مندرجات کا رخ کریں

حسن طہراتی مقدم

ویکی‌وحدت سے
حسن طہراتی مقدم
دوسرے نامپدر موشکی
ذاتی معلومات
پیدائش1338 ش، 1960 ء، 1378 ق
یوم پیدائش6 آبان
پیدائش کی جگہمحلہ سرچشمه تہران، ایران
وفات1391 ش، 2013 ء، 1433 ق
یوم وفات21 آبان
وفات کی جگہتہران
مذہباسلام، شیعہ
مناصبایران کے ’’پدرِ موشکی‘‘

حسن طہرانی مقدم، سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی ایران کے کمانڈر کے مشیر برائے امورِ میزائل اور تنظیمِ خودکفائیِ سپاہ کے سربراہ تھے۔ سپاہ کی توپخانے کی تشکیل، اس کی توسیع، اور جنگِ تحمیلی کے دوران اور بعد از جنگ میزائل صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرنے کی وجہ سے آپ کو "ایران کے میزائلوں کے پدر" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سپاہ پاسداران میں آپ کی اہم ذمہ داریوں میں منطقۂ تین سپاہ شمال کے انٹیلیجنس کے مسئول، خمپاروں کی آتش کے پشتبان، مؤسسِ توپخانہ، کمانڈرِ موشکیِ زمین بہ زمین، کمانڈرِ موشکیِ نیرویِ ہوائی، جانشینِ نیرویِ ہوائی، مشیرِ فرماندۂ کل سپاہ در امور موشکی اور رئیسِ سازمانِ خودکفائیِ سپاہ شامل ہیں۔ جوانوں پر اعتماد، خوش اخلاقی، سخت محنت کے باوجود ہمیشہ تبسم، والدہ، اہلیہ اور اولاد کا خاص احترام، اہلِ خانہ کی مادی و معنوی حمایت، خودباوری، عزتِ نفس، انتھک کوشش، ولایت کے سامنے مطلق اطاعت، شاندار مدیریت، اور کم وسائل سے زیادہ سے زیادہ نتیجہ حاصل کرنا آپ کی نمایاں اخلاقی خصوصیات تھیں۔

زندگی‌نامہ

سردار حسن طہرانی مقدم 6 آبان 1338 ش (1959ء) کو تہران کے محلہ سرچشمہ میں پیدا ہوئے۔ والد محمود طہرانی مقدم پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ والد کے کام کے باعث خاندان محلۂ شکوفہ اور بعد میں محلۂ بہارستان منتقل ہوا۔

تعلیم

ابتدائی اور ہنرستان کی تعلیم شکوفہ اور بہارستان میں مکمل کی۔ متوسطہ کے بعد "صنایع – برش قطعات صنعتی" میں ہنرستانی تعلیم حاصل کی۔ 1356 ش میں مدرسۂ عالی تکنیکیوم نفیسی (دانشگاهِ خواجہ نصیرالدین طوسیِ فعلی) میں فوق‌دیپلم صنایع میں داخلہ لیا، بعد ازاں لیسانسِ مهندسی صنایع مکمل کیا۔

ثقافتی سرگرمیاں

حسن بچپن ہی سے مکمل طور پر مسجدی ماحول کے فرد تھے۔ 1348 ش میں اپنے بھائیوں کے ہمراہ مسجد حضرت زینب کبریؑ (سرچشمہ) میں داخل ہوئے اور آیت‌الله سید علی لواسانی کی سرپرستی میں فعال ہوئے۔ وہ اس مسجد کے گروہِ سرود کے رکن رہے—یہی گروہ بعد میں 12 بہمن 1357 ش کو امام خمینی کے استقبال میں معروف سرود "خمینی ای امام" پیش کرنے والے اصلی گروہ میں تبدیل ہوا۔

