Jump to content

"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 211: سطر 211:
اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔
اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔
== آپ کی شخصیت ==
== آپ کی شخصیت ==
پیغمبرؐ نے بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان بسر کئے تھے۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے ابلاغ رسالت کا آغاز کیا تو مشرکین کبھی بھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کردیتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان رہے ۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک   صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے تبلیغ رسالت کا آغاز کیا تب بھی  مشرکین کبھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کرتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:


قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ ؛ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں
ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں)


منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اور اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1</ref>۔
منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟ سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1</ref>۔
=== اخلاق ===  
=== اخلاق ===  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی اخلاقی جہت تھی۔ قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے کہ ’’تم ایک عظیم اور قیمتی اخلاق پر بھروسہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی اخلاق تھا۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے ’’تم اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہو۔“


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اوصاف بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت کے سوا کچھ نہیں بولتے تھے۔ اس نے کبھی اپنا منہ پوری طرح سے نہیں کھولا، وہ زیادہ تر مسکراتا تھا اور کبھی اونچی آواز میں نہیں ہنستا تھا، کیونکہ وہ کسی کی طرف متوجہ ہونا چاہتا تھا، وہ اپنے پورے جسم کے ساتھ واپس مڑ جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اخلاق اور اوصاف کے متعلق  مروی ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت کے سوا کچھ نہیں بولتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنا منہ پوری طرح سے نہیں کھولا، آپ  زیادہ تر مسکرایا کرتے  تھے اور کبھی اونچی آواز میں نہیں ہنستے تھے۔جب آپ  کسی کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے تو  اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف مڑ جاتے تھے۔


اسے صفائی اور خوشبو سے اتنی دلچسپی تھی کہ جب وہ کسی جگہ سے گزرتا تو اس کے پیچھے آنے والے اس کی خوشبو کے اثر سے اس کی موجودگی کو پا لیتے تھے۔ وہ مکمل سادگی سے رہتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔
آپ کو  صفائی اور خوشبو سے اتنی دلچسپی تھی کہ جب آپ  کسی جگہ سے گزرتے تو یچھے آنے والے خوشبو کے اثر سے آپ  کی موجودگی کو پا لیتے تھے۔ آپ  مکمل سادگی سے رہتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔


اس نے کبھی پیٹ بھرنے تک نہیں کھایا، اور بہت سے معاملات میں، خاص طور پر جب وہ ابھی مدینہ پہنچے تھے، اس نے بھوک کو قبول کیا۔ اس سب کے باوجود، کیونکہ وہ ایک راہب کے طور پر نہیں رہتے تھے، اس نے کہا کہ اس نے دنیا کی نعمتوں سے حد تک فائدہ اٹھایا، اس نے ایک ہی وقت میں روزہ رکھا اور عبادت کی۔
آپ  نے کبھی پیٹ بھرکر کھانا نہیں کھایا۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا جب آپ  مکمل فاقہ کرتے تھے۔


مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ان کا برتاؤ ہمدردی، بڑائی، درگزر اور مہربانی پر مبنی تھا۔ ان کی سیرت اور زندگی مسلمانوں کے دلوں کو اس قدر خوشنما تھی کہ وہ اس کے نہایت مفصل حصے سینہ بہ سینہ بیان کرتے تھے اور آج بھی اسے اپنی زندگی اور مذہب کے لیے بطور نمونہ استعمال کرتے ہیں۔
مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی آپ  کا برتاؤ ہمدردی، بڑائی، درگزر اور مہربانی پر مبنی تھا۔ ان کی سیرت اور زندگی مسلمانوں کےلئے  اس قدر خوشنما تھی کہ وہ اس کی تمام تر  تفصیلات  سینہ بہ سینہ بیان کرتے تھے اور آج بھی اسے اپنی زندگی اور مذہب کے لیے بطور نمونہ استعمال کرتے ہیں۔


آپ کی عاجزی ایسی تھی کہ آپ نے نوکروں کی طرح کھانا کھایا اور زمین پر بیٹھ کر کھایا اور امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جب سے آپ بھیجے گئے ہیں کبھی ٹیک لگا کر نہیں کھایا۔
آپ کی خاکساری  ایسی تھی کہ آپ نوکروں کی طرح زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جب سے آپ بھیجے گئے ہیں کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا۔


امیر المومنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر واقفیت کے دیکھا وہ خوف سے بھر جائے گا۔ ہر وہ شخص جو اس کے ساتھ میل جول رکھتا تھا اور اسے جانتا تھا اس سے محبت کرتا تھا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چہرے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو سابقہ  آشنائی کے بغیر   دیکھتا وہ ہیبت زدہ ہوجاتا اور  جو آپ کے ساتھ میل جول رکھتا اور آپ سے آشنا ہوجاتاوہ آپ  سے محبت کرتا تھا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نگاہیں صحابہ کے درمیان بانٹ لیتے تھے اور سب کو برابر کی رائے دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے مصافحہ نہیں کیا، جب تک کہ دوسرے فریق نے ہاتھ نہ ملایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنی نگاہیں صحابہ کے درمیان بانٹ لیتے تھے اور سب کو برابری  کی نظر سے دیکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے جب تک سامنے والا نہ چھڑا لے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی سے اس کی استطاعت اور عقل کے مطابق بات کرتے تھے۔ جس نے بھی اس پر ظلم کیا تھا اس کی معافی اور معافی سب کو معلوم تھی کہ اس نے اسلام کے پرانے دشمن ابو سفیان کو بھی معاف کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص سے اس کی استطاعت اور عقل کے مطابق بات کرتے تھے۔ جس نے بھی آپ  پر ظلم کیا ،اسے  معاف کر دیا۔یہاں تک کہ آپ نے اسلام کے پرانے دشمن ابو سفیان کو بھی معاف کردیا۔


وحشی کے اسلام قبول کرنے اور حمزہ کے قتل کے بارے میں اس کی رپورٹ کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا اور اس سے کہا: اپنی نظریں میری نظروں سے دور رکھیں <ref>هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15</ref>۔
جناب حمزہ کے قاتل وحشی نے بھی جب اسلام قبول کیا تو آپ نے اسے بھی معاف کر دیا بس اتنا کہا کہ میری نظرو ں سے دور رہو <ref>هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15</ref>۔
=== زہد ===
=== زہد ===
پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری حیات میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ اپنی پوری عمر کے دوران سونے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔
پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری زندگی  میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ ساری زندگی سونے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔


منزل اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھا، آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔
گھر  اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھ۔ آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔


ایک روز فاطمہ(س) جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لے آئیں اور عرض کیا: بابا جان یا رسول الله! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول الله نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: "جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے۔ کبھی تو آپ حتی نہایت بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔
ایک روز جناب فاطمہ سلام اللہ علیہھا جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لائی  اور عرض کیا: بابا جان ! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول الله نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: "جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے۔ کبھی کبھی تو آپ انتہائی  بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔


وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے ہاتھ گروی تھی <ref>مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219</ref>
وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے پاس  گروی تھی <ref>مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219</ref>
=== نظم و انضباط اور آراستگی ===
=== نظم و انضباط اور آراستگی ===
رسول الله زندگی کے امور میں بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کے لئے ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون وغی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی  زندگی کے معاملات  بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کا ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون ۔نماز کی صفوں کو اس طرح منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا۔
 
نماز کی صفوں کو اس طرح سے منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا


شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔


آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی لگایا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کردیتے تھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔
آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی کیا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کرتےتھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، مسواک اور قینچی <ref>حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352
آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دان، کنگھی، مسواک اور قینچی <ref>حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352
</ref>
</ref>


confirmed
821

ترامیم