تصوف

نظرثانی بتاریخ 12:50، 22 جنوری 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏حوالہ جات)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

تصوف اسلامی شریعت الہی کی سختی سے پابندی کا نام تصوف ہے۔ تصوف کا لفظ ص سے ہے اور اس کا مادہ صوف ہے جو یونانی زبان میں حکمت کے لیے بولا جاتا ہے۔ تصوف میں ہر سلسلے کا اپنا مخصوص فکری نظام رہا ہے اور ہر سلسلے میں اوراد، بیعت، تعلیم و تربیت، ذاکر و اذکار اور معاشرت کے طور طریقے دوسرے سلسلوں سے مختلف ہوتے ہیں اور اخلاقی زندگی کو تصوف میں خلق روحانی زندگی کی بنیاد کو کہتے ہیں۔

تصوف کے معنی

تصو ف کا مفہوم : تصوف کا اصل مادہ صوف ہے، جس کا معنی ہے اون اور تَصَوُّف کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا جیسے تَقَمُّص کامعنی ہے قمیص پہننا [1]۔ صوفیأ کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں:اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔ اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں [2]۔

  • صوفیوں کا عقیدہ
  • علم معرفت
  • دل سے خواہشوں کو دور کرکے اللہ تعالی کی طرف دھیان لگانا
  • تزکیہ نفس کا طریقہ
  • پشمینہ پہننا [3]۔

ابوالحسن سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں صوفی کا لفظ صفا سے ماخوذ ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ صوفی کو صوفی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معاملات صاف ہوتے ہیں تو صفا کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے اس کو صوفی کہا جاتا ہے۔ بشر بن الحارث کا اس بارے میں خیال یہ ہے کہ صوفی اس کو کہتے ہیں جس نے اپنے معاملات اللہ کے حوالے کر دیئے ہوں تو اللہ پاک بھی اسے عزت اور کرامت سے نوازتا ہے۔ ایک اور گروہ کا خیال ہے کہ صوفیوں کو صوفی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ صف اول میں ہیں یعنی بلند خیال اور مشقت و محنت کی وجہ سے وہ اللہ کے انتہائی قریب ہوتے ہیں اور اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ صف اول میں ہونے کی وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ صوفیوں کو صوفی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں وہ اوصاف ، عادات اور صفات پائی جاتی ہیں جو اہل صفہ کی تھیں۔ اہل صفہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں فقرا اور مساکین کا ایک گروہ تھا، ان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔ جس نے ان کی نسبت اصحاب صفہ اور صوف یعنی اون کی جانب دی ہے ، اس نے ان کے ظاہری احوال کو سامنے رکھا اس لیے کہ صوفی حضرات دنیا کو چھوڑنے گھربار سے نکلنے، بستر سے دور رہنے، شہروں کی سیر کرنے، بھوکا رہنے، برہنہ رہنے پر یقین رکھتے ہیں [4]۔