مبارزتی سرگرمیاں

انقلابی تحریک کے دوران آپ اور آپ کے بھائیوں نے عوامِ مسلمان ایران کے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف جدوجہد کی۔ حسن طہرانی مقدم نوجوانی میں پائپ کے تائی‌سه‌راهی سے دستی نارنجک تیار کر کے انقلابیوں کو دیتے تھے۔ 22 بہمن کی رات فوجی گاڑی پر دستی نارنجک پھینک کر اسے ضبط کرنے اور اس کے سرهنگ کو اسیر بنانے کا واقعہ اُن کی جدوجہد کی مثال ہے[1]۔

سپاہ میں رکنیت

21 سال کی عمر میں، تیر 1359 ش میں سپاہ پاسداران میں شامل ہوئے۔ پہلی ذمہ داری: "مسئول اطلاعات منطقهٔ سه سپاه شمال"۔

میزائل بنانے میں ان کا کردار

انقلابِ اسلامی کے آغاز میں سپاہ پاسداران کے پاس بھاری اسلحہ، توپخانه اور موشکی توانائی موجود نہیں تھی، اور وہ بنیادی طور پر چند چریکی گردانوں پر مشتمل تھا۔ کردستان میں ضدانقلاب کی توپخانه سے مزاحمت، اور عراق کی یلغار نے سپاہ کے لیے منظم آتش پشتیبانی اور توپخانه کی ضرورت کو شدید طور پر نمایاں کیا۔

عملیات "ثامن‌الائمہ" اور "فتح بستان" میں عراقی توپخانه کے غنائم سے استفادہ کرتے ہوئے، سپاہ نے پہلی بار 105، 130 اور 155 ملی‌میٹر توپوں کو تعمیر، تنظیم اور عملیاتی کر کے ’’توپخانه سپاه‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے میں "حسن طهرانی مقدم" نے محوری کردار ادا کیا۔ انہوں نے پاییز 1360ھ ش میں ‘‘طرح ساماندهی آتش پشتیبانی’’ تیار کیا، جو سپاه کی پہلی منظم توپخانہ ساختار کی شکل بنا[2]۔

عملیات "فتح‌المبین" کے بعد، طهرانی مقدم نے شہید "حسن شفیع‌ زاده" اور دیگر متخصصین کے ساتھ مل کر سپاه کا توپخانه رسمی طور پر قائم کیا۔ اہواز میں ‘‘مرکز تحقیقات فنی توپخانه’’ کی تشکیل بھی انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، جہاں غنیمتی روسی توپوں کی تعمیر، آموزش اور نگهداری کا نظام قائم کیا گیا۔

آبان 1362ھ ش میں، سپاه نے ‘‘فرماندهی موشکی زمین‌به‌زمین’’ کی تشکیل کی ذمہ داری بھی طهرانی مقدم کو دی۔ سن 1363ھ ش میں، وہ اور ان کی ٹیم 13 افراد پر مشتمل وفد کے ساتھ سوریہ گئے، جہاں انہوں نے ‘‘اسکاد بی’’ اور ‘‘فراگ 7’’ راکٹوں کی آمادگی و شلیک کی پیشہ‌ور تعلیم حاصل کی—جو سپاه کی موشکی یگان کی بنیاد بنی۔

امام خمینی کی ‘‘مقابله به مثل’’ کی اجازت کے بعد، سپاه نے بصرہ پر 130 ملی متری توپوں سے فائرنگ کی، اور بعد ازاں طهرانی مقدم کی قیادت میں ایران نے پہلی بار عراق پر موشکی حملے کیے:

  • 21 اسفند 1363: کرکوک
  • 23 اسفند 1364: بانک 18 طبقه بغداد
  • بعدی حملہ: ‘‘باشگاه افسران بغداد’’ (جس میں تقریباً 200 افسر ہلاک ہوئے)

