مندرجات کا رخ کریں

برصغیر میں شیعہ سنی جھگڑے کی داستان(نوٹس)

ویکی‌وحدت سے

برصغیر میں شعیہ سنی جھگڑے کی داستان، غالبا یہ اقلیت میں ہونے کا احساس تھا کہ برصغیر میں شیعہ اور سنی اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں زندگی کرتے رہے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل اقتدار کے مکمل خاتمے تک یہاں سُنی حکمران رہے ہیں۔ ان تمام ہی حکومتوں میں کئی اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے۔ اسی دوران ہندوستان میں شیعہ حکمرانوں کی ریاستیں بھی رہیں، جن میں دکن، اودھ‘ سندھ اور ملتان کی شعیہ سلطنتیں قابل ذکر ہیں [1]۔

تاریخی پس منظر

برصغیر میں اسلامی دور کی ابتدا سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک کئی بار سیاسی نوعیت کے اختلافات ہوئے۔ لیکن ہمیشہ اسے اقتدار کی جنگ ہی مانا گیا کبھی یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنی تھی۔ ایران کے شیعی صفوی حکومت نے ہمایوں بادشاہ کو پناہ دی اور اسے ہندوستان کی حکومت دوبارہ دلانے اور سوری بادشاہ کو شکست دینے میں بھرپور تعاون دیا۔

اس کے بعد سے شاہانِ مغلیہ کے ایران کے ساتھ اچھے مراسم رہے اور اس کی وجہ سے شیعی عناصر کا حکومت میں عمل دخل زیادہ ہوا۔ جس دوران شعیہ مذہب کو معاشرے میں زیادہ فروغ ملا اور عزاداری‘ مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔ لیکن پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں ہے۔

دلچسب بات یہ ہے کہ التمش کے عہد حکومت میں یہاں باقاعدہ فقہ حنفیہ نافذ کی گئی، جو بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری تک پورے برصغیر میں رائج رہی۔ شعیہ ریاستوں میں بھی قاضی فقہ حنفیہ کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ جون پور کی مشہور شرقی سلطنت برصغیر میں قائم ہونے والی پہلی شعیہ ریاست تھی۔ جونا خان جب "السلطان المجاہد ابوالفتح محمد شاہ" کا لقب اختیار کر کے سریر آرائے سلطنت ہوا۔

تو اُس کے سامنے ملکی فقہ کا معاملہ آیا۔ جس پر اُس نے کہا "اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں شعیہ سُنی کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری‘ زنا‘ جھوٹ‘ غیبت‘ قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر کے معاملات میں ،جو اختلافات ہیں وہ فروعی نوعیت کے ہیں۔ اس لیے سلسطنت کا نظام حسب سابق فقہ حنفیہ کے مطابق ہی چلے گا، جہاں فقہ میں اختلاف ہو وہاں شعیہ اپنی کے مطابق فیصلہ طلب کر سکتا ہے۔

اس روایت کی پیروی برصغیر میں آنے والی بعد کی تمام شعیہ ریاستوں نے بھی کی۔ 1857 کا فتویٰ جہاد دینے والے سُنی عالمِ دین علامہ فضل حق خیر آبادی لکھنو کی شعیہ ریاست کے قاضی القضاۃ تھے۔ اودھ کی شعیہ ریاست ہی برصغیر میں سُنی مسلمانوں کے سب سے بڑے اور قدیم مدرسے "فرنگی محل" کی سرپرست رہی تھی۔

برصغیر میں پہلا شیعہ سنی فساد

برصغیر میں پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ دراصل اُس وقت 1905 میں بنگال کی تقسیم کے خلاف ملک گیر ہندووں کی جانب سے ایچی ٹیشن چل رہا تھا۔ جبکہ جوابی احتجاج مسلمان بھی کر رہے تھے۔ جس کے خلاف اکثر شہروں میں دفعہ 144 نافذ تھی۔ اس دوران محرم کے جلوسوں کو خصوصی اجازت دی گئی تھی۔

انگریز انتظامیہ کو اطلاعات تھیں کہ محرم کے جلوس سیاسی جلوس بن جائیں گے۔ اس سال تک لکھنو میں محرم کے جلوس میں شیعہ اور سنی بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ اس سال پہلی بار شعیہ جلوس کو روک کر ایک سرکاری مولوی نے ”چار یاری“ پڑھی۔ ایک نظم جس میں چار خلفاء کی مدح سرائی کے ساتھ اہل تشیع اور ان کے عقائد پر طعن کیا گیا تھا ‘۔