تصوف کا آغاز

بعض حضرات کا خیال ہے کہ لفظ صوفی کا استعمال سب سے پہلے بغداد میں ہوا۔ عبدالرحمن جامی نے اپنی کتاب میں تصحیح کی ہے ابو ہاشم کوفی نے سب سے پہلے وہ شخص تھا جس نے صوفی کا لفظ استعمال کیا۔ اس سے قبل یہ لفظ کبھی استعمال نہيں ہوا۔ شام کے علاقہ رملہ میں سب سے پہلے صوفیوں کیلے ایک خانقاہ بنی اور اسے بنانے والا وہاں کا عیسائی بادشاہ تھا۔ مشہور صوفی بزرگ علی ہجویری نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ تصوف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا اور اس زمانے میں بھی اس کیلے یہ لفظ استعمال ہوتا تھا [5] ایک قسم کی رہبانیت سے ہوا اور دوسری صدی ہجری میں صوفیاء کی جماعتوں اور سلسلوں کا آغاز ہوا۔ تصوف میں امیر و غریب، عالم و جاہل، شریف و رذیل کی تمیز جو ہر مذہب کے روایتی نظام میں کم و بیش پائی جاتی ہے اس لیے یوں کہنا کہ تصوف جمہوریت کے اصول اخوت و مساوات کی طرح اثر رکھتی ہے۔ مسلم آبادی کا تصوف کی طرف مائل ہونے کی یہی وجہ ہے۔ تصوف میں صوفیاء کی خانقاہیں اور سلسلے قائم ہیں، اسلامی صوفیوں کی پہلی خانقاہ رملہ کی خانقاہ ہے جو فلسطین میں ہے چونکہ صوفیوں کے مختلف شجروں کے منتہی حضرت علی علیہ السلام ہی قرار پاتے ہیں۔ شیعوں کی طرح صوفیہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور امام مانتے ہیں شاہ ولی اللہ کے ںزدیک حضرت علی علیہ السلام اس امت کے پہلے مجذوب اور پہلے صوفی و عارف ہیں اگرچہ صوفیہ کرام کی بھاری اکثریت کا تعلق تو سنی مسلک سے رہا ہے پھر بھی انہوں نے تمام صحابہ کرام میں سے حضرت علی علیہ السلام ہی کو انتخاب کیا۔ حضرت علی علیہ السلام کو ایک مخصوص علم عطا کیا گیا تھا اور وہی علم در اصل تصوف کا سرچشمہ ہے صوفیہ کرام کے تمام سلسلے سوائے نقشبندی سلسلے کے جو ابوبکر صدیق سے منسوب ہے باقی تمام سلسلے حضرت علی علیہ السلام کی ذات پر ختم ہوئے ہیں۔ تصوف کا مظہری معراج کرامات ہوتی ہیں تصوف میں اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر ہوتا ہے اور جتنے بڑے اولیاء اللہ ہوں گے اتنی ہی بڑی کرامات کا ذکر تصوف میں ملے گا ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء تصور شیخ سے کی جاتی ہے۔

ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء

ہندوستان میں صوفیائے کرام کی خانقاہوں کا ذکر ہمیں پرتھوی راج کے عہد ہی سے ملنے لگتا ہے ۔ سب سے پہلے چشتہ اس کے بعد سہروردیہ اور پندرھویں صدی میں عبدالحق محدث نعمت اللہ قادری نے سلسلہ قادریہ کو فروغ دیا اور اکبر کے عہد میں خواجہ باتی باللہ نے سلسلہ نقشبندی شروع کیا اور اس سلسلہ کی تکمیل ان کے عزیز مرید مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے ہاتھوں ہوئی۔ مغلوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں صوفیوں کی مقبولیت عام ہوچکی تھی۔ بابا فرید گنج شکر نظام الدین اولیاء اور میر خسرو کی مقبولیت کے قصے تصوف کی کتابوں میں کثرت سے ملیں گے۔ اکبر کے زمانہ میں بابا سلیم چشتی کے خیالات عروج پر تھے۔ سہروردی اور چشتی صوفیاء شریعت کے پابند تھے۔ ہندوستان میں سہروردی کے سلسلے کے بانی شیخ شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی فکر و عمل کے اعتبار سے اسلام کے نمائندہ علماء میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ دوسرے چشتی صوفیاء سماع کو روحانی ترقی کے لیے معاون تصور کرتے تھے۔ چشتی سلسلہ ہندوستان کا سب سے مقبول اور معروف سلسلہ تصوف ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، فرید الدین گنج شکر، نظام الدین اولیاء اور شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی جیسے عالموں سے ہند و پاک کے لوگ مستفید ہوتے رہے۔ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ہندوستان کے مشہور صوفی ہوئے ہیں۔ ان کے بعد پیر مکی سید عزیز الدین، ان کے بعد خواجہ معین الدین چشتی کا دور آتا ہے۔ لعل شہباز قلندر خلیفۂ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی خواجہ غلام فرید پنجابی صوفی شاعر ہیں۔

