"سید علی خامنہ ای" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 238: سطر 238:
اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات  کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت  اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے  پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اختلاف رائے  کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات  کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت  اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے  پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اختلاف رائے  کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
=== صدارت کے دوران سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں ===
=== صدارت کے دوران سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں ===
8 شہریو  1362 کو،آیت اللہ خامنہ ای نے  ، امام خمینی کے حکم پر ثقافتی انقلاب کے ہیڈکوارٹر میں بڑی ترمیم کی ذمہ داری قبول کر لی۔ امام نے یہ حکم یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کے موقع پر اپنے استفسار کے جواب میں جاری کیا۔ نیز، اس نے 19 دسمبر 1363 کو امام خمینی کے پیغام پر مبنی ثقافتی انقلاب کے صدر دفتر میں دوسری تزئین و آرائش کی۔ اس بحالی میں، ثقافتی انقلاب کے صدر دفتر کا نام تبدیل کر کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل رکھ دیا گیا اور صدر اس کونسل کے سربراہ بن گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای جولائی 1368 میں اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے اور ان سالوں کے دوران انہوں نے ملک کی اہم ثقافتی پالیسیوں کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔
8 شہریو  1362 کو،آیت اللہ خامنہ ای نے  ، امام خمینی کے حکم پر ثقافتی انقلاب تنظیم  میں بنیادی ترمیم کی ذمہ داری قبول کر لی۔ امام نے یہ حکم یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کے موقع پرآیت اللہ خامنہ ای  استفسار کے جواب میں جاری کیا۔ اسی طرح انہوں نے ثقافتی انقلاب تنظیم میں 19 آذر 1363 کو امام خمینی کے حکم پر دوسری ترمیم انجام دی ۔ اس ترمیم میں، ثقافتی انقلاب تنظیم  کا نام تبدیل کر کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل رکھ دیا گیا اور صدر جمہوریہ  اس کونسل کے سربراہ بن گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای تیرماہ  1368 میں اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے ۔اس  دوران انہوں نے ملک کی اہم ثقافتی پالیسیوں کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔


آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا آلہ زیادہ فعال ہوا۔ سیاست اور خارجہ تعلقات کی ترقی کے اشارے میں سے ایک صدر کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف ممالک کے دورے تھے، جو صدارت کے پہلے دور میں شروع ہوئے اور دوسرے دور میں ترقی کی۔ انہوں نے اپنے دور صدارت کے پہلے دور میں 15 سے 20 ستمبر 1363 تک شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور میں 23 جنوری سے 3 فروری 1364 تک پاکستان کے ایشیائی اور افریقی ممالک تنزانیہ، زمبابوے، انگولا اور موزمبیق کا سفر کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای کے آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا محکمہ زیادہ فعال ہوا۔ خارجہ پالیسی اور تعلقات کی ترقی کی ایک علامت ، تعلقات کو فروغ دینے کے لیے صدر جمہوریہ کے مختلف ممالک کے دورے تھے، جو صدارت کے پہلے دور میں شروع ہوئے اور دوسرے دور میں ترقی کی۔ انہوں نے اپنی  صدارت کے پہلے دور میں 15 سے 20 شہریور1363 تک شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور میں 23 دیماہ سے 3 بہمن 1364 تک ایشیائی اور افریقی ممالک پاکستان، تنزانیہ، زمبابوے، انگولا اور موزمبیق کا سفر کیا۔11 سے 15 شہریور 1365 تک وہ ہرارے میں ناوابستہ ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ زمبابوے گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سربراہی اجلاس میں تقریر کی اور ناوابستہ ممالک کے بعض سربراہان سے ملاقات اور گفتگو کی۔ انہوں نے 2 سے 6 ماسفند 1367 تک یوگوسلاویہ اور رومانیہ اور 19 سے 26 اردیبہشت1368 تک چین اور شمالی کوریا کا سفر کیا۔
11 سے 15 ستمبر 1365 تک وہ ہرارے میں ناوابستہ ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ زمبابوے گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سربراہی اجلاس میں تقریر کی اور ناوابستہ ممالک کے بعض سربراہان سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس نے 2 سے 6 مارچ 1367 تک یوگوسلاویہ اور رومانیہ اور 19 سے 26 مئی 1368 تک چین اور شمالی کوریا کا سفر کیا۔


31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اور دنیا کی استکباری پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔ ایران کی طرف.
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں  عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔


نیویارک میں مسلمانوں کی نماز جمعہ کی امامت اور اس کے خطبات میں خطاب بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات کے علاوہ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر ممکن ہے۔ عراق کا اسلامی انقلاب۔  تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ جماعتوں سے اسلامی اتحاد پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کے مؤثر مقابلے کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم اسمبلی کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی جنگجوؤں کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا اور ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔
نیویارک میں مسلمانوں کی نماز جمعہ کی امامت اور اس کے خطبات میں خطاب بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات کے علاوہ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر بھی کیا جا سکتاہے۔ عراق کا اسلامی انقلاب۔  تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ جماعتوں سے اسلامی اتحاد پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کے مؤثر مقابلے کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم اسمبلی کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی جنگجوؤں کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا اور ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔


مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملیوں میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھروں پر جانا ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملیوں میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھروں پر جانا ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
confirmed
821

ترامیم