confirmed
821
ترامیم
سطر 234: | سطر 234: | ||
غیر الہی مذہبی اقلیتیں بھی ، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں،معینہ حقوق کےساتھ ساتھ اخلاق حسنہ اور اسلامی عدل و انصاف سے مستفید ہوں گی <ref>مطالعہ کریں، هاشمی، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۶۱۱۶۶</ref>۔ | غیر الہی مذہبی اقلیتیں بھی ، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں،معینہ حقوق کےساتھ ساتھ اخلاق حسنہ اور اسلامی عدل و انصاف سے مستفید ہوں گی <ref>مطالعہ کریں، هاشمی، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۱۶۱۱۶۶</ref>۔ | ||
== امر بالمعروف و نہی عن المنکر == | == امر بالمعروف و نہی عن المنکر == | ||
اسلامی جمہوری نظام میں، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو متقابل | اسلامی جمہوری نظام میں، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو متقابل ہمہ گیر نگرانی کی روش کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ریاست اور عوام کے ذریعہ اس روش کا مسلسل نفاذ اچھائیوں کے فروغ اور برائیوں کے سد باب کا باعث بن سکتا ہے ۔ | ||
حکومتی ادارے (رہبری اور تینوں حکومتی قوتیں) اس اصول کو اس طرح نافذ کرتے ہیں کہ: | |||
* رہبر معظم مجموعی نگرانی کرتے ہیں اور سماجی اصلاح کے لیے پالیسیاں اور قوانین بناتے ہیں۔ | |||
* انتظامیہ ان پالیسیوں اور قوانین کو نافذ کرتی ہے۔ | |||
* عدلیہ ان پالیسیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ | |||
اس کے علاوہ، عوام کے ذریعے حکومت پر نظر رکھنے کے طریقہ کار (جس میں پریس اور میڈیا، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، اور اجتماعات اور جلوس شامل ہیں) کے ذریعے بھی اس اصول کو نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ | |||
جمہوری اسلامی نظام میں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ حکمران اخلاقی طور پر اہل ہیں اور یہ کہ عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے خودمختار ہیں، اصل ہشتم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو عوام کا باہمی فریضہ قرار دیا گیا ہے | |||
اسے انجام دینے کا طریقہ ایک دوسرے کو نصیحت اور یاد دہانی ہے، لیکن عملی کارروائی اور سزا دینا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، عوام کی نہیں۔ <ref>مطالعہ کریں: هاشمی، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۲۲۲۲۲۶، ۲۲۸۲۳۴</ref>۔ | |||
== خارجہ پالیسی == | == خارجہ پالیسی == | ||
اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں: | اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں: | ||
خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی | |||
* خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی بالادستی۔اس کے لئے ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور تسلط جوئی اور تسلط پذیری کو مسترد کرنے کی پالیسیوں پر عمل کیاجاتا ہے۔ | |||
بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، | * تسلط پسند طاقتوں کے سے عدم وابستگی اور غیر متحارب ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد اور ہم آہنگی۔ | ||
خارجہ پالیسی کا اعلیٰ انتظام | * اسلامی ممالک کا اتحاد جس کا مقصد عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اتحادتک پہنچنا ہے۔ | ||
* بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، جس میں مسلمانوں، مظلوموں، محروموں اور پناہ گزینوں کی حمایت شامل ہے <ref>مطالعہ کریں: ایران. قانون اساسی، اصول۳، ۱۱، ۱۵۲، ۱۵۴،۱۵۵</ref>۔ | |||
خارجہ پالیسی کا اعلیٰ ترین انتظام رہبر کے پاس ہوتا ہے، جو ملک کے خارجہ امور کے بارے میں عام پالیسیوں کا تعین کرتا ہے، جنگ اور صلح کا اعلان کرتا ہے، افواج کو متحرک کرتا ہے اور ملک کے خارجہ امور کی نگرانی کرتا ہے جیسے قومی سلامتی کونسل کی منظوریوں کی توثیق کرنا اور اہم مسائل پر رہنمائی فراہم کرنا۔ | |||
رہبر کے بعد، صدر جمہوریہ ، قومی خودمختاری کی علامت اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کے طور پر اورسفیروں کو بھیجنے اور وصول کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں پردستخط کے ذریعے، خارجہ تعلقات قائم کرنے کے ذمہ دار کی حیثیت سے ملک کی خارجہ پالیسی کے انچارج کا کردار ادا کرتا ہے۔ | |||
اسلامی کونسل ، بین الاقوامی معاہدوں کی نگرانی، خارجہ پالیسی کے قوانین بنانے، خارجہ پالیسی کمیشن، اور نمائندوں کے ذریعےملک کی خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔نمائندے خارجہ پالیسی کے مسائل پر رائے دیتے ہیں، یاد دہانی کراتے ہیں، اور وزیر خارجہ اور صدر جمہوریہ سے سوال کرتے ہیں اور وضاحت طلب کرتے ہیں۔ <ref>مطالعہ کریں: هاشمی، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۴۱۲-۴۳۳؛ شفیعیفر، ص۸۴-۸۶</ref>۔ | |||
== سرکاری ادارے اور ڈھانچے == | == سرکاری ادارے اور ڈھانچے == | ||
اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر | اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر لوگوں کے جان و مال میں تصرف کرے اور ان کے لئے قانون وضع کرے۔کلامی اور فقہی مباحث کے مطابق، امام مہدی(عج) کی غیبت کے دوران، فقیہ جامع الشرائط امام معصوم(ع) کی طرف سے مجاز ہے کہ وہ دین کے بنیادی ذرائع سے احکام شرعیہ کا استنباط کرے اور ان امور میں مداخلت کرے جن کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ | ||
اس بنیاد پر ، ولی فقیہ کی نگرانی میں اسلامی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے تمام قوانین کی تدوین، الہی حاکمیت کی ضامن ہے۔ | |||
حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر پر خود مختار بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کی اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ خودمختاری کے اس پہلو کے ضامن متعدد قانونی (صدر، اسلامی کونسل کے نمائندوں اور دیگر کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت) اور سیاسی (تنظیموں اور جماعتوں اور سیاسی و تجارتی یونینوں کی آزادی کا حق) ہیں <ref>هاشمی، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۱۷</ref>۔ | حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر پر خود مختار بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کی اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ خودمختاری کے اس پہلو کے ضامن متعدد قانونی (صدر، اسلامی کونسل کے نمائندوں اور دیگر کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت) اور سیاسی (تنظیموں اور جماعتوں اور سیاسی و تجارتی یونینوں کی آزادی کا حق) ہیں <ref>هاشمی، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۱۷</ref>۔ | ||
== حکومت کی شکل == | == حکومت کی شکل == |