"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک دوسرے صارف 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 94: سطر 94:
بعثت  کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک آپ کے  دین کا پیغام پہنچانے کا وعدہ  کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھوں پر  بیعت  کی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گے، غیبت نہ کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ و سلم کے نیک کاموں میں ان  کی اطاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔
بعثت  کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک آپ کے  دین کا پیغام پہنچانے کا وعدہ  کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھوں پر  بیعت  کی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گے، غیبت نہ کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ و سلم کے نیک کاموں میں ان  کی اطاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔


سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج  سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عباس پہلے خطیب تھے جنہوں نے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھا رکھا۔
سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج  سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے عباس نے تقریر کرتےہوئے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھابچائے  رکھا۔


اب وہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کی برائیوں کو اس سے روکنے کی طاقت دیکھتے ہو تو کیا بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب یا رسول اللہ! کہو جو تمہیں اور تمہارے خدا کو پسند ہے!" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت کرتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں سے دشمن اور اس کے دوستوں کے ساتھ دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ ​​میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس عہد کو جنگ کا عہد کہا گیا۔ اس عہد کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دی۔
اب یہ  آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کے شر  کو اس سے روکنے کی طاقت رکھتے ہو تو بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب ائے  اللہ کے  رسول! کہئے جو آپ کو  اور آپ کے خدا کو پسند ہے! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں کے دشمن اور اس کے دوستوں کے دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ ​​میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس معاہدہ  کو جنگ کا معاہدہ کہا گیا۔ اس معاہدہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دے دی۔
=== دار الندوۃ کی سازش ===
=== دار الندوۃ کی سازش ===
قریش جب یثرب کے لوگوں سے رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔ قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے تمام افراد یک لخت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔
قریش جب یثرب کے لوگوں کے ساتھ  رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔ قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی ۔باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے۔ تمام افراد بیک وقت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔


اس نقشے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور 3 دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 60</ref>۔  
اس منصوبے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور 3 دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھہرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 60</ref>۔  
== ہجرت مدینہ ==
== ہجرت مدینہ ==
رسول خدا کے [[مکہ]] سے نکلنے اور مدینے پہنچنے کی تاریخ میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا وہ لکھتا ہے ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی 12ویں تاریخ بروز سوموار ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ 1 ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی 12 بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ 8 ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے 12ویں سال ربیع الاول کے 9 دن سفر میں رہے اور 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر622سن عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔
رسول خدا کے [[مکہ]] سے نکلنے اور مدینہ پہنچنے کی تاریخ کے متعلق مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا، وہ لکھتا ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی 12ویں تاریخ بروز پیر ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ 1 ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی 12 بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ 8 ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے 12ویں سال ربیع الاول کے 9 دن سفر میں رہے اور 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر سن 622 عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔یغمبر کی مکہ سے [[مدینہ]] کی جانب  ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی جسے مسجد قبا کہا جاتا تھا.
پیغمبر کی مکہ سے [[مدینہ]] ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی اسے مسجد قبا کہا جاتا تھا.


حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ رہے اور آپ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے ملحق ہو گئے۔
حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں  رہے اور آپ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کی۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین کو  لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے جا ملے۔


رسول خدا 12 ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پرھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپکی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ حکم دے دیا گیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟ بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد النبی کی بنیاد ہے ۔ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ کے حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے.
رسول خدا 12 ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پرھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپ کی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ مامور  ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟ گھوڑا بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد نبوی  کی بنیاد ہے ۔ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے۔


رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ صفہ بنایا گیا تا کہ وہاں مستمد حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔
رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ ”صفہ“ بنایا گیا تا کہ وہاں ضرورت مند  حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا اور حضرت علی علیہ السلام  کو اپنا بھائی بنایا۔
دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان صیغۂ اخوت قائم کیا اور رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا


ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے انہیں منافقان کہتے تھے۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تا ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے
ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے تھے انہیں منافقین کہا جاتا  تھا۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے۔
== منافقین اور یہودی ==
== منافقین اور یہودی ==
اس کے باوجود کہ اکثر یثربی عوام یا تو مسلمان تھے یا پھر رسول اللہؐ کے حامی تھے، ایسا بھی نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی ـ جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اور محمدؐ کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو چکا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور اس کے باوجود کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر محمد اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 68-67</ref>۔
گو کہ عوام کی اکثریت  مسلمان تھی یا پھر رسول اللہؐ کی حامی لیکن ایسا نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی ـ جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اورحضرت  محمدؐ(ص) کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو گیا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور باوجوداس کے کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر نبی کریم (ص) اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 68-67</ref>۔


اس گروہ نے ـ جنہيں قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے
اس گروہ نے ـ جسے قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا۔ کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے۔خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کا رسول  تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتا ہےاور جانتا ہے کہ تم نے اسلام  کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے:'''إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ'''<ref>منافقون 1</ref>
خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کے پیغمبر تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تم نے مسلمانی کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال قرار دیا ہے:
'''إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ'''<ref>منافقون 1</ref>


اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ 9 ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری و بےآہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب محمدؐ اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا
اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ 9 ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری اور بےہم آہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب حضرت  محمدؐ (ص)اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا


علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد محمدؐ کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔
علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد حضرت  محمدؐ(ص) کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔
یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب مین قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔


بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا ربط توڑ کر رکھ دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا تعلق ختم کر دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں  يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَ اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ كِينَ۔
عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں   
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَ اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ كِينَ۔
== قبلہ کی تبدیلی ==
== قبلہ کی تبدیلی ==
[[علامہ طباطبائی]] کے مطابق اکثر منابع کے مطابق قبلہ کی تبدیلی ہجری کے دوسرے سال رجب کے مہینے میں ہوئی۔
[[علامہ طباطبائی]] کے بقول  اکثر منابع کے مطابق قبلہ کی تبدیلی ہجرت کے دوسرے سال رجب کے مہینے میں ہوئی۔امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس سے پہلے مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمت لگاتے تھے اور کہتے تھے:محمد کے پاس اپنا قبلہ بھی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم نے اسے بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے مغموم ہوئے یہاں تک کہ ایک دن آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور نماز کے درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا اور آیت قبلہ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 نازل ہوئی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنی نماز کی دو رکعتیں یروشلم کی طرف اور دو مزید رکعتیں کعبہ کی طرف ادا کیں جس کے نتیجے میں یہودی اور منافقین غیظ و غضب کا شکار ہو گئے، <ref>تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-71۔</ref>
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس سے پہلے مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے تھے اور کہتے تھے: تم ہماری اطاعت کرو اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈانٹ سے ناراض ہوئے یہاں تک کہ ایک دن آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور نماز کے درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا اور آیت قبلہ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 نازل ہوئی۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کی دو رکعتیں یروشلم کی طرف اور دو مزید رکعتیں کعبہ کی طرف ادا کیں جس کے نتیجے میں یہودیوں کا احتجاج اور شور مچ گیا  شہیدی، <ref>تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-71۔</ref>
== مدینہ میں جنگیں اور تنازعات ==
== مدینہ میں جنگیں اور تنازعات ==
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ بہت سی جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ بہت سی جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں۔
=== جنگ بدر ===
=== جنگ بدر ===
جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے ساتھ عقبہ کا دوسرا معاہدہ کیا، اس وقت سے قریش کے ساتھ تصادم کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔
جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے ساتھ عقبہ کا دوسرا معاہدہ کیا، اسی وقت سے قریش کے ساتھ تصادم کی توقع کی جا رہی تھی۔پہلا [[غزوہ]] ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ہوا جسے ابواء یا ودان کی مہم کہا جاتا ہے۔اس مہم میں کوئی تصادم نہیں ہوا۔ اس کے بعد [[ربیع الاول]] میں بواط کی مہم  ہوئی۔اس میں بھی کوئی تصادم  نہیں ہوا۔ [[جمادی الاول]] میں یہ خبر پہنچی کہ قریش کا قافلہ [[ابوسفیان]] کی قیادت میں مکہ سے [[شام]] کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔پیغمبر نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول الله کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھے <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 73</ref>
پہلی [[غزوہ]] ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ہوا جسے ابواء یا ویدان کی مہم کہا جاتا ہے۔
اس مہم میں کوئی تصادم نہیں ہوا۔ اس کے بعد [[ربیع الاول]] میں بوت کی لڑائی ہوئی جس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ [[جمادی الاول]] میں یہ خبر پہنچی کہ قریش کا قافلہ [[ابوسفیان]] کی قیادت میں مکہ سے [[شام]] کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔
پیغمبر نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول الله کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھ <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 73</ref>


ہجری کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سب سے اہم فوجی معرکہ ہوا جو جنگ بدر کے نام سے مشہور ہوا۔ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد مکہ والوں سے کم تھی، لیکن وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے مشرکین مارے گئے اور پکڑے گئے۔
ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سب سے اہم فوجی معرکہ ہوا جو جنگ بدر کے نام سے مشہور ہوا۔ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد مکہ والوں سے کم تھی، لیکن وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے مشرکین مارے گئے اور پکڑے گئے۔


اس جنگ میں [[ابوجہل]] اور کچھ دوسرے قریش مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں پکڑے گئے۔ 14 مسلمان شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مکہ کے کئی بہادر جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے، امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
اس جنگ میں [[ابوجہل]] اور کچھ دوسرے قریش مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں پکڑے گئے۔ 14 مسلمان شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مکہ کے کئی بہادر جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے، امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
=== یہودیوں کے ساتھ تنازعہ ===
=== یہودیوں کے ساتھ تنازعہ ===
یہودیوں کے ساتھ پہلی لڑائی بدر کی جنگ کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینوعہ کے یہودیوں کا مدینہ شہر کے باہر ایک قلعے میں گھر تھا اور وہ سنار اور لوہار کا کام کرتے تھے۔ لکھا ہے کہ ایک دن ایک عرب عورت بازار گئی اور بنی قینقاع کے بازار میں اپنا سامان بیچنے لگی اور ایک سنار کی دکان کے دروازے پر بیٹھ گئی۔
یہودیوں کے ساتھ پہلی لڑائی جنگ  بدر کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینقاع کے یہودی مدینہ شہر کے باہر ایک قلعے میں رہتے تھے اور وہ سنار اور لوہار کا کام کرتے تھے۔ لکھا ہے کہ ایک دن ایک عرب عورت بازار گئی اور بنی قینقاع کے بازار میں اپنا سامان بیچنے لگی اور ایک سنار کی دکان کے دروازے پر بیٹھ گئی۔ایک [[یہودی]] نے اس کے کپڑے اس کی پیٹھ پر باندھ دئے، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کے کپڑے ایک طرف چلے گئے اور یہودی اس پر ہنسنے لگے۔ عورت نے مسلمانوں کو مدد کے لیے بلایا۔ ایک مسلمان نے اس عورت کی مدد سے ایک یہودی کو قتل کر دیا۔ یہودیوں نے فساد کیا اور اس مسلمان کو قتل کر دیا۔


