Jump to content

"محمد بن علی بن موسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 24: سطر 24:


شیعوں کے نویں رہنما کو شہید کرنے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق معتقم کو ان کے ایک وزیر کے سیکرٹری نے زہر دے کر شہید کر دیا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معتزم نے اسے ام الفضل کے ذریعے زہر دیا تھا۔ مسعودی کہتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کے مورخین معتقم اور جعفر بن مامون محمد بن علی(ع) کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ چونکہ جواد عمیمہ کی ام الفضل سے کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے مامون کی وفات کے بعد مامون کے بیٹے جعفر نے اپنی بہن (ام الفضل) کو محمد بن علی کو زہر دینے کے لیے اکسایا۔ انہوں نے مل کر انگوروں میں زہر چھڑک کر امام(ع) کے خلاف کھایا۔ امام(ع) کو زہر دینے کے بعد ام فضل کو افسوس ہوا اور وہ رونے لگی لیکن امام(ع) نے انہیں بتایا کہ آپ کو ایک ایسی آفت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ ام الفضل کے ہاتھوں شہید ہونے کے بارے میں دیگر روایات بھی موجود ہیں  <ref>اشعری، المقلۃ و الفرق، ۱۳۶۱ق، ص۹۹/ طبرسی، اعلان الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۰۶، فتح نیشابوری، روضۃ الوائزن، ۱۳۷۵ق، ص۱، ص۲۴۳</ref>۔
شیعوں کے نویں رہنما کو شہید کرنے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق معتقم کو ان کے ایک وزیر کے سیکرٹری نے زہر دے کر شہید کر دیا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معتزم نے اسے ام الفضل کے ذریعے زہر دیا تھا۔ مسعودی کہتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کے مورخین معتقم اور جعفر بن مامون محمد بن علی(ع) کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ چونکہ جواد عمیمہ کی ام الفضل سے کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے مامون کی وفات کے بعد مامون کے بیٹے جعفر نے اپنی بہن (ام الفضل) کو محمد بن علی کو زہر دینے کے لیے اکسایا۔ انہوں نے مل کر انگوروں میں زہر چھڑک کر امام(ع) کے خلاف کھایا۔ امام(ع) کو زہر دینے کے بعد ام فضل کو افسوس ہوا اور وہ رونے لگی لیکن امام(ع) نے انہیں بتایا کہ آپ کو ایک ایسی آفت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ ام الفضل کے ہاتھوں شہید ہونے کے بارے میں دیگر روایات بھی موجود ہیں  <ref>اشعری، المقلۃ و الفرق، ۱۳۶۱ق، ص۹۹/ طبرسی، اعلان الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۰۶، فتح نیشابوری، روضۃ الوائزن، ۱۳۷۵ق، ص۱، ص۲۴۳</ref>۔
ایک دوسری روایت کے مطابق، جب لوگوں نے معتصم کے ہاتھوں پر بیعت کر لی تو اس نے والی مدینہ عبد الملک زیات کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ وہ امام (ع) کو ام الفضل کے ہمراہ بغداد روانہ کرے۔ جب امام بغداد میں وارد ہوئے تو اس نے ظاہری طور پر امام کا احترام کیا اور امام و ام الفضل کے لئے تحائف بھیجے۔ اس روایت کے مطابق معتصم نے پرتقال کا شربت اپنے غلام کے ذریعہ جس کا نام اسناش تھا، امام کے پاس بھیجا۔ اس نے امام سے کہا کہ خلیفہ نے یہ شربت بعض بزرگان منجملہ احمد بن ابی ‌داود و سعید بن خضیب کو پلایا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ بھی یہ شربت پی لیں۔ امام نے فرمایا: میں اسے شب میں نوش کروں گا۔ لیکن اس نے اصرار کیا کہ یہ ابھی ٹھنڈا ہے بعد میں یہ گرم ہو جائے گا تو امام نے اسے نوش کر لیا اور اسی کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی<ref>مجلیسی، بہارلانوار، ۱۴۰۳ق، ۱۹۱۴ء، ج۵۰، ص۱۳، ۱۷</ref>۔
شیخ مفید زہر سے آپ کی شہادت کے سلسلہ میں تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ چیز میرے لئے ثابت نہیں ہے تا کہ میں اس کی شہادت دے سکوں۔ بعض نے شیخ کی اس عبارت سے جو انہوں نے بعض دوسرے ائمہ کے لئے بھی استعمال کی ہیں، یہ اخذ کیا ہے کہ وہ امام تقی (ع) کی شہادت کے قائل نہیں تھے اور ان کے لحاظ کے امام کی موت طبیعی طور پر واقع ہوئی ہے۔ البتہ بعض شیعہ محققین نے اس روایت «ما مِنّا إلّا مقتولٌ شهیدٌ» <ref>ابن شہر آشوب، مناقب الابی طالب، علامہ پبلیکیشنز، ج۴، ص۳۹۱</ref>۔  سے استناد کرتے ہوئے اور اسی طرح سے ان شواہد کو ذکر کرتے ہوئے جو امام کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، شیخ مفید کی اس بات کی توجیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ وہ بغداد میں قیام پذیر تھے اور اس بات کے پیش نظر کہ عباسی حکومت میں مکتب اہل بیت (ع) اور شیعوں کے خلاف جو فضا حاکم تھی، اس میں شیخ صراحت کے ساتھ شیعہ عقاید اور امام محمد تقی (ع) کی شہادت کے بارے میں اظہار نظر نہیں کر سکتے تھے لہذا انہوں نے اس مورد میں تقیہ کیا ہے۔ یہ احتمال بھی ذکر ہوا ہے کہ زیادہ منابع ان کی دسترس میں نہ ہونے اور منابع اصلی تک رسائی حاصل کرنے میں سختی کی وجہ سے یہ مطالب ان تک نہیں پہچ سکے ہیں۔


== حواله جات ==
== حواله جات ==