"امین احسن اصلاحی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ٹیگ: Manual revert
 
(ایک ہی صارف کا 11 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 4: سطر 4:
| name = امین احسن اصلاحی
| name = امین احسن اصلاحی
| other names =   
| other names =   
| brith year = 1904
| brith year = 1904 ء
| brith date =  
| brith date =  
| birth place = [[ہندوستان]]
| birth place = [[ہندوستان]]
| death year = 1991
| death year = 1991 ء
| death date =  
| death date =  
| death place =  
| death place =  
سطر 14: سطر 14:
| religion = [[اسلام]]
| religion = [[اسلام]]
| faith = [[سنی]]
| faith = [[سنی]]
| works =
| works = اسلامی الزاہدات
| known for = {{افقی باکس کی فہرست |   | }}
| known for = {{افقی باکس کی فہرست | جماعت اسلامی کے نائب چیئرمین | }}
| website =  
| website =  
}}
}}
سطر 22: سطر 22:
سب سے زیادہ وہ وہاں کے دو اساتذہ حمید الدین فراہی اور عبدالرحمن نگرمی سے متاثر تھے۔ اصلاحی نے تین سال تک صحافی کے طور پر کام کیا یہاں تک کہ 1925 میں، فراہی کی دعوت پر، اس نے اصلاحی اسکول میں پڑھانا شروع کیا اور فراہی کے ماتحت قرآن کی تفسیر، فقہ، فلسفہ اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور اپنی موت تک اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ پھر عبدالرحمٰن مبارک پوری سے حدیث سیکھی اور نقل کرنے کی اجازت حاصل کی۔ 1936 میں، انہوں نے حمیدیہ سرکل قائم کیا اور اصلاح کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا، جو افکار اور کاموں کی اشاعت اور ترجمے کے لیے وقف تھا <ref>عبدالرؤف، "مولانا امین احسن اصلاحی کے سماجی سیاسی فکر کا مطالعہ"، جلد 1، صفحہ 184-197، پی ایچ ڈی کا مقالہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز، 2007</ref>۔
سب سے زیادہ وہ وہاں کے دو اساتذہ حمید الدین فراہی اور عبدالرحمن نگرمی سے متاثر تھے۔ اصلاحی نے تین سال تک صحافی کے طور پر کام کیا یہاں تک کہ 1925 میں، فراہی کی دعوت پر، اس نے اصلاحی اسکول میں پڑھانا شروع کیا اور فراہی کے ماتحت قرآن کی تفسیر، فقہ، فلسفہ اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور اپنی موت تک اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ پھر عبدالرحمٰن مبارک پوری سے حدیث سیکھی اور نقل کرنے کی اجازت حاصل کی۔ 1936 میں، انہوں نے حمیدیہ سرکل قائم کیا اور اصلاح کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا، جو افکار اور کاموں کی اشاعت اور ترجمے کے لیے وقف تھا <ref>عبدالرؤف، "مولانا امین احسن اصلاحی کے سماجی سیاسی فکر کا مطالعہ"، جلد 1، صفحہ 184-197، پی ایچ ڈی کا مقالہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز، 2007</ref>۔
== سیاسی زندگی ==
== سیاسی زندگی ==
1941 میں ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی شوریٰ کونسل کی رکنیت میں تبدیلی کی گئی۔ کیونکہ جماعت کا صدر دفتر دارالاسلام میں تھا، 1943 میں مودودی کی درخواست پر اس نے اصلاحی مکتب چھوڑ دیا اور سرائے میر سے دارالاسلام چلے گئے۔
1941 میں [[ابوالاعلیٰ مودودی]] کی قیادت میں جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی شوریٰ کونسل کی رکنیت میں تبدیلی کی گئی۔ کیونکہ جماعت کا صدر دفتر دارالاسلام میں تھا، 1943 میں مودودی کی درخواست پر اس نے اصلاحی مکتب چھوڑ دیا اور سرائے میر سے دارالاسلام چلے گئے۔


