سپاہ صحابہ
سپاہ صحابہ اہل سنت دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن صحابہ تھا۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستانی تکفیری گروہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر دو تین دہائیوں سے ان کے جرائم اور بے انتہا ظلم و ستم کو ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلیج فارس کی کچھ ریاستوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ، یہ گروہ خطے میں مغرب کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسندانہ تکفیری سرگرمیوں کی متعدد خبریں ہمیشہ نیوز میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہتی ہیں۔
سپاہ صحابہ کی تاریخ
دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا نام پہلے انجمن سپاہ صحابہ تھا۔ یہ جماعت 1944ء میں امرتسر میں قائم ہونے والی تنظیم اہلسنت نامی شیعہ مخالف جماعت کا تسلسل ہے جو 1984ء میں دیوبندی عالم مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد انجمن سپاہ صحابہ کے نئے نام سے 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں سامنے آئی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2002ء میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد پر بابندی عائد کی تو اس جماعت کا نام بدل کر ملت اسلامیہ پاکستان رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد جماعت کانام بدل کر اھلسنت والجماعت رکھا گیا۔ مولانا حق نواز جھنگوی کو 1990ء میں قتل کر دیا گیا۔ حق نواز جھنگوی کے بعد ایثار الحق قاسمی اس جماعت کے سربراہ بنے، جنہیں 1991ء میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کی قیادت سنبھالی لی۔ ضیاءالرحمان فاروقی 18 جنوری 1997ء کو سپاہ محمد پاکستان کے بم حملے کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد طارق اس جماعت کے سربراہ بنے، جو 2003ء میں اسلام آباد میں قتل کر دیے گئے۔ 90ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے البتہ 1993ء میں سپاہ محمد پاکستان نامی شیعہ تنظیم نے جوابی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ سپاہ صحابہ کے اب تک کم وبیش ایک ہزار کارکن مارے جاچکے ہیں جن میں سے اکثر پاک فوج کےآپریشن یا پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ 2017ء میں اس جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی پھر 26 جون 2018ء کو شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں جگہ دینے کے فیصلے کے بعداہلسنت والجماعت پاکستان سے پابندی ہٹا لی گئی
سپاہ صحابہ کی تشکیل
6 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد ، اور 1978 میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی جنرل ضیا ، شیعہ مذہبی رہنما خصوصا مفتی جعفر حسین کے نوٹس میں آگئے۔ پاکستان کو اسلامی ملک بنانے کے چکر میں ضیاالجق نے بڑے پیمانے پر احکامات جاری کیے، جیسے لوگوں کے بینک اکونٹ سے زبردستی زکات وصول کرنا،دینی تعلیم کو یکجا کرنا اور شیعہ اوقاف کو حکومت کی سرپرستی میں لانا وغیرہ، جس کی وجہ سے شیعوں کی طرف سے شدید منفی رد عمل سامنے آگیا۔ اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ٹھیک 70 دن بعد ، 12 اور 13 اپریل 1979 کو، پورے پاکستان سے قریب ایک لاکھ شیعوں کی آبادی پنجاب کے شہر بھکر میں جمع ہوئی ، جہاں آبادی کی اکثریت شیعہ ہے۔ اس اجتماع میں ، مفتی جعفر حسین کو قائد منتخب کرنے کے علاوہ ، فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک کے لئے بنیادی قدم بھی اٹھائے گئے۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں ، حکومت شیعوں سے ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی ، اور شیعوں کو زکوٰت ادا کرنے سے مستثنیٰ کردیا گیا اور اسی طرح شیعوں کے دوسرے مطالبات بھی منظور کیے گئے۔ تحریک فقه جعفریہ کے قیام کے بعد جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام نے دو بڑے اجتماع منعقد کروائے۔ یہ دونوں اجتماع تحریک جعفریہ کے مقابلے میں منعقد کروائے گئے تھے۔اس سلسلے میں، آئی ایس آئی نے، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے ، دیوبندی تارکین وطن مسلمانوں کے ایک گروہ کو فقہ جعفریہ کی سرگرمیوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ سن ۱۹۸ میلادی/۱۳۶۴ شمسی میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا حق نواز جھنگوی کی سربراہی میں انجمن سپاه صحابه بنی جس کانام بعد میں تبدیل کرکے سپاه صحابه پاکستان رکھا گیا۔، اور کچھ شیعہ مخالف علما جیسے ضیاء الرحمن فاروقی ، ایثار الحق قاسمی اور "اعظم طارق" (جو بعد میں سپاہ صحابہ کے رہنما بنے) ، نے بھی سپاہ صحابہ کی تشکیل میں حق نواز کا ساتھ دیا۔
پاکستان اور مذہبی فسادات
قائداعظم محمد علی جناح اور اقبال لاہوری نے بہت پہلے ، ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان کے قیام کے بارے میں بات کی تھی اور وہ کچھ نتائج تک پہنچ چکے تھے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کا مرحلہ گزارنے کے بعد سن1940م کو اس سلسلے میں ، وہ کھلے عام مخالفین سے محاذ آرائی کے مرحلے میں داخل ہوئے۔ حزب اختلاف کے گروہوں نے ہندوستان میں ایک جمہوری حکومت کا مطالبہ کیا اور گاندھی نے بھی ان کی حمایت کردی تاکہ ہندوستان تقسیم نہ ہو اور اس میں مختلف حکومتیں بر سر اقتدار آئیں جیسے جناح ایک آزاد مستقل اسلامی ریاست کے خواہشمند تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے سن ۱۹۴۰ میلادی میں اپنی مشہور تقریر میں پاکستان بنانے کی ضرورت کو بیان کیا ۔ 1946 میں ، مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین قتل عام شروع ہوا جسے مختلف جماعتیں بھی ختم نہ کراسکیں۔ آخر میں ، گاندھی نے خونریزی کو روکنے کے لئے ہندوستان کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر اتفاق کیا۔ برطانوی وائسرائے ، مونٹ بیٹن نے آخر کار اس منصوبے کی منظوری دے دی ، اور 15 اگست 1947 کو پاکستان نے آزادی حاصل کرلی۔