"شہباز شریف" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 76: سطر 76:
وزیراعظم کی حیثیت سے میں پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی سے کہتا ہوں کہ وہ ان بریفنگ کو کیمرے کے پیچھے رکھیں۔ جس میں مسلح افواج کے سربراہان، سیکورٹی ایجنسی کے سربراہ اور خط لکھنے والے سفیر اور پارلیمنٹ کے ارکان شامل ہیں جو سب اس کے خط کی حقیقت جانتے ہیں۔ اگر اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ہم کسی غیر ملکی سازش کا شکار ہوئے ہیں تو میں آپ کو گواہ بنا کر یہاں بلاؤں گا اور کہوں گا کہ میں بطور وزیراعظم استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا۔ یہاں نہ کوئی غدار تھا اور نہ کوئی غدار ہے۔ اگر اس ملک کی جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ڈیڈ لاک سے نہیں مذاکرات سے کام کرنا چاہیے، تفہیم سے کام لینا چاہیے، تقسیم سے نہیں۔<br>
وزیراعظم کی حیثیت سے میں پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی سے کہتا ہوں کہ وہ ان بریفنگ کو کیمرے کے پیچھے رکھیں۔ جس میں مسلح افواج کے سربراہان، سیکورٹی ایجنسی کے سربراہ اور خط لکھنے والے سفیر اور پارلیمنٹ کے ارکان شامل ہیں جو سب اس کے خط کی حقیقت جانتے ہیں۔ اگر اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ہم کسی غیر ملکی سازش کا شکار ہوئے ہیں تو میں آپ کو گواہ بنا کر یہاں بلاؤں گا اور کہوں گا کہ میں بطور وزیراعظم استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا۔ یہاں نہ کوئی غدار تھا اور نہ کوئی غدار ہے۔ اگر اس ملک کی جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ڈیڈ لاک سے نہیں مذاکرات سے کام کرنا چاہیے، تفہیم سے کام لینا چاہیے، تقسیم سے نہیں۔<br>
تبدیلی لفظوں سے نہیں آتی، تبدیلی لفظوں سے آئے تو ہم بہترین ملک بن جائیں گے، اب اس زہریلے پانی کو صاف کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں فرق یہ ہے کہ وہ اس دن وہاں تھے اور سابق وزیر اعظم یہاں تھے اور میں نے کہا تھا کہ میں نے اقتصادی چارٹر تجویز کیا تھا، لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا اس پر میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ اگر اسے مسترد نہ کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت ایسی نہ ہوتی۔<br>
تبدیلی لفظوں سے نہیں آتی، تبدیلی لفظوں سے آئے تو ہم بہترین ملک بن جائیں گے، اب اس زہریلے پانی کو صاف کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں فرق یہ ہے کہ وہ اس دن وہاں تھے اور سابق وزیر اعظم یہاں تھے اور میں نے کہا تھا کہ میں نے اقتصادی چارٹر تجویز کیا تھا، لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا اس پر میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ اگر اسے مسترد نہ کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت ایسی نہ ہوتی۔<br>
بدقسمتی سے پاکستان کو رواں مالی سال میں سب سے زیادہ بجٹ خسارے اور تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سب سے زیادہ ہوگا۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، 60 لاکھ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور 20 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں قرضے تو لیے گئے لیکن ایک اینٹ بھی نہیں ڈالی گئی۔ 71 سال میں اس ملک نے 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا لیکن عمران خان کی حکومت کے دوران یہ قرضہ 20 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔ شہباز شریف اب خود کو پاکستان کا خادم کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ملک کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔
بدقسمتی سے پاکستان کو رواں مالی سال میں سب سے زیادہ بجٹ خسارے اور تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سب سے زیادہ ہوگا۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، 60 لاکھ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور 20 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں قرضے تو لیے گئے لیکن ایک اینٹ بھی نہیں ڈالی گئی۔ 71 سال میں اس ملک نے 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا لیکن عمران خان کی حکومت کے دوران یہ قرضہ 20 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔ شہباز شریف اب خود کو پاکستان کا خادم کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ملک کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔<br>
[[ذوالفقار علی بھٹو]] نے 1974 میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، جب کہ نواز شریف نے دباؤ اور لالچ کو دفاعی لٹریچر سے الگ رکھ کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا۔ یتیم بچوں کو میڈیکل اور تعلیمی الاؤنس دینا نواز شریف کے دور میں شروع ہوا۔ مہنگائی کے اس دور میں سب کچھ راتوں رات نہیں بدلے گا، صرف کمزوروں کے لیے، ہم کم از کم ماہانہ تنخواہ 25 ہزار تک بڑھا دیں گے، اللہ ہمارے سرمایہ داروں کو یہاں مزید سرمایہ کاری کرنے کی توفیق دے، انشاء اللہ ہم اپنے ملک کو سرمایہ کاری کی جنت بنا دیں گے  <ref>[https://jang.com.pk/news/925793 جنگی مقام کی زبان سے لیا گیا ہے]</ref> ۔