Jump to content

"شهیده معصومه کرباسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(«{{Infobox person | title = | image = معصومه کرباسی.jpg | name = شهیده معصومه کرباسی | other names = معصومه آرزو | brith year 1981ء | brith date = | birth place = شیراز ایران | death year = 2024ء | death date = 19اکتوبر | death place = جونیه لبنان | teachers = | students = | religion = اسلام | faith = شیعہ | works = | known for = ثق...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4: سطر 4:
| name =  شهیده معصومه کرباسی  
| name =  شهیده معصومه کرباسی  
| other names =  معصومه آرزو
| other names =  معصومه آرزو
| brith year 1981ء
| brith year = 1981ء
| brith date =  
| brith date =  
| birth place = [[ شیراز ایران]]
| birth place = [[ شیراز ایران]]
سطر 28: سطر 28:
معصومہ کرباسی 19 اکتوبر 2024ء  کو  لبنان کے جونیه شہر میں صیہونی حکومت کے ڈرون حملے میں اپنے شوہر اور بچوں سمیت شہید ہوگئیں۔وہ اور ان کی اہلیہ  اپنے  پرائیویٹ کار میں سفر کر رہے تھے کہ صہیونی ڈرون نے اس پر میزائل پھینکا  تاہم یہ گاڑی کے کونے میں جا لگا اور مسافروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے شوہر رضا  عواضه نے گاڑی روک کر ہائی وے کے کنارے کھڑا کر دیا اور پھر باہر نکل کر اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں پناہ لی۔ دوسری گاڑیوں کے مسافر بھی اتر گئے لیکن  گویا  ڈرون  حملے کا هدف ان کو هی شهید کرنا تھا ۔ دوسرا میزائل بھی فائر کیا گیا اور معصومہ کرباسی اور ان کے شوہر رضا عواضہ، جو لبنان کی حزب اللہ کے سائبر  سیکیورٹی کے ممتاز رکن  تھے، شہید ہو گئے۔ ان کی میت کو ایران منتقل کرنے کے بعد  حرم شاه چراغ  میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
معصومہ کرباسی 19 اکتوبر 2024ء  کو  لبنان کے جونیه شہر میں صیہونی حکومت کے ڈرون حملے میں اپنے شوہر اور بچوں سمیت شہید ہوگئیں۔وہ اور ان کی اہلیہ  اپنے  پرائیویٹ کار میں سفر کر رہے تھے کہ صہیونی ڈرون نے اس پر میزائل پھینکا  تاہم یہ گاڑی کے کونے میں جا لگا اور مسافروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے شوہر رضا  عواضه نے گاڑی روک کر ہائی وے کے کنارے کھڑا کر دیا اور پھر باہر نکل کر اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں پناہ لی۔ دوسری گاڑیوں کے مسافر بھی اتر گئے لیکن  گویا  ڈرون  حملے کا هدف ان کو هی شهید کرنا تھا ۔ دوسرا میزائل بھی فائر کیا گیا اور معصومہ کرباسی اور ان کے شوہر رضا عواضہ، جو لبنان کی حزب اللہ کے سائبر  سیکیورٹی کے ممتاز رکن  تھے، شہید ہو گئے۔ ان کی میت کو ایران منتقل کرنے کے بعد  حرم شاه چراغ  میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
== دوسروں کی زبان سے ۔۔۔ ==
== دوسروں کی زبان سے ۔۔۔ ==
شهیده کرباسی کی قریبی ساتھی نرجس عباس آبادی نے کہا: 2006 ء میں جب لبنان میں جنگ شروع ہوئی تھی، معصومہ ابھی لبنان آئی تھی، اس کی خواہش تھی کہ وہ شہید ہو جائیں۔ بعض اوقات وہ اس میٹھی خواہش کا اظہار بھی کرتی تھی ، مثال کے طور پر، 2006 ء میں، ان کے اہل خانہ اور دوستوں کے اصرار کے خلاف جو اسے ایران واپس بھیجنا چاهتے تھے ، اس نے کہا: میں یہیں رہوں گی ، میں لبنان کے لوگوں کے ساتھ مل کر مزاحمت کروں گی ، اور اگر  میری قسمت میں هو تو میں  شہید ہو جاؤں گی۔
