4,643
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 4: | سطر 4: | ||
| تصویر کی وضاحت = | | تصویر کی وضاحت = | ||
| نام = | | نام = | ||
| تاریخ ولادت = | | تاریخ ولادت = حضرت محمد کی ولادت سے 570 سال پہلے | ||
| جائے ولادت = ناصره جلیل | | جائے ولادت = ناصره جلیل | ||
| شهادت = | | شهادت = | ||
سطر 18: | سطر 18: | ||
}} | }} | ||
'''حضرت عیسی علیہ السلام''' 25 دسمبرکو مقبوضہ [[فلسطین]] کے شہر بیت لحم میں پیدا ہوئے- آپ(ع) اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے- [[قرآن|قرآن کریم]] نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ | '''حضرت عیسی علیہ السلام''' 25 دسمبرکو مقبوضہ [[فلسطین]] کے شہر بیت لحم میں پیدا ہوئے- آپ(ع) اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے- [[قرآن|قرآن کریم]] نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ | ||
خداوند عالم نے اپنی حکمت کے تحت حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک مخصوص جگہ منتقل کر دیا ہے تاکہ ایک دن ظاہر ہو کر امام عصر عج کی اقتدا اور انکی حمایت کرسکیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے آخری نبی تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خاتم الانبیاء، حضرت محمّد مصطفیٰ کی آمد کی خُوش خبری دی۔ | خداوند عالم نے اپنی حکمت کے تحت حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک مخصوص جگہ منتقل کر دیا ہے تاکہ ایک دن ظاہر ہو کر امام عصر عج کی اقتدا اور انکی حمایت کرسکیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے آخری نبی تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خاتم الانبیاء، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|حضرت محمّد مصطفیٰ]] کی آمد کی خُوش خبری دی۔ | ||
== ولادت == | == ولادت == | ||
بیٹے کی بشارت کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے آپؑ پر پھونک ماری اور وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مریمؑ کو بچّے کی پیدائش کے آثار محسوس ہونے | بیٹے کی بشارت کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے آپؑ پر پھونک ماری اور وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مریمؑ کو بچّے کی پیدائش کے آثار محسوس ہونے لگے <ref>علی عطائی اصفہانی، قصہ ھای پیامبران در قرآن، ص291۔</ref>۔ | ||
جیسے جیسے پیدائش کے دن قریب آتے جا رہے تھے، آپؑ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا، تو آپؑ لوگوں کے خوف سے بیتُ المقدِس سے تقریباً 9 میل دُور جنگل کی جانب ایک پہاڑی’’ کوہِ سراۃ‘‘ کی جانب چلی گئیں۔ | جیسے جیسے پیدائش کے دن قریب آتے جا رہے تھے، آپؑ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا، تو آپؑ لوگوں کے خوف سے بیتُ المقدِس سے تقریباً 9 میل دُور جنگل کی جانب ایک پہاڑی’’ کوہِ سراۃ‘‘ کی جانب چلی گئیں۔ | ||
یہی وہ جگہ ہے، جو بعد میں’’ بیت اللحم‘‘ کہلائی۔ جب دردِ زہ شروع ہوا، تو آپؑ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔ زچگی کی تکلیف کی شدّت اور دُنیا والوں کے خوف نے آب دیدہ کر | یہی وہ جگہ ہے، جو بعد میں’’ بیت اللحم‘‘ کہلائی۔ جب دردِ زہ شروع ہوا، تو آپؑ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔ زچگی کی تکلیف کی شدّت اور دُنیا والوں کے خوف نے آب دیدہ کر دیا<ref>انجیل لوقا، 1: 26 ـ 32.</ref>۔ | ||
کہنے لگیں’’کاش! مَیں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔‘‘ | کہنے لگیں’’کاش! مَیں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔‘‘ | ||
سطر 60: | سطر 60: | ||
﴿ وَ لَمْ يجَْعَلْنىِ جَبَّارًا شَقِيًّا﴾۔ <ref>سورہ مریم، آیہ 32</ref>۔ | ﴿ وَ لَمْ يجَْعَلْنىِ جَبَّارًا شَقِيًّا﴾۔ <ref>سورہ مریم، آیہ 32</ref>۔ | ||
قرآن کریم میں دو ایسے انبیاء ہیں جن پر خدا نے تین سلام بھیجے ہیں، ولادت کے موقع پر، وفات کے موقع پر اور قیامت کے دن مبعوث ہوتے وقت۔ ان میں سے ایک حضرت یحیی علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے ایک حکمران کی ہوس رانی کے نتیجے میں شہید ہو گئے اور سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے وقت انکا ذکر کیا تھا۔ دوسرے نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور خدا کی نشانیوں میں سے قرار پائے۔ | قرآن کریم میں دو ایسے انبیاء ہیں جن پر خدا نے تین سلام بھیجے ہیں، ولادت کے موقع پر، وفات کے موقع پر اور قیامت کے دن مبعوث ہوتے وقت۔ ان میں سے ایک حضرت یحیی علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے ایک حکمران کی ہوس رانی کے نتیجے میں شہید ہو گئے اور [[حسین بن علی|سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام]] نے اپنے قیام کے وقت انکا ذکر کیا تھا۔ دوسرے نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور خدا کی نشانیوں میں سے قرار پائے۔ | ||