ریکارڈ کے مطابق سُنی مولوی کے بعد ایک شعیہ مولوی نے خلفائے ثلاثہؓ پر تبرا کرنا شروع کر دیا۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر کے اُنہیں عوام کی دستبرد سے دور کر دیا۔ لیکن اس سے قبل شعیہ، سُنی رخنہ پیدا کر چکے تھے۔ یوں مذہبی جلوس سیاسی جلوس میں تبدیل نہ ہو سکا۔ یہی کام ہندوستان کے مختلف دیگر شہروں میں 1907ء اور بعد سالوں میں ہونے والے محرم کے جلوسوں کے موقعہ پر بھی ہوا۔

البتہ 1911ء میں تقسیم بنگال کے منسوخ ہونے کے بعد ہندو ایجی ٹیسن ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ کام بھی ختم ہو گیا۔ 1912ء میں لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز میسٹن سرِ عام چاریاری پڑھنے اور تبرا کرنے پر پابندی کے احکامات جاری کر دیے۔

(یہ سب کچھ انگریزی انتظامیہ نے باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت کرایا تھا، جس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR کے عنوان سے لندن انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے۔) 1912 سے لے کر 1935 کا عرصہ سکون سے گزرا، اس دوران کوئی شعیہ سُنی فساد ملک کے کسی حصے میں دیکھنے میں نہیں آیا۔

برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان میں ایک حکومتی ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے ’’قانون ہند مجریہ 1935ء ‘‘ کی منظوری دے دیدی۔ جس میں کانگریس کی جانب سے مخلوط انتخابات کے مطالبے کو مسترد کر کے جداگانہ انتخابات کا اصول تسلیم کر لیا گیا تھا۔ کانگریس کو یہ صوتحال کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھی۔ چنانچہ گاندھی نے دھمکی دی کہ اگر اچھوت جداگانہ انتخاب سے دستبردار نہ ہوئے تو وہ بھوکے رہ کر جان دے دیں گے۔

اچھوتوں کی طرف سے ڈاکٹر امبیدکر نے اُن کی بات مان کر جداگانہ انتخاب سے درسبردار ہو گئے۔ اس کے بعد مسئلہ مسلمانوں کا تھا۔ جن کو آپس میں تقسیم کر کے ہی انکی کی عددی حیثیت کو بے اثر کیا جا سکتا تھا۔ 1936 کے محرم میں کانگریس کی اتحادی جمعیت علمائے ہند کے مرکزی قائدین مولانا عبد الشکور لکھنوی اور مولانا ظفر الملک نے اعلان کیا کہ 26 جید علما نے فیصلہ کیا ہے کہ "مدحِ صحابہ" پڑھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، حکومت نے پابندی کے فیصلے پر نظرِ ثانی نہ کی تو وہ سول نافرمانی کا آغاز کریں گے۔

اعلان کے آٹھ روز بعد عاشورا کے دن پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لکھنو شہر کے مرکزی جلوس کے دوران "چاریاری" پڑھی گئی۔ دو سنی لڑکوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی۔ اسی سال چہلم کے روز چودہ مختلف مقامات پر چاریاری پڑھی گئی اور متعدد لوگ گرفتار ہوئے۔ واقعات یہ لکھنؤ میں سنی شعیہ منافقرت کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔

مدحِ صحابہ جلوس

جمعیت علمائے ہند نے تین جون 1936ء کو بارہ ربیع اول کے روز لکھنو میں مدحِ صحابہ کا جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ لکھنؤ کے پولیس کمشنر نے فساد کے خطرے کو بھانپتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی۔ اُس دن جلوس نہیں لکلا تاہم پھر 12 جون 1936ء کو یہ مدح صحابہ کا جلوس نکالا جس میں بار بار "چار یاری" پڑھی گئی۔ اس کے جواب میں ایک کانگریسی شعیہ لیڈر نے پہلی بار "تبرا کا جلوس" نکالا۔

