اخوان المسلمین

اخوان المسلمین جدید دور کی سب سے اہم اسلامی تحریک، عرب دنیا، اسلامی دنیا کے ممالک اور مغرب میں اسلامی برادریوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی یہ تحریک مصر میں سیاسی حکومتوں کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد 1928 میں اسماعیلیہ شہر میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی، خلافت عثمانیہ کے زوال کے چار سال بعد یہ تیزی سے قاہرہ اور پھر بقیہ مصر میں منتقل ہو گئی، جس میں عرب کے بڑے حصے بھی شامل ہیں۔

تاسیس

یہ سیاسی جماعت 1929ء میں مصر میں قائم ہوئی تھی۔ اس تنظیم کے بانی حسن البنا تھے۔ انہوں نے اس تنظیم اور تحریک کا آغاز 1923ء میں کیا تھا مگر 1929ء میں اسے باقاعدہ شکل دی گئی تھی ۔ اس کا بنیاد اور منشاء اسلام کے بنیادی عقائد کا احیا اور ان کا نفاذ تھا۔ لیکن بعد میں یہ جماعت سیاسی شکل اختیار کر گئی۔ یہ تحریک مصر میں کافی مقبول ہوئی اور اس کی شاخیں دوسرے عرب ممالک میں بھی قائم ہوگئ تھیں۔ اس تحریک کے ارکین دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھا۔

اغراض اور مقاصد

تر جماعت کے لٹریچر کے مطابقو اخوان المسلمون کا مقصد ایک جامع اسلامی نقطہ نظر سے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات کرنا ہے۔ اس اصلاح کو حاصل کرنے کے لیے۔ مسلمان شخص، مسلم خاندان، اور مسلم معاشرہ کی اصلاح، پھر اسلامی حکومت، پھر ریاست، پھر دنیا کے دانشمندوں کے ذریعے اسلام کی تہذیبی بنیادوں کے مطابق تشکیل دینا اس کا اہم اہداف میں سے ہے۔

نعرہ

  • "الله غايتنا"(خدا ہمارا نصب العین ہے)
  • "والرسول قدوتنا" (رسول ہمارا رول ماڈل ہے)
  • "والقرآن دستورنا" (قرآن ہمارا آئین ہے)
  • "والجهاد سبيلنا" (جہاد ہمارا راستہ ہے)
  • "والموت في سبيل الله أسمى أمانينا" (اور خدا کی خاطر شہادت ہماری اعلیٰ ترین تمنا ہے)

اخوان المسلمین تاریخ کے آئینہ میں

یہ تحریک 1952ء میں مصر کے فوجی انقلاب کی حامی تھی مگر اس تنظیم کی طرف سے جنرل نجیب اور جنرل ناصر کی خارجہ پالیسی کی بھی مخالفت ہوتی رہی تھی۔ 1954ء میں مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر نے الزام لگایا کہ اس کے اراکین نے جنرل ناصر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی ہیں جس کے بعد یہ تنظیم خلاف قانون قرار دے دی گئی اور اس کی املاک ضبط کر لی گئیں جو ایک الزام تھا ثابت نہ ہو سکا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس جماعت کے رہنما شیخ حسن الہدیبی نے اپنا صدر مقام قاہرہ سے دمشق تبدیل کر لیا گیا۔

اخوان المسلمین نے عرب قوم پرستی کے خلاف شدید آواز اٹھائی اور اسلامی بھائی چارے کا نعرہ لگایا تھا۔ جس کی پاداش میں تنظیم کے بہت سے اراکین کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور سید قطب شہید جیسے لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور شہید کیا گیا۔ پابندی کے بعد بھی یہ جماعت باقی رہی اور پورے عرب علاقوں میں پھیل گئی تھی۔ اخوان المسلمین کا پاکستان کی جماعت اسلامی سے قریبی تعلقات ہیں۔ دنیا بھر کی مشہور اسلامی رہنماؤں کا تعلق اخوان سے تھا جن میں القاعدہ کے لیڈر ایمن الزواہری، حماس کی راہنما شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی شامل ہیں۔


