محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے اسے محرم کہتے ہیں۔ اس مہینے سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ محرم کا مہینہ خاص طور پر شیعوں کے لیے رنج و غم کا مہینہ ہے، کیونکہ حسین بن علی علیہ السلام، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے 72 اصحاب، بیٹے اور فوج کی یزید کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

نام رکھنے کی وجہ

یقینا محرم الحرام کا مہینا عظمت والا اوربابرکت مہینہ ہے، اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کی ابتدا ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے : یقینا اللہ تعالٰی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور (یہ تعداد) اسی دن سے قائم ہے جب سے آسمان وزمین کو اللہ نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چارحرمت و ادب والے مہینے ہیں،یہی درست اورصحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اور معلوم رہے کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے۔

بلاشبہ یہ مہینہ شیعوں کے لیے بہت مقدس ہے۔ اس مہینے کی تعظیم کے لیے وہ حسین بن علی کے لیے روتے ہیں اور سینہ کوبی کرتے ہیں اور وفد لے جاتے ہیں اور وفد میں جانے والوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ یہ کام انہیں مرنے کے بعد فائدہ پہنچائیں گے اور ان کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔

واقعات

  • 1 محرم یا 10 محرم - جنگ ذات الرقاع
  • 1 محرم - واقعہ شعب ابی طالب
  • 2 محرم : حضرت امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد
  • 3 محرم - عمر بن سعد کی کربلا آمد
  • 5 محرم - حصین بن نمیر کا لشکر کربلا پہنچا
  • 6 محرم _ حبیب ابن مظاہر کی بنی اسد سے تعاون کی درخواست
  • 6 محرم : تقریباً 30 ہزار یزیدی فوج کربلا آئی۔
  • 7 محرم : قافلہ حسینی پر پانی بند ہوا۔
  • 11 محرم : روانگی اسیران کربلا بطرف کوفہ
  • 17 محرم : اصحاب فیل پر نزول عذاب
  • 2ھ۔ 18 محرم : تحویل قبلہ بجانب کعبہ
  • 7ھ – غزوہ خیبر

شہادت و وفات

  • 1 محرم - رحلت جناب محمد ابن حنفیہ
  • 61ھ۔ 10 محرم کو جمعہ کے دن حسین ابن علی اور ان کے رفقا کی شہادت (بروز عاشورہ)
  • 95ھ – 25 محرم : امام زین العابدین علی ابن حسین کی شہادت اور وفات جناب فضہ
  • 27 محرم : صحابی رسول حضرت میثم تمار کی شہادت
  • 20 محرم : صحابی رسول حضرت بلال مؤذن کی وفات

محرم سنی نقطہ نظر سے

ابن کثیر نے سنی منابع کی تشریح میں ماہ محرم کے بارے میں درج ذیل کہا ہے: اسلامی سال یعنی قمری سال یا ہجری سال کا پہلا مہینا محرّم الحرام بابرکت اور مقدس مہینا ہے محرم کو محرم اس لیے بھی کہا جا تا ہے جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ہیں؟ ایک بار کسی نے آ قاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے اور رمضان کے فرض روزے کے بعد کس مہینے کے روزے افضل ہیں، حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ا ر شاد فرمایا کہ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز نماز تہجد ہے اور رمضان کے بعد افضل روزے محرّم الحرام کے ہیں۔

جو شخص محرّم کی پہلی رات کو دو رکعت نماز اس طرح ادا کرے کہ سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کے؟ اورمحرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینا ہے اوراس کی حرمت کی تاکید کے لیے اسے محرم کانام دیا گياہے ۔ اوراللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان:لہذا تم ان میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو

اس کا معنی یہ ہے کہ:یعنی ان حرمت والے مہینوں میں ظلم نہ کرو کیونکہ ان میں گناہ کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زيادہ شدید ہے۔ اورابن عباس سے اس آيت “لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم نہ کرو“ کے بارے میں مروی ہے: تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان مہینوں میں سے چارکو مخصوص کرکےانہيں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت کوبھی بہت عظيم قراردیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ کا باعث قرار دیا اوران میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظيم اجروثواب کاباعث بنایا۔

اورقتادہ :“لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم وستم نہ کرو“ کے بارے میں کہتے ہيں: حرمت والے مہینوں میں ظلم وستم کرنادوسرے مہینوں کی بنسبت یقینا زيادہ گناہ اوربرائی کا باعث ہے، اگرچہ ہرحالت میں ظلم بہت بڑی اور عظيم چيز ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی اپنے امرمیں سے جسے چاہے عظيم بنا دیتا ہے۔