اس موقعہ پر جمعیت علمائے ہند کے سربراہ حسین احمد مدنی لکھنو نمودار ہوئے اور اعلان کیا کہ وہ خود حکومتی احکامات کی نافرمانی کر کے ہر جمعے کو مدحِ صحابہ کا جلوس نکالا کریں گے۔ جس پر عمل بھی شروع ہو گیا۔ جواب میں تبرا کے جلوسوں، مجالس، گرفتاریوں اور قانونی کاروائی کے ایک سلسلے کا آغاز ہوا جو لکھنؤ کے علاوہ صوبہ متحدہ (یو پی) کے دیگر مسلم اکثریتی شہروں بارہ بنکی، بریلی، بہرائچ، فیض آباد، بجنور، سہارنپور، غازی پور، آگرہ اور اعظم گڑھ وغیرہ تک پھیل گیا، اس کے اثرات ملک کے طول عرض میں محسوس کیے جانے لگے۔

اس شیعہ سنی جھگڑے نے مسلمانوں کے ایک ناقابلِ تقسیم مذہبی اور سیاسی اکائی ہونے کے تصور کو نقصان پہنچایا۔ جمعیت علمائے ہند اور کانگریس دونوں ہی فسادات کے دوران "مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت" کی حیثیت پر سوال اٹھاتے رہے اور ساتھ ہی مسلم لیگ کے شیعہ رہنماؤں مثلاً راجا صاحب محمود آباد، راجا صاحب سلیم پور، راجا صاحب پیر پور اور خود محمد علی جناح کے حوالے سے اسے تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

شیعہ سنی اختلافات کا نقصان

اُس دوران مسلم لیگ کو خصوصا صوبہ متحدہ (یو پی) میں فرقہ وارانہ خطوط پر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہو گیا تھا کیوں کہ مسلم لیگ کے ضلعی یونٹس میں شیعہ سنی تفریق نمایاں ہونے لگی تھی۔ اسی منافقرت کے ماحول میں جنوری 1937ء کو ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں انتخابات منعقد ہوئے۔ یو پی میں مسلمان ووٹ شعیہ سُنی میں تقسیم ہو کر مکمل بے اثر ہو گیا تھا، چنانچہ یہاں کانگریس کو تاریخ ساز فتح حاصل ہو گئی۔

تمام ہندو نشستوں کے علاوہ 133 جنرل نشتوں پر بھی کانگریس کے غیر مسلم امیدوار قائم ہوئے۔ مسلمانوں کی 64 ریزو نشستوں میں سے بھی مسلم لیگ صرف 29 جیت سکی۔ باقی مسلمان نشتوں پر "انجمنِ تحفظِ ناموسِ صحابہ" اور "انجمن تنظیم المومنین" کے نامزد امیدوار کامیاب ہوئے۔ یوں واضع مسلم آبادی والے ہندوستان کے سب سے اہم صوبے میں کانگریس کی بلاشرکت غیرے وزارت قائم ہوئی۔

(مسلم لیگ کو بے اثر کرنے کے لیے شعیہ سُنی اشتعال کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو یو پی کے اُس وقت کے گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا تھا۔ یہ خط بھی لندن انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے۔)

کانگریسی وازرت قائم ہونے کے بعد یو پی میں تو شعیہ سُنی فسادات تو رُک گئے۔ لیکن مجمع باز خطیبوں اور افسانہ طراز ذاکروں کا مستقل روزگار پیدا ہو گیا۔ جو آئے روز منافقرت کو ہوا دے کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر لیا کرتے رہے ہیں۔ مختلف مواقعوں پر انکی خدمات کرایہ پر بھی دستیاب رہا کرتیں تھیں۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے دونوں پارٹیز کی خدمات مستقل طور پر ایران اور سعودیہ نے حاصل کر رکھی ہیں۔

برصغیر میں شعیہ سُنی مناقرت کی تاریخ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ Venkat Dhulipala نے اپنے تحقیقی مقالوں “Rallying the Qaum: The Muslim League in the United Provinces, 1937–1939” اور Modern Asian Studies میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ کس طرح انگریز انتظامیہ اور بعد میں حسین احمد مدنی اور کانگریس نے وقتی سیاسی فائدے کے لیے ایک مستقل فتنے کو جنم دیا تھا[2]۔

متعلقہ تلاش

حوالہ جات

  1. تحریر: مہتاب عزیز
  2. میں شعیہ سنی جھگڑے کی داستان ۔۔۔ غالبا یہ اقلیت ...- شائع شدہ از:5 دسمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 دسمبر2025ء