"حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(ایک ہی صارف کا 24 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 16: سطر 16:
== حدیث راوی ==
== حدیث راوی ==
ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ علوم [[اسلام]] اور [[آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] سے واقف تھے اور حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ متعدد احادیث میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام آیا ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب شریف الغدیر میں ان میں سے بعض کا حوالہ دیا ہے، جیسے:
ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ علوم [[اسلام]] اور [[آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] سے واقف تھے اور حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ متعدد احادیث میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام آیا ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب شریف الغدیر میں ان میں سے بعض کا حوالہ دیا ہے، جیسے:
عن فاطمه بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی... «من کنت مولاه فعلی مولاه» <ref>علامه امینی، الغدیر، ج 1، ص 196</ref>.
ان احادیث کے بیان سے اس خاتون کے اعلیٰ علمی مرتبے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
== اہل بیت کے ساتھ ان کا مقام ==
امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا: من زار المعصومة بقم کمن زارنی
جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی وہ میری زیارت کرنے والے کی طرح ہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عصمت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو عصمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نے یہ لقب بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیا تھا، ورنہ اس نبی کا نام معصومہ نہ ہوتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عصمت کے درجات میں سے ایک درجے میں ہیں، حالانکہ وہ چودہ درجے عصمت میں نہیں ہیں  <ref>ریاحین الشریعه، ج 5، ص 35</ref>۔
ان کے مرتبے کی دلیلوں میں سے ایک وہ احادیث ہیں جو امام رضا علیہ السلام نے ان کی شان میں بیان کی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بعد امام معصوم سے عورت کے لیے واحد زیارت نقل ہوئی ہے جو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت ہے اور خاندان عصمت و عصمت کی عورتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ پاکیزگی کو امام کی خاص زیارت ہے۔
وہ احادیث جو امام صادق علیہ السلام، امام کاظم علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام سے منقول ہیں: امام کاظم علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ کی زیارت کرنے والے کے لیے جنت کا انعام ہے۔
== حضرت معصومہ کی وفات ==
ماہ ربیع الثانی کی 10 تاریخ کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا یوم وفات ہے۔ اپنے بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایران آمد کے ایک سال بعد حضرت معصومہ اپنے کچھ بھائیوں اور بہنوں اور کچھ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایران میں داخل ہوئیں۔
جعفر مرتضیٰ عاملی لکھتے ہیں: "حضرت معصومہ 22 افراد کے قافلے کے ساتھ ایران کے لیے روانہ ہوئیں جو علویوں اور امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں پر مشتمل تھا تاکہ اس امام ہمام سے ملاقات کر سکے۔
البتہ بعض محققین نے اس قافلے میں شامل افراد کی تعداد 400 کے لگ بھگ بتائی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں سے 23 صویح میں مارے گئے تھے۔
حضرت معصومہ اور ان کے ساتھیوں کے سویح پہنچنے کے بعد حکومتی اہلکاروں نے ان سے جھڑپیں کیں اور اس قافلہ کے بہت سے لوگوں کو شہید کر دیا۔ البتہ بعض محققین نے اس قافلے میں شامل افراد کی تعداد 400 کے لگ بھگ بتائی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں سے 23 صویح میں مارے گئے تھے۔
حضرت معصومہ اور ان کے ساتھیوں کے سویح پہنچنے کے بعد حکومتی اہلکاروں نے ان سے جھڑپیں کیں اور اس قافلہ کے بہت سے لوگوں کو شہید کر دیا۔
اسی دوران وہ بیمار پڑ گئے۔ اس نے اپنے خادم سے پوچھا: یہاں سے قم کتنی دور ہے؟ خادم نے کہا: 10 فرسخ۔ حضرت نے فرمایا: مجھے یہاں سے قم منتقل کردو۔ اسی وقت موسیٰ بن خراج جو آل سعد کے بزرگوں میں سے تھے اور قم کے شیعوں میں سے تھے، حضرت معصومہ کی خدمت میں گئے اور ان کے گھوڑے کی لگام اٹھا کر انہیں اپنے گھر لے آئے۔
=== بیماری کی وجہ ===
بعض محققین کا خیال ہے کہ حضرت معصومہ کو ساوه میں زہر دیا گیا اور پھر وہ بیمار حالت میں قم میں داخل ہوئیں۔ اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد شہید ہو گئے۔
محمدی اشتردی لکھتے ہیں: بعض روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے کا واقعہ ساوه میں ایک عورت نے کیا تھا۔
وہ بھی کہتے ہیں۔ حضرت معصومہ نے جب اپنے بھائیوں اور چچا زاد بھائیوں کی پھٹی ہوئی لاشیں دیکھی جو کہ 23 ​​افراد پر مشتمل تھیں تو بہت غمگین ہوئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ 23 ربیع الاول کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قم آمد کے بعد آپ نے 15 دن تک موسیٰ بن خرج کے گھر میں قیام کیا۔ اور اس دوران وہ اپنی بیماری کے ساتھ عبادت اور خدا کی ضرورت میں مصروف رہے۔
== وفات ==
مشہور قول یہ ہے کہ حضرت معصومہ 23 ربیع الاول کو قم میں داخل ہونے کے بعد 17 دن سے زیادہ زندہ نہ رہیں۔ اس لیے ان کی وفات 10 ربیع الثانی کو ہوئی ہوگی۔ علی اکبر مہدی پور لکھتے ہیں: حضرت معصومہ کی وفات کا دن 10 ربیع الثانی 201 ہجری تھا۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد آل سعد کی عورتوں نے بی بی فاطمہ معصومہ کو غسل دیا اور کفن دیا، پھر ان کی میت کو موسیٰ بن خراج کے باغ (ان کے مقدس مزار کا موجودہ مقام) لے جایا گیا۔ اس وقت اشعری لوگوں میں جھگڑا ہوا کہ اس میت کو دفن کرنے کا حقدار کون ہے... اچانک دریائے قم سے دو نقاب پوش سوار آئے اور جب وہ میت مقدس کے قریب پہنچے تو اپنے گھوڑوں سے اتر گئے۔ پہلے اس پر نماز پڑھی اور پھر اس تہہ خانے میں داخل ہوئے جو اس کی تدفین کے لیے تیار کیا گیا تھا اور ایک دوسرے کی مدد سے اسے دفن کیا۔ اور وہ کسی سے بات کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون ہیں۔
بعض محققین نے تجویز کیا ہے کہ یہ دو سوار [[امام رضا علیہ السلام]] اور [[امام جواد علیہ السلام]] تھے۔ خیال رہے کہ حضرت معصومہ کی ولادت ذوالقعدہ 173 ہجری میں ہوئی۔ اور آپ کی وفات کے وقت یعنی سنہ 201 ہجری کے مطابق آپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک 28 سال تھی<ref>نمازی، شیخ علی؛ مستدرک سفینة البحار، مشهد، چاپخانه خراسان، ج8، ص 257</ref>.


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:حضرت معصومه]]
[[fa:حضرت معصومه]]
[[زمرہ:امام زادہ ]]