اورقتادہ کہتے ہيں: بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کو اختیار کرکے اسے چن لیا ہے : فرشتوں میں سے بھی پیغمبر چنے اورانسانوں میں سے بھی رسول بنائے، اورکلام سے اپنا ذکر چنا اورزمین سے مساجد کو اختیار کیا، اورمہینوں میں سے رمضان المبارک اورحرمت والے مہینے چنے ، اورایام میں سے جمعہ کا دن اختیارکیا، اورراتوں میں سے لیلۃ القدرکو چنا، لہذا جسے اللہ تعالٰی نے تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو، کیونکہ اہل علم وفہم اور ارباب حل وعقد کے ہاں امور کی تعظیم بھی اسی چيز کےساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالٰی نے تعظيم دی ہے[1]

احادیث کی روشنی میں

ابوہریرہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک کے بعدافضل ترین روزے اللہ تعال کے مہینا محرم الحرام کے روزے ہيں۔ شہر الله یعنی اللہ تعالٰی کا مہینا، یہاں مہینا کی اضافہ کی اضافت اللہ تعالی کے جانب تعظیماً کی گئي ہے؛ یہ اضافت تعظیمی کہلاتی ہے [2] ۔

ملا علی قاری کا قول ہے : ظاہر ہے کہ یہاں سب حرمت والے مہینے مراد ہيں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مہینے کے مکمل روزے نہیں رکھے، لہذا اس حدیث کومحرم میں کثرت سے روزے رکھنے پرمحمول کیا جائے گا نہ کہ پورے محرم کے روزے رکھنے پر۔

اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے مہینا میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے، ہو سکتا ہے کہ محرم کی فضیلت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری عمر میں وحی کی گئی ہو اورآپ روزے نہ رکھ سکے ہوں [3]۔

محرم شیعہ نقطہ نظر سے

محرم 61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ مہینہ شیعوں کے لیے سوگ کا مہینہ بن گیا ہے۔ امام معصوم علیہ السلام اور ان کے شیعوں نے اس مہینے میں ماتمی تقریب منعقد کرنے کی کوشش کی ہے۔

امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ: جب محرم کا مہینہ قریب آتا تھا تو کوئی میرے والد کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھتا تھا اور عاشورہ کے دن تک وہ غم میں ڈوبے رہتے تھے۔ وہ دن ان کے دکھ، غم اور گریہ و زاری کا دن تھا اور وہ کہتے تھے: آج وہ دن ہے جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا [4].

میرزا جواد ملکی تبریزی اپنی کتاب المراقبت میں ماہ محرم کی تعظیم و اعمال کے ذیل میں لکھتے ہیں: "عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مناسب ہے کہ پہلے محرم الحرام میں۔ محرم کا عشرہ، ان کے دلوں اور صورتوں میں رنج و غم کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، اور کچھ حلال لذتیں خاص طور پر اس مہینے کی 9، 10 اور 11 تاریخ کو ایسے چھوڑ جائیں جیسے کوئی اپنے پیاروں کو غمگین کر رہا ہو۔ اور محرم کے پہلے عشرے میں ہر روز عاشورہ کی زیارت کے ساتھ اپنے امام کو یاد کریں [5]۔

لیکن عاشورہ کے دن عید لینا یزید اور یزیدیوں کی روایت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ عید کا مطلب ایک ہی جشن اور خوشی کا دن تھا۔ جیسا کہ زیارت عاشورا میں بیان ہوا ہے۔ وَ هذا یَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِیادٍ وَآلُ مَرْوانَ بِقَتْلِهِمُ الْحُسَیْنَ صَلَواتُ اللَّهِ عَلَیْهِ اور یہ وہ دن ہے جس دن زیاد اور مروان کے گھر والوں نے حسین کے قتل کی وجہ سے خوشی منائی تھی۔

حوالہ جات

  1. دیکھیں تفسیر ابن کثیر سورۃ التوبۃ آیت نمبر ( 36 )
  2. صحیح مسلم حدیث نمبر (1982)
  3. شرح مسلم للنووی رحمہ اللہ
  4. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۸۸
  5. ملکی تبریزی، المراقبات، ۱۴۱۶ق، ص۲۵-۲۶