ایک [[یہودی]] نے اس کے کپڑے اس کی پیٹھ پر باندھے، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کے کپڑے ایک طرف چلے گئے اور یہودی اس پر ہنسنے لگے۔ عورت نے مسلمانوں کو مدد کے لیے بلایا۔ ایک مسلمان نے اس عورت کی مدد سے ایک یہودی کو قتل کر دیا۔ یہودیوں نے فساد کیا اور اس مسلمان کو قتل کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہتھیار ڈال دیں۔ بنی قینقاع نے کہا کہ اہل مکہ کی شکست آپ کو دھوکہ نہ دے، وہ جنگی آدمی نہیں تھے۔ اگر ہم آپ سے لڑیں گے تو ہم آپ کو دکھادیں گے کہ ہم کیا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا۔یہ  محاصرہ 15 دن اور راتوں تک جاری رہا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو عبداللہ بن ابی کے اصرارکے باوجود  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قتل کرنے کے بجائے شام کی طرف جلاوطن کردیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ ہجرت کے دوسرے سال شوال کے مہینے میں ہوا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 79-80</ref>.
 
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہتھیار ڈال دیں۔ بنی قینقاع نے کہا کہ اہل مکہ کی شکست آپ کو دھوکہ نہ دے، وہ جنگی آدمی نہیں تھے۔ اگر ہم آپ سے لڑیں گے تو ہم آپ کو دکھائیں گے کہ ہم کیا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا اور ان کا محاصرہ 15 دن اور راتوں تک جاری رہا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو عبداللہ بن ابی نے اصرار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قتل کرتے ہوئے وفات پائی اور انہیں شام کی طرف جلاوطن کردیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ ہجری کے دوسرے سال شوال کے مہینے میں ہوا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 79-80</ref>.


=== جنگ احد ===
=== جنگ احد ===
ہجری کے تیسرے سال قریش نے اپنے اتحادی قبائل سے مسلمانوں کے خلاف مدد طلب کی اور ابو سفیان کی کمان میں مسلح لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مدینہ میں قیام کا ارادہ کیا، لیکن آخر کار آپ نے مشرکین مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ہجری کے تیسرے سال قریش نے اپنے اتحادی قبائل سے مسلمانوں کے خلاف مدد طلب کی اور ابو سفیان کی کمان میں مسلح لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے مدینہ میں قیام کا ارادہ کیا، لیکن آخر کار آپ نے مشرکین مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔


کوہ احد کے قریب کہیں دو لشکر آمنے سامنے ہوئے اور اگرچہ فتح سب سے پہلے مسلمانوں کی ہوئی لیکن خالد بن ولید کی چال سے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر مشرکین نے پیچھے سے حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔ مسلمانوں.. اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا [[حمزہ بن عبدالمطلب]] شہید ہوئے۔
کوہ احد کے قریب دو لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ اگرچہ شروع میں  مسلمانوں کو فتح ہوئی لیکن خالد بن ولید کی چال سے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر مشرکین نے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا [[حمزہ بن عبدالمطلب]] شہید ہوئے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا <ref>ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۱۰۶</ref>.  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا <ref>ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۱۰۶</ref>.  
=== جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل ===
=== جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل ===
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں ۔یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز   مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔اس سال رسول الله کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔آخرکار  بنی نضیر کے یہودیوں کو علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔
اس سال رسول الله کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن بنی نضیر کے یہودیوں کو آخر کار علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔


اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224</ref>
اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224</ref>
=== احزاب، بنی قریظہ اور بنی مصطلق کی جنگیں ===
=== احزاب، بنی قریظہ اور بنی مصطلق کی جنگیں ===
پانچویں ہجری میں ابوسفیان نے سات سے دس ہزار آدمیوں کا لشکر فراہم کیا جن میں سے چھ سو گھڑ سوار تھے۔ فوج چونکہ مختلف عرب قبائل پر مشتمل تھی اس لیے اس جنگ کو فریقین کی جنگ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں خیبر میں رہنے والے بنو نضیر کے یہودیوں کے ایک گروہ نے قریش اور غطفان قبیلے کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتحاد کیا۔
پانچویں ہجری میں ابوسفیان نے سات سے دس ہزار آدمیوں کا لشکر فراہم کیا جن میں سے چھ سو گھڑ سوار تھے۔ فوج چونکہ مختلف عرب قبائل پر مشتمل تھی اس لیے اس جنگ کو احزاب یعنی مختلف گروہ  کی جنگ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں خیبر میں رہنے والے بنو نضیر کے یہودیوں کے ایک گروہ نے قریش اور قبیلہ غطفان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے خلاف اتحاد کیا۔


بنی قریظہ کے یہودی جو مدینہ کے آس پاس رہتے تھے اور قریش کی مدد نہ کرنے کا عہد کر چکے تھے، معاہدہ توڑ کر اہل مکہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی صرف تین ہزار فوج تھی، چند کے علاوہ باقی پیادہ تھے۔
بنی قریظہ کے یہودی جو مدینہ کے آس پاس رہتے تھے اور قریش کی مدد نہ کرنے کا عہد کر چکے تھے، معاہدہ توڑ کر اہل مکہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سامنے ان کی صرف تین ہزار فوج تھی جن میں  چند کے سوا  باقی سب  پیادہ تھے۔


چند مسلمانوں نے بنی قریظہ اور غطفان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں ایک دوسرے پر شک میں ڈال دیا۔ آندھی اور سردی بھی آگئی اور مکہ کی فوجوں کے لیے مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ابو سفیان نے واپسی کا حکم دیا اور پندرہ دن کے محاصرے کے بعد مدینہ خطرے سے باہر ہو گیا اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ کے بعد کام کا رخ مسلمانوں کے حق میں بدل گیا۔ بعض قدیم عرب اسلام کی طرف مائل ہوئے اور ابو سفیان اور قریش کا مقام متزلزل ہوگیا۔
چند مسلمانوں نے بنی قریظہ اور غطفان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف  شک میں ڈال دیا۔ آندھی اور سردی بھی آگئی اور مکہ کی فوجوں کے لیے مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ابو سفیان نے واپسی کا حکم دیا اور پندرہ دن کے محاصرے کے بعد مدینہ خطرے سے باہر ہو گیا اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ کے بعد حالات  کا رخ مسلمانوں کے حق میں بدل گیا۔ بعض قدیم عرب اسلام کی طرف مائل ہوئے اور ابو سفیان اور قریش کی پوزیشن متزلزل ہوگئی۔