تصوف کے بنیادی عقائد

تصوف کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنی فکری کاوشوں ( یعنی انسانی ذرائع علم) کے بغیر براہ راست اللہ سے علم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے قرآن نے وحی کہہ کہ پکار اور ارباب تصوف نے اس علم کا وحی کی بجائے کشف و الہام یا باطنی علم رکھ لیا۔ لیکن یہ صرف نام کا فرق ہے۔ اصل میں کشف اور الہام میں کوئی فرق نہیں اہل تصوف کا دعوی ہے کہ اس علم میں انسانی عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اس لیے اہل تصوف اس باطنی علم کو اہمیت دیتے ہيں۔ صوفیائے کرام کی بھاری اکثریت کا تعلق مسلمانوں کے خلفائے ثلاثہ کے طبقے سے ہیں لیکن ان کے بہت سے عقائد و نظریات عام سنی مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ حلول، وحدت الوجود، اتحاد، رجال الغیب بھی تصوف کے بنیادی عقائد میں سے ہیں۔

تصوف کی قسمیں

تصوف کا مطلب موٹا کپڑا یا اون کا کمبل نما کپڑےکے ہیں اور اس لفظ کی مناسبت سے مسلک تصوف کی بنیاد پڑی۔ تصوف کے ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں۔ صوفی، متصوف اور معصوف

صوفی

صوفی کو صف سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔ صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اللہ کے حضور صف اول میں کھڑے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کرکے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ مثلا عورت، دولت، زمین، باغات، مکانات اور تجارت کی محبت اپنے دل سے بالکل خارج کردیتا ہے۔ اور اللہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جب ایک شخص ایسا کرتا ہے تو وہ خود بخود صوفی بن جاتا ہے۔

متصوف

متصوف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اس مقام کی طلب کرے اور وہ اس مقام کی طلب میں صادق اور راست باز ہے۔

معصوف

معصوف وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اورمال و دولت کی خاطر خود کو ایسے بنالیے اور اسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو ایسے نقلی صوفیوں کے لیے عرفاء کا مقولہ ہے نقلی صوفی مکھی کی مانند ذلیل و خوار ہے۔

تصوف کے سلسلے

تصوف کے سلسلے اگر چہ بےشمار ہیں لیکن ہندو پاک میں صوفیہ کے چار سلسلے بہت مشہور پائے جاتے ہیں:

  • قادر یہ، بانی شیخ عبد القادر جیلانی، اس سلسلے کے صوفیوں کو قادری کہتے ہیں۔
  • سہروردیہ، بانی شیخ ابو الخیر سہروردی، حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی سے سلسلہ منسوب ہے اور اس سلسلے کے مریدوں کو سہروردی کہتے ہیں ان صوفیاء کو پیران شیخ بھی کہتے ہیں۔
  • چشتیه، بانی خواجہ معین الدین چشتی، اہل ہند شیخ طریقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہیں

ہیں اور اس سلسلہ کے مریدوں کو چشتی کہتے ہیں۔

  • نقشبندیہ، بانی خواجہ بہاؤالدین نقش بندی، امام زینت الاسلام حضرت بہاؤالدین نقشبند ہے اور اس سلسلے کے مریدوں کو

کو نقشبندی کہتے ہیں۔

تصوف میں داخلی شرائط

  • خلوص کے ساتھ بارگاہ الہی کی طرف متوجہ ہونا۔
  • قیام بیت وفنا میں تکبیر کہنا
  • محل وصل میں کھڑا ہونا۔
  • ترسیل و عظمت کیسا تھ قرائت کرنا۔
  • خشوع کے ساتھ رکوع کرنا
  • تدلیل و عاجزی کے ساتھ سجدہ کرنا۔
  • دل جمعی کے ساتھ تشہد پڑھنا۔
  • فنائے صفت کے ساتھ سلام پھیرنا۔

