Jump to content

"سید دلدار علی نقوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 88: سطر 88:
* آفرین علی خان <ref>بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶.</ref>۔
* آفرین علی خان <ref>بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶.</ref>۔
{{اختتام}}
{{اختتام}}
== حضرت غفران مآب اور دین کا احیاء ==
آپ نے اخباریت اور صوفیت کے خلاف جہاد کیا اور شیعیت کو ان دونوں سے پاک کیا تا کہ گروہ حق میں کوئی حق چھپ نہ پائے اور نہ ہی کوئی باطل داخل ہو پائے۔
بر صغیر میں شرعی عدالت ، جمعہ و جماعت کا قیام اور [[عزاداری]] کا فروغ آپ ہی کا کارنامہ تھا ، شیعہ فقہی اور کلامی مکتب کو تقویت پہنچائی ۔ حوزہ علمیہ لکھنؤ کو قائم کیا۔ نہ صرف حوزہ علمیہ لکھنؤ بلکہ حوزہ علمیہ نجف اشرف کو بھی تقویت پہنچائی۔
متعدد اہم موضوعات پر ایسی قلم فرسائی کہ جس کا جواب آج تک ممکن نہ ہو سکا۔
جب آپ نجف سے وطن واپس لوٹے تو شمالی ہند میں سیاسی آشوب کا زمانہ تھا ۔ احمد شاہ ابدالی دہلی کو تاراج کر چکا تھا۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے تعلیماتِ محمدؐ و آلِ محمد ؑ کے خلاف کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم دشمنی بھی بڑھ رہی تھی۔ مرہٹے اور مسلمان راجے برسر پیکار تھے اور انگریز اس سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھا کر بنگال پر قابض ہو چکے تھے۔ ایسے میں اودھ میں شیعہ نواب کی حکومت معاشی اور سیاسی استحکام کا نمونہ تھی جس نے لکھنؤ کو علم و ثقافت کا مرکز بنا دیا تھا۔
علامہ سید دلدار علی نقوی نے لکھنؤ میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اور مکتبِ اہلبیت ؑ کی ترویج کیلئے کمر بستہ ہو گئے۔ آپ نے عقائدِ حقہ کی وضاحت کیلئے ”عماد الاسلام“ کے عنوان سے ضخیم کتاب تصنیف فرمائی جس میں اشعریوں کے امام فخر الدین الرازی کے کلامی نطریات کا رد کیا۔ اصولِ فقہ پر اپنی کتاب ”اساس الاصول“ میں ملا امین استر آبادی کی ”فوائدِ مدنیہ“ کا رد کیا۔
علم كلام اور دفاع حق كے ساتھ ہی آپ نے دوسری جانب بدعت كا بھی مقابلہ كیا كیوں كی اس دور میں ایك طرف عقاید تشیع پر حملہ تھا تو دوسری طرف صوفیوں نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیا كہ ایك مجاہد قوم مجاور بن گئ اور دین کے نام پر وسیع جاگیریں ہتھیا کر عوام کے اذہان کو جہلِ مرکب كا شكار كر دیا ۔ وحدت الوجود کے تصور کے مطابق جسمانی لذتوں کو خدا کی تجلی قرار دیا جا رہا تھا اور خانقاہوں میں مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا۔
ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) کی فصوص الحکم اور دیگر کتابوں کے علاوہ مولوی رومی اور جامی وغیرہ کی شاعری پڑھائی جاتی۔ معصوم نوجوانوں کو روحانی ریاضت کے نام پر مختلف قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتیں۔ علومِ عقلیہ کے نام پر فلوطین (متوفیٰ 270ء) وغیرہ کے خیالات پڑھائے جاتے تھے۔
مغل سلطنت کے قیام سے پہلے ہی برصغیر کے شیعوں کو اسماعیلی صوفیوں اور مریدوں نے تصوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ علامہ سید دلدار علی ؒکے زمانے میں اودھ کے شیعوں میں صوفیوں کو بہت اثر و رسوخ تھا۔
صوفیوں کے کشف و کرامات اور نام نہاد باطنی علوم کے دعوے مشہور تھے اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں راجے اپنے اقتدار کی بقا کیلئے ان کی آشیرواد لینا ضروری سمجھتے تھے۔ مختلف درگاہوں کو وسیع جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ مفلوک الحال عوام وجد و حال اور دھمال کی محفلوں میں شرکت کرتے اور خواص فلسفے اور وحدت الوجود کے تصور میں مست رہتے تھے۔ اس دوڑ میں ہندو جوگی اور بابا بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔
1786ء میں غفران مآب امامِ جمعہ ہوئے تو آپ نے اہلِ تصوف کے عقائد و اعمال کو خطبات کا موضوع بنایا۔ اس وجہ سے صوفی آپ کے دشمن ہو گئے اور اپنے مریدوں کو آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے روکنے لگے۔ جب وہ آپ کے علمی دلائل کا سامنا نہ کر سکے تو سیاسی دباؤ ڈال کر آپ کو روکنے کی کوشش کی۔
تمام تر مخالفتوں کے باوجود آپ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی اور آپ نے عربی زبان میں اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کے اس علمی جہاد کا ہی اثر تھا کہ ماحول میں واضح تبدیلیاں آنے لگیں اور آپ کی بابرکت زندگی کے انجام تک شیعیانِ حیدر کرار ؑ کی اچھی تعداد نے خانقاہوں سے منہ موڑ لیا۔
=== الشہاب الثاقب ===
یہ کتاب فصیح عربی زبان میں لکھی گئی ہے، جو علامہ موصوف کے عربی زبان پر عبور کا اظہار ہے۔ اس کا انتساب وزیراعظم جناب حسن رضا خان کے نام کیا گیا ہے۔