انیسویں صدی کے آغاز سے ہی امت مسلمہ انتہائی زیادہ مایوسی اور خلفشار کا شکار ہو گئی۔ دوسری دہائی میں ترکی کے لیڈر مصطفیٰ کمال نے عثمانی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 1924ءمیں جب خلافت کی اس آخری بچی کھچی تصویر کو مسخ کر دیا گیا تو1928ءمیں حسن البناء شہید نے الاخوان المسلون کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اس تنظیم کے قیام کا مقصد نفاذ اسلام قرار دیا۔ شہید حسن البناء نے اپنی پارٹی کا منشور پیش کرتے ہوئے فرمایا: " اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا الاخوان المسلون اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے قوت اور طاقت کا استعمال کرنا چاہتی ہے اور وہ مصر کے موجودہ سیاسی اور اجتماعی نظام کو بدلنے کے لئے طاقت کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم طاقت کے ذریعے انقلاب پر یقین نہیں رکھتے، بلکہ ہم طاقت کے ذریعے انقلاب کے بجائے حق اور سلامتی کی بات کرتے ہیں"۔

امت مسلمہ عموماً اور دنیاء عرب کو خصوصاً اس وقت مایوسی کے عالم میں، یہ تنظیم آخری سہارا محسوس ہوئی تھی، لہذا مختصر وقت میں یہ تنظیم مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ عالم عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے، 1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا تو اس وقت حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اخوان المسلمین نے تحریک جہاد کا اعلان کر دیا۔ قبلہ اول فلسطین کے تحفظ کے لئے اس تنظیم کے نوجوانوں نے تحریک جہاد میں بھرپور حصہ لیا۔ استعماری طاقتوں کے ایماء پر اس وقت کے مصری حکمران شاہ فاروق نے اخوان المسلمون کے نوجوانوں کو جہاد میں حصے لینے کے جرم کی پاداش میں جھوٹے مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا۔ اخوان المسلمین کے محبوب لیڈر حسن البناءکو 1949ءمیں اسی جرم کی وجہ سے شہید کروادیا گیا۔

مارشل لاء کے نافذ کے بعد اس تنظیم کی صورتحال

1951ء میں جنرل نجیب نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا اور مارشل لاءنافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت جنرل نجیب اخوان المسلمین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس نے گرفتار اور قید میں ڈالے گئے اخوان نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ جنرل نجیب کا اقتدار صرف تین سال قائم رہ سکا۔ 1954ءمیں جمال عبدالناصر نے انقلاب برپا کر کے اقتدار سنبھال لیا۔

جمال عبد الناصر کا دور

دور ابتلاء

جمال عبدالناصر نے اقتدار سنبھالتے ہی اخوان المسلمین کے نئے لیڈر حسن الہضیبی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اپنے قتل کی سازش کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور انہیں قید میں ڈلوا دیا گیا۔ جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمین پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جن کی مصرکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس فوجی حکمران نے نوجوانوں کو بازوﺅں اور ٹانگوں سے مخالف سمت میں گاڑیوں سے باندھ کر سرعام ٹکڑے ٹکڑے کیا تاکہ اس تحریک کی باقیادت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ ایک فوجی آمر نے عورتوں اور مردوں کو سرعام ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے پر مجبور کیا۔ اس ظالم حکمران نے عالم اسلام کے عظیم مفکر اور مفسر قرآن سید قطب جیسے گوہر نایاب کو محض اخوان المسلمین سے ہمدردی کی جرم میں ایک جھوٹے مقدمے میں اپنی ہی بنائی ہوئی عدالتوں سے سزا دلوا کر1966ء میں تختہ دار پر لٹکا گیا۔ اس دور میں بڑے بڑے ممتاز دانشور اور علمائے دین کو شہید کیا گیا۔ ان سب کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اس تحریک کے نفاذ اسلام کے اقدامات کو اچھا سمجھتے تھے اور ان کے معاون تھے۔

انور سادات کے دور میں

جمال عبدالناصر کے بعد 1974ء میں انور سادات نے اقتدار سنبھالا، مگر اس تنظیم پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم میں کوئی کمی نہ آئی۔ 1979ء میں انور سادات کو قتل کر دیا گیا اور حسنی مبارک نے زمام اقتدار سنبھال کی۔ حسنی مبارک کے دور میں بھی اخوان المسلمین اسی طرح زیر عتاب رہی، حتیٰ کہ نو منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی بھی حسنی مبارک کے دور میں سات ماہ تک قید بھگت چکے ہیں۔ گویا 1949ء سے لے کر 2010ء تک نصف صدی سے زائد عرصے تک اخوان المسلمین ڈکٹیٹروں کے ظلم وستم کی چکی میں پستے رہے۔ آنے والے ہر حکمران نے اپنا پورا زور لگادیا کہ اسلام کے ان نام لیواﺅں کو نابود کر دیا جائے۔ مگر ان کی مکاریوں اور چالیں اللہ تعالیٰ کی تدبیروں کے سامنے دم توڑ گئیں۔ انقلاب کا لاوا آہستہ پکتے پکتے مصر کے التحریر چوک میں ابل پڑا، جس کے نتیجے میں 30 سال تک اقتدار کے سیاہ و سفید پر قابض رہنے والے حسنی مبارک کے اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی۔

