Jump to content

"صاحب زادہ فضل کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 32: سطر 32:
2009ء میں اہل سنت کی تیس  جماعتوں نے متحد ہو کر محمد فضل کریم کی سربراہی میں [[سنی اتحاد کونسل پاکستان|سنی اتحاد کونسل]] قائم کی۔ صاحبزادہ نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے طالبانائزیشن اور مزارات اولیاء پر حملوں کے خلاف تاریخی جدوجہد اور کوشش کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی دہشت گردی اور پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زور دار آواز اٹھائی۔ یکم جولائی 2010ء کو برصغیر کے سب سے بڑے روحانی مرکز دربار حضرت داتا گنج بخش پر بم دھماکے کے خلاف محمد فضل کریم کی قیادت میں بھرپور تحریک چلائی گئی تھی ، 27 اکتوبر 2010ء کو ان  کی قیادت میں مزارات اولیاء پر حملوں اور دہشت گردی کے خلاف دربار بری امام اسلام آباد سے دربار داتا گنج بخش لاہور تک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا تھا۔
2009ء میں اہل سنت کی تیس  جماعتوں نے متحد ہو کر محمد فضل کریم کی سربراہی میں [[سنی اتحاد کونسل پاکستان|سنی اتحاد کونسل]] قائم کی۔ صاحبزادہ نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے طالبانائزیشن اور مزارات اولیاء پر حملوں کے خلاف تاریخی جدوجہد اور کوشش کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی دہشت گردی اور پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زور دار آواز اٹھائی۔ یکم جولائی 2010ء کو برصغیر کے سب سے بڑے روحانی مرکز دربار حضرت داتا گنج بخش پر بم دھماکے کے خلاف محمد فضل کریم کی قیادت میں بھرپور تحریک چلائی گئی تھی ، 27 اکتوبر 2010ء کو ان  کی قیادت میں مزارات اولیاء پر حملوں اور دہشت گردی کے خلاف دربار بری امام اسلام آباد سے دربار داتا گنج بخش لاہور تک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا تھا۔


اپریل 2011ء کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں ان کی زیر صدارت ملک گیر استحکام پاکستان سنی کانفرنس منعقد کی گئی، 14 اکتوبر 2012ء کو فضل کریم کی زیر قیادت ناموس رسالت کے تحفظ، ڈرون حملوں، دہشت گردی، مہنگائی کے خلاف کراچی سے راولپنڈی تک ٹرین مارچ کیا گیا ۔ آپ نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضور نبی کریم (ص)]] کے گستاخانہ خاکوں اور امریکہ میں تیار ہونے والی گستاخانہ فلم کے خلاف بھی احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی ۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر بھی صاحبزادہ مسلسل میدان میں رہے، نومبر 2012ء میں جماعت اہل سنت پاکستان کے زیراہتمام گستاخان فلم کے خلاف راولپنڈی سے کراچی تک '''لبیک یارسول اللہ لانگ مارچ''' کی قیادت کرنے والوں میں بھی صاحبزادہ شامل تھے۔ انہوں نے 1977ء کی [[تحریک نظام مصطفٰی]] میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ [[تحریک ختم نبوت]] میں بھی آپ نے تاریخی کردار ادا کیا تھا <ref>رپورٹ: تصور حسین شہزاد، صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر، [https://www.islamtimes.org/ur/news/254430/%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81-%D9%81%D8%B6%D9%84-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%86%D8%B8%D8%B1 islamtimes.org]</ref>۔
اپریل 2011ء کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں ان کی زیر صدارت ملک گیر استحکام پاکستان سنی کانفرنس منعقد کی گئی، 14 اکتوبر 2012ء کو فضل کریم کی زیر قیادت ناموس رسالت کے تحفظ، ڈرون حملوں، دہشت گردی، مہنگائی کے خلاف کراچی سے راولپنڈی تک ٹرین مارچ کیا گیا ۔ آپ نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضور نبی کریم (ص)]] کے گستاخانہ خاکوں اور امریکہ میں تیار ہونے والی گستاخانہ فلم کے خلاف بھی احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی ۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر بھی صاحبزادہ مسلسل میدان میں رہے، نومبر 2012ء میں جماعت اہل سنت پاکستان کے زیراہتمام گستاخان فلم کے خلاف راولپنڈی سے کراچی تک '''لبیک یارسول اللہ لانگ مارچ''' کی قیادت کرنے والوں میں بھی صاحبزادہ شامل تھے۔ انہوں نے 1977ء کی [[تحریک نظام مصطفٰی]] میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ [[تحریک ختم نبوت]] میں بھی آپ نے تاریخی کردار ادا کیا تھا <ref>رپورٹ: تصور حسین شہزاد، صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر، <ref>https://www.islamtimes.org/ur/news/254430، صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر، islamtimes.org،(اردو)-شائع شدہ از:15 اپریل 2013ء-اخذ شده به تاریخ:27 فروری 2024ء</ref>۔
=== اتحاد امت کے لیے جد و جہد ===
=== اتحاد امت کے لیے جد و جہد ===
صاحبزادہ مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے بھی سربراہ تھے۔ ان کی زیر نگرانی فیصل آباد میں عظیم دینی درسگاہ جامعہ رضویہ نصف صدی سے دینی علوم کی ترویج واشاعت کے لیےفعال ہے۔  آپ کے والد گرامی کے مریدین اور شاگرد پوری دنیا میں تبلیغ [[اسلام]] کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ محمد فضل کریم نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی راستے جدا کرنے کے بعد [[پاکستان مسلم لیگ (ق)|مسلم لیگ (ق)]] اور [[پاکستان پیپلز پارٹی]] کے ساتھ انتخابی اتحاد کر رکھا تھا اور وہ فیصل آباد حلقہ این اے 82 سے امیدوار بھی تھے۔
صاحبزادہ مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے بھی سربراہ تھے۔ ان کی زیر نگرانی فیصل آباد میں عظیم دینی درسگاہ جامعہ رضویہ نصف صدی سے دینی علوم کی ترویج واشاعت کے لیےفعال ہے۔  آپ کے والد گرامی کے مریدین اور شاگرد پوری دنیا میں تبلیغ [[اسلام]] کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ محمد فضل کریم نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی راستے جدا کرنے کے بعد [[پاکستان مسلم لیگ (ق)|مسلم لیگ (ق)]] اور [[پاکستان پیپلز پارٹی]] کے ساتھ انتخابی اتحاد کر رکھا تھا اور وہ فیصل آباد حلقہ این اے 82 سے امیدوار بھی تھے۔


وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ سیاسی جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی۔  تو انہوں نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور [[پاکستان مسلم لیگ|مسلم لیگ (ن)]] کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ [[شہباز شریف]]  کے سابقہ دور حکومت میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے تھے اور کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب پاکستان میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو آپ  نے [[سید حسین الدین شاہ]] کے ایماء اور ہدایت پر [[اہل السنۃ والجماعت|اہل السنّت والجماعت]] کے دھڑوں کو منظم کرنے کی جد و جہد کی اور بالآخر  آپ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں [[پاکستان مسلم لیگ (ق)|مسلم لیگ (ق)]] سے اپنے روابط بڑھائے <ref>ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء</ref>۔ آپ نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔  آپ  نے امریکا، برطانیہ، مصر،[[شام]] سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن  رہے جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،2013ء کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ سیاسی جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی۔  تو انہوں نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور [[پاکستان مسلم لیگ|مسلم لیگ (ن)]] کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ [[شہباز شریف]]  کے سابقہ دور حکومت میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے تھے اور کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب پاکستان میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو آپ  نے [[سید حسین الدین شاہ]] کے ایماء اور ہدایت پر [[اہل السنۃ والجماعت|اہل السنّت والجماعت]] کے دھڑوں کو منظم کرنے کی جد و جہد کی اور بالآخر  آپ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں [[پاکستان مسلم لیگ (ق)|مسلم لیگ (ق)]] سے اپنے روابط بڑھائے <ref>ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء</ref>۔ آپ نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔  آپ  نے امریکا، برطانیہ، مصر،[[شام]] سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن  رہے جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،2013ء کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔
== وفات ==
== وفات ==
ممتاز مذہبی رہنما سیاسی شخصیت، معروف سیاستدان اور سابق وزیراوقاف صاحبزادہ حاجی فضل کریم چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ آج (منگل) صبح 10 بجے دھوبی گھاٹ مےں ادا کی جائے گی۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم گذشتہ چند روز سے شدید علیل تھے وہ جگر کے کینسر میں مبتلا تھے اور طبیعت مزید خراب ہونے کی وجہ سے قومے میں چلے گئے تھے۔ وہ پیر کے روز الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کے پرائیویٹ وارڈ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کی خبر سے پورے ملک میں سوگ پھیل گیا۔ ملک بھر کے مذہبی، سیاسی، سماجی، عوامی اور صحافتی حلقوں نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں نے کہا ہے کہ صاحبزادہ حاجی فضل کریم کی وفات سے ملک میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے جسے صدیوں تک پر نہیں کیا جا سکتا۔ صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے اپنے سوگواروں میں چار بیٹے صاحبزادہ حامد رضا، حسن رضا، حسین رضا اور محسن رضا کے علاوہ ایک بیٹی اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔  
ممتاز مذہبی رہنما سیاسی شخصیت، معروف سیاستدان اور سابق وزیراوقاف صاحبزادہ حاجی فضل کریم چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ آج (منگل) صبح 10 بجے دھوبی گھاٹ مےں ادا کی جائے گی۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم گذشتہ چند روز سے شدید علیل تھے وہ جگر کے کینسر میں مبتلا تھے اور طبیعت مزید خراب ہونے کی وجہ سے قومے میں چلے گئے تھے۔ وہ پیر کے روز الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کے پرائیویٹ وارڈ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کی خبر سے پورے ملک میں سوگ پھیل گیا۔ ملک بھر کے مذہبی، سیاسی، سماجی، عوامی اور صحافتی حلقوں نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں نے کہا ہے کہ صاحبزادہ حاجی فضل کریم کی وفات سے ملک میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے جسے صدیوں تک پر نہیں کیا جا سکتا۔ صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے اپنے سوگواروں میں چار بیٹے صاحبزادہ حامد رضا، حسن رضا، حسین رضا اور محسن رضا کے علاوہ ایک بیٹی اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