65
ترامیم
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
(ایک دوسرے صارف 2 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
سطر 143: | سطر 143: | ||
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا <ref>ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاءالتراث العربی، ج۳، ص۱۰۶</ref>. | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا <ref>ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاءالتراث العربی، ج۳، ص۱۰۶</ref>. | ||
=== جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل === | === جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل === | ||
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں | سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں ۔یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔اس سال رسول الله کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔آخرکار بنی نضیر کے یہودیوں کو علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔ | ||
اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224</ref> | اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224</ref> | ||
سطر 160: | سطر 160: | ||
=== جنگ خیبر === | === جنگ خیبر === | ||
7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ | 7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں پر فتح حاصل کی جو دشمنوں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف کئی بار سازشیں کر چکے تھے۔ خیبر کا قلعہ مدینہ منورہ کے قریب واقع تھا۔ مسلمانوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہودی اس علاقے میں کاشتکاری جاری رکھیں گے اور ہر سال اپنی فصل کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔ | ||
جنگ خیبر میں | جنگ خیبر میں ایک قلعے کو فتح کرنا مشکل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بالترتیب [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]] کو فتح کرنے کے لیے بھیجا۔ لیکن وہ ناکام رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے علم حضرت علی علیہ السلام کو دیا۔حضرت علی نے قلعہ فتح کر لیا <ref>ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 411-410</ref>۔ | ||
== صلح حدیبیہ == | == صلح حدیبیہ == | ||
جنگ احزاب ، بنی قریظہ کے یہودیوں کا ہتھیار ڈالنا اور دو تین جنگیں جو ہجرت کے چھٹے سال میں ہوئیں اور مسلمانوں کے مفاد میں ختم ہوئیں اور ان جنگوں سے جو مال غنیمت حاصل ہوا ان سب سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ جزیرہ نما کے باشندوں میں سے بہت سے قبیلے مسلمان ہو گئے یا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ | |||
6 ہجری کے | سن 6 ہجری کے ذیقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مدینہ منورہ سے 1500 لوگوں کے ساتھ عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ جب قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو روکنے کی تیاری کی۔ سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کو مکہ پہنچنے سے روکنے کے لئے '''خالد بن ولید''' اور عکرمہ بن ابی جہل کو بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم حدیبیہ نامی جگہ پر اترے جہاں سے حرم کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور اہل مکہ کو پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ حج کے لیے آئے ہیں۔ قریش نے قبول نہیں کیا۔ | ||
آخرکار | آخرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور اہل مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ اس سال مسلمان مکہ میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اگلے سال ان دنوں شہر کے لوگ مسلمانوں کی زیارت کے لئے مکہ خالی کر دیں گے۔ اس معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ اہل مکہ میں سے جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس آئے گا اسے مکہ واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مدینہ سے مکہ گیا تو قریش اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ ہر قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ساتھ معاہدے میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔ | ||
بعد میں قریش نے اس شرط کی تعمیل | بعد میں قریش نے اس شرط کی تعمیل نہیں کی جو فتح مکہ کا سبب بنا۔ | ||
=== خدا کے گھر کی زیارت === | === خدا کے گھر کی زیارت === | ||
7 ہجری | 7 ہجری کے ذیقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم صلح حدیبیہ کی وجہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور مسلمانوں کا مسجد الحرام میں داخل ہونا اور عمرہ ادا کرنا، اس تقریب کی شان و شوکت اور وہ حترام اور تقدس جس کا مظاہرہ مسلمانوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا اس سے قریش کی نظروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کی عظمت بڑھ گئی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ان میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو بزرگ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص مدینہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ | ||
== فتح مکہ == | == فتح مکہ == | ||
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ | میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ | ||
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور اسے رسول اللہؐ کی خدمت میں لے کر آئے ۔ ابو سفیان مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوتے ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا: '''لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده ک'''وئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کے جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو شکست دے دی۔ | |||
''' | |||
رسول الله دو ہفتوں تک مکہ میں رہے اور انہوں نے شہر کے امور و معاملات کو سدھارا۔ آپ نے کچھ افراد مکہ کے اطراف میں بھجوا کر بت خانوں کو منہدم کروادیا اور کعبہ میں موجود بت بھی منہدم کر وادئے۔آپ نے | رسول الله دو ہفتوں تک مکہ میں رہے اور انہوں نے شہر کے امور و معاملات کو سدھارا۔ آپ نے کچھ افراد مکہ کے اطراف میں بھجوا کر بت خانوں کو منہدم کروادیا اور کعبہ میں موجود بت بھی منہدم کر وادئے۔آپ نے اہل مکہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جس کے بموجب اسلام کی بردباری اور اس دین مبین کے پیغمبر کی عظمت و کرامت مخالفین کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ جب انھوں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ "آج میں نے تم سب کو آزاد کردیا"، تو اسی لمحے انہوں نے اسلام دشمنوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ | ||