انقلاب کا پس منظر حقائق اور سچائی

سچائی اور حقائق کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اخوان المسلمین کے شہیدوں کے لہو میں حق اور سچائی تھی، جس کی خوشبو دور دور تک محسوس کی جا رہی تھی۔ اخوان المسلمین کے قیدیوں نے مسلسل جیلوں میں رب سے جو مسلسل دعائیں مانگی تھیں آخر کار وہ ثمر آور ہوئیں، تو دوسری طرف کچھ زمینی حقائق ایسے بھی تھے جو انقلاب کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے رشتے داروں اور تعلق داروں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور ذاتی خزانوں کے پیٹ بھرتے رہے۔ صرف ایک حسنی مبارک کے سات سو ارب ڈالر سے زیادہ مغربی بنکوں میں جمع تھے۔ ٹنوں کے حساب سے سونا ان کی تجوریوں میں بھرا ہوا تھا۔

مصر زمیںیں، دریائے نیل اور نہر سویز کے باعث سونا اگلتی ہیں دیگر مصری تفریحی گاہیں، عجائبات، بطور خاص اہرام مصر کے باعث سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ مصر کو حاصل ہوتا ہے، مگر افسوس کہ یہ ساری دولت ڈکٹیٹروں اور ان کے اپنوں کی تجوریوں کی زینت ہی بنتی رہی ہے۔ اس ملک کے بیچارے عوام دو وقت کی روٹی اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئے، بے روز گاری اپنی انتہاﺅں کو پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی فصل پروان چڑھتی رہی۔ حکمرانوں کے ستائے ہوئے عوام کو اس تحریک کی حمایت میں ہی روشنی کی کرن نظر آرہی تھی، لہذا جب انتخابات کا وقت آیا تو ڈاکٹر محمد مرسی سوا کروڑ سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔


مصر کے حالیہ انتخابات اور الاخوان المسلمون کی مشکلات

اس ملک کے آزادی چوک میں لاکھوں انسانوں کے اجتماع کے تسلسل نے جب حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو فوج اور عدالتوں نے بھرپور کوشش کی کہ اسلام پسند قوتیں کہیں آگے نہ آجائیں۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا۔ استعماری طاقتوں نے بھی بھرپور کوشش کی، کیونکہ حسنی مبارک اور اس کے پیش رو حکمران اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، لہذا مغربی قوتوں، خصوصاً اسرائیل کو کبھی بھی یہ گوارا نہ تھا کہ حسنی مبارک کے ہم نواﺅں کے علاوہ کوئی برسر اقتدار آئے۔ حکومتی مشینری کی بھرپور کوشش تھی کہ انتخابات کا مرحلہ ہی نہ آئے اور فوج دوبارہ زمام حکومت سنبھال لے، مگر عوامی جوش و جذبے کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے آخری لمحات تک بھی اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کی کہ انتخابات سے صرف ڈیڑھ دن پہلے 14 جون کی سہ پہر کو منتخب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دےا گےا تاکہ بچھڑے ہوئے عوام کا رخ انتخابات سے اس طرف ہو جائے۔ پھر انتخابات کے لئے جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، انہیں مختلف قسم کے اعتراضات لگا کر مسترد کیا جاتا رہا۔ آخر کار ڈاکٹر محمد مرسی، جنہوں نے متبادل امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کروائے، کے کاغذات قبول کئے گئے، جس کے نتیجے میں الاخوان المسلمون کے اس رہنما کو صدارتی امیدوار تسلیم کر لیا گیا۔

صدارت کے بعد محمد مرسی کے ابتدائی اقدامات پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد مرسی کا تعلق مصر کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ آپ نے 1975ءمیں قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔ بعد ازاں امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،یوں محمد مرسی ڈاکٹر محمد مرسی بن گئے۔ اس کے بعد کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پھر قاہرہ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے۔ حالیہ مصری انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنا جو پہلا خطبہ صدارت پیش کیا، وہ وہی خطبہ تھا جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا: ”لوگو مجھے تمہارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو“۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر فرمایا: ”میرے عزیز ہم وطنو !میں تمہارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا“ [1]۔

  1. الاخوان المسلمون ابتلاءسے اقتدار تک، محمد سلیم جباری-dailypakistan.com-شا‏‏ئع شدہ از:23اگست 2012ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:18اپریل 2024ء۔