پیر پرستی کا عقیدہ

پیر پرستی کا مطلب پیر کو اپنا حاکم مان کر خود کو مکمل طور پر اس کے سپرد کر دینا، پیر کی دل و جان سے اطاعت کرنا، سب سے بڑھ کر اس سے محبت و عقیدت رکھنا، سجدہ کی حد تک اس کی تعظیم کرنا، پیر سے ڈرنا اور اپنی تمام امیدیں پیر کے دامن اور آستانے سے وابستہ رکھنا اور یہ عقیدہ بھی رکھنا کہ پیر اپنے مرید کے دل کا حال بھی جانتا ہے ۔صوفیائے کرام نے پیر کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے اور اس کی محبت کو لازمی قرار دیا ہے ۔ان کے نزدیک کسی نہ کسی پیر کے دامن سے وابستہ ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا رسول یا امام پر ایمان لانا۔ صوفیاء کا کہنا ہے کہ جس کا کوئی پیر ہی نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔

بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں شاید ہی کوئی ایسا قبیلہ ہو جوکسی نہ کسی پیر یا بزرگ کا معتقد نہ ہو ۔ بلو چستان کے بارے میں یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ان کا ہر قبیلہ کسی پیر پر یقین رکھتا ہے اور تقریبا ہر قبیلے کا اپنا پیرہے جیسے ہگئی قبیلہ ، مری قبیلہ غرضیکہ ہر بلوچ قبیلہ کسی نہ کسی روحانی مرشد کا معتقد ہے۔ بلوچستان میں چشتیہ سلسلے کے بزرگوں کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ چشتیہ سلسلہ کے نامور بزرگ سلطان سخی سرور حضرت شاہ سلیمان تونسوی اور خواجہ غلام فرید ہو گزرے ہیں گو کہ ان لوگوں کے مزار بلوچستان کی حدود میں نہیں مگر بلوچستان سے ملحق ڈیرہ غازی خان کی حدود میں واقع ہونے کی وجہ سے ان کے اثرات بلوچستان میں بھی آئے ۔ اکثر لوگ اللہ تعالی سے کہیں زیادہ پیر کی پرستش کرتےہیں۔ اگر کسی شخص کو اللہ کی قسم اٹھانے کے لئے کہیں وہ بلا چوں و چرا قسم کھائے گا۔مگر پیر کی قسم آسانی سے نہیں کھائے گا۔

صوفیا کی نصیحتیں

صوفیأ حضرات جن باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں ،وہ یہ ہیں :

  • اللہ تعالیٰ کی محبت۔
  • رسول اللہ ا کی اطاعت۔
  • تزکیۂ نفس( اپنے نفس کو فضائلِ اخلاق سے آراستہ کرنا اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنا)۔
  • برداشت اور رواداری ۔
  • خدمت ِخلق ![6]۔

تصوف اور سلوک کی حقیقت

تصوف اصل میں اخلاق کی پاکیزگی، باطن کی صفائی، آخرت کی فکر، قلب کی طہارت اور دنیاسے بےرغبتی کا نام ہے؛ انہی پاکیزہ صفات سےاپنے آپ کو متصف کرنا احادیث کی اصطلاح میں احسان کہلاتاہے، جومذہب سے الگ کوئی نئی چیز نہیں؛ بلکہ مذہب ہی کی اصل روح ہے اور جس طرح جسم وجسد، روح کے بغیر بےجان، مردہ لاش تصور کئےجاتےہیں، اسی طرح تمام نیک اعمال وعبادات بھی اخلاص نیت اورباطنی طہارت کے بغیربے قدروقیمت تصور کی جاتی ہیں۔

تصوف بندہ کے دل میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتاہے، وہیں تحمل، برداشت، حسن اخلاق، رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو راغب کرتا ہے۔

