سید علی حسینی سیستانی المعروف آیت اللہ سیستانی، عراق کے معروف ایرانی عالم دین ہیں اور مرجع تقلید اثنائے عشری اصولی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ نجف کے حوزہ علمیہ کے مرجع ہیں یا آسان الفاظ میں آیت اللہ عظمٰی ہیں۔ آپ 9 ربیع الاول 1349 ه( 4 اگست 1930) کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے اور 1951 سے نجف اشرف عراق میں قیام پزیر ہیں۔ علاوہ ازیں وہ بعد از جنگ عراق کے ایک اہم سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ آپ نے 2014ء میں داعش کے خلاف فتوی دیا اور رضاکاران نے مل کر داعش کو نیست نابود کر دیا۔ آپ کئی اداروں کے سرپرست ہے۔ آپ 8 اگست 1992 سے آیت اللہ خوئی کے بعد حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم بھی ہے۔ آپ کا دفتر ایران اور عراق میں بھی واقع ہے۔

سید علی سیستانی
سیستانی.jpg
پورا نامسید علی سیستانی
دوسرے نامسید علی حسینی سیستانی
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہمشہد،ایران
اساتذہ
  • آیت اللہ خوئی
  • آیت اللہ محسن الحکیم
  • آیت اللہ بروجردی
  • شیخ حسین حلی
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • مرجع تقلید اثنائے عشری

سوانح عمری

سید علی حسینی سیستانی ۱۳۰۹ مرداد ۱۳۰۹ ہجری شمسی مطابق ۹ ربیع الاول ۱۳۴۹ ہجری قمری میں شہر مشہد میں متولد ہوئے۔ ان کے والد سید محمد باقر شیعہ علمائ میں سے ہیں اور ان کی والدہ سید رضا مھربانی سرابی کی بیٹی تھیں، ان کے جد سید علی سیستانی نجف اشرف میں میرزای شیرازی کے شاگردوں میں سے تھے وہ سن ۱۳۱۸ ق میں ایران واپس آ گئے تھے۔

تعلیم

سید سیستانی نے ابتدائی اور مقدماتی تعلیم مشہد میں حاصل کی اور سن ۱۳۶۰ ق کی ابتدائ میں انہوں نے حوزوی علوم کی مقدماتی تعلیم کا آغاز کیا۔ ادبیات عرب ادیب نیشاپوری سے، شرح لمعہ و قوانین سید احمد مدرس یزدی سے، فقہ و اصول کی سطوح عالی کی کتابیں میرزا ہاشم قزوینی سے پڑھیں اور فلسفہ کے دروس سیف اللہ ایسی میانجی، شیخ مجتبی قزوینی اور میرزا مھدی اصفہانی سے پڑھے، وه نے اسی طرح سے میرزا مہدی آشتیانی اور میرزا ھاشم قزوینی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔

قم

سید علی سیستانی سن ۱۳۶۸ ق میں شہر قم میں وارد ہوئے اور وہاں آیت اللہ بروجردی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی اور اسی طرح وہ آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے تھے۔

اسی دور میں انہوں نے سید علی بھبھانی سے جو محقق تھرانی کے مکتب فقہی کے پیروکار تھے، خط و کتابت کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہوئے قبلہ شناسی کے موضوع پر خامہ فرسائی کی۔ جس کے نتیجہ میں سید علی بھبھانی نے انہیں ۷ رجب ۱۳۷۰ ق کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے سید علی سیستانی کو جن کی عمر اس وقت ۲۱ سال تھی، عمدۃ العلمائ و نخبۃ الفقہائ المدققین کے لقب سے سرفراز کیا اور باقی بحث کو ملاقات کے وقت پر موکول کیا۔

نجف کی طرف ہجرت

وه نے سن ۱۳۷۱ ق میں نجف اشرف کا سفر اختیار کیا اور وہاں مدرسہ بخارایی میں سکونت اختیار کی۔ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ان دونوں دروس میں طولانی مدت تک شرکت کرنے کے علاوہ انہوں نے سید محسن حکیم اور سید محمود شاہرودی کے دروس سے بھی کسب فیض کیا۔