1364ھ ش میں طهرانی مقدم ‘‘فرمانده موشکی نیروی هوایی سپاه’’ مقرر ہوئے۔ جنگ کے آخری مراحل میں لیبیا کی کارشکنی کے باوجود، انہوں نے ٹیم کے ساتھ دو ماہ میں موشک‌ها کو عملیاتی کیا اور ایران کی موشکی بازدارندگی کو دوبارہ فعال کیا۔ اسی دوران، ‘‘سامانه راکت نازعات’’ (80–150 کلومیٹر برد) کے طراحی و ساخت کی بنیاد بھی انہی کی کوششوں سے پڑی، جس کا مقصد اسکاد کے بجائے کم‌هزینه اور پرتکرار آتش‌باری کا حصول تھا[3]۔

بعد از جنگ، ‘‘شهاب 3’’ کے تحقیقاتی مراحل میں بھی طهرانی مقدم نے کلیدی نقش ادا کیا اور موشکی صنعت میں خودکفایی کا نظری بیان کیا کہ دفاعی ضرورت کا سامان خود ملک کو تیار کرنا چاہیے۔ طهرانی مقدم کی ذمہ داریوں میں سپاه شمال کی اطلاعات، پشتیبانی آتش خمپاره‌ای، تأسیس توپخانه سپاه، فرماندهی موشکی زمین به زمین، فرماندهی نیروی هوایی سپاه، سازمان خودکفایی، اور مشاور فرمانده کل سپاه شامل ہیں۔ 21 آبان 1390ھ ش کو پادگان امیرالمؤمنین (ع) ملارد میں زاغہ مهمات کے انفجار میں وہ شہید ہوئے۔ قائد انقلاب نے ان کی خدمات کو ‘‘همت، تلاش اور توانایی انسانی ایمان’’ کا مظہر قرار دے کر تحسین کی۔

اخلاقی لحاظ سے، وہ جوانوں پر اعتماد، خوش‌اخلاقی، سادگی، ولایت‌پذیری، سخت‌کوشی، اور کم امکانات سے زیادہ کارایی کے لیے مشہور تھے۔ وصیت‌نامے میں انہوں نے یادِ اہل‌بیت اور مصیبت‌خوانیٔ امام حسین (ع) کی وصیت کی۔ شہادت سے قبل ان کے دست‌خط سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ‘‘موشک‌های فوق‌سریع’’ اور ‘‘موشک حامل ماهواره’’ کے پروژه پر کام کر رہے تھے۔

رد عمل

حضرت آیت‌ اللہ خامنہ‌ای، فرماندۂ کل قوا، نے شہادت سے قبل سردار طہرانی مقدم اور ان کے ساتھیوں کی قدردانی کے لیے ایک تحریر مرقوم فرمائی، جس کا متن حسبِ ذیل ہے:

بِسْمِ‌اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم

آپ نے خداوندِ علیم و قدیر کی مدد اور اس کی ہدایت سے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہ عمل ایک بار پھر ہمارے سامنے ایمان‌دار انسان کے عزمِ راسخ کی معجز نما توانائی کو آشکار کرتا ہے اور ہمیں پہلے سے زیادہ امید اور تلاشِ مسلسل کی ترغیب دیتا ہے۔ بلندی کے اہداف کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لیے میان‌بَر راستے تلاش کرنے، پھر اس راہ میں قدم رکھنے اور تھکاوٹ محسوس نہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں؛ راہ کے درمیانی منازل پر قانع اور دلخوش نہ ہوں؛ خداوندِ بزرگ پر اعتماد کریں اور اپنی تمام توانائی بروئے کار لائیں۔ خدا آپ مؤمن، دانشمند اور پرتلاش مردوں کا حامی و نگہدار ہو۔