تصوف کے کئی نام ہیں

(1)علم القلب (2)علم الاخلاق (3) احسان وسلوک (4) تزکیہ و طریقت وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے زیادہ تر احسان کا لفظ استعمال ہوا ہے؛لیکن ان تمام ناموں کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے نفس کو اخلاق حمیدہ سے مزین کرنا اور اخلاقِ رذیلہ سے پاک و صاف کرنا۔

صوفیا

لیکن صوفیاء کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔ صوفیا، ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے باطن کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں تک اسی کی دعوت پہونچاتے ہیں۔ اب لفظ صوفیا، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے )میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندر کی صفائی کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ؛لیکن چوں کہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا، اس وجہ سے ان پر یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا [7]۔

ضرورتِ تزکیہ

بہت سے افعال و اعمال جس طرح ہمارے ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے باطن (قلب ) سے بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ ظاہرہ“ جب کہ باطنی اعضاءو جوارح ( قلب) سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ باطنہ “ کہا جاتا ہے۔ نیز جس طرح ہمارے ظاہری افعال و اعمال شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض، واجب، مباح، مستحب اور بعض ناپسندیدہ، مکروہ اور حرام قسم کے ہیں اسی طرح ہمارے باطنی افعال و اعمال بھی شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض، واجب اور مستحب ہیں ( جیسے تقویٰ و طہارت، خشیت و للہیت، صبر و شکر، عاجزی و انکساری، سخاوت و فیاضی وغیرہ) اور بعض ناپسندیدہ، مکروہ اور حرام قسم کےہیں (جیسے تکبر و غرور، ریاءو دکھلاوا، حسد، کینہ، بغض، بخل، بزدلی اور لالچ وغیرہ )

لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے یا برے افعال کے صدور کا تمام تر تعلق قلبی احوال اور نفس کی اندرونی کیفیتوں کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اگر غور سے دیکھاجائے تو صاف طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہی قلبی احوال اور اندرونی کیفیتیں در حقیقت ہمارے تمام ظاہری افعال و اعمال کی بنیاد اور ان کی اساس ہیں۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے ہم اچھا یا برا جو بھی کام کرتے ہیں ؛وہ در حقیقت انہیں قلبی احوال اور اندرونی کیفیتوں کا نتیجہ ہوتاہے۔چنانچہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت وغیرہ قلب کی اندرونی کیفیتیں ہیں ؛لیکن ان کا اثر ہمارے تمام ظاہری اعمال پر براہِ راست پڑتا ہے۔ بلاشبہ ہماری ہر ایک عبادت:نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کا مصدر و منبع یہی باطنی کیفیتیں اور قلبی احوال ہیں۔ اسی طرح اگر ہم شیطانی اور نفسانی خواہشات اور تقاضوں کے باوجود بدنظری، لڑائی جھگڑے اور جھوٹ وغیرہ جیسے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں تو اس کا اصل محرک بھی یہی باطنی اور قلبی تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہی کا کرشمہ ہے۔

حوالہ جات

  1. ابو الحسن سید علی بن عثمان ہجویری، کشف المحجوب، اردو ترجمہ عبد الرحمٰن طارق، لاہور،ادارہ اسلا میات ، طبع اول: ۲۰۰۵ء، ص: ۴۱۶
  2. یوسف سلیم چشتی، تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول: ۲۰۰۹ء، ص: ۱۱۵۔
  3. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء، ص180-181
  4. احسان الہی ظہیر، تصوف تاریخ اور حقائق، ادارہ ترجمان السنۂ لاہور پاکستان، 2010ء، ص 31-32
  5. علی ہجویری، کشف المحجوب، ص227
  6. قرآن وسنت کی روشنی میں، banuri.edu.pk
  7. عبد الرشید طلحہ، تصوف اور سلوک کی حقیقت،mazameen.com