اجتہاد و مرجعیت

سن ۱۳۸۰ ق میں ۳۱ سال کی عمر میں اپنے دو اساتذہ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کیا۔ شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کرنے والے وہ فرد فرید ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی سن ۱۳۸۰ ق کی اپنی ایک تحریر میں وه کے علم رجال اور حدیث پر تسلط کی گواہی دی ہے۔

جمادی الثانیۃ ۱۴۰۹ ق میں اپنے استاد آیت اللہ خوئی کی خواہش پر مسجد خضرائ کے امام جماعت متعین ہوئے۔ اس سے پہلے تک آیت خوئی مسجد خضرائ میں نماز جماعت کا فریضہ ادا کرتے تھے، بیماری کے سبب انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے شاگرد کے سپرد کر دی۔ سید سیستانی ذی الحجہ ۱۴۱۴ ق کے آخری جمعہ اور عراقی حکومت (صدام حسین کے زمانہ میں) کی طرف سے اس مسجد کا دروازہ بند ہونے تک اس میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

وہ ۸ صفر ۱۴۱۳ ق میں آیت اللہ خوئی کے انتقال کے بعد مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۴۱۴ ق میں سید عبد الاعلی سبزواری اور سید محمد رضا گلپایگانی کی رحلت کے بعد اور اس کے بعد محمد علی اراکی اور سید محمد روحانی انتقال کے بعد ان کے مقلدین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا [1]

تصنیفات

آیت اللہ سیستانی کی تالیفات میں کچھ کتابیں نشر ہو چکی ہیں جبکہ بعض تصنیفات ابھی بھی غیر مطبوعہ شکل میں ہیں۔ مطبوعہ کتابوں میں زیادہ تر ان کے فتاوی اور دروس کی تقریرات ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

  • منھاج الصالحین:فتاوی پر مشتمل ہے جو تین جلدوں میں سن ۱۳۱۵ ق میں قم میں طبع ہوئی ہے۔ منھاج الصالحین سید محسن الحکیم کی تالیف ہے، آیت اللہ خوئی نے اپنے فتاوی کو اس پر تطبیق دے کر اور اس میں بعض ابواب و فصول کا اضافہ کرکے شائع کیا ہے۔ اور ان کے بعد ان کے شاگرد سید علی سیستانی نے بھی اسی روش کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کتاب پر آیت اللہ سیستانی کی طرف سے مقدمہ لکھے جانے کی تاریخ ۲۰ ذی الحجۃ ۱۴۱۳ ق ہے [2]۔
  • قاعدہ لا ضرر و لا ضرار: فقہ کے دروس کی تقریرات ہیں، جنہیں سید محمد رضا سیستانی نے تحریر کیا ہے اور یہ کتاب سن ۱۴۱۴ ق میں شائع ہوئی ہے [3]
  • اختلاف الحدیث:دروس حدیث کی تقریرات ہیں، جنہیں سن ۱۳۹۶ میں ان کے ایک شاگرد سید ہاشم ھاشمی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ذاتی طور پر (غیر رسمی طور پر) شائع کیا گیا ہے۔ اس تالیف سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف احادیث کے رفع کے سلسلہ میں آیت اللہ سیستانی کے نظریات، تعادل و تراجیح پر مبتنی ہونے سے زیادہ اس کے اسباب اور منشائ پیدائش کی تجدید پر مشتمل ہیں [4]
  • الرافد فی علم اصول سید منیر سید عدنان القطیفی کی تالیف ہے۔ اس میں آیت اللہ سیستانی کے دروس اصول کی تقریرات ہیں۔ یہ کتاب ایک جلد پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں مکتب امامیہ میں علم اصول فقہ کی اہمیت و منزلت، اس کے ادوار فکری وغیرہ کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے [5]

حوالہ جات

  1. زندگی‌نامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
  2. سیستانی، منهاج الصالحین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۵.
  3. سیستانی، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، قم، ۱۴۱۴ق.
  4. آیت الله العظمی سیستانی و اختلاف الحدیث.
  5. سیستانی، الرافد فی علم الاصول، ۱۴۱۴ق.