سید علی خامنہ‌ای، 9 خرداد 1389 شمسی[4]۔

اخلاقی خصوصیات

جوانوں کے ساتھ کام کرنا، انہیں ترغیب دینا اور ان پر اعتماد رکھنا؛ مشقت بھرے کام کے باوجود خوش اخلاقی اور ہمیشگی تبسم؛ والدہ، اہلیہ اور اولاد کے لیے خاص احترام؛ خاندان کی مادی اور معنوی مدد و حمایت؛ خوداعتمادی اور عزتِ نفس؛ بے پناہ کوشش و پشتکار؛ ولایت کے سامنے کامل اطاعت؛ شاندار مدیریت؛ اور کم وسائل کے ساتھ زیادہ کارکردگی— یہ سب سردارِ شہید حسن طہرانی مقدم کی نمایاں اخلاقی خصوصیات میں شامل تھیں۔

وصیت‌نامہ اور دست‌خط

اپنی وصیت کے ایک حصے میں حسن طہرانی مقدم نے سید و سالارِ شہیداں حضرت امام حسینؑ کی عزاداری قائم رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: "جب بھی میری یاد آئے، میری خوشی کے لیے اہل‌بیتؑ کا ذکر اور آقا اباعبداللہ الحسینؑ اور ائمۂ اطہارؑ کی مصیبت کا ذکر کریں" اس کے علاوہ، شہید طہرانی مقدم—جو ایران کی موشکی صنعت کے پسِ پردہ مؤثر ترین شخصیت تھے—کا ایک بےتاریخ دست‌خط رہبرِ معظم انقلاب کے نام منتشر ہوا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدتوں پیش از شہادت ’’موشک‌های فوق‌سریع‘‘ (Hypersonic Missiles) کے منصوبے پر کام شروع کر چکے تھے[5]۔

متن حسبِ ذیل ہے:

باسمہ تعالی

محضرِ فرماندۂ کل قوا، حضرت آیت‌اللہ العظمیٰ خامنہ‌ای سلام علیکم؛ اهدائے تحیت و احترام

میری اور میرے اہلِ خانہ کی جانب سے آپ کے حضور شرف‌یابی کی اجازت ملنے پر انتہائی تشکر و قدردانی پیش کرتا ہوں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ میں اور میرا خاندان آپ، نائبِ امامِ زمانؑ اور نورِ حیدری پر فدا ہیں—آپ ہماری محبت و عقیدت کا مرکز ہیں۔ خداوندِ عزوجل گواہ ہے کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ ہم آپ کی رضایت کے حصول اور اس راستے کی تکمیل میں صرف کر رہے ہیں جس کا مقصد اسلامِ ناب اور سیرتِ اہل‌بیتؑ کا تحقق ہے۔ ان تمام مراحل میں ہم نے خداوند کی بے پایاں عنایتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔

تو پای بہ در نہ، هیچ مپرس؛

خود راہ بگویدت کہ چون باید رفت

الحمدللہ! کیا کریم و مہربان خدا ہے ہمارا۔ سچ بات یہ ہے کہ اس کی لامحدود عطاؤں نے ہمیں بے‌محابا اور جسور بنا دیا ہے۔ اے ہمارے آقا و مولا! ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے الٰہی اور قدرتمند دستوں کو بھر دیں اور آپ کی پشت کو اور زیادہ مضبوط کریں۔ *قربةً الی الله* ہم ’’علیِ زمانہ‘‘ کی یاری کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے مولا امیرالمؤمنینؑ کے زمانے میں موجود نہ تھے کہ ان کی نصرت کے لیے قیام کرتے، یا امام حسینؑ پر فدا ہو جاتے… تو یہ حسرت ہمارے دل میں باقی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ، نائبِ ولی عصرؑ، کے رکاب میں اس کمی کو جبران کریں—کہ ہماری سینے آپ کی حفاظت کے لیے سپر بن جائیں، *یا بن‌زهرا!* اے نورِ امیرالمؤمنینؑ کے پرتَو!

