آہ !وہ کون تھا؟(نوٹس اور تجزیے)

    ویکی‌وحدت سے
    فزت.jpg

    آہ ! وہ کون تھا ؟ اس مقالہ کو شبِ ضربت کی یاد میں سید ذوالفقار علی بخاری نے لکھا ہے۔ وہ کون تھا جو اپنی قوم میں بھی یک و تنہا تھا ۔ اجنبی تھا ۔ مظلوم تھا ۔ وہ سب کے دکھ درد باٹنے والا مگر اُسکا درد باٹنے والا کوئی نہ تھا ۔ اُسکی غربت و تنہائی انتہائی اندوناک تھی ۔

    قوم کی بد بختی اور بد حالی پر اُسکا دل حزن و اندوہ سے پُر تھا ۔ کاش زمانے نے اُسے نہیں پہچانا جبکہ وہ زمانے پر چھایا ہوا تھا ۔ اہل زمین نے اُسے نہیں پہچانا حالانکہ زمین کے طبقات اُسکے حکیمانہ کلمات سے گونج رہے تھے ۔ وہ اپنی کُل متاع ضرورت مندوں پر لُٹا دیتا اور کسی سے کسی چیز کا طلب گار نہ ہوتا ۔ اُس پر زمانے نے ظلم کے پہاڑ ڈھائے مگر اُس کے دل میں انتقام کا تصور تک پیدا نہ ہوا۔

    وہ اپنے دشمنوں پر فتح یاب ہونے کے بعد اُنہیں معاف کردیتا ۔ وہ ضعیفوں کا مددگار ، غریبوں کا بھاٸی ، یتیموں کا باپ اور پریشان حال لوگوں کے لٸے مہربان و شفیق اور ہر مشکل میں مشکل کشاء تھا ۔ وہ ہر مصیبت میں ڈھارس اور ہر نا اُمیدی میں اُمید کی کرن تھا ۔ وہ علم کا کوہِ گراں تھا ۔ اُسکی عظمت سے دشت و کوہ پُر تھے مگر خود اُسکا اپنا دل غم سے لبریز تھا ۔ شجاع ایسا کہ بڑے بڑے سرکشوں کے سراُس نے اپنی شمشیر سے سرنگوں کئے تھے ۔

    دن کو وہ خلاٸق کی داد رسی پر کمر بستہ رہتا اور رات کو غریبوں اور بے کسوں کے حالِ زار پر گریہ کناں ہوتا ۔ وہ جوَ کی روکھی روٹی کھاتا اور کھردرا لباس پہنتا ۔ وہ عاجزی و انکساری سے زمین پر چلتا اور ہر دکھ کو اس لٸے برداشت کرتا تاکہ لوگ مسرتوں بھری زندگی جی سکیں ۔ وہ ہر چیز سے آگاہ ہر طرف اُس کی نگاہ تھی ۔ وہ مردِ یگانہ اور قدسی روح جسے نہ اپنوں نے پہچانا نہ غیروں نے ۔ مصاٸب کے انبوہ اُسے دل شکستہ نہ کر سکے ۔

    جس نے ایک لمحے کے لئے بھی باطل سے سمجھوتہ نہ کیا وہ تو بس صرف حق کا طالب تھا ۔ یہ دنیا اُس کے لئے بہت چھوٹی تھی ۔ محدود تھی ۔ ناتمام تھی اس لئے وہ اس دنیا میں گھٹن محسوس کرتا ۔ آدھی رات کے وقت جب لوگ سو جاتے تو وہ نخلستان کا رخ کرتا اور اس اندیشے سے کہ کوٸی نا اہل اُسے دیکھ نہ لے وہ کنویں میں چہرہ ڈال کر اس کرب و درد سے روتا کہ ملکوت کو رولا دیتا ۔

    آخر اُس کا درد کیا تھا ۔ وہ اتنا دکھی کیوں تھا، کسی نے بھی تو جاننے کی کوشش نہیں کی ! زمین ظلم کے پنجے میں محبوس تھی ۔ لوگ سرکشی میں مبتلا تھے ۔ زور اور طاقت والوں نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔ نیکی کو ترک کردیا گیا تھا ۔ عدل و انصاف سے منہ موڑ لیا گیا تھا ۔ عوام الناس کی تقدیر فسادیوں کے ہاتھ میں تھی ۔ روٸے زمین پر نفاق کا دور دورہ تھا ۔