وہ جماعت اسلامی کے نائب چیئرمین تھے اور جماعت کی نظریاتی اور فکری ترقی میں ان کا خصوصی کردار تھا۔ پاکستان کی آزاد حکومت کے قیام کے بعد وہ جماعت اسلامی کے دیگر ارکان کے ساتھ لاہور چلے گئے۔ 1951 میں انہوں نے جماعت اسلامی کے امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ان کی جماعت کو شکست ہوئی۔ 1953 میں اس نے قادیانیت کے خلاف بغاوت میں کردار ادا کیا اور امن عامہ کو بگاڑنے کے الزام میں ڈیڑھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
وہ جماعت اسلامی کے نائب چیئرمین تھے اور جماعت کی نظریاتی اور فکری ترقی میں ان کا خصوصی کردار تھا۔ پاکستان کی آزاد حکومت کے قیام کے بعد وہ جماعت اسلامی کے دیگر ارکان کے ساتھ لاہور چلے گئے۔ 1951 میں انہوں نے جماعت اسلامی کے امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ان کی جماعت کو شکست ہوئی۔ 1953 میں اس نے قادیانیت کے خلاف بغاوت میں کردار ادا کیا اور امن عامہ کو بگاڑنے کے الزام میں ڈیڑھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔


1956 اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے انہیں اسلامک لاء بورڈ کا رکن بنا دیا۔ یہ کمیشن منظور شدہ آئین کو اسلامی بنانے کے لیے تجاویز دینے کا پابند تھا لیکن جنرل محمد ایوب کی بغاوت سے اسے تحلیل کر دیا گیا۔ اس ناکام تجربے سے انہوں نے کوئی حکومتی عہدہ قبول نہیں کیا۔ اور 1958 میں مودودی کے ساتھ پارٹی کے مشن کے بارے میں اختلافات کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑ دی۔ ان کا خیال تھا کہ پارٹی کی اصل سرگرمی معاشرے کی اصلاح کی سمت ہونی چاہیے، لیکن مودودی پارٹی کی سیاسی سرگرمی پر یقین رکھتے تھے۔
1956 اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے انہیں اسلامک لاء بورڈ کا رکن بنا دیا۔ یہ کمیشن منظور شدہ آئین کو اسلامی بنانے کے لیے تجاویز دینے کا پابند تھا لیکن جنرل محمد ایوب کی بغاوت سے اسے تحلیل کر دیا گیا۔ اس ناکام تجربے سے انہوں نے کوئی حکومتی عہدہ قبول نہیں کیا۔ اور 1958 میں مودودی کے ساتھ پارٹی کے مشن کے بارے میں اختلافات کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑ دی۔ ان کا خیال تھا کہ پارٹی کی اصل سرگرمی معاشرے کی اصلاح کی سمت ہونی چاہیے، لیکن مودودی پارٹی کی سیاسی سرگرمی پر یقین رکھتے تھے۔
== سائنسی سرگرمی ==
== سائنسی سرگرمی ==
انہوں نے اپنا سارا وقت علمی اور فکری کاموں میں لگا دیا اور قرآن کی تفسیر اور تدریس کا کام شروع کیا۔ ان کے مضامین سب سے پہلے منبر میگزین اور مشاق میگزین میں شائع ہوئے، جو انہوں نے قائم کیا تھا۔ 1961 میں انہوں نے طلباء کے ایک گروپ پر مشتمل "قرآن میڈیٹیشن سرکل" میں عربی گرامر اور ادب، قرآن و حدیث پڑھایا۔ انہوں نے ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کیا اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر دو بار قید بھی ہوئی۔ تاہم بعض اوقات سیاسی شخصیات نے ان کے فکری اور مذہبی عہدوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے اپنا سارا وقت علمی اور فکری کاموں میں لگا دیا اور قرآن کی تفسیر اور تدریس کا کام شروع کیا۔ ان کے مضامین سب سے پہلے منبر میگزین اور مشاق میگزین میں شائع ہوئے، جو انہوں نے قائم کیا تھا۔ 1961 میں انہوں نے طلباء کے ایک گروپ پر مشتمل "قرآن میڈیٹیشن سرکل" میں عربی گرامر اور ادب، قرآن و حدیث پڑھایا۔ انہوں نے ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کیا اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر دو بار قید بھی ہوئی۔ تاہم بعض اوقات سیاسی شخصیات نے ان کے فکری اور مذہبی عہدوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔
سطر 55: سطر 56:
قرآن کے آزاد فہم پر بہت زیادہ زور دینے کے باوجود انہوں نے سنت اور حدیث پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور کتاب "مبادی تدبر حدیث" میں احادیث کو سمجھنے کی بنیادی باتیں بیان کی ہیں۔
قرآن کے آزاد فہم پر بہت زیادہ زور دینے کے باوجود انہوں نے سنت اور حدیث پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور کتاب "مبادی تدبر حدیث" میں احادیث کو سمجھنے کی بنیادی باتیں بیان کی ہیں۔