نبی صلی اللہ علیہ | نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے مکہ میں قیام کو پندرہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جزیرہ نما عرب کے متعدد غیر مسلم قبیلے آپ کے خلاف متحد ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلے اور جب حنین نامی گاؤں میں پہنچے تو آس پاس کی وادیوں میں چھپے ہوئے دشمنوں نے تیر اندازی شروع کردی۔ تیر اندازی کی شدت اس قدر تھی کہ اسلام کا لشکر پیچھے ہٹ گیااور ایک چھوٹا سا گروہ آگے رہ گیا، لیکن آخر کار فرار ہونے والے واپس آگئے اور دشمن کے لشکر پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ <ref>واقدی، ج۲، ص۸۸۵</ref> | ||
فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ | فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس آئے اور اسلام اور اطاعت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شفقت، محبت اور توجہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس لیے اس سال کو سنۃ الفود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ | ||
== مباہلہ == | == مباہلہ == | ||
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے | نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طے پایا کہ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوں ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا۔ | ||
== حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ == | == حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ == | ||
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذیقعدہ سنہ 10 ہجری کو اپنے آخری حج کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر کے دوران آپؐ نے لوگوں کو احکام حج کی تعلیم دی۔ قریش نے اسلام سے قبل اپنے لئے بعض حقوق اور امتیازات مختص کر رکھے تھے۔ وہ خانہ کعبہ کی کلید داری، پردہ داری، ضیافتیں دینے اور حاجیوں کو پانی دینے (سقایت) جیسے عہدوں کو اپنے لئے مختص کرچکے تھے اور علاوہ ازیں آداب زیارت میں بھی اپنے لئے دوسرے قبائل کی نسبت جدا اور ممتاز حیثیت کے قائل تھے۔ | |||
اس سفر کے دوران | اس سفر کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تمام چيزوں کا خاتمہ کیا جنہيں قریش زیارت خانۂ خدا میں، اپنے لئے، امتیازی خصوصیت سمجھتے تھے۔ ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ کا طواف پاکیزہ لباس پہن کر بجا لانا چاہئے اور کپڑا صرف اس وقت پاک ہوتا ہے جب وہ قریش سے خریدا جاتا ہے۔ اگر قریش کسی کو طواف کا کپڑا نہ دیتے تو اس کو برہنہ ہوکر طواف کرنا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ قریشی دیگر حجاج کی مانند عرفات سے حج کے لئے کوچ نہیں کرتے تھے بلکہ مزدلفہ سے کوچ کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ امتیازی خصوصیت قریش سے چھین لی اور فرمایا: | ||
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔ | ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔ | ||
اور لوگوں نے دیکھا کہ | اور لوگوں نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو خود قریش میں سے ہیں دوسرے لوگوں کے ہمراہ عرفات سے کوچ کررہے ہیں۔ اسی سفر میں رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! نہیں معلوم کہ میں اگلے سال کو دیکھ سکوں گا یا نہيں! اے لوگو! میں جاہلیت کے زمانے میں بہایا گیا خون پاؤں تلے روندتا ہوں [اور پرانے بدلے منسوخ کرتا ہوں]؛ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام ہے اس وقت تک کہ اپنے خدا سےملاقات کرلو۔ | ||
=== غدیر خم === | === غدیر خم === | ||
جب | جب اپ حج کرکے مدینہ واپسی کے لئے مکہ سے نکلے تو غدیر خم کے نام سے مشہور مقام پر جہاں مصر، حجاز اور عراق کے لوگوں کا راستہ جدا ہوتا ہے، خدا کا حکم آیا کہ آپ [[علی علیہ السلام]] کو اپنا جانشین مقرر کریں، اور واضح طریقے سے اسلامی حکومت کی تقدیر کا فیصلہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسلمانوں سے فرمایا جن کی تعداد نوے ہزار یا ایک لاکھ تھی: | ||
''' | '''”من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحبّ من احبّه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وأدار الحق معه حیث دار“''' | ||
حج سے واپسی کے بعد جب کہ اسلام | حج سے واپسی کے بعد جب کہ اسلام کی فکر روز بروز بڑھ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صحت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ لیکن بیماری کے باوجود آپ نے جنگ موتہ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اسامہ بن زید کی سربراہی میں لشکر تیار کیا۔ لیکن اس لشکر کے مشن پر جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ جب اللہ کا نبی اپنے پروردگار سے ملاقات کے لئے روانہ ہوا تو آپ کی برکت سے پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی اتحاد قائم ہو چکا تھا اور اسلام ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کی سرحدوں تک پہنچ چکا تھا۔ | ||
== وفات == | == وفات == | ||
سن 11 ہجری قمری کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بیمار ہو گئے۔ جب آپ کی بیماری شدید ہوگئی تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک کا حکم دیا اور فرمایا: اگر میری گردن پر کسی کا حق ہے تو وہ اسے حلال کرے اور اگر میں نے کسی کی دل آزاری کی ہے تو میں بدلے کے لئے تیار ہوں۔ | |||
اہل سنت کی سب سے اہم کتاب بخاری کی مستند روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی زندگی کے آخری ایام میں جب صحابہ کی ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی عیادت کے لیے گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک قلم اور کاغذ لے آؤ تاکہ میں تمہارے لئے کچھ لکھ سکوں جس کی برکت سے تم کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے کہا: بیماری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر قابو پالیا ہے (اور وہ بدحواس ہیں) اور ہمارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ | |||
وہاں موجود لوگوں میں ہنگامہ اور اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا: | وہاں موجود لوگوں میں ہنگامہ اور اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا: قلم دوات لے آؤ تاکہ نبی لکھیں اور بعض نے دوسری بات کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: اٹھو اور میرے پاس سے چلے جاؤ۔ | ||
