"حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 22: سطر 22:
امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا: من زار المعصومة بقم کمن زارنی
امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا: من زار المعصومة بقم کمن زارنی


جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی وہ میری زیارت کرنے والے کی طرح ہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عصمت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو عصمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نے یہ لقب بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیا تھا، ورنہ اس نبی کا نام معصومہ نہ ہوتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عصمت کے درجات میں سے ایک درجے میں ہیں، حالانکہ وہ چودہ درجے عصمت میں نہیں ہیں۔
جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی وہ میری زیارت کرنے والے کی طرح ہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عصمت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو عصمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نے یہ لقب بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیا تھا، ورنہ اس نبی کا نام معصومہ نہ ہوتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عصمت کے درجات میں سے ایک درجے میں ہیں، حالانکہ وہ چودہ درجے عصمت میں نہیں ہیں  <ref>ریاحین الشریعه، ج 5، ص 35</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:حضرت معصومه]]
[[fa:حضرت معصومه]]

نسخہ بمطابق 07:14، 20 مئی 2023ء

حضرت معصومه 2.jpg

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پاکیزگی اور معصومیت کے گھرانے کی ایک باوقار لڑکی تھیں۔ شیعہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا احترام کرتے ہیں اور قم میں ان کی زیارت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ جو احادیث حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں بیان کرتی ہیں ان میں شیعوں کے لیے ان کی شفاعت کا ذکر کیا گیا ہے اور جنت کو ان کی زیارت کا ثواب سمجھا گیا ہے۔ آپ کے والد شیعوں کے ساتویں امام حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام تھے اور آپ کی والدہ حضرت نجمہ تھیں جنہیں ان کی پاکیزگی اور پاکیزگی کی وجہ سے طاہرہ کہا جاتا تھا۔ حضرت معصومہ کی شہادت 28 سال کی عمر میں 12 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری کو قم میں ہوئی۔ کہ حضرت دراصل دوسری بتول تھیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود کا مظہر تھے۔ آپ کو اپنی روح کی پاکیزگی میں ایک خاص اور بہت اعلیٰ فضیلت حاصل تھی کہ آٹھویں امام نے اپنے جسمانی بھائی کو جس کا نام فاطمہ معصومہ تھا، بلایا۔ فرمایا: جس نے قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے میری زیارت کی۔ ان کے علم و عرفان کا مقام اس مرحلے پر ہے جہاں ہم ان کی غیر معروف زیارت کے ایک پیراگراف میں پڑھتے ہیں: السلام علیکم اے فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر اور موسیٰ بن جعفر کی طرف سے حجت و امین۔

سوانح حیات

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے مدینہ منورہ میں پہلی ذوالقعدہ سنہ 173 ہجری کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام ہیں جو شیعوں کے ساتویں امام ہیں اور آپ کی والدہ نجمہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ نجمہ سب سے زیادہ نیک خواتین میں سے ایک ہے، تقویٰ اور عزت کے بت میں سے ایک ہے، اور بنی نوع انسان کی تاریخ میں نایاب ترین منشیات میں سے ایک ہے۔

حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی اولاد کی تعداد اور ان میں سے کتنے کا نام فاطمہ رکھا گیا اس میں اختلاف ہے۔ شیخ مفید نے ان کی تعداد سینتیس بتائی ہے۔ انیس لڑکے اور اٹھارہ لڑکیاں، جن میں سے دو کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ الکبری اور فاطمہ الصغریٰ۔ امام رضا علیہ السلام کے بعد حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا زیادہ نیک ہیں اور حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی دیگر اولادوں سے بلند مقام رکھتی ہیں [1].

ان سالوں میں وہ اپنے والد کے ساتھ تھے۔ 10 سال کی عمر میں آپ کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون نے شہید کر دیا۔ غم اور تنہائی کے ان دنوں میں ان کی تسلی کا واحد ذریعہ ان کے بھائی امام رضا علیہ السلام تھے جنہوں نے اچانک امام رضا علیہ السلام کو خراسان میں رہنے پر مجبور کر دیا۔

وہ 201 ہجری میں تھے۔ مرو میں امام رضا علیہ السلام کی آمد کے ایک سال بعد آپ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے باہر نکلے۔ لیکن وہ راستے میں اور سیوح شہر میں بیمار ہو گیا۔ پھر پوچھا کہ سویح اور قم کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ انہوں نے کہا: دس فرسخ۔ اس نے اپنے خادم سے کہا کہ اسے اٹھا کر قم لے آؤ اور وہ موسیٰ بن جعفر خزرج بن سعد اشعری کے گھر اترے۔

ایک اور روایت کے مطابق اور حسن بن محمد بن حسن قمی نے تاریخ قم میں لکھا ہے، صحیح روایت کے مطابق جب رات کو یہ خبر آل سعد تک پہنچی تو اسی رات موسیٰ بن خزرج ان کی طرف سے قم سے نکلے۔ انہیں قم میں مدعو کرنے کے لیے حضرت کی زیارت کرنے اور ان کی دعوت قبول کرنے کے بعد آپ نے خود اپنے اونٹ کی لگام سنبھالی اور اسے قم اور اپنے گھر لے آئے۔ سترہ دن موسی بن خزرج کے گھر میں رہنے کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ ان کی میت کو موسیٰ بن خزرج کی طرف سے نماز ادا کرنے کے بعد بابولان (موجودہ جگہ) کے باغ میں دفن کیا گیا۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض نے اس کی عمر اٹھارہ یا اس سے زیادہ لکھی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک ان کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون الرشید کے حکم سے 179 قمری میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا اور چار سال تک قید میں رہے۔ وہیں شہید ہوئے، اسی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے 2011 میں وفات پائی، ان کی عمر کم از کم 22 سال تھی۔ بعض نے حضرت معصومہ کی تاریخ پیدائش یکم ذوالقعدہ 173 قمری سال اور وفات کی تاریخ 10 ربیع الثانی 201 قمری سال بھی بتائی ہے [2].

حدیث راوی

ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ علوم اسلام اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف تھے اور حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ متعدد احادیث میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام آیا ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب شریف الغدیر میں ان میں سے بعض کا حوالہ دیا ہے، جیسے:

عن فاطمه بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی... «من کنت مولاه فعلی مولاه» [3]. ان احادیث کے بیان سے اس خاتون کے اعلیٰ علمی مرتبے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اہل بیت کے ساتھ ان کا مقام

امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا: من زار المعصومة بقم کمن زارنی

جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی وہ میری زیارت کرنے والے کی طرح ہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عصمت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو عصمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نے یہ لقب بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیا تھا، ورنہ اس نبی کا نام معصومہ نہ ہوتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عصمت کے درجات میں سے ایک درجے میں ہیں، حالانکہ وہ چودہ درجے عصمت میں نہیں ہیں [4]۔

حوالہ جات

  1. سیرت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا، مختار اصلانی
  2. نورالآفاق، جواد شاه‌عبدالعظیمی
  3. علامه امینی، الغدیر، ج 1، ص 196
  4. ریاحین الشریعه، ج 5، ص 35