confirmed
821
ترامیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 4: | سطر 4: | ||
=== لفظ اسرائیل کا مفہوم === | === لفظ اسرائیل کا مفہوم === | ||
تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو '''بنی اسرائیل''' یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔ | تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو '''بنی اسرائیل''' یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔ | ||
=== ارض | === ارض موعودہ === | ||
بائبل کے مطابق خداوند | بائبل کے مطابق خداوند نے ”'''ارض اسرائیل“''' کو حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود ہ کہا جاتا ہے۔ | ||
=== ارض اسرائیل کا محل وقوع === | === ارض اسرائیل کا محل وقوع === | ||
''' | '''” تناکا“''' یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سینائی(Sinai Peninsula) کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کے مشرقی جانب کا علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو <nowiki>''ارض کنعان''</nowiki> عطا کردی تھی <ref>محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10</ref>۔ | ||
=== ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل === | === ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل === | ||
29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرائیل کو '''مدینات یسرایئل''' کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں '''دولۃالاسرائیل''' کہتے ہیں۔ | 29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب(British Mandate of Palestine) کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرائیل کو '''مدینات یسرایئل''' کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں '''دولۃالاسرائیل''' کہتے ہیں۔ | ||
ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس | ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔ | ||
=== ایلیاہ اور اسرائیل === | === ایلیاہ اور اسرائیل === | ||
یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ | یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزيں ہوئے جنہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں '''ایلیاہ''' کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔ | ||
== صہیونیت کی ابتداء == | == صہیونیت کی ابتداء == | ||
ایک آسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا۔ 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین | ایک آسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل(Theodor HerzL) ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا۔ 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین الفریڈڈریفس کو بطور سزا قتل کیا جانے والا تھا۔ مجمع نے جب بلند آواز میں کہا، اس '''غدارو کو مار دو''' تو ہرزل کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جو صہیون نامی مقدس پہاڑ سے منسوب ہے۔ سو صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا” '''یہودی ریاست“''' ۔صہیونیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس سوئزرلینڈ کے ایک کاسینو (قمار خانے) میں منعقد ہوئی جس میں ہرزل کو لیڈر منتخب کیا گیا۔ اس نے یہودی نیشنل فنڈ اور ایک بینک قائم کیا تاکہ فلسطین میں زمین خریدی جاسکے۔ سفید اور نیلے رنگ کا ایک قومی جھنٹدا بھی بنایا گیا۔ سوویت روس میں یہودیوں کے قتل عام نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو بڑھاوادیا اور یہی لوگ صہیونیت کے پہلے علمبردار بنے۔ <ref>منور رضوی، قیام اسرائیل، 2015ء، ص6-7</ref>۔1897 میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے۔ | ||
== اسرائیل کا رقبہ == | == اسرائیل کا رقبہ == | ||
اسرائیل کا کل رقبہ بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔ | اسرائیل کا کل رقبہ بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔ | ||
== بالفور اعلامیہ == | == بالفور اعلامیہ == | ||
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر | 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ''' پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔1922ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔اس وقت تک علاقے کی 28 فیصد ارا ضی ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔ | ||
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے: | عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے: | ||
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے | یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے | ||
سطر 31: | سطر 31: | ||
بڑھتے ہوۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونا طے پایا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔ | بڑھتے ہوۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونا طے پایا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔ | ||
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ == | == ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ == | ||
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک | 14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔ | ||
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل کے دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ | 12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل کے دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ | ||
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔ | اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔ | ||
سطر 39: | سطر 39: | ||
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟ | امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟ | ||
== سیاسی حمایت == | == سیاسی حمایت == | ||
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں | امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔ | ||
== فوجی حمایت == | == فوجی حمایت == | ||
اسرائیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز | اسرائیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت پر پابندی کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔ | ||
== معاشی تعاون == | == معاشی تعاون == | ||
1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل | 1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل نے پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف اشکال میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔ | ||
== مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟ == | == مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟ == | ||
جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا | جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا، اس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔ | ||
1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے '''بفرسٹیٹ''' کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم | 1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے '''بفرسٹیٹ''' کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ | ||
== یوم | |||
اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جس | لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔ | ||
== یوم نکبۂ == | |||
اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔ | |||
دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘ | دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘ | ||
اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا <ref>مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟[https://www.independenturdu.com/node/149676 independenturdu.com]</ref>۔ | اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا <ref>مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟[https://www.independenturdu.com/node/149676 independenturdu.com]</ref>۔ | ||
== فلسطین پر | == اسرائیل کا فلسطین پر حملوں کا داستان == | ||
اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ | اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ | ||
صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک | صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔ | ||
صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے | صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے لیے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات ليلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔ | ||
اسرائیل فوج نے اس مرتبہ ليلۃ القدر کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالے جانے کے دوران حملے شروع کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہوگئے۔ | |||
اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔ | اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔ | ||
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔ | یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔ | ||
سطر 68: | سطر 70: | ||
اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔ | اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔ | ||
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق | اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔ | ||
اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی | اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی یا حملے قرار نہیں دیا۔ | ||
اقوام متحدہ | اقوام متحدہ کو چھوڑ کر اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ | ||
یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔ | یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔ | ||
سطر 82: | سطر 84: | ||
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔ | عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔ | ||
رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست | رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو بنائے جانے کے وقت میں اسرائیلی مظالم کے دوران فسلطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔ | ||
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔ | رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔ | ||
سطر 90: | سطر 92: | ||
اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ | اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ | ||
مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب | مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب ارد (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ | ||
غزہ | غزہ کی پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ | ||
2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔ | تین سال قبل 2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔ | ||
گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ | گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ | ||
اسرائیل کا قیام کیسے ہوا؟ | |||
اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے فلسطینی سرزمین پر بنائے جانے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں اور یہودیوں کو صیہونی ریاست بنانے کی پہلی پیش کش فرانسیسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی تھی۔ | |||
اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے | |||
اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔ | اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔ | ||
سطر 105: | سطر 107: | ||
جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔ | جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔ | ||
اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی <ref>یوسف ظفر، یہودیت، جنگ پبلشرز، 1997ء، ص267</ref>۔ | اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی <ref>یوسف ظفر، یہودیت، جنگ پبلشرز، 1997ء، ص267</ref>۔ | ||
خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا | خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا عمل مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون کے بعد 1948 میں عمل میں آیا۔ | ||
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟ <ref>اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ [https://www.dawnnews.tv/news/1160195/ dawnnews.tv]</ref>۔ | یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟ <ref>اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ [https://www.dawnnews.tv/news/1160195/ dawnnews.tv]</ref>۔ | ||