مختصراً آقا! ہم ’’فائنل‘‘ اور نقطۂ اوجِ بازدارندگی و اقتدارِ نظام کی طرف بڑھ گئے ہیں—یعنی *اسرائیل کے ہدف برد تک پہنچنے والے فوق‌سریع و واکنشِ سریع موشک* اور *موشکِ حاملِ ماهواره* کی دستیابی۔ اگر مایل باشید، میں **اس متن کو اردو–فارسی تطبیقی جدول، خلاصہ، یا رسمی پاورپوائنٹ متن** کے قالب میں بھی آماده کر سکتا ہوں۔

شہید حسن تهرانی مقدم: ایران کے میزائل پروگرام کے بانی اور مزاحمت کے علمبردار

شہید حسن تهرانی مقدم: ایران کے میزائل پروگرام کے بانی اور مزاحمت کے علمبردار شہید تهرانی مقدم کی قیادت میں ایران نے میزائل ٹیکنالوجی میں شاندار پیش رفت کی، ان کی شہادت کے بعد بھی ان کا مشن جاری رہا جس سے ایران آج دنیا میں میزائل اور خلائی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔ آج 12 نومبر ایران کے میزائل پروگرام کے بانی شہید حسن تهرانی مقدم کی 14ویں برسی ہے۔

وہ ایک بصیرت افروز عسکری حکمت عملی ساز تھے جنہوں نے اپنے وقت سے آگے سوچا۔ شہید تهرانی مقدم 1959 میں تهران کے مرکزی علاقے سرچشمہ میں پیدا ہوئے اور 1977 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ 1979 میں انہوں نے شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے مکینیکل انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور دو سال بعد خواجہ نصیرالدین طوسی یونیورسٹی سے صنعتی انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔

صرف 21 سال کی عمر میں، جب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی تشکیل پائی تو تهرانی مقدم نے شمالی ایران میں تیسرے ریجن کی انٹیلی جنس ڈویژن میں بطور کیڈٹ شمولیت اختیار کی۔ 1981 میں ثامن الائمہ آپریشن کی کامیابی کے بعد جس میں امریکہ اور مغرب کی حمایت یافتہ بعثی فوج سے آبادان شہر آزاد ہوا، انہوں نے محاذ پر فائر سپورٹ مضبوط کرنے کی فوری ضرورت کو محسوس کیا۔

اسی ضرورت نے انہیں ایک منصوبہ تیار کرنے کی تحریک دی، جو انہوں نے اس وقت کے IRGC انٹیلی جنس چیف حسن باقری کو پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں IRGC آرٹلری کور اور اہواز میں آرٹلری ریسرچ سینٹر قائم کیے گئے، جو ایران کی میزائل صلاحیتوں کی بنیاد ثابت ہوئے۔ تهرانی مقدم نے نہ صرف میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ کئی ایرو اسپیس کمانڈرز کو تربیت دی، جنہوں نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا۔

میزائل کی تیاری کا آغاز اور بعثی فوج پر اولین ایرانی میزائل سے حملہ

شہید تهرانی مقدم نے IRGC کی آرٹلری قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا، جس میں 155 ملی میٹر اور 130 ملی میٹر ٹریکشن شیلز کے ساتھ ساتھ پرتگالی 105 ملی میٹر شیلز بھی استعمال کیے گئے۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں، جب عراق ایرانی شہروں پر میزائل حملے بڑھا رہا تھا اور اسے مغربی حکومتوں بشمول امریکہ کی حمایت حاصل تھی، ایران نے محدود غیر ملکی مدد کے ذریعے اپنے میزائل دفاع کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

محدود ٹیکنالوجی کے ساتھ سپاہ پاسداران انقلاب نے ان کی بصیرت افروز قیادت میں ایران کے پہلے مقامی میزائل تیار کرنے کا آغاز کیا، اور مارچ 1985 میں پہلا میزائل عراق کے شہر کرکوک پر کامیابی سے داغا گیا۔ دوسرا میزائل بغداد میں ایک 18 منزلہ فوجی عمارت پر لگا، جس کے بعد ایک اور میزائل اسی شہر میں عراق کی فوج کے افسران کے کلب کو نشانہ بنا کر تقریباً 200 بعثی فوجی کمانڈروں کو ہلاک کر دیا، جو ایران کے خلاف جنگ میں ملوث تھے۔ 1986 میں شہید تهرانی مقدم کو IRGC فضائیہ کے میزائل ڈویژن کا کمانڈر مقرر کیا گیا، اور چند ماہ بعد انہوں نے لبنان کی حزب اللہ کی پہلی میزائل یونٹ قائم کرنے میں مدد فراہم کی۔ جنگ کے آخری دو برسوں میں، انہوں نے قریبی فاصلے کا ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل اور راکٹ آرٹلری نظام نازعات اور عقاب کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