انہوں نے سنت اور حدیث میں فرق کیا۔ ان کے عقیدے کے مطابق حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال شامل ہیں، لیکن روایت ایک اسلامی ورثہ ہے جو مسلمانوں کے طرز زندگی کے ذریعے چھوڑی گئی ہے اور پے در پے نسلوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے اور اب تک اس کی پیروی کی جا رہی ہے۔ ان کے نزدیک روایت کو تاریخی دور میں لکھنا روایت کی عملی ترسیل سے متصادم نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی خاص موضوع میں ایک سے زیادہ روایتیں ہوسکتی ہیں۔  
انہوں نے سنت اور حدیث میں فرق کیا۔ ان کے عقیدے کے مطابق حدیث میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی صلی اللہ علیہ وسلم]] کے اقوال و افعال شامل ہیں، لیکن روایت ایک اسلامی ورثہ ہے جو مسلمانوں کے طرز زندگی کے ذریعے چھوڑی گئی ہے اور پے در پے نسلوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے اور اب تک اس کی پیروی کی جا رہی ہے۔ ان کے نزدیک روایت کو تاریخی دور میں لکھنا روایت کی عملی ترسیل سے متصادم نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی خاص موضوع میں ایک سے زیادہ روایتیں ہوسکتی ہیں۔  


وہ قرآن کی کفایت کے خیال کے خلاف تھا اور اس کا عقیدہ تھا کہ جو لوگ قرآن کو کافی سمجھتے ہیں اور سنت کا انکار کرتے ہیں وہ تضاد میں گرفتار ہوتے ہیں اور قرآن کا بھی انکار کرتے ہیں، کیونکہ سنت کی طرح قرآن بھی بعض لوگوں کی روایتوں سے ہم تک پہنچا ہے۔
وہ قرآن کی کفایت کے خیال کے خلاف تھا اور اس کا عقیدہ تھا کہ جو لوگ قرآن کو کافی سمجھتے ہیں اور سنت کا انکار کرتے ہیں وہ تضاد میں گرفتار ہوتے ہیں اور قرآن کا بھی انکار کرتے ہیں، کیونکہ سنت کی طرح قرآن بھی بعض لوگوں کی روایتوں سے ہم تک پہنچا ہے۔
== سیاسی سوچ ==
== سیاسی سوچ ==
معاشرے کی اصلاح اور مسلمانوں کا شعور بیدار کرنا اس کا بنیادی ہدف تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ خالص سیاسی سرگرمیوں سے گریز کرتے تھے۔ اگرچہ وہ اسلام کے سیاسی اور سماجی نظام پر یقین رکھتے تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ موجودہ سیاسی حالات اسلامی اصلاحات کے لیے موزوں ہتھیار نہیں ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ انتخابی نظام اسلامی اصلاحات کے لیے غیر موثر ہے، کیونکہ سیاسی شخصیات کا واحد مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے، اور اس مقصد کے لیے وہ کوئی بھی ذریعہ استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسلام بھی۔  
معاشرے کی اصلاح اور مسلمانوں کا شعور بیدار کرنا اس کا بنیادی ہدف تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ خالص سیاسی سرگرمیوں سے گریز کرتے تھے۔ اگرچہ وہ اسلام کے سیاسی اور سماجی نظام پر یقین رکھتے تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ موجودہ سیاسی حالات اسلامی اصلاحات کے لیے موزوں ہتھیار نہیں ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ انتخابی نظام اسلامی اصلاحات کے لیے غیر موثر ہے، کیونکہ سیاسی شخصیات کا واحد مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے، اور اس مقصد کے لیے وہ کوئی بھی ذریعہ استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسلام بھی۔  
سطر 81: سطر 83:
اسلامی نظریات کی بنیاد پر اسلامی معاشرے میں خواتین کے کردار پر انہوں نے اپنی کتاب '''اسلامی مشارہ من اوارت کا مقام''' میں بحث کی اور اپنے دور کے سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کے خیالات پر تنقید کی۔ ان کے سماجی اور سیاسی افکار پر ڈاکٹریٹ کے دو مقالے لکھے جا چکے ہیں۔
اسلامی نظریات کی بنیاد پر اسلامی معاشرے میں خواتین کے کردار پر انہوں نے اپنی کتاب '''اسلامی مشارہ من اوارت کا مقام''' میں بحث کی اور اپنے دور کے سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کے خیالات پر تنقید کی۔ ان کے سماجی اور سیاسی افکار پر ڈاکٹریٹ کے دو مقالے لکھے جا چکے ہیں۔


