"سید علی خامنہ ای" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 234: سطر 234:
دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں  با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر،  معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر  مدتوں سے  چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر  برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے  تھا۔
دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں  با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر،  معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر  مدتوں سے  چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر  برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے  تھا۔


سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں  اور صراحت  کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب  کسی پر انحصار  نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی  کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل  مقابلہ کرنا، قدس کے  مسئلے  اور  دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ  اور  صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری،  بین الاقوامی میدان میں  اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی  اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں  بااثر موجودگی  شامل ہے۔
سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں  اور صراحت  کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب  کسی پر انحصار  نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی  کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل  مقابلہ کرنا، قدس کے  مسئلے  اور  دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ  اور  صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری،  بین الاقوامی میدان میں  اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی  اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں  بااثر موجودگی درج کرانا شامل ہے۔


اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات  کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت  اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے  پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اختلاف رائے  کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات  کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت  اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے  پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اختلاف رائے  کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
سطر 244: سطر 244:
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں  عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں  عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔


نیویارک میں مسلمانوں کی نماز جمعہ کی امامت اور اس کے خطبات میں خطاب بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات کے علاوہ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر  بھی کیا جا سکتاہے۔ عراق کا اسلامی انقلاب۔  تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ جماعتوں سے اسلامی اتحاد پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کے مؤثر مقابلے کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم اسمبلی کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی جنگجوؤں کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا اور ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔
نیویارک میں نماز جمعہ کی امامت اور خطبات بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات میں ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور عراق  کے اسلامی انقلاب  کی سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر  بھی کیا جا سکتاہے۔   تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ پارٹیوں سے وحدت  اسلامی پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کی نقصان دہ  مقابلہ آرائی کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل  کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی مجاہدین کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا ۔ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔


مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملیوں میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھروں پر جانا ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھر جانا ،ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملنے  اور نزدیک سے  ان کے مسائل جاننے، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنے، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنے اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون کرنے، علماء سے ملاقات، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقات اور اقتصادی مسائل کا جائزہ لینے کے مقصد سے  ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنا ان کی مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں شامل تھا۔
اس کے علاوہ ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنے کا مقصد مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملاقات کرنا اور ان کے مسائل اور مسائل کو قریب سے جاننا، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنا، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنا۔ اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون، علماء سے ملاقاتیں، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقاتیں، اقتصادی مسائل اور مسائل کی تحقیق اور اس طرح کے اقدامات ان کے اقدامات، مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں سے تھے۔
=== امام خمینی کا خط ===
=== امام خمینی کا خط ===
16 جنوری 1366 کو امام خمینی نے ان کے نام ایک خط میں اور تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کی حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت پر غور کیا۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور تمام ثانوی اصولوں پر مقدم ہے اور فقہ مطلق ہے۔ امام کے خط کے جواب میں انہوں نے اپنی نظریاتی اور عملی طور پر امام کے نقطہ نظر کی پاسداری کا اعلان کیا۔
16 دیماہ  1366 کو امام خمینی نے ، تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کے حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کے مد نظر  ان کے نام ایک خط میں  اسلامی حکومت کو  اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیا جو  دیگر  تمام فرعی  احکام پر مقدم ہے نیز ولایت  فقیہ کو  مطلق قرر دیا۔ امام خمینی  کے خط کے جواب میں آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے نقطہ نظر کے سلسلے میں  اپنی نظریاتی اور عملی تائید  کا اعلان کیا۔


اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں بیانات کے بارے میں اپنے ارادے پر تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ایک حصے میں لکھا: میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے پہلے کے برسوں سے گہرا تعلق رہا ہے اور اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ اس کے بازوؤں میں سے ایک ہیں، میں اسلامی جمہوریہ کی طاقت کو جانتا ہوں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہے اور ان پر کاربند ہے، اور جو مطلق العنانیت سے متعلق فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ فقیہ، سورج کے طور پر، آپ روشنی دیتے ہیں.
اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں اپنے  بیانات کے مقصد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور ان  کی تعریف و تمجید  کرتے ہوئے لکھا: ”میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے برسوں پہلے سے گہرا تعلق رہا ہے اور حمد اللہ اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ میری  نظر میں  آپ جمہوری اسلامی کے تواناباز کی حیثیت رکھتے  ہیں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہیں اور ان پر کاربند ہیں، اور جو ولایت فقیہ  مطلقہ سے مربوط فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ اسلام اور اسلامی اصول و مبانی پر کاربند ان نادر افراد میں سے ہیں جو مثل خورشدید روشنی بکھیرتے ہیں۔“


مختلف بلوں کی منظوری میں اسلامی کونسل اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 فروری 1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ اسی بنا پر آیت اللہ خامنہ ای شناخت کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔
مختلف بلوں کی منظوری میں پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 بہمن  1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی(مجمع تشخیص مصلحت نظام) کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای اس کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔


اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران، جیسا کہ انقلاب کی فتح کے بعد کے سالوں میں، وہ امام خمینی کے رشتہ داروں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔
اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران، جیسا کہ انقلاب کی فتح کے بعد کے سالوں میں، وہ امام خمینی کے رشتہ داروں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔
confirmed
821

ترامیم