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات گیارہویں قمری سال کی 28 صفر کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو پیغمبر کا سر امام علی علیہ السلام کے سینے اور گردن کے درمیان تھا <ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص۵۳۷</ref>. | آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات گیارہویں قمری سال کی 28 صفر کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو پیغمبر کا سر امام علی علیہ السلام کے سینے اور گردن کے درمیان تھا <ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص۵۳۷</ref>. | ||
اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔ | اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔ | ||
== آپ کی شخصیت == | == آپ کی شخصیت == | ||
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان رہے ۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے تبلیغ رسالت کا آغاز کیا تب بھی مشرکین کبھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کرتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: | |||
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ | قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ ؛ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں | ||
منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟ | منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟ سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1</ref>۔ | ||
=== اخلاق === | === اخلاق === | ||
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی اخلاق تھا۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے ’’تم اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہو۔“ | ||
رسول اللہ صلی اللہ علیہ | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اخلاق اور اوصاف کے متعلق مروی ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت کے سوا کچھ نہیں بولتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنا منہ پوری طرح سے نہیں کھولا، آپ زیادہ تر مسکرایا کرتے تھے اور کبھی اونچی آواز میں نہیں ہنستے تھے۔جب آپ کسی کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے تو اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف مڑ جاتے تھے۔ | ||
آپ کو صفائی اور خوشبو سے اتنی دلچسپی تھی کہ جب آپ کسی جگہ سے گزرتے تو یچھے آنے والے خوشبو کے اثر سے آپ کی موجودگی کو پا لیتے تھے۔ آپ مکمل سادگی سے رہتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔ | |||
آپ نے کبھی پیٹ بھرکر کھانا نہیں کھایا۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا جب آپ مکمل فاقہ کرتے تھے۔ | |||
مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی | مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی آپ کا برتاؤ ہمدردی، بڑائی، درگزر اور مہربانی پر مبنی تھا۔ ان کی سیرت اور زندگی مسلمانوں کےلئے اس قدر خوشنما تھی کہ وہ اس کی تمام تر تفصیلات سینہ بہ سینہ بیان کرتے تھے اور آج بھی اسے اپنی زندگی اور مذہب کے لیے بطور نمونہ استعمال کرتے ہیں۔ | ||
آپ کی | آپ کی خاکساری ایسی تھی کہ آپ نوکروں کی طرح زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جب سے آپ بھیجے گئے ہیں کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا۔ | ||
امیر المومنین نبی کریم صلی اللہ علیہ | امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چہرے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو سابقہ آشنائی کے بغیر دیکھتا وہ ہیبت زدہ ہوجاتا اور جو آپ کے ساتھ میل جول رکھتا اور آپ سے آشنا ہوجاتاوہ آپ سے محبت کرتا تھا۔ | ||
رسول اللہ صلی اللہ علیہ | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنی نگاہیں صحابہ کے درمیان بانٹ لیتے تھے اور سب کو برابری کی نظر سے دیکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے جب تک سامنے والا نہ چھڑا لے۔ | ||
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر | رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص سے اس کی استطاعت اور عقل کے مطابق بات کرتے تھے۔ جس نے بھی آپ پر ظلم کیا ،اسے معاف کر دیا۔یہاں تک کہ آپ نے اسلام کے پرانے دشمن ابو سفیان کو بھی معاف کردیا۔ | ||
وحشی | جناب حمزہ کے قاتل وحشی نے بھی جب اسلام قبول کیا تو آپ نے اسے بھی معاف کر دیا بس اتنا کہا کہ میری نظرو ں سے دور رہو <ref>هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15</ref>۔ | ||
=== زہد === | === زہد === | ||
پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری | پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری زندگی میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ ساری زندگی سونے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔ | ||
گھر اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھ۔ آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔ | |||
ایک روز فاطمہ | ایک روز جناب فاطمہ سلام اللہ علیہھا جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لائی اور عرض کیا: بابا جان ! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول الله نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: "جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے۔ کبھی کبھی تو آپ انتہائی بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔ | ||
وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے | وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے پاس گروی تھی <ref>مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219</ref> | ||
=== نظم و انضباط اور آراستگی === | === نظم و انضباط اور آراستگی === | ||
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے معاملات بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کا ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون ۔نماز کی صفوں کو اس طرح منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا۔ | |||
شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔ | شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔ | ||
آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی | آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی کیا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کرتےتھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، مسواک اور قینچی <ref>حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352 | ||
</ref> | </ref> | ||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
[[زمرہ: چودہ معصومین ]] | [[زمرہ: چودہ معصومین ]] | ||
[[زمرہ:اہل بیت ]] | [[زمرہ:اہل بیت ]] |