شهیده کرباسی کی قریبی ساتھی نرجس عباس آبادی نے کہا: 2006 ء میں جب لبنان میں جنگ شروع ہوئی تھی، معصومہ ابھی لبنان آئی تھی، اس کی خواہش تھی کہ وہ شہید ہو جائیں۔ بعض اوقات وہ اس میٹھی خواہش کا اظہار بھی کرتی تھی ، مثال کے طور پر، 2006 ء میں، ان کے اہل خانہ اور دوستوں کے اصرار کے خلاف جو اسے ایران واپس بھیجنا چاهتے تھے ، اس نے کہا: میں یہیں رہوں گی ، میں لبنان کے لوگوں کے ساتھ مل کر مزاحمت کروں گی ، اور اگر  میری قسمت میں هو تو میں  شہید ہو جاؤں گی۔
وہ اپنی بات پر ڈٹی رهی اور جنگ کے آخری دن تک لبنان میں رہی  ۔ ان کے شوهر  کے علاوہ اگر ان کے پانچ بچے بھی اس مقدس راہ میں قربان ہو جائیں تو انہیں ڈر نہیں تھا۔ انہوں نے ہمیشہ کہا: میرے بچے رهبر معظم  کے لیے وقف ہیں۔ وہ بہت مومنه اور مذهبی تھیں  اور جہاں بھی ثقافتی کام کی بات ہوتی تھی، معصومہ وہاں سب سے پہلے نظر آتی تھیں۔ میں نے اسے اکثر لبنانیوں کو فارسی سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے سنا اور کہا: فارسی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی زبان ہے۔ انہوں نے مزید کہا: میں معصومہ کو ہر ہفتے دعائے کمیل کی محفل میں شرکت کرتی دیکھتی تھی ۔ ان کی شهادت سے پهلے آخری بار  ابراہیم عقیل  کی شہادت اور  ضاحیه  پر حملے سے پہلے منعقد ہوئی تھی۔ اس دن معصومہ کا موڈ معمول کے مطابق نہیں تھا، اس کے مہربان اور توانا چہرے پر خوف کا رنگ تھا اور وہ لبنان کے لوگوں کے لیے پریشان تھی۔ انہوں نے کہا، ’’اب لبنان کے لوگوں کو دوبارہ اپنے گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہو جانا چاہیے۔ وہ گھر جن کے لیے انھوں نے 18 سال محنت کی ہے، لیکن میں جانتی  ہوں کہ وہ اتنے مضبوط ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے، وہ سید حسن نصر اللہ شہید  پر قربان هونے کے لئے تیار هیں۔
وہ اپنی بات پر ڈٹی رهی اور جنگ کے آخری دن تک لبنان میں رہی  ۔ ان کے شوهر  کے علاوہ اگر ان کے پانچ بچے بھی اس مقدس راہ میں قربان ہو جائیں تو انہیں ڈر نہیں تھا۔ انہوں نے ہمیشہ کہا: میرے بچے رهبر معظم  کے لیے وقف ہیں۔ وہ بہت مومنه اور مذهبی تھیں  اور جہاں بھی ثقافتی کام کی بات ہوتی تھی، معصومہ وہاں سب سے پہلے نظر آتی تھیں۔ میں نے اسے اکثر لبنانیوں کو فارسی سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے سنا اور کہا: فارسی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی زبان ہے۔ انہوں نے مزید کہا: میں معصومہ کو ہر ہفتے دعائے کمیل کی محفل میں شرکت کرتی دیکھتی تھی ۔ ان کی شهادت سے پهلے آخری بار  ابراہیم عقیل  کی شہادت اور  ضاحیه  پر حملے سے پہلے منعقد ہوئی تھی۔ اس دن معصومہ کا موڈ معمول کے مطابق نہیں تھا، اس کے مہربان اور توانا چہرے پر خوف کا رنگ تھا اور وہ لبنان کے لوگوں کے لیے پریشان تھی۔ انہوں نے کہا، ’’اب لبنان کے لوگوں کو دوبارہ اپنے گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہو جانا چاہیے۔ وہ گھر جن کے لیے انھوں نے 18 سال محنت کی ہے، لیکن میں جانتی  ہوں کہ وہ اتنے مضبوط ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے، وہ سید حسن نصر اللہ شہید  پر قربان هونے کے لئے تیار هیں۔