    وہ ایک ڈراٶنی رات تھی ۔ دنیا محوِ خواب تھی ۔ مگر وہ تنہا جاگ رہا تھا ۔ اُس تاریک شب میں اُس نے اپنے ماضی پر نگاہ ڈالی ۔ نوجوانی ہی سے اُس کے ہاتھوں میں تلوار رہی تھی ۔ اُس نے شبِ ہجرت کو یاد کیا جب وہ تلواروں کے ساٸے میں بسترِ رسول پر محوِ خواب تھا ۔ پھر اُس نے رحلتِ پیغمبر کو یاد کیا جب رسولِ خدا نے اپنی آخری نگاہ اُس کے چہرے پر ڈالی اور آنکھیں بند کر لیں تھیں۔

    پھر اُس نے بنتِ پیغمبر کے بے پناہ غم و اندوہ کو یاد کیا جو اپنے والدِ گرامی کی وفات کے بعد صرف 75 دن زندگی سے نباہ کرسکیں ۔ زمانے کی نگاہوں کے بدل جانے پر وہ بہت غمگین ہوا ۔ پھر اُس نے ابوذر غفاری کو یاد کیا جب نبی ص کا یہ مظلوم صحابی ربذہ کی ریت پر زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا اور اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا جب میری روح پرواز کر جاٸے تو مجھ پر چادر ڈال دینا اور راستے پر جا کر بیٹھ جانا اور گزرنے والوں سے کہنا نبی کے صحابی نے عالم غربت میں وفات پاٸی ہے اُس کی تجہیز و تکفین میں میری مدد کرو ۔

    پھر اُس کی نگاہوں میں وہ منظر گھوم گیا جب نبی کا صحابی عمار یاسر میدانِ جنگ میں گھوڑے سے گر رہا تھا ۔ آج وہ خود کو کتنا تنہا محسوس کر رہا تھا ۔ اُس کے سبھی ساتھی رخصت ہوگٸے تھے نہ مالکِ اشتر تھا نہ عمار یاسر ، اور نہ محمد بن ابوبکر ۔ پھر اُس مردِ بے نظیر نے آنے والے کل کے بارے میں سوچا جس کی وحشت ناک تاریکی قوم کو گِھرنے والی تھی جب عوام کی کوٸی قدر و منزلت نہ ہوگی ۔

    پھر اُس نے اُس تاریک شب میں آسمان کی طرف نگاہ کی اور بے ساختہ پکار اُٹھا ; ھیٰ ھیٰ واللہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم یہ وہی رات ہے سحر کے وقت اُس نے مسجد کی طرف چلنا شروع کیا ۔ زمین اُس کے قدموں کے بوسے لے رہی تھی ۔ وہ ابھی دروازے پر ہی تھا کہ مرغابیوں نے اُسے گھیر لیا ۔ گھر والوں نے مرغابیوں کو ہٹانا چاہا تو فرمایا انہیں مت ہٹاٶ یہ مجھ پر نوحہ کر رہی ہیں ۔

    شب ضربت

    وہ مسجد میں داخل ہوا اور سیدھا گلدستہ آذان پر گیا اور اللہُ اکبر کی دل سوز صدا سے پورے کوفے کو جگا دیا ۔ لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف روانہ ہوٸے ۔ وہ محرابِ مسجد میں آیا اور مشغولِ عبادت ہوگیا ۔ ایک خبیث و بدبخت زہر آلودہ تلوار لئے محرابِ مسجد کی طرف بڑھا ۔

    کاٸنات کے امیر، بے سہاروں کے سہارا، فریادیوں کے فریاد رس کے سر اقدس پر ایسا وار کیا کہ جس سے سر مبارک شگفتہ ہوگیا اور ریش مبارک سر کے خون سے تر ہوگٸی ۔ آسمان سے صدا آئی ہدایت کے مینار منھدم ہوگٸے، بی کا بھائی قتل کردیا گیا ۔ کوفہ میں، قد قُتلَ امیر المومنین کی صدا گونجی ۔ شہید راہِ خدا کی آواز گونجی:

    ﴿فزتُ و ربِ کعبہ﴾

    ﴿اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ [1]۔

    حوالہ جات

    1. سید ذوالفقار علی بخاری، آہ! وہ کون تھا؟

    زمره:نوٹس اور تجزیے