"اخوان المسلمین فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 27: سطر 27:
اخوان المسلمین  گروپ کو شدید ترین حملوں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کے بعد  جمال عبدالناصرکی  حکومت نے اس کو  ختم  کرنے کی کوشش کی جس کی وجه سے اس گروہ کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن بہت سے اراکین جو  جهادی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، مصری حکومت اور حزب اختلاف کی اسلام پسند  تحریکوں کے مخالف حکومتوں کے دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک قوم پرست  تنظیم (واضح اسلامی شناخت کے ساتھ نہیں) بنانے  کا منصوبه بنایا۔ خلیل الوزیر نے 1957ء میں غزہ کی پٹی میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کو ایک منصوبہ بھی پیش کیا تھا، لیکن وہ مشکل حالات سے دوچار تھے، اس لیے انھیں ان کی تجویز کا کوئی جواب نہیں ملا۔ خلیل الوزیر نے یاسر عرفات کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے، جو اخوان المسلمون کے قریبی شخصیات میں سے ایک تھے، "فلسطین لبریشن موومنٹ" (فتح) کے نام سے ایک نئی تنظیم  کی بنیاد رکھی ۔
اخوان المسلمین  گروپ کو شدید ترین حملوں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کے بعد  جمال عبدالناصرکی  حکومت نے اس کو  ختم  کرنے کی کوشش کی جس کی وجه سے اس گروہ کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن بہت سے اراکین جو  جهادی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، مصری حکومت اور حزب اختلاف کی اسلام پسند  تحریکوں کے مخالف حکومتوں کے دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک قوم پرست  تنظیم (واضح اسلامی شناخت کے ساتھ نہیں) بنانے  کا منصوبه بنایا۔ خلیل الوزیر نے 1957ء میں غزہ کی پٹی میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کو ایک منصوبہ بھی پیش کیا تھا، لیکن وہ مشکل حالات سے دوچار تھے، اس لیے انھیں ان کی تجویز کا کوئی جواب نہیں ملا۔ خلیل الوزیر نے یاسر عرفات کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے، جو اخوان المسلمون کے قریبی شخصیات میں سے ایک تھے، "فلسطین لبریشن موومنٹ" (فتح) کے نام سے ایک نئی تنظیم  کی بنیاد رکھی ۔
اخوان المسلمین کے بہت سے فعال اور قابل نوجوان ارکان نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی جن میں ریاض زعون، سلیم زنون، محمد یوسف نجار، عبدالفتاح حمود، یوسف عمیرہ، کمال عدوان، صلاح خلف، سلیمان حماد، رفیق نیتشے اور دیگر شامل تھے۔
اخوان المسلمین کے بہت سے فعال اور قابل نوجوان ارکان نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی جن میں ریاض زعون، سلیم زنون، محمد یوسف نجار، عبدالفتاح حمود، یوسف عمیرہ، کمال عدوان، صلاح خلف، سلیمان حماد، رفیق نیتشے اور دیگر شامل تھے۔
==اخوان المسلمین  اور فلسطین کا مسئله، سیاسی اور سماجی جدو جهد==
1977 ء میں فلسطینی اخوان المسلمین کونسل کے اجلاس میں اخوان کے مختلف گروپوں کو علاقائی تنظیموں کی شکل میں ضم کرنے کا  مسئله  اٹھایا گیا  جس کی بنیاد پر  یه بات طے هوگئی که  اردن، شام، فلسطین اور لبنان کی اخوان المسلمین کو  اخوان المسلمین بلاد شام کے عنوان سے ایک جماعت میں  ضم کر دیا جائے ۔  یه تجویز خیری الاغا اور سلیمان حماد کی قیادت میں اردن کی اخوان المسلمین کونسل میں پیش کی گئی یہ تجویز متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ سنه 1978ء  میں اخوان المسلمین فلسطین اور    اردن  کی کونسل کو تحلیل کر دی گئی  اور محمد عبدالرحمن خلیفہ کی سربراہی میں ایک نئی قیادت والی ٹیم کے ساتھ ایک نئی کونسل تشکیل دی گئی ۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی اخوان المسلمین، کویت، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس نئے گروپ میں شمولیت اختیار کی، جسے اخوان المسلمون بلاد شام  کا نام دیا گیا تھا۔ البتہ شام اور لبنان میں اخوان المسلمون کے خصوصی حالات نے انہیں مذکورہ گروپ میں شامل ہونے سے روک دیا۔