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’ اور جب عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ نے کہا’’ اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور ایک پیغمبر کی، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمدؐ ہوگا، بشارت سُناتا ہوں‘‘ | قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’ اور جب عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ نے کہا’’ اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور ایک پیغمبر کی، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمدؐ ہوگا، بشارت سُناتا ہوں‘‘<ref>صف، آیہ 62</ref>۔ | ||
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بعد تقریباً چھے سو سال تک کوئی نبی نہیں آیا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے آقا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور اُن پر آخری آسمانی کتاب، قرآنِ مجید نازل فرمائی۔ | حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بعد تقریباً چھے سو سال تک کوئی نبی نہیں آیا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے آقا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور اُن پر آخری آسمانی کتاب، قرآنِ مجید نازل فرمائی۔ | ||
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر انجیل نازل فرمائی گئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ؑ ابنِ مریمؑ کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت اور نور تھا‘‘ | حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر انجیل نازل فرمائی گئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ؑ ابنِ مریمؑ کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت اور نور تھا‘‘ <ref>مائدہ آیہ 46</ref>۔ | ||
ابنِ جریر نے تحریر کیا ہے کہ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر جب انجیل نازل ہوئی، تو آپؑ کی عُمر مبارک تیس سال تھی اور نبوّت کے تین سال بعد ،یعنی تینتیس برس کی عُمر میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا‘‘ | ابنِ جریر نے تحریر کیا ہے کہ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر جب انجیل نازل ہوئی، تو آپؑ کی عُمر مبارک تیس سال تھی اور نبوّت کے تین سال بعد ،یعنی تینتیس برس کی عُمر میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا‘‘ | ||
== قرآنِ مجید میں تذکرہ == | == قرآنِ مجید میں تذکرہ == | ||
قرآنِ کریم کی تیرہ سورتوں میں مختلف ناموں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے۔26 مقامات پر عیسیٰ علیہ السّلام،23 مقامات پر ابنِ مریمؑ، 11 جگہوں پر مسیح ؑاور ایک مقام پر عبداللہ کہا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورہ ’’سورۂ مریم‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ کے نام پر ہے، جس میں حضرت مریمؑ بنتِ عمران اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قصّہ تفصیل کے ساتھ موجود | قرآنِ کریم کی تیرہ سورتوں میں مختلف ناموں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے۔26 مقامات پر عیسیٰ علیہ السّلام،23 مقامات پر ابنِ مریمؑ، 11 جگہوں پر مسیح ؑاور ایک مقام پر عبداللہ کہا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورہ ’’سورۂ مریم‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ کے نام پر ہے، جس میں حضرت مریمؑ بنتِ عمران اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قصّہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے <ref>علی عطائی اصفہانی، قصہ ھای پیامبران در قرآن، ص 291۔</ref>۔ | ||
اس کے علاوہ، قرآنِ کریم کی تیسری سورہ، سورۂ آلِ عمران، حضرت مریمؑ کے والد ماجد کے نام سے منسوب ہے، جس میں حضرت مریمؑ کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی پانچویں سورہ، سورۃ المائدہ میں اُس کھانے کا ذکر ہے، جس کی فرمائش حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریوں نے کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی، جس پر آسمان سے مآئدہ یعنی کھانے کے خوان کا نزول ہوا۔ | اس کے علاوہ، قرآنِ کریم کی تیسری سورہ، سورۂ آلِ عمران، حضرت مریمؑ کے والد ماجد کے نام سے منسوب ہے، جس میں حضرت مریمؑ کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی پانچویں سورہ، سورۃ المائدہ میں اُس کھانے کا ذکر ہے، جس کی فرمائش حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریوں نے کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی، جس پر آسمان سے مآئدہ یعنی کھانے کے خوان کا نزول ہوا۔ | ||
== مِصر کی جانب ہجرت == | == مِصر کی جانب ہجرت == | ||
