"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

166 بائٹ کا ازالہ ،  18 نومبر 2023ء
سطر 31: سطر 31:
بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونا طے پایا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔  
بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونا طے پایا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔  
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ ==
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ ==
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک دن  پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل  کے  دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل  کے  دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
سطر 39: سطر 39:
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟  
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟  
== سیاسی حمایت ==
== سیاسی حمایت ==
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔
== فوجی حمایت ==
== فوجی حمایت ==
اسرا‏ئیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت پر پابندی کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔
اسرا‏ئیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف سے  اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔
== معاشی تعاون ==  
== معاشی تعاون ==  
1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل نے پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف اشکال میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔
1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل میں  پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف شکلوں  میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔


== مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟ ==
== مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟ ==
جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا، اس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔
جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا۔ اس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانیہ کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔
1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے '''بفرسٹیٹ''' کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔
1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے '''بفرسٹیٹ''' کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین نے ، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھا،  اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔
 
== یوم نکبہ ==
لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔
اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جس کا مطلب ہے ’تباہی کا دن ۔اس  دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔
== یوم نکبۂ ==
اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔
دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘
دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘
اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا <ref>مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟[https://www.independenturdu.com/node/149676 independenturdu.com]</ref>۔
اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا <ref>مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟[https://www.independenturdu.com/node/149676 independenturdu.com]</ref>۔


== اسرائیل کا فلسطین پر حملوں کا داستان ==
== فلسطین پر اسرائیل کے  حملوں کی داستان ==
اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟
اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟
صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔
صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 58 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔
صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے لیے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات ليلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔
صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات شب قدر  کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔
اسرائیل فوج نے اس مرتبہ ليلۃ القدر کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالے جانے کے دوران حملے شروع کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہوگئے۔
اسرائیلی فوج نے اس مرتبہ شب قدر  کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالے جانے کے دوران حملے شروع کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہوگئے۔
اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔
اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔
سطر 70: سطر 68:
اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔
اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔


اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔


اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی یا حملے قرار نہیں دیا۔
اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔


اقوام متحدہ کو چھوڑ کر اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے علاوہ  اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔


یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔
یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔
سطر 84: سطر 82:
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔


رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو بنائے جانے کے وقت میں اسرائیلی مظالم کے دوران فسلطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔
رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کی تشکیل کے وقت اسرائیلی مظالم کے دوران فسلطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔


رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔
سطر 92: سطر 90:
اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔


مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب ارد (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔
مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب اردن (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔


غزہ کی پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
غزہ پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


تین سال قبل 2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔
2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔


گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔
گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔
اسرائیل کا قیام کیسے ہوا؟


اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے فلسطینی سرزمین پر بنائے جانے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں اور یہودیوں کو صیہونی ریاست بنانے کی پہلی پیش کش فرانسیسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی تھی۔
== اسرائیل کا قیام کیسے ہوا؟ ==
اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے صہیونی  سرزمین پر بنائے جانے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں اور یہودیوں کو صیہونی ریاست بنانے کی پہلی پیش کش فرانسیسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی تھی۔


اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔
اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔
سطر 107: سطر 105:
جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔
جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔
اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی <ref>یوسف ظفر، یہودیت، جنگ پبلشرز، 1997ء، ص267</ref>۔
اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی <ref>یوسف ظفر، یہودیت، جنگ پبلشرز، 1997ء، ص267</ref>۔
خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا عمل مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون کے بعد 1948 میں عمل میں آیا۔
خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا قیام مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون کے بعد 1948 میں عمل میں آیا۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟ <ref>اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ [https://www.dawnnews.tv/news/1160195/ dawnnews.tv]</ref>۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟ <ref>اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ [https://www.dawnnews.tv/news/1160195/ dawnnews.tv]</ref>۔


confirmed
821

ترامیم