اخوان المسلمین بلاد شام کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل  کے لیے  ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس میں سرگرم اہم ترین شخصیات میں قندیل شاکر اور ابو بشیر ضامنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یوسف اعظم نے بھی بطور سیکرٹری اس معاملے میں اهم کردار ادا کیا۔
کویت میں 350,000 فلسطینیوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اس ملک میں فلسطینیوں کے لیے پیدا کی گئی وسیع آزادی کے سائے میں خالد مشعل کی قیادت میں فلسطینی طلبہ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہ۔ 1979 ء میں کویت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد،  خالد مشعل نے اپنی  سیاسی، جهادی  اور تنظیمی  سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔ 1980 ء کے آغاز سے، وہ  فوجی  اور سیکیورٹی  گروهوں  کی تخلیق اور ترقی  پر  نگرانی کرنے  کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں ماہر عملے کی تربیت کے انچارج تھے۔
غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین نے قابضین سے لڑنے کے لیے ایک فوجی تنظیم بنائی جس کی نشاندہی کے بعد 1984 میں دشمنوں نے حملہ کر کے اس کو  منحل کردیا ۔ مذکورہ تنظیم 1986ء میں ’’فلسطینی مجاہدین‘‘ کے عنوان سے دوبارہ قائم کی گئی۔ دوسری جانب غزہ کی پٹی میں اخوان المسلمون کا سیکیورٹی اپریٹس ’’مجد‘‘ بھی 1981 ءمیں تشکیل دیا گیا تھا جو اخوان کے فوجی منصوبوں کا حصہ تھا۔  اس فوجی سازوسامان 1985 ءمیں دوبارہ تعمیر اور توسیع کی گئی تھی۔
مصری یونیورسٹیوں میں، ایک فلسطینی اسلام پسند رجحان ابھرا، اس رجحان میں موجود نمایاں ترین شخصیات میں موسیٰ ابو مرزوق، بشیر نافی، فتحی شقاقی  اور عبدالعزیز عودہ شامل ہیں۔ مصری اخوان المسلمون  کی طرف سے فلسطینی طلباء کو جہادی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے  شدید دباؤ ڈالا گیا۔ 1979 ءمیں ایرانی انقلاب مذکورہ  جماعت  کے لیے ایک مضبوط محرک بن گیا اور اس کی وجہ سے فتحی شقاقی نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اخوان المسلمون سے علیحدگی اختیار کی اور 1980 میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کی بنیاد رکھی۔
یمارچ 1983 میں  جب خالد مشعل نے یوسف اعظم کو - اپنے دورہ کویت کے دوران - فلسطین کے لیے ایک خصوصی داخلی کانفرنس کے انعقاد کا منصوبہ پیش کیا، ایک کانفرنس جس کا مقصد  مسئله فلسطین کے حل کے حوالے سے تمام نظریات، منصوبوں اور سرگرمیوں کے طریقہ کار کو یکجا کرنا  اس حوالے سے مختلف فعالیتوں کا آغاز کرنا  تھا ۔ یہ کانفرنس 20 اور 21 اکتوبر 1983 کو غزہ کی پٹی سمیت مختلف علاقوں میں اخوان المسلمون کے نمائندوں کی موجودگی کے ساتھ تشکیل دی گئی۔
کانفرس کے دس صفحات پر مشتمل  فیصلوں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین کے لیے سرگرمی اور آزادی کے منصوبے کا ایک جامع اسلامی ملک بنانے کے منصوبے سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلکہ، یہ دو متوازی راستوں میں چلنے کے مترادف ہے جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مسئلہ فلسطین کے  حل کے حوالے سے کی جانے والی سرگرمیوں  کو بڑھانے کے حوالے سے 26 فیصلے کیے گئے، جن میں فلسطینی اخوان المسلمین کی سرگرمیوں کے لیے ایک خصوصی کمیٹی کا قیام بھی شامل  تھا ، جس کی ذمه داری ان  پروگراموں کی تشکیل تھی جس میں مسئله فلسطین کا حل اور اس  حوالے سے مقدمات کی فراهمی  کے  لئے اقدامات عمل میں لانا تھا۔
<ref>[https://farsi.palinfo.com/news/2017/1/27/%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ae%d9%88%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85-%d9%86-%d9%81%d9%84%d8%b3%d8%b7-%d9%86-%d8%aa%d8%a7-%d8%ad%d9%85%d8%a7%d8%b3 از اخوان المسلمین فلسطین تا حماس] ( اخوان المسلمین سے حماس تک)-farsi.palinfo.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 27/جنوری/2017 ء تاریخ اخذ شده:  2می 2024ء-</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
104

ترامیم