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریمؑ گود میں بات چیت کے بعد کلام کرنے سے رُک گئے تھے، پھر جب لڑکپن کو چُھونے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی زبان پر حکمت اور دانائی کی باتیں جاری کر دیں۔ جب آپؑ سات سال کے ہوئے، تو حضرت مریمؑ نے آپؑ کو معلّم کے پاس درس گاہ میں بھیجنا شروع کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بچپن ہی میں اللہ کی طرف سے الہام کردہ عجائبات کا نظارہ کرتے تھے۔ | حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریمؑ گود میں بات چیت کے بعد کلام کرنے سے رُک گئے تھے، پھر جب لڑکپن کو چُھونے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی زبان پر حکمت اور دانائی کی باتیں جاری کر دیں۔ جب آپؑ سات سال کے ہوئے، تو حضرت مریمؑ نے آپؑ کو معلّم کے پاس درس گاہ میں بھیجنا شروع کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بچپن ہی میں اللہ کی طرف سے الہام کردہ عجائبات کا نظارہ کرتے تھے۔ | ||
سطر 90: | سطر 79: | ||
یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السّلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہود اپنی سابقہ روایات اور عاداتِ خبیثہ کے باعث حضرت زکریا علیہ السّلام کی نافرمانی اور اُن کی تکذیب کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر مشرکانہ طور طریقے اختیار کر لیے تھے، یہاں تک کہ اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی بہت زیادہ ردّوبدل کر لیا تھا۔ | یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السّلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہود اپنی سابقہ روایات اور عاداتِ خبیثہ کے باعث حضرت زکریا علیہ السّلام کی نافرمانی اور اُن کی تکذیب کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر مشرکانہ طور طریقے اختیار کر لیے تھے، یہاں تک کہ اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی بہت زیادہ ردّوبدل کر لیا تھا۔ | ||
اُن کے عقائد و اعمال دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جب بیتُ المقدِس کے حالات خراب ہونے لگے، تو حضرت مریمؑ آپؑ کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مِصر چلی گئیں۔ تیرہ سال بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے | اُن کے عقائد و اعمال دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جب بیتُ المقدِس کے حالات خراب ہونے لگے، تو حضرت مریمؑ آپؑ کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مِصر چلی گئیں۔ تیرہ سال بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے [[مصر]] سے واپس ہوئیں۔ پھر اللہ نے آپؑ کو انجیل عطا فرمائی اور تورات کی تعلیم دی۔ اس کے علاوہ، مُردوں کو زندہ کرنا، کوڑھیوں کو صحیح کرنا اور دُوسرے معجزات سے نوازا۔ | ||
== معجزات، انعامات اور فضیلتیں == | == معجزات، انعامات اور فضیلتیں == | ||
اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اُن کی صداقت، افضلیت اور برتری نمایاں رہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں۔ سب سے پہلا معجزہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا تھا۔ آغوشِ مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دی۔ مٹّی کا پرندہ بناتے، اُس پر پھونک مارتے، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا۔ | اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اُن کی صداقت، افضلیت اور برتری نمایاں رہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں۔ سب سے پہلا معجزہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا تھا۔ آغوشِ مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دی۔ مٹّی کا پرندہ بناتے، اُس پر پھونک مارتے، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا۔ | ||
پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے، تو اُس کی بینائی ایسے آ جاتی، جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرتے۔ مُردوں کو زندہ کر دیتے۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھا کر آتے اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے، اُس کی تفصیل بتا دیتے۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کی پھانسی سے بچا کر زندہ سلامت آسمانوں پر اُٹھا لیا۔ | پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے، تو اُس کی بینائی ایسے آ جاتی، جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرتے۔ مُردوں کو زندہ کر دیتے۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھا کر آتے اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے، اُس کی تفصیل بتا دیتے۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کی پھانسی سے بچا کر زندہ سلامت آسمانوں پر اُٹھا لیا۔ | ||
== حواری کون تھے؟ == | == حواری کون تھے؟ == | ||