ان کے والد حسین کرباسی نے کها: میری بیٹی کو بچپن سے ہی  عرفان  میں دلچسپی تھی اور وہ بہت مذہبی شخصیت تھی۔ جب اس نے مجھ سے اپنی شادی کے بارے میں بات کی تو اس نے کہا کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے جو اس کی ترقی کے لئے  مدد گار ثابت هو۔
ان کے والد حسین کرباسی نے کها: میری بیٹی کو بچپن سے ہی  عرفان  میں دلچسپی تھی اور وہ بہت مذہبی شخصیت تھی۔ جب اس نے مجھ سے اپنی شادی کے بارے میں بات کی تو اس نے کہا کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے جو اس کی ترقی کے لئے  مدد گار ثابت هو۔
میں لبنان کے سیاسی حالات سے واقف تھا، میں نے اسے خبردار کیا کہ لبنان باقاعدگی سے میزائلوں کی زد میں ہے، لیکن اس نے کہا کہ میں رضا سے شادی کرنا چاہتی  ہوں۔ کرباسی  نے مدید  کہا: اپنی بیٹی کی شہادت سے چند دن پہلے میں نے اسے ایران آنے کو کہا کیونکہ وہاں خطرناک ہے اس نے کہا کہ میں  اپنے شوهر  کے ساتھ رہنا چاہتی  ہوں۔ انہوں نے مزید کہا: معصومہ بہت مطالعہ کرنے والی تھی اور گریجویشن کے بعد لبنان چلی گئی۔ پہلے اس نے ایک کمپنی میں کمپیوٹر کا کام کیا۔ اس نے اپنا کام اتنا اچھا کیا کہ انہوں نے اسے چھٹی نہیں دی۔ وہ ثقافتی کاموں اور مہدیت کی بحث میں بہت سرگرم تھی  اور انهوں نے مہدیت کے گروپ بنائے۔ اس کے علاوہ وہ مزاحمتی فعالیتوں میں سرگرم تھی  اور کہنے لگی: بابا میرے لیے دعا کیجئے کہ میں شہید ہو جاؤں۔
میں لبنان کے سیاسی حالات سے واقف تھا، میں نے اسے خبردار کیا کہ لبنان باقاعدگی سے میزائلوں کی زد میں ہے، لیکن اس نے کہا کہ میں رضا سے شادی کرنا چاہتی  ہوں۔ کرباسی  نے مدید  کہا: اپنی بیٹی کی شہادت سے چند دن پہلے میں نے اسے ایران آنے کو کہا کیونکہ وہاں خطرناک ہے اس نے کہا کہ میں  اپنے شوهر  کے ساتھ رہنا چاہتی  ہوں۔ انہوں نے مزید کہا: معصومہ بہت مطالعہ کرنے والی تھی اور گریجویشن کے بعد لبنان چلی گئی۔ پہلے اس نے ایک کمپنی میں کمپیوٹر کا کام کیا۔ اس نے اپنا کام اتنا اچھا کیا کہ انہوں نے اسے چھٹی نہیں دی۔ وہ ثقافتی کاموں اور مہدیت کی بحث میں بہت سرگرم تھی  اور انهوں نے مہدیت کے گروپ بنائے۔ اس کے علاوہ وہ مزاحمتی فعالیتوں میں سرگرم تھی  اور کہنے لگی: بابا میرے لیے دعا کیجئے کہ میں شہید ہو جاؤں۔
== شهادت سے متعلق بیانات ==
== شهادت سے متعلق بیانات ==
=== ایرانی وزارت خارجه کا بیان ===
=== ایرانی وزارت خارجه کا بیان ===
سطر 46: سطر 46:
شهیده کے بچوں نے آخر میں کها: لبنان میں جنگجوؤں اور مزاحمت کاروں کو آپ اور  تمام مومنین اور مسلمانوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔  
شهیده کے بچوں نے آخر میں کها: لبنان میں جنگجوؤں اور مزاحمت کاروں کو آپ اور  تمام مومنین اور مسلمانوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔  
رہبر معظم انقلاب: ہم دعا کرتے ہیں۔ میں ان کے لیے مسلسل دعا کرتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب: ہم دعا کرتے ہیں۔ میں ان کے لیے مسلسل دعا کرتا ہوں۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ایران]]
271

ترامیم