی تخریب اور مدینے میں وہابیوں کے فسادات کے بعد ان بارگاہوں کو سنہ 1234ھ میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ محمود دوم کے حکم سے دوبارہ تعمیر کیا گیا
چنانچہ مراد میرزا(1168-1212ش) جو حسام السلطنہ کے نام سے مشہور تھے، نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کم از کم سنہ 1297ھ تک امام حسن، امام سجاد، امام باقر اور امام صادق کے مزارات پر محراب اور لکڑی کے بنے ہوئے سبز رنگ کی ضریح بنی ہوئی تھی اور حضرت زہرا(س) سے منسوب بیت الاحزان ان قبور کے پیچھے واقع تھا۔
ایاز خان قشقایی کے سفر نامے کے مطابق سنہ 1341ھ یعنی بقیع کی مکمل تخریب سے دو سال قبل شیعوں کے چار اماموں کے مزرات ایک ہی بارگاہ کے اندر موجود تھے لیکن ہر ایک کی قبر جداگانہ طور پر مشخص تھی۔ اسی طرح وہ پیغمبر اکرم کے صاحبزادے ابراہیم اور عبداللہ بن جعفر طیار کے قبور پر بھی بارگاہیں موجود ہونے کی تائید کرتے ہیں اور قبرستان بقیع کے نزدیک ایک گلی میں پیغمبر اکرم کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب، عاتکہ بنت عبدالمطلب، ام البنین مادر حضرت عباس اور بنی ہاشم کے کئی دیگر افراد سے منسوب قبور کے مشاہدہ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں <ref>ایازخان قشقایی، سفرنامہ حاج ایاز خان قشقایی، ۱۳۸۹ش، ص۴۵۵</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==