اصلاحی اس طریقہ کار کے اصولوں کے خلاف تھا جو اس کے مطابق غیر اسلامی صوفی عناصر سے پیدا ہوا تھا اور اس سلسلے میں اس نے ایسے اصول تجویز کیے جو قرآن و سنت پر بھروسہ کرتے تھے اور فرد اور معاشرے کا خیال رکھتے تھے۔ فعال عناصر کے طور پر. ان کے عقیدے کے مطابق، صوفی انسان کو معاشرے اور اس کے ماحول سے الگ کرتے ہیں اور اسے تنہائی میں اپنی روح کی آبیاری کرنے کے لیے کہتے ہیں، جب کہ ایک شخص اپنے ذاتی اور سماجی فرائض کو نظر انداز کیے بغیر اپنی روح کی آبیاری کر سکتا ہے۔ اس موضوع پر ان کے لیکچرز کا مجموعہ "تزکیہ نفس" کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل کتاب میں جمع کیا گیا ہے، جس کی پہلی جلد میں قرآن و سنت کی بنیاد پر خود کی آبیاری کی بنیادی باتوں پر بات کی گئی ہے، اور دوسری جلد میں قرآن و سنت کی بنیاد پر ان کی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انسان اور خدا، خود اور دوسروں کے درمیان تعلق۔ اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ شریف احمد خان نے کیا ہے۔
اصلاحی اس طریقہ کار کے اصولوں کے خلاف تھا جو اس کے مطابق غیر اسلامی صوفی عناصر سے پیدا ہوا تھا اور اس سلسلے میں اس نے ایسے اصول تجویز کیے جو قرآن و سنت پر بھروسہ کرتے تھے اور فرد اور معاشرے کا خیال رکھتے تھے۔ فعال عناصر کے طور پر. ان کے عقیدے کے مطابق، صوفی انسان کو معاشرے اور اس کے ماحول سے الگ کرتے ہیں اور اسے تنہائی میں اپنی روح کی آبیاری کرنے کے لیے کہتے ہیں، جب کہ ایک شخص اپنے ذاتی اور سماجی فرائض کو نظر انداز کیے بغیر اپنی روح کی آبیاری کر سکتا ہے۔ اس موضوع پر ان کے لیکچرز کا مجموعہ "تزکیہ نفس" کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل کتاب میں جمع کیا گیا ہے، جس کی پہلی جلد میں قرآن و سنت کی بنیاد پر خود کی آبیاری کی بنیادی باتوں پر بات کی گئی ہے، اور دوسری جلد میں قرآن و سنت کی بنیاد پر ان کی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔  
 
انسان اور خدا، خود اور دوسروں کے درمیان تعلق۔ اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ شریف احمد خان نے کیا ہے۔
 
== فلسفہ ==
== فلسفہ ==
ان کا دوسرا پسندیدہ موضوع فلسفہ تھا۔ اپنی تعلیم کے بعد سے اس نے اس میدان کے مشہور کاموں کا مطالعہ کیا اور مغربی فلسفہ اور اسلامی ممالک میں اس کے کاموں کا مطالعہ کیا۔ ان کے لیکچرز اور مضامین میں ایک تصحیح - جو بعد میں لاہور میں '''قرآن حکیم کی روشن من کے بنیادی اصولوں کا فلسفہ''' کے عنوان سے ایک کتاب میں شائع ہوئی - خدا، انسان، اچھے اور برے کے بارے میں پرانے اور نئے فلسفیوں کے خیالات پر بحث کی گئی۔ تقدیر اور آزاد مرضی، اور نبوت اور معاد نے اسلام کے ساتھ اپنے تضادات کا جائزہ لیا اور ظاہر کیا ہے۔
ان کا دوسرا پسندیدہ موضوع فلسفہ تھا۔ اپنی تعلیم کے بعد سے اس نے اس میدان کے مشہور کاموں کا مطالعہ کیا اور مغربی فلسفہ اور اسلامی ممالک میں اس کے کاموں کا مطالعہ کیا۔ ان کے لیکچرز اور مضامین میں ایک تصحیح - جو بعد میں لاہور میں '''قرآن حکیم کی روشن من کے بنیادی اصولوں کا فلسفہ''' کے عنوان سے ایک کتاب میں شائع ہوئی - خدا، انسان، اچھے اور برے کے بارے میں پرانے اور نئے فلسفیوں کے خیالات پر بحث کی گئی۔ تقدیر اور آزاد مرضی، اور نبوت اور معاد نے اسلام کے ساتھ اپنے تضادات کا جائزہ لیا اور ظاہر کیا ہے۔
سطر 101: سطر 106:
== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{پاکستان}}
{{پاکستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان]]
[[fa:امین احسن اصلاحی]]