علامہ کا کہنا تھا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے حاکموں نے تصوف کو مسلمانوں میں اسلئے رواج دیا تاکہ عوام کا معارف الہیٰہ کے حصول کیلئے اہلبیت علیہم السلام کے در پر جانا کم کیا جائے اور اس سلسلے میں ائمہ طاہرین ؑ کا متبادل صوفیوں کو قرار دیا جا سکے۔ وہ اس سلسلے میں خلیفہ مامون عباسی کے دربار میں امام علی رضا ؑ کےمناظرے کی مثال لاتے تھے۔ وہ ائمہ ؑ کی کچھ احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں صوفیوں کو شیطان کا پیروکار اور اہلبیت ؑ کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں آٹھ ابواب ہیں۔ اس میں صوفیوں، فلسفیوں اور متکلمین کے یہاں وجود کے تصور پر اختلاف کو عقل و منطق کی رو سے پرکھا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ عقل کی میزان پر پورا نہیں اترتا۔ وہ اس حصے میں ملا صدرا کی کتاب شواہد الربوبیہ اور جامی کے خیالات پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ وہ تنزلاتِ وجود کی کیفیات پر جرح کر کے صوفیوں کی ذہنی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
دوسرا حصہ چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں سید حیدر آملی (متوفیٰ 1385ء) کے نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور سید حیدر آملی اور دیگر صوفیوں کی جانب سے قرآنی آیات کی تفسیر بالرائے کو باطل ثابت کیا گیا ہے
تیسرے حصے میں صوفیوں کے کشف و شہود کے دعوے زیرِ بحث ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ ان میں حق اور باطل کی تمیز کرنا دشوار امر ہے۔ نیز یہ چیزیں کوئی علمی حیثیت اور حجیت نہیں رکھتیں۔
صوفیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط قرار دیا گیا ہے کہ وہ کشف کے ذریعے احادیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کو سمجھ سکتے ہیں۔
آگے چل کر صوفیوں کی بدعتوں اور ان کے عملی انحرافات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کی طرف سے موسیقی اور رقص و سرود کی محفلوں کے انعقاد کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ وہ صوفیوں کے مختلف فرقوں کا زمانی اعتبار سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے سنگین اختلافات کا ذکر کر کے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ان حضرات کو حق کا شہود ہوتا تھا تو ان میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟
چوتھے حصے میں فقہاء پر صوفیوں کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ خاتمے میں آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے واجب ہونے اور اہلِ بدعت سے دوری اختیار کرنے کے اسلامی احکام بیان کرتے ہیں اور دین کے دشمنوں کی پیروی کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آپ وحدت الوجود اور حلول جیسے نظریات کو ارتداد کا موجب کہتے ہوئے صوفیوں پر لعنت کو جائز قرار دیتے ہیں اور انہیں توبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
اس کتاب کی خاص بات ملا صدرا کے نظریات پر علامہ محترم کی مضبوط گرفت ہے جن کی ایک کتاب پر انہوں نے حاشیہ بھی لگایا تھا۔ یہ نظری پہلو اس کتاب کو برصغیر میں ردِ صوفیت پر لکھی گئی باقی کتب سے ممتاز کرتا ہے۔
=== پروفیسر اطہر رضوی کا تبصرہ ===
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق استاد اور مغلیہ تاریخ کے ماہر پروفیسر سید اطہر عباس رضوی (متوفیٰ 1994ء) لکھتے ہیں:
”مولانا دلدار علی (1753ء – 1820ء) نے صفوی دور کے علمائے شیعہ کے راستے پر چلتے ہوئے تصوف کی شدید مخالفت کی۔ اُن علماء کی طرح وہ بھی اِسے شیعیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے الشہاب الثاقب کے عنوان سے صوفی عقائد کی تردید اور معروف صوفیاء کی مذمت میں ایک تفصیلی کتاب لکھی۔
مولانا وحدت الوجود پر صوفیوں کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو رد کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں سید حیدر آملی کے خیالات کو باطل ثابت کرتے ہیں اور شریف جزجانی اور صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) کے خیالات کو بھی نادرست قرار دیتے ہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کی بہترین معرفت صرف آئمۂ اہلبیت ؑ کے فرامین میں ملتی ہے۔ ان کے مطابق خدا کی ذات زمان و مکان سے ماوراء ہے، جو خود سے ظاہر ہے اور اس کی ذات کا ظہور دنیاوی اشیاء میں نہیں ہوتا <ref>مولانا مصطفیٰ علی خان، حضرت غفران مآب اور دین کا احیاء، [https://ur.hawzahnews.com/news/396357/%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%BA%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%A2%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%A1 hawzahnews.com]</ref>۔
== پاک و ہند کی تشیع کا اہم موڑ ==
== پاک و ہند کی تشیع کا اہم موڑ ==
اخباری عالم دین محمد امین استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں دیگر اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی لہذا اسی سبب سے آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری تھے اور ایران و عراق کی زیارات پر جانے سے پہلے تک اس مسلک کے عقائد و نظریات پر کار بند رہے ۔
اخباری عالم دین محمد امین استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں دیگر اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی لہذا اسی سبب سے آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری تھے اور ایران و عراق کی زیارات پر جانے سے پہلے تک اس مسلک کے عقائد و نظریات پر کار بند رہے ۔