"فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 35: سطر 35:
یوں تو  فلسطین میں اسلام ابو بکر کے دور میں آچکا تھا  تاہم یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں  عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔  
یوں تو  فلسطین میں اسلام ابو بکر کے دور میں آچکا تھا  تاہم یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں  عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔  


عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا۔اس کے بعد اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 358ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فاطمیوں نے مقامی انقلابات، قراماطہ اور سلجوقی ترکوں کے ساتھ جنگ  کی۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت کو مصر کے مملوکوں، منگولوں اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل کیا گیا ، یہاں تک کہ عثمانیوں نے 400 عیسوی کے لگ بھگ سے فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 493 ہجری میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔  فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ برطانیہ کی طرف سے فلسطین پر قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔
عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا۔اس کے بعد اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 969 ء میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فاطمیوں نے مقامی انقلابیوں ، قرامطہ اور سلجوقی ترکوں کے ساتھ جنگ  کی۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت منگولوں ، مصر کے مملوکوں، اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ عثمانیوں نے 1516 عیسوی میں فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔   


فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔  اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔  انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں کہہ کر ہر قوم کی ملت کے تحفظ پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔  
صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 1099 ء میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔  فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ فلسطین پر  برطانیہ کا قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔
 
فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔  اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔  انہوں نے مسلمانوں کے باہمی اتحاد پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔  


1936 میں فلسطینی عوام نے برطانوی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس انقلاب کو برطانوی اور صیہونی رکاوٹوں نے شکست دی۔  کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کی ناکامی کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے امین الحسینی کو جلاوطن کر دیا اور دوسری قدس کانگریس کے انعقاد کو روک دیا۔  
1936 میں فلسطینی عوام نے برطانوی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس انقلاب کو برطانوی اور صیہونی رکاوٹوں نے شکست دی۔  کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کی ناکامی کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے امین الحسینی کو جلاوطن کر دیا اور دوسری قدس کانگریس کے انعقاد کو روک دیا۔  
== یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت ==
== یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت ==
پہلی عالمی جنگ (1914-19ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ (اتحادیوں) کے خلاف جرمنی (محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کا اعلان کا وعدۂ کیا جا‎ئے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔  
پہلی عالمی جنگ (1914-1919ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ(اتحادیوں) کے خلاف جرمن(محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کے اعلان کا وعدہ کیا جا‎ئے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔
عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
 
دوسرا خفیہ معاہدہ 1917ء بالفور (Balfour Declaration) تھا۔ بالفور اس خط کا متن ہے جو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم یہودیوں کی فاؤنڈیشن کے چیئرمین لارڈراتھس چائلد کو لکھا تھا۔ اس خط میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی کے لیے ایک قومی وطن (National Home) قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ اعلان یہودی مملکت کے مطالبے کو بین الاقوامی پیمانے پر تسلیم کئے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اتحادی طاقتوں نے اعلان بالفور کی تائید کی <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء،ص617-618</ref>۔
عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔دوسرا خفیہ معاہدہ 1917ء میں  اعلان بالفور (Balfour Declaration) تھا۔ بالفور اس خط کا متن ہے جو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم یہودیوں کے فاؤنڈیشن کے چیئرمین لارڈراتھس چائلد کو لکھا تھا۔ اس خط میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی کے لیے ایک قومی وطن (National Home) قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ اعلان یہودی مملکت کے مطالبے کو بین الاقوامی پیمانے پر تسلیم کئے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اتحادی طاقتوں نے اعلان بالفور کی تائید کی <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء،ص617-618</ref>۔


== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی ==
== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی ==
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی  پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کو استعمال کیا۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1% یہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8% یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2% ان کے اختیار میں تھا۔
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی  پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کی اصطلاح استعمال کی ۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1 فیصدیہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8 فیصد یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2 فیصد ان کے اختیار میں تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے واقعات 1917 میں بالفور اعلامیہ کے اجراء کا باعث بنے۔ اس بیان میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا مطالبہ کیا۔  
 