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی بچّے۔ آپؑ شہر شہر، قریہ قریہ دینِ حق کی تبلیغ فرماتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ حسبِ ضرورت اپنے معجزات سے اُن کی مدد بھی فرماتے، لیکن ان سب کے باوجود یہودیوں کی اکثریت آپؑ کو اذیّت دینے اور تکذیب کرنے سے باز نہ آتی۔ دراصل، بنی اسرائیل آپؑ کی نبوّت کے منکر رہے۔ البتہ اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جو آپؑ کے پیروکار اور ہم درد و غم خوار تھے۔ وہ آپؑ کے ساتھ دین کے کام میں مشغول رہتے۔ قرآنِ کریم نے اُنہیں’’ حواری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ | حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی بچّے۔ آپؑ شہر شہر، قریہ قریہ دینِ حق کی تبلیغ فرماتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ حسبِ ضرورت اپنے معجزات سے اُن کی مدد بھی فرماتے، لیکن ان سب کے باوجود یہودیوں کی اکثریت آپؑ کو اذیّت دینے اور تکذیب کرنے سے باز نہ آتی۔ دراصل، بنی اسرائیل آپؑ کی نبوّت کے منکر رہے۔ البتہ اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جو آپؑ کے پیروکار اور ہم درد و غم خوار تھے۔ وہ آپؑ کے ساتھ دین کے کام میں مشغول رہتے۔ قرآنِ کریم نے اُنہیں’’ حواری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ | ||
ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اُن کا کفر محسوس کرلیا، تو کہنے لگے’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا’’ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں(آپؑ کے) مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپؑ گواہ رہیے کہ ہم تابع دار ہیں‘‘ | ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اُن کا کفر محسوس کرلیا، تو کہنے لگے’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا’’ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں(آپؑ کے) مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپؑ گواہ رہیے کہ ہم تابع دار ہیں‘‘ <ref>آل عمران آیہ 25۔</ref>۔ لفظ ’’حواری‘‘ حور سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنیٰ’’ سفیدی‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مخلص ساتھیوں کو یہ لقب دیا گیا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو صحابی کے لقب سے نوازا گیا۔ | ||
مفسرّین نے بہت ہی قریبی حوارییّن کی تعداد بارہ بتلائی ہے۔ حواریّین، حواری کی جمع ہے اور اس کے معنیٰ’’انصار‘‘ یعنی مددگار کے ہیں۔ جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ہر نبی کا کوئی حواری یعنی مددگار ہوتا ہے، میرے حواری زبیرؓ ہیں‘‘ | مفسرّین نے بہت ہی قریبی حوارییّن کی تعداد بارہ بتلائی ہے۔ حواریّین، حواری کی جمع ہے اور اس کے معنیٰ’’انصار‘‘ یعنی مددگار کے ہیں۔ جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ہر نبی کا کوئی حواری یعنی مددگار ہوتا ہے، میرے حواری زبیرؓ ہیں‘‘<ref>صحیح بخاری، کتاب الجہاد، ص 233</ref>۔ | ||
== قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان == | == قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان == | ||
سطر 121: | سطر 107: | ||
اے عیسی، تم دوسروں کے سامنے مسئول ہو، کمزور افراد پر رحم کرو، جس طرح میں تم پر رحم کرتا ہوں اور یتیم پرغضب نہ کرنا اور اسے خود سے دور نہ کرنا۔ | اے عیسی، تم دوسروں کے سامنے مسئول ہو، کمزور افراد پر رحم کرو، جس طرح میں تم پر رحم کرتا ہوں اور یتیم پرغضب نہ کرنا اور اسے خود سے دور نہ کرنا۔ | ||
اے لوگو، زراعت ہمیشہ نرم اور ہموار زمین پر انجام دی جاتی ہے نہ سخت اور پتھریلی زمین پر، حکمت بھی ایسی ہی ہے جو متواضع اور انکساری کے حامل قلوب میں پرورش پاتی ہے اور پھل دیتی ہے نہ متکبر اور سرکش دلوں میں"<ref>ابن شیبہ حرانی، تحف العقول، ص ۵۰۱</ref>۔ | |||
اے لوگو، زراعت ہمیشہ نرم اور ہموار زمین پر انجام دی جاتی ہے نہ سخت اور پتھریلی زمین پر، حکمت بھی ایسی ہی ہے جو متواضع اور انکساری کے حامل قلوب میں پرورش پاتی ہے اور پھل دیتی ہے نہ متکبر اور سرکش دلوں میں"۔ | |||
== انجیل کا نزول == | == انجیل کا نزول == | ||
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنی کتاب بھی نازل فرمائی۔ یہ انجیل تھی ، جو اللہ کی حکمت کا خزانہ تھی ۔ اِس میں رأفت و رحمت تھی اور بنی اسرائیل کے لیےہدایت اور روشنی تھی۔اِس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ اُس کی مصدق ثابت ہوئی۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے: | اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنی کتاب بھی نازل فرمائی۔ یہ انجیل تھی ، جو اللہ کی حکمت کا خزانہ تھی ۔ اِس میں رأفت و رحمت تھی اور بنی اسرائیل کے لیےہدایت اور روشنی تھی۔اِس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ اُس کی مصدق ثابت ہوئی۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے: |