جنگ کا خاتمہ اور میزائل صنعت کی ترقی

جنگ کے بعد شہید تہرانی مقدم نے ایران کی میزائل صنعت کی ترقی کو آگے بڑھایا، میزائل کی حد، تباہی کی قوت اور ٹیکنالوجی میں اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں شہاب اور زلزال میزائل سیریز متعارف ہوئیں۔ 1980 کی دہائی میں ایران کے پاس عقاب 45 کلومیٹر اور نازعات 100 کلومیٹر کی رینج کے ساتھ موجود تھے۔ ان میزائلوں سے بعد میں 1990 کی دہائی کے آخر میں درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کے لیے بنیاد ملی اور اگلی دہائی میں عاشورا اور سجیّل جیسے نئے ماڈلز کی تخلیق کی راہ ہموار ہوئی۔ شہید تہرانی مقدم کی کوششوں کے نتیجے میں ایران چند ہی سالوں میں ایک بڑی میزائل طاقت کے طور پر ابھرا، جس کے پاس وسیع میزائل اسلحہ موجود ہے جو صہیونی حکومت سمیت ہر دشمن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

ایرانی میزائل صنعت کے بانی کی شہادت

حسن تهرانی مقدم 12 نومبر 2011 کو تہران کے مغرب میں واقع شہر ملارد کے امیر المومنین گارنیر میں اپنے 16 ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ تهرانی مقدم اور ان کے شہید ساتھیوں کو تہران کے بہشت زہرا قبرستان میں اعلی ترین سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا، جہاں زیادہ تر شہداء 1980 کی دہائی کی جنگ کے دوران شہید ہوئے تھے۔

شہید تهرانی مقدم کی ایک خواہش تھی: جب میں مر جاؤں تو میری قبر پر لکھا جائے: یہاں وہ شخص مدفون ہے جو اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔’ شہید تهرانی مقدم اور ان کی ایجادات کا ثبوت 12 روزہ جنگ کے دوران بھی واضح تھا، جب سینکڑوں ایرانی میزائل مقبوضہ علاقوں پر گرائے گئے، جو اسرائیل اور امریکہ کے کثیر تہوں پر مشتمل حفاظتی نظام کو پار کرگئے۔ آج ایران کا طاقتور میزائل اور خلائی پروگرام، جو بلا شبہ دنیا میں بہترین ہے، اس عظیم کمانڈر کی شاندار کوششوں اور قربانی کا ثمر ہے[6]۔

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. سازنده اولین موشک بومی ایران کیست؟- شائع شدہ از: 21 آبان 1400ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2025ء
  2. زندگی‌نامه سردار شهید حسن تهرانی مقدم/ گاه شمار زندگی پدر موشکی ایران- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2025ء
  3. 13 مرد موشكی در سوریه؛ آموزش شلیك موشك اسكاد بی در دمشق- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2025ء
  4. نامه دست‌نویس شهید طهرانی مقدم خطاب به رهبر انقلاب-شائع شدہ از: 21 آبان 1398ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2025ء
  5. بخشی از وصیت نامه شهید طهرانی مقدم، خبرگزاری تسنیم-شائع شدہ از: 29 آبان 1391ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2025ء
  6. شہید حسن تهرانی مقدم: ایران کے میزائل پروگرام کے بانی اور مزاحمت کے علمبردار- شائع شدہ از:12 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 نومبر 2025ء