فریقین کی لڑائی ختم ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گئے۔ میثاق مدینہ کے مطابق وہ اس وقت تک محفوظ رہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت نہیں کرتے، لیکن انہوں نے گروہی جنگ میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا اور 25 راتوں کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
احزاب  کی لڑائی ختم ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گئے۔ میثاق مدینہ کے مطابق وہ اس وقت تک محفوظ ہیں  جب تک مسلمانوں کے خلاف بغاوت نہیں کرتے۔ لیکن جنگ احزاب میں انہوں نے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کا محاصرہ کیا اور 25 راتوں کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔


قبیلہ اوس نے جس کا بنی قریظہ سے اتحاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: بنی قریظہ ہمارے حلیف ہیں اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ ان کے ساتھ خزرج کے اتحادیوں جیسا سلوک کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کے اسیروں کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپا۔ بنی قریظہ نے بھی اتفاق کیا۔ سعد نے کہا: میرا ووٹ یہ ہے کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ لیا جائے۔ سعد کے فیصلے کے مطابق گڑھا کھودا گیا اور بنی قریظہ کے آدمی اس کھائی سے مارے گئے۔
قبیلہ اوس نے جس کا بنی قریظہ سے اتحاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: بنی قریظہ ہمارے حلیف ہیں اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ ان کے ساتھ بھی  خزرج کے اتحادیوں(بنی قینقاع) جیسا سلوک کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بنی قریظہ کے اسیروں کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپا۔ بنی قریظہ نے بھی اتفاق کیا۔ سعد نے کہا: میرا رائے یہ ہے کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسی کر لیا جائے۔ سعد کے فیصلے کے مطابق گڑھا کھودا گیا اور اس پر  بنی قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیا گیا۔


بعض مورخین اس کہانی سے اختلاف کرتے ہیں۔ سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں نے بنی مصطلق کو شکست دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمع ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۳۰۲</ref>.
بعض مورخین اس واقعے سے اختلاف کرتے ہیں۔ سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں نے بنی مصطلق کو شکست دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمع ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، دار احیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۳۰۲</ref>.


=== جنگ خیبر ===  
=== جنگ خیبر ===  
7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں پر فتح حاصل کی جنہوں نے دشمنوں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف کئی بار سازشیں کیں۔ خیبر قلعہ جو مدینہ منورہ کے قریب واقع تھا مسلمانوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہودی اس علاقے میں کاشتکاری جاری رکھیں گے اور ہر سال اپنی فصل کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔
7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں پر فتح حاصل کی جو  دشمنوں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف کئی بار سازشیں کر چکے تھے۔ خیبر کا  قلعہ مدینہ منورہ کے قریب واقع تھا۔ مسلمانوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہودی اس علاقے میں کاشتکاری جاری رکھیں گے اور ہر سال اپنی فصل کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔


جنگ خیبر میں کسی ایک قلعے کو فتح کرنا مشکل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالترتیب [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]]  کو فتح کرنے کے لیے بھیجا، لیکن وہ ناکام رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا دے دیا۔ علی کے پاس اور اس نے اسے فتح کر لیا <ref>ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 411-410</ref>۔
جنگ خیبر میں ایک قلعے کو فتح کرنا مشکل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بالترتیب [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] اور [[عمر بن خطاب]]  کو فتح کرنے کے لیے بھیجا۔ لیکن وہ ناکام رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے   علم حضرت علی علیہ السلام کو دیا۔حضرت  علی  نے قلعہ فتح کر لیا <ref>ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 411-410</ref>۔
== صلح حدیبیہ ==
== صلح حدیبیہ ==
دھڑوں کی لڑائی، بنی قریظہ کے یہودیوں کا تسلط اور دو تین جنگیں جو چھٹے سال ہجری میں ہوئیں اور مسلمانوں کے حق میں ختم ہوئیں اور جنگ کے جو مال غنیمت حاصل ہوا ان سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ جزیرہ نما کے باشندوں میں سے، جتنے قبیلے مسلمان تھے یا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کیا۔
جنگ احزاب ، بنی قریظہ کے یہودیوں کا ہتھیار ڈالنا  اور دو تین جنگیں جو ہجرت کے  چھٹے سال میں ہوئیں اور مسلمانوں کے مفاد  میں ختم ہوئیں اور ان جنگوں  سے جو مال غنیمت حاصل ہوا ان سب  سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ جزیرہ نما کے باشندوں میں سے بہت سے  قبیلے مسلمان ہو گئے  یا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا۔


6 ہجری کے ذوالقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے 1500 لوگوں کے ساتھ عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ جب قریش کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو روکنے کے لیے تیاری کی۔ سب سے پہلے انہوں نے '''خالد بن ولید''' اور عکرمہ بن ابی جہل کو مکہ پہنچنے سے روکنے کے لیے بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ نامی جگہ پر اترے جو ارض مقدس کا آغاز ہے اور اہل مکہ کو پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ حج کے لیے آئے ہیں۔ قریش نے قبول نہیں کیا۔
سن 6 ہجری کے ذیقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مدینہ منورہ سے 1500 لوگوں کے ساتھ عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ جب قریش کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو روکنے کی تیاری کی۔ سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کو  مکہ پہنچنے سے روکنے کے لئے '''خالد بن ولید''' اور عکرمہ بن ابی جہل کو بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم حدیبیہ نامی جگہ پر اترے جہاں سے  حرم  کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور اہل مکہ کو پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ حج کے لیے آئے ہیں۔ قریش نے قبول نہیں کیا۔