اسی وجہ سے فلسطین پر برطانوی حکومت کے دوران صیہونیوں کی ایک بڑی آبادی نے فلسطینی سرزمین کی طرف ہجرت کی، تاکہ اس عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کے واقعات 1917 میں بالفور اعلامیہ کے اجراء کا باعث بنے۔ اس بیان میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسی وجہ سے فلسطین پر برطانوی حکومت کے دوران صیہونیوں کی ایک بڑی آبادی نے فلسطینی سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ اس عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا۔
 
15مئی 1948ء کی رات فلسطین کے سینے میں صہیونیت نے اپنا خنجر گاڑ دیا <ref>یوسف ظفر، یہودیت، 1997ء، ص268</ref>۔
15مئی 1948ء کی رات فلسطین کے سینے میں صہیونیت نے اپنا خنجر گاڑ دیا <ref>یوسف ظفر، یہودیت، 1997ء، ص268</ref>۔
اس وقت یہودیوں کا فلسطین کی 78% زمین پر قبضہ تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحیرہ روم کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا وسطی علاقہ شامل تھا۔ چونکہ مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا اور غزہ بھی مصری حکومت کے زیر انتظام تھا ، اس لیے یہ دونوں علاقے صیہونیوں کے قبضے سے بچ گئے تھے۔ تاہم، 1967 سے 1995 تک، اسرائیل مغربی کنارے کے 60% اور غزہ کے 40% حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ نیز اس عرصے میں اسرائیل فلسطین کے 97% حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔
اس وقت یہودیوں کا فلسطین کی 78 فیصد زمین پر قبضہ تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحیرہ روم کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا وسطی علاقہ شامل تھا۔ چونکہ مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا اور غزہ بھی مصری حکومت کے زیر انتظام تھا ، اس لیے یہ دونوں علاقے صیہونیوں کے قبضے سے بچ گئے تھے۔ تاہم، 1967 سے 1995 تک، اسرائیل مغربی کنارے کے 60 فیصد اور غزہ کے 40 فیصد حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ نیز اس عرصے میں اسرائیل فلسطین کے 97 فیصد حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔


اسرائیل کے قیام کے دن کو یوم نکبت یا تباہی کا دن کہا جاتا ہے  اور سال 1948 کو نکبت کا سال کہا جاتا ہے۔  نیز اسرائیل سے عرب ممالک (مصر، شام، اردن اور عراق) کی شکست کی وجہ سے سنہ 1967 کو نکسہ کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 6 سال تک جاری رہی اور عرب ممالک کی شکست کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔  
اسرائیل کے قیام کے دن کو یوم نکبت یا تباہی کا دن کہا جاتا ہے  اور سال 1948 کو نکبت کا سال کہا جاتا ہے۔  نیز اسرائیل سے عرب ممالک (مصر، شام، اردن اور عراق) کی شکست کی وجہ سے سنہ 1967 کو "نکسہ" کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 6 سال تک جاری رہی اور عرب ممالک کی شکست کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔  


19/8/1351 کو اسرائیل کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں امام خمینی نے
10 نومبر 1972 کو اسرائیل کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں امام خمینی نےکہا: اسرائیل کی تشلیل کے پیچھے  عظیم استعماری طاقتوں کا مقصد  صرف فلسطین پر قبضہ کرنا نہیں  ہے بلکہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ تمام عرب ممالک کو فلسطین جیسا  حشر کریں گے۔
کہا: عظیم استعماری طاقت کا اسرائیل کو بنانے کا ارادہ نہ صرف فلسطین پر قبضہ کرنا ہے۔ بلکہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو تمام عرب ممالک فلسطین کا حشر کریں گے۔


== رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دینا ==
== رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دینا ==
امام خمینی، رہبر اسلامی جمہوریہ ایران ، 1358۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت میں انہوں نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک جیسے عراق ، ایران ، ہندوستان اور ملائیشیا میں یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوتے ہیں۔  
امام خمینی، رہبر اسلامی جمہوریہ ایران نے  1358 میں  اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک جیسے عراق ، ایران ، ہندوستان اور ملائیشیا میں یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوتے ہیں۔  
== اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام ==
== اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام ==
1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل نے 34 قتل عام کیے جن میں دیر یاسین کا سب سے مشہور قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد بے دردی سے شہید کئے گئے۔ اسرائیل کا ایک اور جرم 1956 میں "خان یونس" کا قتل عام ہے۔ اس جرم میں 250 فلسطینی مارے گئے۔ تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں سے ایک صابرہ اور شتیلا کا قتل ہے ۔ یہ واقعہ 1982 میں پیش آیا تھا جس میں 3297 فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے تھے۔
1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل نے 34 قتل عام کیے جن میں دیر یاسین کا سب سے مشہور قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد بے دردی سے شہید کئے گئے۔ اسرائیل کا ایک اور جرم 1956 میں "خان یونس" کا قتل عام ہے۔ اس جرم میں 250 فلسطینی مارے گئے۔ تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں سے ایک صابرہ اور شتیلا کا قتل عام ہے ۔ یہ واقعہ 1982 میں پیش آیا تھا جس میں 3297 فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے تھے۔
== غزہ کی پٹی ==
== غزہ کی پٹی ==
مہر 1402/اکتوبر 2023 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بارہ روزہ حملے کے دوران 135,000 سے زیادہ رہائشی مکانات کو تباہ کر دیا اور غزہ کے محلوں کو مسمار کر دیا ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3200 سے زائد فلسطینی شہید اور 11000 زخمی ہوئے۔  
مہر 1402/اکتوبر 2023 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بارہ روزہ حملے کے دوران 135,000 سے زیادہ رہائشی مکانات کو تباہ کر دیا اور غزہ کے مکانات کو مسمار کر دیا ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3200 سے زائد فلسطینی شہید اور 11000 زخمی ہوئے۔  
فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے گیارہویں دن تک پانچ سو خواتین اور تقریباً سات سو بچے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ 25 مہر/17 اکتوبر کو اس حکومت نے غزہ کی پٹی کے سب سے اہم اسپتالوں میں سے ایک محمدانی اسپتال (الاحلی العربی) کو زمین بوس کردیا، جس سے 500 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔  
 
فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے گیارہویں دن تک پانچ سو خواتین اور تقریباً سات سو بچے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ 25 مہر/17 اکتوبر کو اس حکومت نے غزہ کی پٹی کے سب سے اہم اسپتالوں میں سے ایک محمدانی اسپتال (الاحلی العربی) کو زمین بوس کردیا، جس میں 500 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔  
== اسرائیل کے خلاف فلسطینی انتفاضہ ==
== اسرائیل کے خلاف فلسطینی انتفاضہ ==
فلسطین پر قبضے کے سالوں کے دوران اس سرزمین نے فلسطینی عوام کی بے شمار بغاوتیں دیکھی ہیں۔ فلسطینی عوام کی پہلی بغاوت 1976 میں ارتھ ڈے انتفاضہ کے نام سے ہوئی تھی۔ ایک اور انتفاضہ 1987 میں ہوا جسے پہلی انتفاضہ یا فلسطینی شاخ انتفادہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ انتفاضہ مغربی کنارے اور غزہ میں ہوا۔ 2000 میں، ایک اور انتفادہ، جسے الاقصیٰ انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی وجہ سے شروع ہوا۔ الاقصیٰ انتفاضہ کے سب سے اہم نعروں میں سے ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور مغربی کنارے سے قابضین کا انخلاء تھا۔ 1987 کے انتفاضہ میں، جو چھ سال تک جاری رہا، 1,540 افراد شہید اور 130,000 زخمی ہوئے۔ 2000 کے انتفاضہ میں 2800 افراد مارے گئے۔  
فلسطین پر قبضے کے سالوں کے دوران اس سرزمین نے فلسطینی عوام کی بے شمار بغاوتیں دیکھی ہیں۔ فلسطینی عوام کی پہلی بغاوت 1976 میں ارتھ ڈے انتفاضہ کے نام سے ہوئی تھی۔ ایک اور انتفاضہ 1987 میں ہوا جسے پہلی انتفاضہ یا فلسطینی شاخ انتفادہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ انتفاضہ مغربی کنارے اور غزہ میں ہوا۔ 2000 میں، ایک اور انتفادہ، جسے الاقصیٰ انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی وجہ سے شروع ہوا۔ الاقصیٰ انتفاضہ کے سب سے اہم نعروں میں سے ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور مغربی کنارے سے قابضین کا انخلاء تھا۔ 1987 کے انتفاضہ میں، جو چھ سال تک جاری رہا، 1,540 افراد شہید اور 130,000 زخمی ہوئے۔ 2000 کے انتفاضہ میں 2800 افراد مارے گئے۔  
confirmed
821

ترامیم