آخرکار ان کے اور اہل مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ اس سال مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونا چاہیے لیکن اگلے سال اس وقت شہر کے لوگ تین دن کے لیے مکہ سے نکل کر مسلمانوں کی زیارت کے لیے شہر سے نکلیں گے۔ اس معاہدے کی ایک اور شق یہ تھی کہ اہل مکہ میں سے جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا اسے مکہ واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مدینہ سے مکہ گیا تو قریش اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں تھے۔ معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ ہر قبیلہ قریش کے معاہدے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔
آخرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور اہل مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ اس سال مسلمان  مکہ میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اگلے سال ان دنوں  شہر کے لوگ مسلمانوں کی زیارت کے لئے مکہ خالی کر دیں گے۔ اس معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ اہل مکہ میں سے جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس آئے گا اسے مکہ واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مدینہ سے مکہ گیا تو قریش اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ ہر قبیلہ قریش کے ساتھ  معاہدے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ساتھ  معاہدے میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔


بعد میں قریش نے اس شرط کی تعمیل نہ کرتے ہوئے فتح مکہ کا سبب بنا۔
بعد میں قریش نے اس شرط کی تعمیل نہیں کی جو فتح مکہ کا سبب بنا۔
=== خدا کے گھر کی زیارت ===
=== خدا کے گھر کی زیارت ===
7 ہجری کی ذی قعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے امن کی وجہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ مسجد الحرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا داخل ہونا اور عمرہ ادا کرنا، اس تقریب کی شان و شوکت اور تعظیم جو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہیں قریش کی نظروں میں اس کی عظمت تھی اور یہ تقریباً یقینی تھا۔ کہ اب ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو بزرگ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص مدینہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔
7 ہجری کے ذیقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم  صلح حدیبیہ کی وجہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور مسلمانوں کا مسجد الحرام میں داخل ہونا اور عمرہ ادا کرنا، اس تقریب کی شان و شوکت اور وہ حترام اور تقدس جس کا مظاہرہ  مسلمانوں نے  اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا اس سے  قریش کی نظروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور مسلمانوں کی عظمت بڑھ گئی  اور انہیں یقین ہو گیا  کہ اب ان میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو بزرگ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص مدینہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔
== فتح مکہ ==
== فتح مکہ ==
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ منعقد کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہدنامے لکھے۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔  
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔  


رسول اللہؐ ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر کیا۔ ابو سفیان مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوکر ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا:  
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور اسے رسول اللہؐ کی خدمت میں لے کر آئے ۔ ابو سفیان مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوتے ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا: '''لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده   ک'''وئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کے جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو شکست دے دی۔
'''حدیث: لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده'''
کوئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کہ جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے اپنا (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو بھگا دیا۔


رسول الله دو ہفتوں تک مکہ میں رہے اور انہوں نے شہر کے امور و معاملات کو سدھارا۔ آپ نے کچھ افراد مکہ کے اطراف میں بھجوا کر بت خانوں کو منہدم کروادیا اور کعبہ میں موجود بت بھی منہدم کر وادئے۔آپ نے مکیوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جس کے بموجب اسلام کی بردباری اور اس دین مبین کے پیغمبر کی عظمت و کرامت مخالفین کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ جب انھوں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ "آج میں نے تم سب کو آزاد کردیا"، تو اسی لمحے انہوں نے اسلام دشمنوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا۔
رسول الله دو ہفتوں تک مکہ میں رہے اور انہوں نے شہر کے امور و معاملات کو سدھارا۔ آپ نے کچھ افراد مکہ کے اطراف میں بھجوا کر بت خانوں کو منہدم کروادیا اور کعبہ میں موجود بت بھی منہدم کر وادئے۔آپ نے اہل مکہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جس کے بموجب اسلام کی بردباری اور اس دین مبین کے پیغمبر کی عظمت و کرامت مخالفین کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ جب انھوں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ "آج میں نے تم سب کو آزاد کردیا"، تو اسی لمحے انہوں نے اسلام دشمنوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں قیام کو پندرہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جزیرہ نما عرب کے متعدد اور غیر مسلم قبیلے آپ کے خلاف متحد ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلے اور جب حنین نامی گاؤں میں پہنچے تو آس پاس کی وادیوں میں چھپے ہوئے دشمنوں نے فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کی شدت اس قدر تھی کہ اسلام کا لشکر پیچھے ہٹ گیا، ایک چھوٹا سا گروہ پیچھے رہ گیا، لیکن آخر کار فرار ہونے والے واپس آگئے اور دشمن کے لشکر پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ <ref>واقدی، ج۲، ص۸۸۵</ref>
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے مکہ میں قیام کو پندرہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جزیرہ نما عرب کے متعدد غیر مسلم قبیلے آپ کے خلاف متحد ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلے اور جب حنین نامی گاؤں میں پہنچے تو آس پاس کی وادیوں میں چھپے ہوئے دشمنوں نے تیر اندازی  شروع کردی۔ تیر اندازی  کی شدت اس قدر تھی کہ اسلام کا لشکر پیچھے ہٹ گیااور  ایک چھوٹا سا گروہ آگے  رہ گیا، لیکن آخر کار فرار ہونے والے واپس آگئے اور دشمن کے لشکر پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ <ref>واقدی، ج۲، ص۸۸۵</ref>


فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام اور اطاعت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شفقت، محبت اور توجہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس لیے اس سال کو سنۃ الفود کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس آئے اور اسلام اور اطاعت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شفقت، محبت اور توجہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس لیے اس سال کو سنۃ الفود کے نام سے جانا جاتا ہے۔


== مباہلہ ==
== مباہلہ ==
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے ایک 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوطے پایا ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طے پایا کہ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوں  ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا۔
== حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ ==
== حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ ==
رسول اللہؐ ذو القعدہ سنہ 10 ہجری کو اپنے آخری حج کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر کے دوران آپؐ نے لوگوں کو احکام حج کی تعلیم دی۔ قریش نے اسلام سے قبل اپنے لئے بعض مراعاتوں کا تعین کیا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کی کلید داری، پردہ داری، ضیافتیں دینے اور حاجیوں کو پانی دینے (سقایت) جیسے عہدوں کو اپنے لئے مختص کرچکے تھے اور علاوہ ازیں آداب زیارت میں بھی اپنے لئے دوسرے قبائل کی نسبت جدا اور ممتاز حیثیت کے قائل تھے۔  
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذیقعدہ سنہ 10 ہجری کو اپنے آخری حج کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر کے دوران آپؐ نے لوگوں کو احکام حج کی تعلیم دی۔ قریش نے اسلام سے قبل اپنے لئے بعض حقوق اور امتیازات مختص کر رکھے تھے۔ وہ خانہ کعبہ کی کلید داری، پردہ داری، ضیافتیں دینے اور حاجیوں کو پانی دینے (سقایت) جیسے عہدوں کو اپنے لئے مختص کرچکے تھے اور علاوہ ازیں آداب زیارت میں بھی اپنے لئے دوسرے قبائل کی نسبت جدا اور ممتاز حیثیت کے قائل تھے۔  


اس سفر کے دوران پیغمبرؐ نے ان تمام چيزوں کا خاتمہ کیا جنہيں قریش زیارت خانۂ خدا میں، اپنے لئے، امتیازی خصوصیت سمجھتے تھے۔ ان مراعاتوں میں سے ایک یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ کا طواف پاکیزہ لباس پہن کر بجا لانا چاہئے تھا اور کپڑا صرف اس وقت پاک ہوتا ہے جب وہ قریش سے خریدا جاتا ہے۔ اگر قریش کسی کو طواف کا کپڑا نہ دیتے تو اس کو برہنہ ہوکر طواف کرنا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ قریشی دیگر حجاج کی مانند عرفات سے حج کے لئے کوچ نہیں کرتے تھے بلکہ مزدلفہ سے کوچ کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ امتیازی خصوصیت قریش سے چھین لی اور فرمایا:
اس سفر کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تمام چيزوں کا خاتمہ کیا جنہيں قریش زیارت خانۂ خدا میں، اپنے لئے، امتیازی خصوصیت سمجھتے تھے۔ ان میں سے ایک چیز  یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ کا طواف پاکیزہ لباس پہن کر بجا لانا چاہئے اور کپڑا صرف اس وقت پاک ہوتا ہے جب وہ قریش سے خریدا جاتا ہے۔ اگر قریش کسی کو طواف کا کپڑا نہ دیتے تو اس کو برہنہ ہوکر طواف کرنا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ قریشی دیگر حجاج کی مانند عرفات سے حج کے لئے کوچ نہیں کرتے تھے بلکہ مزدلفہ سے کوچ کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ امتیازی خصوصیت قریش سے چھین لی اور فرمایا:


ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔


اور لوگوں نے دیکھا کہ محمدؐ جو خود قریش میں سے ہیں دوسرے لوگوں کے ہمراہ عرفات سے کوچ کررہے ہیں۔ اسی سفر میں رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! نہ جانے کہ میں اگلے سال کو دیکھ سکوں گا یا نہيں! اے لوگو! میں جاہلیت کے زمانے میں بہایا گیا خون پاؤں تلے روندتا ہوں [اور پرانے بدلے منسوخ کرتا ہوں]؛ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام ہے اس وقت تک کہ اپنے خدا کی ملاقات کرلو
اور لوگوں نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  جو خود قریش میں سے ہیں دوسرے لوگوں کے ہمراہ عرفات سے کوچ کررہے ہیں۔ اسی سفر میں رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! نہیں معلوم کہ میں اگلے سال کو دیکھ سکوں گا یا نہيں! اے لوگو! میں جاہلیت کے زمانے میں بہایا گیا خون پاؤں تلے روندتا ہوں [اور پرانے بدلے منسوخ کرتا ہوں]؛ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام ہے اس وقت تک کہ اپنے خدا سےملاقات کرلو۔
=== غدیر خم ===
=== غدیر خم ===
جب وہ مدینہ واپس آئے تو مدینہ واپس آئے جہاں مصر، حجاز اور عراق کے لوگوں کا راستہ جدا ہے، "غدیر خم" کے نام سے مشہور مقام پر، خدا کا حکم آیا کہ آپ [[علی علیہ السلام]] کو اپنا جانشین مقرر کریں، اور واضح طریقے سے اسلامی حکومت کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا جن کی تعداد نوے یا ایک لاکھ افراد میں ہے۔
جب اپ حج کرکے مدینہ واپسی کے لئے مکہ سے نکلے  تو غدیر خم کے نام سے مشہور مقام پر  جہاں مصر، حجاز اور عراق کے لوگوں کا راستہ جدا ہوتا ہے، خدا کا حکم آیا کہ آپ [[علی علیہ السلام]] کو اپنا جانشین مقرر کریں، اور واضح طریقے سے اسلامی حکومت کی تقدیر  کا فیصلہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسلمانوں سے فرمایا جن کی تعداد نوے ہزار  یا ایک لاکھ تھی:


'''من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحبّ من احبّه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وأدار الحق معه حیث دار'''  
'''”من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحبّ من احبّه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وأدار الحق معه حیث دار“'''  


حج سے واپسی کے بعد جب کہ اسلام کا صدمہ روز بروز بڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت خطرے میں پڑ گئی، لیکن بیماری کے باوجود آپ نے موتی کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اسامہ بن زید کی سربراہی میں لشکر تیار کیا۔ لیکن اس لشکر کے مشن پر جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ اور جب وہ پیغمبر خدا سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا تو اس نے پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی اتحاد قائم کیا اور ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کے خلاف اسلام لایا۔
حج سے واپسی کے بعد جب کہ اسلام کی فکر  روز بروز بڑھ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صحت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ لیکن بیماری کے باوجود آپ نے جنگ موتہ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اسامہ بن زید کی سربراہی میں لشکر تیار کیا۔ لیکن اس لشکر کے مشن پر جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ جب اللہ کا نبی  اپنے پروردگار سے ملاقات کے لئے روانہ ہوا تو آپ کی برکت سے پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی اتحاد قائم ہو چکا تھا اور اسلام ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کی سرحدوں تک پہنچ چکا تھا۔
== وفات ==
== وفات ==
قمری سال 11 ہجری کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے۔ جب آپ کی بیماری شدید ہوگئی تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک کا حکم دیا اور فرمایا: اگر میری گردن پر کسی کا حق ہے تو وہ اسے حلال کرے اور اگر میں نے کسی کی دل آزاری کی ہے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ بدلہ لینا
سن 11 ہجری قمری کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بیمار ہو گئے۔ جب آپ کی بیماری شدید ہوگئی تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک کا حکم دیا اور فرمایا: اگر میری گردن پر کسی کا حق ہے تو وہ اسے حلال کرے اور اگر میں نے کسی کی دل آزاری کی ہے تو میں بدلے کے لئے تیار ہوں۔


بخاری کی سب سے اہم سنی کتب کی مستند روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں جب صحابہ کی ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک قلم اور کاغذ لے آؤ تاکہ میں کچھ لکھ سکوں۔ آپ کے لیے، جس کی برکت سے آپ کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے کہا: بیماری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو پالیا ہے (اور وہ بدحواس ہیں) اور ہمارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
اہل سنت کی سب سے اہم کتاب بخاری کی مستند روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی زندگی کے آخری ایام میں جب صحابہ کی ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی عیادت کے لیے گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک قلم اور کاغذ لے آؤ تاکہ میں تمہارے لئے  کچھ لکھ سکوں جس کی برکت سے تم کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے کہا: بیماری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر قابو پالیا ہے (اور وہ بدحواس ہیں) اور ہمارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔


وہاں موجود لوگوں میں ہنگامہ اور اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا: اسے لے آؤ تاکہ نبی لکھیں اور بعض نے دوسری بات کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور میرے پاس سے چلے جاؤ۔
وہاں موجود لوگوں میں ہنگامہ اور اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا: قلم دوات  لے آؤ تاکہ نبی لکھیں اور بعض نے دوسری بات کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: اٹھو اور میرے پاس سے چلے جاؤ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات گیارہویں قمری سال کی 28 صفر کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو پیغمبر کا سر امام علی علیہ السلام کے سینے اور گردن کے درمیان تھا  <ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص۵۳۷</ref>.
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات گیارہویں قمری سال کی 28 صفر کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو پیغمبر کا سر امام علی علیہ السلام کے سینے اور گردن کے درمیان تھا  <ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص۵۳۷</ref>.


اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔
اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔
== آپ کی شخصیت ==
== آپ کی شخصیت ==
پیغمبرؐ نے بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان بسر کئے تھے۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے ابلاغ رسالت کا آغاز کیا تو مشرکین کبھی بھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کردیتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان رہے ۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک   صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے تبلیغ رسالت کا آغاز کیا تب بھی  مشرکین کبھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کرتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:


قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ ؛ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں
ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں)


منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اور اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1</ref>۔
منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟ سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔  <ref>ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1</ref>۔
=== اخلاق ===  
=== اخلاق ===  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی اخلاقی جہت تھی۔ قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے کہ ’’تم ایک عظیم اور قیمتی اخلاق پر بھروسہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی اخلاق تھا۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے ’’تم اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہو۔“


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اوصاف بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت کے سوا کچھ نہیں بولتے تھے۔ اس نے کبھی اپنا منہ پوری طرح سے نہیں کھولا، وہ زیادہ تر مسکراتا تھا اور کبھی اونچی آواز میں نہیں ہنستا تھا، کیونکہ وہ کسی کی طرف متوجہ ہونا چاہتا تھا، وہ اپنے پورے جسم کے ساتھ واپس مڑ جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اخلاق اور اوصاف کے متعلق  مروی ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت کے سوا کچھ نہیں بولتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنا منہ پوری طرح سے نہیں کھولا، آپ  زیادہ تر مسکرایا کرتے  تھے اور کبھی اونچی آواز میں نہیں ہنستے تھے۔جب آپ  کسی کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے تو  اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف مڑ جاتے تھے۔


اسے صفائی اور خوشبو سے اتنی دلچسپی تھی کہ جب وہ کسی جگہ سے گزرتا تو اس کے پیچھے آنے والے اس کی خوشبو کے اثر سے اس کی موجودگی کو پا لیتے تھے۔ وہ مکمل سادگی سے رہتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔
آپ کو  صفائی اور خوشبو سے اتنی دلچسپی تھی کہ جب آپ  کسی جگہ سے گزرتے تو یچھے آنے والے خوشبو کے اثر سے آپ  کی موجودگی کو پا لیتے تھے۔ آپ  مکمل سادگی سے رہتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔


اس نے کبھی پیٹ بھرنے تک نہیں کھایا، اور بہت سے معاملات میں، خاص طور پر جب وہ ابھی مدینہ پہنچے تھے، اس نے بھوک کو قبول کیا۔ اس سب کے باوجود، کیونکہ وہ ایک راہب کے طور پر نہیں رہتے تھے، اس نے کہا کہ اس نے دنیا کی نعمتوں سے حد تک فائدہ اٹھایا، اس نے ایک ہی وقت میں روزہ رکھا اور عبادت کی۔
آپ  نے کبھی پیٹ بھرکر کھانا نہیں کھایا۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا جب آپ  مکمل فاقہ کرتے تھے۔


مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ان کا برتاؤ ہمدردی، بڑائی، درگزر اور مہربانی پر مبنی تھا۔ ان کی سیرت اور زندگی مسلمانوں کے دلوں کو اس قدر خوشنما تھی کہ وہ اس کے نہایت مفصل حصے سینہ بہ سینہ بیان کرتے تھے اور آج بھی اسے اپنی زندگی اور مذہب کے لیے بطور نمونہ استعمال کرتے ہیں۔
مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی آپ  کا برتاؤ ہمدردی، بڑائی، درگزر اور مہربانی پر مبنی تھا۔ ان کی سیرت اور زندگی مسلمانوں کےلئے  اس قدر خوشنما تھی کہ وہ اس کی تمام تر  تفصیلات  سینہ بہ سینہ بیان کرتے تھے اور آج بھی اسے اپنی زندگی اور مذہب کے لیے بطور نمونہ استعمال کرتے ہیں۔


آپ کی عاجزی ایسی تھی کہ آپ نے نوکروں کی طرح کھانا کھایا اور زمین پر بیٹھ کر کھایا اور امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جب سے آپ بھیجے گئے ہیں کبھی ٹیک لگا کر نہیں کھایا۔
آپ کی خاکساری  ایسی تھی کہ آپ نوکروں کی طرح زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جب سے آپ بھیجے گئے ہیں کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا۔


امیر المومنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر واقفیت کے دیکھا وہ خوف سے بھر جائے گا۔ ہر وہ شخص جو اس کے ساتھ میل جول رکھتا تھا اور اسے جانتا تھا اس سے محبت کرتا تھا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چہرے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو سابقہ  آشنائی کے بغیر   دیکھتا وہ ہیبت زدہ ہوجاتا اور  جو آپ کے ساتھ میل جول رکھتا اور آپ سے آشنا ہوجاتاوہ آپ  سے محبت کرتا تھا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نگاہیں صحابہ کے درمیان بانٹ لیتے تھے اور سب کو برابر کی رائے دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے مصافحہ نہیں کیا، جب تک کہ دوسرے فریق نے ہاتھ نہ ملایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنی نگاہیں صحابہ کے درمیان بانٹ لیتے تھے اور سب کو برابری  کی نظر سے دیکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے جب تک سامنے والا نہ چھڑا لے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی سے اس کی استطاعت اور عقل کے مطابق بات کرتے تھے۔ جس نے بھی اس پر ظلم کیا تھا اس کی معافی اور معافی سب کو معلوم تھی کہ اس نے اسلام کے پرانے دشمن ابو سفیان کو بھی معاف کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص سے اس کی استطاعت اور عقل کے مطابق بات کرتے تھے۔ جس نے بھی آپ  پر ظلم کیا ،اسے  معاف کر دیا۔یہاں تک کہ آپ نے اسلام کے پرانے دشمن ابو سفیان کو بھی معاف کردیا۔


وحشی کے اسلام قبول کرنے اور حمزہ کے قتل کے بارے میں اس کی رپورٹ کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا اور اس سے کہا: اپنی نظریں میری نظروں سے دور رکھیں <ref>هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15</ref>۔
جناب حمزہ کے قاتل وحشی نے بھی جب اسلام قبول کیا تو آپ نے اسے بھی معاف کر دیا بس اتنا کہا کہ میری نظرو ں سے دور رہو <ref>هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15</ref>۔
=== زہد ===
=== زہد ===
پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری حیات میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ اپنی پوری عمر کے دوران سونے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔
پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری زندگی  میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ ساری زندگی سونے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔


منزل اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھا، آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔
گھر  اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھ۔ آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔


ایک روز فاطمہ(س) جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لے آئیں اور عرض کیا: بابا جان یا رسول الله! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول الله نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: "جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے۔ کبھی تو آپ حتی نہایت بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔
ایک روز جناب فاطمہ سلام اللہ علیہھا جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لائی  اور عرض کیا: بابا جان ! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول الله نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: "جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے۔ کبھی کبھی تو آپ انتہائی  بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔


وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے ہاتھ گروی تھی <ref>مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219</ref>
وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے پاس  گروی تھی <ref>مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219</ref>
=== نظم و انضباط اور آراستگی ===
=== نظم و انضباط اور آراستگی ===
رسول الله زندگی کے امور میں بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کے لئے ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون وغی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی  زندگی کے معاملات  بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کا ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون ۔نماز کی صفوں کو اس طرح منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا۔
 
نماز کی صفوں کو اس طرح سے منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا


شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔


آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی لگایا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کردیتے تھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔
آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی کیا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کرتےتھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، مسواک اور قینچی <ref>حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352
آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دان، کنگھی، مسواک اور قینچی <ref>حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352
</ref>
</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:حضرت محمد (ص)]]
 
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ:اہل بیت ]]
[[زمرہ:اہل بیت ]]
65

ترامیم